ایشیا میں آزادی اظہار رائے کو دبانا مسلم ممالک تک محدود نہیں
(شیراز حسن)
آزادی اظہار رائے اور مذہب کے حوالے سے ایک حالیہ تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اظہار رائے کو دبانے کا عمل محض اسلامی ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ ایشیا کے غیرمسلم اکثریتی اور سیکولر ممالک میں بھی مذہب کی بنیاد پر دیگر مذہبی اقلیتوں کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔
غیرسرکاری تنظیموں بائیٹس فار آل پاکستان اور فورم ایشیا کی زیرانتظام شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ ‘این اکاؤنٹ آف فریڈم آف ایکسپریشن ان ایشیا’ میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، ویتنام، انڈونیشیا، مالدیپ، برما اور ملائیشیا میں مذہبی شدت پسند اور اظہار رائے کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس رپوٹ کے مطابق ان ایشیائی ممالک میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور مذہبی اقلیتوں کے لیے انٹرنیٹ پر بھی اظہار رائے کی زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔
رپورٹ میں اس عمومی خیال کو رد کیا گیا ہے کہ اظہار رائے کے حوالے سے پابندیاں صرف مسلم ممالک تک محدود ہیں جبکہ انڈیا، سری لنکا اور میانمار میں بھی مذہبی اقلیتوں کو سرکاری اور غیر سرکاری عناصر کی جانب سے اظہار رائے کی پابندیوں کا سامنا رہتا ہے۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان نو ایشیائی ممالک میں مذہبی اقلیتوں اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی آواز ریاستی اور غیرریاستی عناصر کی جانب سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسی کارروائیوں کے لیے قانونی جواز بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔
بائیٹس فار آل پاکستان کے سربراہ شہزاد احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘بنگلہ دیش ایک سیکولر ملک ہے لیکن وہاں فروری 2013 سے 39 بلاگرز کا قتل ہوچکا ہے، برما کی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور پاکستان میں بھی مذہبی خیالات کے اظہار کی بنیاد پر انٹرنیٹ صارفین کے خلاف مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔ یہ رجحان صرف اسلامی ممالک تک محدود نہیں ہے۔’
‘ ہم ایسی ہی صورتحال انڈیا، ویتنام، انڈونیشیا اور سری لنکا اور دیگر ممالک بھی دیکھ چکے ہیں جہاں انٹرنیٹ پر خیالات کے اظہار کی بنا پر شہریوں کے خلاف ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی کارروائیوں کی قانونی توجیحات بیان کی گئی۔’
ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ ‘یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم انٹرنیٹ پر بھی آزادی رائے سے تیزی سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔’
شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ ‘سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مذہبی احساسات اور مذہب کے تحفظ کو بنیاد بنا کر شہریوں کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جسے اکثر اوقات ریاستی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔’
‘رپورٹ کی مطابق گذشتہ چند برسوں میں انڈیا میں گائے کے گوشت کھانے یا گائے ذبح کرنے کے شبہے میں شہریوں پر تشدد، بالی وڈ فلموں میں ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں فنکاروں اور فلموں پر پابندی اور انٹرنیٹ پر سیاسی و مذہبی شخصیات کی مبینہ توہین کے الزام میں شہریوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کی گئی ہیں۔
اسی طرح برما میں روہنگیا مسلمانوں، ویتنام میں عیسائی مبلغوں اور سری لنکا میں مسلمانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ پیش آنے والے ناروا سلوک پر اظہار تشویش کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کی مصنفہ گائتری کھنڈھادائی کا کہنا ہے کہ ‘رپورٹ میں مذہب کے تحفظ کے نام پر ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے خلاف ورزیوں کے معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘اظہار رائے پر عائد کی جانے والی پابندیاں دراصل مذہب کی آزادی کے بھی خلاف ہیں۔’
رپورٹ میں ایشیائی ممالک سے اظہار رائے سے متعلقہ موجودہ قوانین کے خواتین، مذہبی و نسلی اقلتیوں اور انٹرنیٹ پر اثرات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کا ازسر نو جائزہ
لینے اور ان میں ترمیم کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو