(وقاص احمد)
پاکستان کے قومی اور سماجی منظر نامے میں تماشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس میں حالیہ اضافہ سماجی محاذ پر اگر خاتون اور ایف سی اہلکار کا قصّہ ہے تو قومی منظر نامے پر دھرنے کے لوازمات پھر سے آراستہ نظر آتے ہیں۔ روز مرہ کا یہ کھنچاؤ، چھیناجھپٹی اور انتشاری رویے ہمارے مزاج کا حصّہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی حالات، سماجی رجحانات اور معاشی معاملات بحیثیت ایک قوم نہایت دگرگوں حالات سے دوچار ہیں. ہم شعبہ جاتی زندگی میں نزاع کے عالم میں ہیں اور ڈور کا سرا ہاتھ میں آنے سے قاصر ہے۔ ان تمام حالات میں ہمارے اہل عقل و استدلال ان مسائل کے اسباب و علل پر روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان اہل علم و حکمت کی اکثریت اس فکر میں غلطاں دکھائی دیتی ہے کہ کسی طور اس بھنور میں پھنس جانے کی وجوہات دریافت کی جا سکیں۔
اسی تناظر میں آگے آنے والے صفحات میں اپنی قوم کی زبوں حالی کا اپنے تئیں ایک متوازن تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مسائل کا انبار کچھ دہائیوں کی کہانی نہیں ہے۔ یہ صدیوں پہ محیط زوال کا ایک مسلسل عمل تھا جس کی درست نشان دہی بدقسمتی سے ہم آج تک نہیں کر پاۓ۔ مرض کی صحیح تشخیص ہی دراصل صحت یابی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہم تشخیص کے اس عمل کو ہی پورا نہیں کر پاۓ۔ چناچہ مرض کا تدارک ہنوز ایک سہانا سپنا ہے جو آہستہ آہستہ ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوا چاہتا ہے۔ اگر تاریخ پہ نظر دوڑائی جاۓ تو وہ آخری وقت جب برصغیر پاک و ہند کے عوام ایک مضبوط سیاسی وحدت کے نیچے امن اور خوشحالی کی زندگی بسر کرتے تھے، اورنگزیب عالمگیر کا ہے۔
باوجود اس کے کہ اورنگزیب کے طرز حکومت میں ابتدائی دور کا اسلامی رنگ نمایاں ہو چلا تھا۔ سواۓ جزیہ کے قانون کے، غیر مسلم رعایا کے خلاف اور کسی قسم کا مذہبی تعصب اس کی حکومت کی مشینری کی طرف سے نظر نہیں آتا۔ غیر مسلم اقوام کی ایک بہت بڑی تعداد حکومت کے عمال اور کارندوں کی شکل میں اورنگزیب کے دور حکومت میں موجود تھی۔ اور عوام کی مجموعی بہتری اور خوشحالی کے حوالے سے کسی مذہبی تفریق کو روا نہ رکھا جاتا تھا۔ اورنگزیب کے بعد آپس کے جھگڑوں اور تخت کے حصول کے لئے کھینچا تانی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جہاں سے اس خطہ میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کی کمزوری کا آغاز ہوا۔
اس صورتحال کو انگریز بہت اچھی طرح بھانپ گئے اور ان کے تجارتی مفادات آہستہ آہستہ سامراجی شکل میں پنپنے لگے۔ سیاسی نظام کی کمزوری کسی تمدن کے زوال کا پہلا زینہ ہے جو نیچے کی طرف اترتا ہے۔ اسی سبب کے تحت انگریزوں نے اپنے مقاصد پوری طرح سے حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے ہندوستان کی سیاسی طاقت کو زیر نگیں لانے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً ہماری داخلی کمزوریوں اور انگریز کی تسلط پسند اور مفاداتی منصوبہ سازی نے اس ملک پر سامراجی سیاسی اقتدار کی بنیاد رکھی۔ ایک بیرونی طاقت کے لئے کسی قوم پر سیاسی اقتدار کو حاصل کر لینے کے بعد دو ہی طریقے ہیں جن کے ذریعے اپنے غلبے کو دوام دیا جا سکتا ہے۔
