روایتی سمجھ بوجھ والے کہہ سکتے ہیں کہ ایدھی صاحب چلے گئے۔ کیا وہ درست کہتے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں، نہیں! وہ زندہ ہیں۔
وہ اپنے قائم کردہ ہر یتیم بچے کے آشیانے میں زندہ ہیں۔ وہ ان بچوں کی سانسوں کے جاری ہر سلسلے میں زندہ ہیں جن کو ان جھولوں میں جگہ ملی، وہ جُھولے جو ایدھی گھروں کے باہر بانہیں کھولے پڑے ہوتے ہیں۔ اور وہ ان عطیہ کی ہوئی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں۔ دیکھئے کہ ان کو ایثار کا کیسا ہنر آتا ہے کہ جاتے جاتے بھی اپنی آنکھیں بطور عطیہ دے کر طریقہ بتا گئے کہ رقصِ خدمت سانسوں کی ٹوٹی زنجیروں کے بَل پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جنہیں اس معروفِ عام محاورے میں کہتے ہیں یہ زندگی کی ساری رنگا رنگیوں کی جامعیت سے بھی بلند قامت اور جامع ہوتے ہیں۔ وہ بتا گئے کہ شخصیت کا شجر مہنگے اور برانڈڈ ملبوسات سے پھول و پھل آور نہیں ہوتا، بلکہ یہ کردار کا جادو ہوتا ہے کہ جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
وہ ہماری قوم پر ایک اور بہت بڑا احسان کر کے جا رہے ہیں۔ اس انمول چیز کی ہماری قوم کو از حد ضرورت تھی بھی، ہے بھی، اور ہر قوم کو رہتی بھی ہے۔ وہ ہمیں ایک اصل اور خالص قومی ہیرو دے گئے ہیں۔ ایک ایسا ہیرو جو عسکریت و جنگ کا پروردہ اور گولی بارود کی کوکھ سے جَنا گیا ہیرو نہیں۔ وہ اپنے کردار کی عظمت، ذاتی غرض سے بالاتر ہوکر خدمتِ خلق، اپنی نیکیوں کا احسان نا جتا کر آدمیت کی فکر، اپنی خدمات کے عِوضانے میں ووٹ اور وزارت عظمٰی کا خراج نہ مانگ کر ایک حقیقی بڑے آدمی ہونے کا نصاب مرتب کر گئے ہیں۔ کیا سخت ترین حفاظتی حصار میں اس عظیم انسان کے جنازے میں شرکت کرنے والے “وی وی آئی پیز” اس نصاب کے تقاضے پورے کرنے کا پا سنگ بننے ہی کو تیار ہیں۔۔۔؟ یا وہ حسب قاعدہ اپنی میڈیا ٹیموں کی افواج ظفر موج کے ذریعے ہی اپنے کرداروں کی فوٹوشاپ شدہ حقیقتوں کا سہارا لیں گے؟
اور آخر میں ان کانوں کو کچھ گوش گزار کرنے کی ایک جسارت؛ ہر چند کہ یہ کان ایسی گزارشات کم ہی سنتے آئے ہیں۔ لیکن ہم کہنے کی پھر بھی ہمت کئے دیتے ہیں- خدارا! ہماری نئی آنے والی نسلوں کے لئے درسی کتابوں میں اس ایک سبق کو بھی داخل کردیجئے کہ جو یہ بتائے کہ ہمارے ہاں کچھ انسان بھی بستے ہیں۔ جو دوسروں کی زندگی کی رمقوں کو محفوظ بھی کرتے ہیں؛ کہ ہمارے ہاں صرف جانیں لینے والے ہی نہیں۔ اس سبق کا عنوان ہم تجویز کئے دیتے ہیں۔ اُس سبق کا نام ہو: عبدالستار ایدھی