(ناصر عباس نیر)
سعید کے مطابق دانش ور کے لیے بنیادی سوال یہ ہیں کہ کوئی شخص سچ کیسے بولتا ہے؟کون سا سچ؟ کس کے لیے؟کہاں؟سعید کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے کوئی ایسانظام یا طریقہ ء کار موجود نہیں جو اس قدر وسیع اور یقینی ہو کہ دانش ور کو ان سوالات کے راست جواب دے سکے۔کچھ نظامِ فکر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سچائی کا حتمی علم رکھتے ہیں۔سعید غالباً انھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہماری دنیا سیکولر ہے،اس مفہوم میں کہ اس کی تعمیر انسانی کوششوں سے ہوئی ہے۔لہٰذا دانش ور مذکورہ سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے سیکولر طریقے (تاریخی و سماجی تجزیے کے طریقے)ہی کام میں لا سکتا ہے۔سعید تسلیم کرتے ہیں کہ وحی و الہام نجی زندگی[کے معاملات کی] تفہیم کے لیے مکمل طور پر قابلِ عمل طریقے ہیں،لیکن اس وقت یہ تباہ کن بلکہ وحشیانہ بن جاتے ہیں ،جب نظریاتی ذہن کے حامل مرد و عورت انھیں استعمال کرتے ہیں۔بہ قول سعید:’’ لاریب ،مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ دانش ور کو لازماًمقدس وژن یا متن کے محافظوں سے تاحیات بحث میں شریک رہنا چاہیے ،جن کی غارت گری کی کوئی حد نہیں،جن کی سخت گیری کسی اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کر سکتی،اور اس طرح [سماج میں]تنوع پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ گویا ذاتی زندگی میں مذہب ایک نعمت،مگر ایک سماجی نظریے کے طور پر تباہ کن ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد مغربی فکرنے دنیا کو مادی مظہر ہی سمجھا اور اس کی تفہیم میں عقلی طریقوں کو استعمال کیا ہے۔اردو میں سر سید نے (بیسویں صدی کے سیکولر انسان دوست فلسفی برٹرینڈ رسل سے پہلے )انیسویں صدی کے اواخر میں لکھا تھا کہ’’قدیم اصول یہ ہے کہ مذہب روحانی اور جسمانی یعنی دینی ودنیوی دونوں کاموں سے متعلق ہے ۔جدید اصول یہ ہے کہ مذہب صرف روحانی کاموں سے متعلق ہے ‘‘۔سعید اور سر سید کے یہ خیالات آج پاکستان میں جاری مذہبی شدت پسندی کے سلسلے میں کس قدربر محل معلوم ہوتے ہیں،یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔مذہبی گروہوں کی غارت گری ،مقدس متن کے نام پر ہے۔اقبال نے سیاست کے دین سے جدا ہونے کو چنگیزی کہا تھا،مگر مذہبی گروہوں،مذہبی سیاسی جماعتوں میں دین و سیاست کی آمیزش، چنگیزیت کی صورت اختیار کر گئی ہے۔پاکستان کے اہلِ دانش کا مخمصہ اس قدر انوکھا ہے کہ شاید اس کی کہیں مثال بھی نہ ہوگی۔ مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست میں ، ایسے گروہوں کو وجود میں آنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے جو ریاست کے تمام قوانین کو مذہبی بنانے کی جدو جہد کو مقصدِ حیات بنا لیں،اور جو لوگ مذہب کو ذاتی زندگی تک محدود رکھنے کے قائل ہوں،ان کے خلاف صف آرا نہ ہوں؟ یہ ایک ایسا مخمصہ ہے ،جس سے نکلنے کے لیے کبھی کبھی قائد اعظم کی گیارہ اگست کی مشہور تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے ،جس میں انھوں نے پاکستانی شہریت کی تعریف بلا مذہب و فرقہ کی تھی،مگر اس کے جواب میں قائد اعظم کے متعدد ایسے خیالات پیش کیے جاتے ہیں جو پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے سے متعلق تھے۔اس کانتیجہ کنفیوژن ہے،نتیجہ خیز مباحثہ نہیں۔