ایک یہ کہ عوام دوست پالیسیوں کے ذریعے ان کی ترقی و ترویج میں حصّہ ڈالا جائے تاکہ وہ آپ کے احسانات اور کوششوں سے متاثر ہو کر آپ کا حق حکمرانی تسلیم کر لیں اور دوسرا یہ کہ آپ ایک مجموعی عمل کے طور پہ اس قوم کے تعلیمی،تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو تباہ کر دیں.اس قوم کی مجموعی عزت نفس کو کچل کے رکھ دیں۔ ان کو معاشی غلامی اور استحصال میں مبتلا کر کے اتنا کمزور کر دیں کہ ان میں دوبارہ اٹھنے کی صلاحیت نہ رہے۔ ان کو ذہنی پسماندگی کے اس درجے پہ پہنچا دیں کہ وہ انسانی حریت و آزادی کے بنیادی جوہری خواص کھو کر ان حیوانی جبلتوں کو اپنا لیں جہاں بنیادی ضروریات کی جزوی تکمیل کو مالک کا احسان عظیم سمجھ کر اس کی اطاعت اور وفاداری کو شعار زندگی سمجھ لیا جاتا ہے.ان دونوں طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کو منتخب کرنے کے عمل کے پیچھے کارفرما سوچ کا تعین بیرونی قوت نافذہ کی تحلیل نفسی سے حاصل کیا جا سکتا ہے. اگر سیاسی غلبہ حاصل کرنے والی بیرونی قوت کا مطمع نظر لوٹ کھسوٹ اور قبضہ میں آنے والے خطہ اور افرادی قوت کے وسائل نچوڑ کر اپنا گھر بھرنے کا ہوں، جیسا سامراجیت کا ایجنڈا تھا تو دوسرا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
چنانچہ انگریز بہادر نے اسی طرزعمل کو اپنایا۔ سیاسی نظام پہ قبضہ کے بعد ہندوستانی تمدن کو ذبح کرنے کے لیے مختلف طریقے اپناۓ گئے۔ فارسی زبان پر پابندی لگا کر علمیت کی فصیل کو ڈھا دیا گیا. غیر ملکی زبان کو مسلط کر کے پرانی علمی ثقافت اور سوشل سائنسز کے ماخذ کو اکھاڑ پھینکنے کے کام کا آغاز ہوا. ترانوے فیصد شرح خواندگی رکھنے والی قوم کو ایک حکم نامے کے ذریعے ناخواندہ بنا دیا گیا۔ ہر چار ہزار نفوس پر ایک سیکولر مدرسہ رکھنے والی قوم کے تعلیمی اداروں کو فرسودہ قرار دے دیا گیا۔ آزادی اور حریت کے معماران ملت اور انگریز استبداد کے خلاف معرکہ آرائی کرنے والے ہیروز کو سامراجی تاریخ میں لٹیروں، ڈاکوؤں اور مذہبی شدت پسندوں کے روپ میں پیش کیا گیا۔ معاشی جبر مسلط کیا گیا۔
ملکیتی قانون کی آڑ میں طبقاتی تقسیم کی بنیاد ڈالی. پولیس کے نظام میں لامحدود اختیارات کے توسط آزادی کی تحریکوں کے ابھرنے کے سارے راستے مسدود کر دیے گئے۔ بیوروکریسی کے پردے میں کالے انگریز پیدا کیے گئے۔ جاگیر داری کو نا صرف پیدا کیا گیا بلکہ قانونی تحفظ بھی فراہم کیا گیا. لسانی، مذہبی، اور معاشرتی تقسیم پیدا کی گئی اور اس تقسیم کو حکومت کی عملداری مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا گیا. الغرض ہر وہ تہذیبی، ثقافتی اور علمی جوہر، جو اس ہندوستانی قوم کا خاصہ تھا، دفن کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ نتیجتاً مرعوبیت اس قوم کی نوجوان نسل کے مزاج کا حصّہ بن گئی۔ اپنی تاریخ سے انجان ایک ایسی نسل کا ظہور ہوا جو سات سمندر پار موجود استحصالی معاشرے کی تاریخ سے اپنی جیت کے سبق ڈھونڈنے لگی۔
اپنی تہذیب و تمدن سے نا واقفیت کا یہ حال ہو گیا کہ چرچ سے اخذ شدہ نظریات مقامی مذہبی رنگ میں گوندھ کر پروان چڑھائے گئے اور آنے والے دور میں اسی مذہبی ڈھونگ کی رجعت پسند سوچ کو اسلاف کے کھاتے میں ڈالا جانے لگا۔ آج یہ نسل کارل مارکس، ہیگل، جان لاک، ڈارون، فیورباخ اور دیگر کی تاریخ، علمی کارناموں اور معاشرتی کردار سے واقف ہے، مگر سید احمد شھید اور شاہ اسماعیل شھید کی معاشرتی تحریک، فکروفلسفہ اور نظریات کو اپنے سابق آقاؤں کی روش پر وہابیت کا نام دے کر ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ اپنی دھرتی سے ابھرنے والی سماجی تحریکات کی بازگشت سے واقف نہیں مگر یورپ کے تین سو سالہ نام نہاد ارتقائی دور کے مدوجزر سے کلیتا آشنا ہے۔
جس ارتقا کے نتیجہ میں دو سو سال تک غلامی اور ذلّت کا بدترین دور دیکھا.جس ارتقا کے نتیجہ نے بادشاہی سامراجیت کو سرمایہ دارانہ سامراجیت کی زیادہ مہلک شکل میں بدل دیا۔ جس ارتقا نے منڈیوں کی تلاش میں لاکھوں انسانوں کا خون بہانے کے جواز تراشے. مشین کو طاقتور کے ہاتھ میں استحصالی اوزار کے طور پر تھما دیا.سائنسی ترقیات دس قدم اگے اور انسانیت سو قدم پیچھے دھکیل دی.اس ارتقا میں سے اپنے مسائل کا حل تراشتی ہے۔
مختصرا سیاسی برتری اور معاشی طور پہ دست نگر ہونے کے بعد انگریز سامراج کا یہ فکری حملہ اس ملک کی سابقہ اشرافیہ اور عوام کے لئے بہت کارگر ثابت ہوا. ہماری تاریخ اور ثقافت ہمارے لئے ندامت کا طوق بنا ڈی گئی۔ اور ہمارے دانش وروں نے بڑی خوشی سے یہ طوق گلے کا ہار سمجھ لیا. یقیناً اس پرفتن دور میں معدودے چند لوگ ایسے ضرور موجود رہے جنہوں نے اپنے خطّے سے منسلک اخلاقی اقدار، سماجی ڈھانچے اور سیاسی اصولوں کی فکری شکل کو اپنے تئیں محفوظ رکھنے کی سعی جاری رکھی مگر جذباتی نعروں، تعصباتی تنگ نظری اور شعور سے محرومی نے ہندوستانی قوم کو اتنے گروہوں میں بانٹ دیا کہ کسی نظریاتی وحدت کا سوال ہی ختم ہو گیا. آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں کہ جتنی فرقہ پرست جماعتیں، لسانی تحریکیں، علاقائی تعصبات اس دور میں نمو پائے. پچھلے آٹھ سو سال میں اس کی مثال نہیں ملتی. ملا اور مسٹر کی تقسیم اسی دور کی پیداوار ہے. برصغیر میں مذہبی فرقہ پرستی کی اسی دور میں بڑھوتری ہوئی.ہندومسلم فسادات کی شرح میں بے پناہ اضافہ اور اردو ہندی تنازعہ بھی اسی وقت کی بات ہے۔
پھر اگلے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ زمانے کے تغیر نے قوموں اور خطوں پر براہ راست عملداری کے امکانات کو محدود کر دیا تو نئے نوآبادیاتی دور کی بنیاد ڈالی گئی۔ یہاں بھی تقسیم در تقسیم کے فارمولے پہ عمل ہوا. سیاسی وحدت کو مذہبی بنیاد پہ تقسیم کیا گیا. جو نسل نو آبادیاتی دور میں اپنے مضموم مقاصد کے لئے پیدا کی گئی تھی. اس کی سر کردہ قوتوں کو ایک نیا خطہ کھل کھیلنے کے لئے فراہم کیا گیا. نام مذہب کا تھا اور قوانین اسی سامراجی فکر کا تسلسل تھے جو دو سو سال سے حکمران تھی. آئین ١٩٣٥ کے ایکٹ کی محدود ترمیم شدہ شکل تھا. پولیس ایکٹ جو ایک مغلوب قوم کے کس بل نکالنے کے لئے مرتب کیا گیا تھا۔ جوں کا توں برقرار رکھا گیا.جاگیر داری نظام پر قانونی تحفظ کی مہر لگا کر خدا کے نظام سے بغاوت کو جاری رکھا گیا۔
