ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف عالمی دن

 نعیم بیگ

29 اگست  2016پوری دنیا میں ایٹم بم ، اس کے دھماکوں اور تجربات کے خلاف عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس عالمی دن کی اہمیت عالمی سطح پر امن کے فروغ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بدامنی اور جنگ و جدل اور ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھانا بھی ہیں۔
بظاہر یونائٹڈ نیشن کے ایجنڈے پر بے شمار سرگرمیاں کسی حتمی نتائج پر نہیں پہنچ پائی ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ان نازک موضوعات پر اگر اقوام متحدہ جیسا ادارہ صرف قلم ہی اٹھائے تو آواز کہیں نہ کہیں تو پہنچ ہی پائے گی۔ اور اگر کسی کامیابی کے آثار اگر فوراً نمودار نہیں ہوتے تو ایک وقت ضرور آئے گا جب اقوامِ عالم اور عالمی رائے عامہ اس پر متفق ہو جائے گی۔
اس مختصر تحریر کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ قلم کار کا انسانیت کی بھلائی کے لئے آواز بلند کرنا ہی اسکا منشا و منتہا ہے۔
بیسویں صدی کے وسط میں سولہ جولائی انیس سو پینتالیس کو ایٹمی ہتھیار کا جب پہلا ٹیسٹ کیا گیا وہیں پر انسانیت سوزی کا ایک ایسا عمل شروع ہوا، جس نے چند دنوں کے بعد چھ اگست انیس سو پینتالیس کو ہیروشیما میں لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ یوں انسانیت کی بدقسمتی کا دن ۲۹ اگست انیس سو پینتالیس ہی پایا گیا جب اس شیطانی ہتھیار نے پوری دنیا پر قابو پا لیا۔

یہی وہ بدقسمت دن تھا جہاں سے عالمی طاقتوں نے اس ہتھیار کو اپنا کر پوری دنیا کا امن و سکون برباد کر دیا جبکہ دعویٰ یہ کیا جاتا رہا کہ ان ایٹمی ہتھیاروں سے امن قائم ہو گیا ہے۔

اب یہ صورتِ حال ہے کہ عالمگیریت نہ صرف ان ہتھیاروں کو تلف کر دینے کا ارادہ نہیں رکھتی ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کر لینے کی جد و جہد میں مصروف ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت عالمی طور پر پوری دنیا کے نیوکلیئر ہتھیاروں کا نوے فیصد حصہ صرف دو عالمی طاقتیں اپنے پاس رکھتی ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سات ہزار پانچ سو امریکہ اور سات ہزار دو سو ہتھیار روس کے پاس ہیں۔ یوں امریکہ پہلی اور روس دوسری پوزیشن پر آتا ہے۔ ایسی صورت حال میں دنیا کے چند ان چھوٹے ملکوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ رکھتے ہیں۔ دو سوپچیس ہتھیاروں کے ساتھ ایٹمی ذخیرہ اندوزی کے لحاظ سے برطانیہ اس دنیا کا پانچواں ملک ہے ۔ جبکہ ایک سو دس کے ساتھ پاکستان چھٹا ملک اور ایک سو ہتھیاروں کے ساتھ بھارت ساتواں ملک ہے۔ آٹھویں اور نویں نبمر پر اسرائیل اور جنوبی کوریا ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ گزشتہ ستر برسوں میں کیا ان ایٹمی ہتھیاروں کے وجود میں آجانے سے دنیا میں امن آ چکا ہے؟
کیا اس ہتھیار کے بن جانے سے قوموں کے درمیان پیار و محبت کے سوتے پھوٹ چکے ہیں؟
کیا نیوکلئیر بم کی موجودگی سے اقوام عالم شائستہ و شفگتہ مزاج اور اخلاقی قدروں کی رکھوالی بن چکی ہیں ؟

دوسری جنگِ عظیم کے بعد سرد جنگ سے لیکر نائن الیون اور مڈل ایسٹ جنگوں تک کا معاملہ بہرحال کسی حد تک مہذب اقوام ( گو مالی مفادات کی حد تک جنگی جنون سے پیوستہ و آراستہ) کے ہاتھ میں تھا، لیکن بیسویں صدی کے اختتام تک چند دیگر چھوٹے ملکوں کے ہاتھ ایٹمی ہتھاروں کے آجانے سے عالمِ انسانیت کا وجود مکمل طور پر خطرے میں آچکا ہے۔

