(تنویر احمد ملک)
ایدھی صاحب کا نام لیتے ہی خدمت ، ایثار،سادگی و قناعت پسندی جیسے الفاظ ذہن میں عود آتے ہیں۔ ریاکاری، بناوٹ اور تصنع سے پاک ایک ایسا پیکر خاکی جس سے تقدیس کے خیالات قلب و ذہن پر چھا جاتے ہیں۔ایک ایسا معاشرہ جہاں انسانیت کی خدمت کا عظیم مقصد بھی اکثر ذاتی و کاروباری مفادات سے نتھی ہو تا ہے وہاں عبد الستار ایدھی جیسی ہستیاں ایک استثنیٰ ہوتے ہیں۔
صلہ و ستائش سے بے نیاز فقط انسانیت کی خدمت کا مقصد عظیم ایدھی صاحب کا شعار تھا اور اس کاز کے لئے وہ مرتے دم تک سر گرم رہے۔آج کی چکا چوند زندگی میں ایدھی صاحب جیسا تصنع سے پاک ایک ایسا وجود تھا جسے دیکھ کر ان الف لیلوی کہانیوں کے کردار یاد آجاتے تھے جو گھپ اندھیری راتوں میں بھٹکے ہوئے مسافروں کو ان کی منزلوں تک پہنچانے کے لئے کسی غیبی امداد کی طرح ظاہر ہوتے تھے۔
ایدھی صاحب ایک ایسے معاشرے میں جیے جہاں نادارواں، یتیموں، بیواؤں کو زندگی کی سختیوں نے جب اپنی ٹھوکر پر رکھا تو ایدھی صاحب فرشتہ رحمت کی صورت میں اپنا دست شفقت بڑھا کر انہیں تھام لیتے تھے ۔ اس ملک کی گلیوں، بازاروں اور چوراہوں پر جب اندھیرے یلغار کرکے لاشے بیچ سڑک پر ڈال دیتے تھے تو ایدھی صاحب ان بے گور و کفن لاشوں کی تجہیز و تکفین کرکے ان کا سفر آخرت آبرو مند بناتے تھے۔ایدھی صاحب اس معاشرے میں خدمت انسانیت کا ایسا استعارہ بن کر ابھرے کہ ان کی ہمسری کرنے کا کسی کو یار ا نہیں اور نا ہی کوئی ایسا حوصلہ و ہمت رکھتا ہو کہ جو ایدھی صاحب کی طرح درماندہ انسانوں کے لئے مسیحا کی صورت میں ابھرے۔
ایدھی صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ وہ تنازعات اور تضادات سے بھرے اس معاشرے میں بڑی حد تک اپنا دامن بچانے میں کامیاب رہے اور معدودے چند مواقع پر جب ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی نابکار کوشش کی گئی وہ ایک غیر متنازعہ رہے اور اپنی طبعی موت تک وہ انسانیت کی بے ریا خدمت کے کام سے پہچانے جاتے رہے۔
یہ ایدھی صاحب کی عظمت تھی کہ وہ انسانیت کی خدمت کے لئے ہرحد تک گئے اور اس کے لئے انہیں بھیک بھی مانگنا پڑی تو انہوں نے اس میں عار محسوس نہ کیا۔ ہماری تاریخ میں ایدھی صاحب سر سید احمد خان کے بعد وہ شخص تھے جنہوں نے ایک عظیم کام کے لئے بھیک مانگنے تک کا سہارا لیا۔ سر سید احمد خان نے مسلمانان بر صغیر میں جدید تعلیم کے فروغ کے لئے جب علم بلند کیا تو وسائل کی کمیابی در آئی تاہم انہوں نے وسائل کی کمیابی کو بر صغیر میں مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کرنے میں راہ میں مزاحم نہ ہونے دی اور عطیات، چندے اور خیرات کے حصول کے لئے ہر صاحب ثروت کے در پر دستک دینے کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے سامنے دست سوال دراز کیا۔
ایدھی صاحب نے بھی سٹرک پر بیٹھ کر اپنا دست سوال دراز کیا ۔ نکتہ چینوں نے ان کے اس فعل کو تنقید کو نشانہ بنایا لیکن ایدھی صاحب اپنی دھن میں پکے نکلے اپنا مقصد پورا کر کے ہی اٹھے۔پاکستانی معاشر ے کو ایدھی صاحب کا احسان مند ہونا چاہئے کہ ایدھی صاحب نے ان فعل کو انجام دیا جو ریاست کی ذمہ داری تھی لیکن ریاست اپنے گوناگوں مسائل اور ترجیحات کے غلط تعین کی وجہ سے اس ذمہ داری سے عہد ہ برآ نہ ہو سکی۔
سماجی خدمات کی بجاآوری ریاست کی ذمہ داریوں میں سر فہرست ہوتی ہے اور جدید ترقی یافتہ معاشروں نے اس ذمہ داری اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھا ہوا ہے۔ پاکستانی ریاست کا یہ المیہ ہے کہ وہ سماجی شعبے میں ایک ناکامی و نامرادی کا ایک بدبودار یکارڈ رکھتی ہے۔غریب، نادار، یتیم اور بیوہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات ہیں جن کی کفالت ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن ریاست نے اپنی توانائیاں کچھ ایسے شعبے میں صر ف کرنے پر جتی رہی کہ جس میں سماجی شعبے کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔تزویراتی نوع کی شراکت داریوں کے باعث دفاعی شعبے نے ترجیحات اور وسائل کی فراہمی میں مات دے دی جس کا سب سے بڑا شکار سماجی شعبہ رہا ۔سماجی شعبے میں گراوٹ نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔
اس معاشرے کی خوش قسمتی کہ اسے ایدھی صاحب جیسے اشخاص میسر آئے جنہوں نے سسکتی، بلکتی اور تڑپتی انسانیت کے پھٹے دامن کی رفو گری کا بیٹرا اٹھایا اور اس کے زخموں پر پھایا رکھا۔ ایدھی صاحب جیسی ہستی کے سامنے ایوارڈ ز ہیچ ہیں۔ یہ معاشرہ اور ملک ایدھی صاحب کے مشن پر کاربند ہو کر انہیں صحیح معنوں میں خراج تحسین پیش کر سکتا ہے کہ جہاں کسی کے دست سوال دراز ہونے پہلے ریاست اس کی حاجت روائی کر دے، کسی یتیم کے بلکنے سے پہلے ریاست اس کی اشک شوئی کر دے، کسی بیوہ کی آہ و فغاں سے پہلے ریاست اس کی ضروریات پوری کرے اور سب سے بڑھ کر ریاست شہریوں کی جان کے تحفظ کی آئینی ذمہ داری پوری کر ے تاکہ کوئی فرقہ واریت، مسلک، لسانیت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے نام پر بھڑکائے گئے فسادات کی بھینٹ چڑھ کر بے گور و کفن کسی سٹرک پر نہ پڑا ہو۔
اب ریاست کو مذمتی بیانات اور نوٹس لینے کے بیکار مشغلوں کو ترک کر کے ناداروں و لاچاروں کے لئے ماں کا حقیقی کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اب ان کا باپ تو مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا۔