بیوروکریسی کی تربیت ذہنی غلامی کو قائم رکھنے کے لئے انہی خطوط پہ جاری رکھی گئی جو استبداد کا وطیرہ تھے. سرمایہ دارانہ معیشت کو ملک کے طول و عرض میں مزید وسعتیں بخشی گئیں. الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ کھلی جنگ کو کل معاشی نظام پر نافذ کر دیا گیا۔ ہاں، مگر ٹائٹل مشرف بہ اسلام کر کے بے شعور عوام کو کھیلنے کے لئے کھلونا فراہم کر دیا گیا۔ مابعد اسلام کے نام کو ذاتی و گروہی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا چلن عام ہو گیا۔ کہیں مذہب کے نام پر اقتدار کو دوام بخشا گیا۔ کہیں فرقہ واریت کا بیج بو کر روزی روٹی کا سامان کیا گیا. کبھی ہمسایہ ممالک سے مذہبی عنوانات کے ساتھ الجھا گیا. یہاں تک کے جہاد کے لفظ کو، (جو اپنی تشریح میں وسیع تر مفاہیم کا متقاضی ہے) استعمال کر کے پڑوسی ملک میں سرمایہ دارانہ سامراج کے مفادات کی جنگ لڑی گئی اور معصوم نوجوانوں کا خون بہایا گیا. جغرافیائی تنازعات کو جو عموما ہمسایہ اقوام کے مابین کشیدگی کا باعث بن ہی جاتے ہیں، مذہبی چونا لگا کر کفر و اسلام کی جنگوں سے تعبیر کیا گیا.ان سب کا نتیجہ جو نکلا،ہم سب کے سامنے ہے۔
اب اس سارے عمل کو غور سے دیکھا جاۓ تو یہ ایک مکمل منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ جو پہلے انگریز اور اس کے بعد اس کے حلف برداروں کی کاوشوں کا منطقی حاصل ہے۔ اس ملک پہ مسلط سیاسی قوت نافذہ خواہ وہ سیاسی جماعتوں کی شکل میں رہی یا انتظامی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے روپ میں کردار ادا کرتے پائی گئی، اس قوم کی گود اجاڑنے کی ذمہ دار ہے۔ اور اس کو درست کرنے کا طریقہ کار بھی اسی کلیے پر منحصر ہےجو اس کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا یعنی استبدادی قوتوں کے سیاسی نظم کا خاتمہ۔
کوئی اصلاحی تحریک، تعلیمی انقلاب، سجود و ثواب کے لمبے لمبے اسفار، سول سوسائٹی کی اچھل کود، بےروح عبادات اور دعائیں، این جی اوز کے نیٹ ورک اس قوم کے حالات کو نہیں سنوار سکتے۔ ریاستی طاقت کے بغیر سماجی تبدیلی کا کوئی لائحہ عمل ممکنات میں سے نہیں۔ ہماری اشرافیہ نے اس گلے سڑے نظام میں ہماری عوام کو گنے کے بیلنے کے موافق نچوڑ لیا ہے۔ ان کی صلاحیتیں، اخلاقیات اور شعور محرومی کی سوچ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ آج اس مملکت کے فرمانرواں اس لٹی پٹی قوم کو الزام دیتے نظر آتے ہیں کہ تمہارے کرتوتوں کی سزا یہ ہے کہ ہم تم پر مسلط ہیں۔ یعنی سیاسی اشرافیہ کی غلطی کی سزا جو انگریز حکمرانوں کی شکل میں ہم پر مسلط ہوئی۔ آج عوام کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر مطعون کیا جا رہا ہے اور نا امیدی اور یاسیت کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ عوام کا شعور تو تربیت کا متقاضی ہوتا ہے۔ عوام کی شعبہ جاتی تربیت کا پچھلے دو سو سالہ دور میں کتنا خیال رکھا گیا۔ معاشیات کا براہ راست تعلق اخلاقی قدروں سے ہوتا ہے۔ بھوکے، بے لباس اور بنیادی سہولتوں سے محروم عوام کو اخلاقیات کا سبق کیسے اور کیوں کر پڑھایا جا سکتا ہے۔
اس تمام گفتگو کا حامل حصول اور نچوڑ یہ ہےکہ ہمارے اہل ضمیر اور سوچ رکھنے والے افراد اس نکتہ پر متفق ہوں کہ ہمارے زوال سے عروج کے سفر کا نکتئہ آغاز اس استحصالی سسٹم کی تبدیلی ہے، جو ہمارے سروں پر ایک سیاہ رات کی مانند تنا ہوا ہےاور اس کے برعکس کوئی چارہ نہیں۔