ایران و اسرائیل کی دشمنی روزِ روشن کی طرح اقوامِ عالم کے سامنے ہے ۔ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے مسائل بھی سبھی سمجھتے ہیں اور اب ہندوستان اور پاکستان کا معاملہ بھی سامنے ہے ۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں سے معاملہ آگے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا ہندوستانی نیتاٗ ، ملٹری بیورکریٹ اور فوجی جنرلز جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دیتے نظر آتے ہیں ۔

پاکستان کی سیاسی و فکری و ملٹری لیڈرشپ ابھی تک پرامن اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے جس پر گزشتہ برس سرحدی جھڑپوں پر پاکستانیوں کی شہادت پر بھی کوئی ایسا بیان سامنے نظر نہیں آیا جو اس جلتی آگ پر پٹرول کا کام کرے (یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی پریس بریفنگ میں اٹھائیس اگست ( جنگ لاہور انتیس اگست ۲۰۱۵) کو واضع طور پر کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی ، بھارت قیاس آرائیوں سے کام نہ لے۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کی کسی قومی لیڈرشپ نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی نہیں دی ہے۔ جبکہ بھارت اس سلسلے میں عالمی سطح پر مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان یہ دھمکی دے رہا ہے جو انتہائی معاندانہ رویہ کا غماز ہے۔

لیکن یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی غیر قومی لیڈر شپ اور کچھ ریٹائرڈ جنرلز ایسے بیانات دینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں جن کا لب لباب نیوکلئیر طاقت کا استعمال کرنے کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ملکی سطح پر ایک قومی پالیسی کے تحت ایسے نازک بیانات سے اجتناب برتنا چاہیئے اور کسی بھی غیر قومی شخصیت کو خارجہ پالیسی پر ڈپلومیٹک سطح سے نیچے جواب دینے کے قانون کو حرکت میں لاتے ہوئے ان غیر ذمہ دار افراد کو منع کیا جائے۔

ابھی حال ہی میں بھارت کو اپنی انتہائی اوپری سطح کی لیڈر شپ پر ماضی کے بارے میں بنگلہ دیش میں دئیے گئے غیر ذمہ دارانہ بیانات پر پہلے ہی شرمندگی ، اورحالیہ کشمیر میں انکے بڑھتی ہوئی فوجی مداخلت سے جس کا ممکنہ طور پر وہ سرحدی جھڑپوں سے غصہ اتار رہا ہے۔ پاکستان کے اندرونی مسائل پر بھارتی ایجنسیوں کی سرگرمیاں اور اسپر ان کا ا ردِ عمل ، ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاہم پاکستانی رویہ تاحال امن کی سوچ اور صبر و تحمل کا مظاہرہ ہی کر رہا ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی امن متاثر تیزی سے متاثر ہو رہا ہے۔

اس صورت حال میں عالمی دن کی مناسبت سے یہ کہنا از حد ضروری ہے کہ پاکستان اور ہندوستان اپنے اپنے ایٹمی اسلحہ میں بتدریج تخفیف کریں، تاوقتیکہ مکمل طور پر نیوکلیئر ہتھیار ختم نہ ہو جائیں اور دونوں ملکوں کے فلیش پوائنٹ کشمیر پر فوری گفتگو کا اعادہ کریں۔ بھارت کو اس وقت بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے ناصرف مذاکرات کو کامیاب کرنا ہے بلکہ اس شیطانی اسلحہ سے برصغیر کو پاک بھی کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی موجودہ ملٹری اور سول بیوروکریسی اور قومی سیاسی لیڈر شپ ان مذاکرات کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے اور دونوں ملکوں میں امن و سکون کی فضا قائم کرنا چاہتی ہے۔
میں ہر دو ملکوں میں ادبی و صحافتی سطح پر بیشتر دوستوں کو جانتا ہوں جو جنوب مغربی ایشیا کو ایٹمی اسلحہ سے پاک و صاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ برس کلدیپ نئیر کا دورہ کشمیر اور اس پر انکے خیالات میڈیا میں سامنے آئے تو اندازہ ہوا کہ بھارت کس قدر نفرت انگیزی کا زہر وہاں انجیکٹ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں پاکستان دوستی نظر آتی ہے۔

یہی موقع ہے کہ ہم ان عالمی دنوں کے مناسبت سے سوشل میڈیا ہر دو ملکوں کے عوام ، لکھاری ، ادیب و شاعر و دانشور ایک اینٹی ایٹمی اسلحہ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں اور کم از کم برصغیر پاک و ہند کو اس اسلحہ سے پاک قرار دینے کی سعی کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو امن و شانتی کا وہ تحفہ دے سکتے ہیں جو دنیا بھر میں ابھی ترقی یافتہ قومیں نہیں کر سکی ہیں ۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