سعید کو یہ ماننے میں تامل نہیں کہ الوہی صداقت میں یقین رکھنے والوں کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے ،اور یہ حق انھیں سیکو لر دنیا دیتی ہے۔سیکولر دنیابحث مباحثے میں تمام لوگوں کی جمہوری شرکت کی قائل ہے۔ سیکولر دانش ور رائے ظاہر کرنے میں یقین رکھتا ہے،مسلط کرنے میں نہیں۔یہی اصول مذہبی دانش وروں کے لیے بھی ہے۔ بہ قول سعید ،سیکو لر دانش ور کا اگر کوئی قلعہ ہو سکتا ہے تو وہ رائے کی تشکیل اور اظہار کی آزادی ہے۔اسی اصول کی بنا پر سعید سلمان رشدی کے حق میں آواز بلند کرنابھی ضروری خیال کرتے ہیں۔
کیا سیکولر ہونے کا مطلب سچائی کے ایک غیر متنازع تصور کا حامل ہونا ہے؟کیا سیکولر سچائی ایک معروضی سچائی ہے؟اگر اس کا جواب ہاں میں ہو تو ایک سیکولر اور ایک مذہبی دانش ور میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے!سعید کو بھی اس نزاکت کو احساس ہے،اس لیے وہ امریکی مؤرخ پیٹر نووک کی کتاب That Noble Dream(مطبوعہ۱۹۸۸)کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حقیقت ؍سچائی سے متعلق اتفاق رائے غائب ہوگیا ہے۔نیز روایتی اتھارٹی بھی باقی نہیں رہی، بہ شمول خدا اور مصنف۔ظاہر ہے یہاں اشارہ نئی تھیوری کی طرف ہے،جس نے سچائی کو ایک سماجی تشکیل کہا ہے ۔سعید اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ یہ کہنا سچ ہے کہ معروضیت اور اتھارٹی کی تنقید نے مثبت خدمت انجام دی ،کیوں کہ اس تنقید سے یہ واضح ہو ا کہ بنی نوع انسان نے کس طرح سیکولر دنیا میں سچائیاں تشکیل دیں‘‘۔یہیں سعید اپنے محبوب موضوع مابعد نو آبادیات کی طرف پلٹتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ سفید آدمی کی برتری بھی ایک ’معروضی سچائی‘ سمجھی گئی تھی۔ایشیا و افریقا پر حکم رانی ،اسی ’معروضی سچائی‘ کو اتھارٹی سمجھ کر کی گئی۔سعید نے اپنی کتابوں میں تفصیل سے واضح کیا ہے کہ کس طرح سفید آدمی نے ’ہم ‘ کو ایک آفاقی صداقت قرار دے کر مقامی ثقافتوں کا استحصال کیا ،حالاں کہ ’ہم ‘ خود ایک مقامی یورپی تصور تھا۔ اتھارٹی کی تنقید سے آفاقیت معرض سوال میں آئی ہے۔آفاقیت کی جگہ مقامیت نے لے لی ہے۔عقلی طور پر مقامیت کا مطلب ہے کہ سچائی غیر معین یعنی contingentہے ۔آج اور یہاں کی سچائی ،ضروری نہیں کہ کل اور وہاں کی سچائی کے عین مطابق ہو ،یا اس کے لیے معیار ہو۔مطابقت اور معیار بننے کا امکان ہو سکتا ہے ، لازمی اصول نہیں۔یہی وہ سچ ہے جس کا اظہار دانش ور کوطاقت ور کے سامنے کرنا چاہیے۔
عالمی دانش ور کے سامنے اب بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح مقامی شناختوں کو دیگر مقامی شناختوں سے ہم آہنگ کیا جائے؟اس ضمن میں وہ ایک اہم بات یہ کہتے ہیں کہ آج کسی دانش ور کے شایان شان نہیں کہ وہ اپنی ثقافت کی شان و شوکت کے قصیدے لکھے۔یہ قصیدے دوسری ، مختلف ثقافتوں کی موجودگی میں کوئی جواز نہیں رکھتے۔ اپنی ثقافتی عظمت کا ترانہ ،دوسری ثقافتوں سے ہم آہنگی میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ سعید دانش ور کو ثقافتی سفیر کے طور پر نہیں دیکھتے۔ان کی نظر میں دانش ور کے لیے معقول رویہ،یہ ہے کہ وہ اپنے اور دیگر معاشروں میں موجو داختیارات کی حامل ان طاقتوں کو موضوع بنائے جو اپنے شہریوں کو جواب دہ ہیں۔ طاقت کو موضوع بنانے،اس کی حکمت عملیوں اور ان کے اثرات کو منکشف کے لیے ضروری ہے کہ دانش ور غیر معمولی تحقیق اور سخت محنت کرے۔وہ ان دانش وروں کوملامت کرتے ہیں جو دوسروں کے لیے تو اصولی اور مشکل مؤقف اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں،مگر خود اس سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ان پر سیاسی ہونے کی چھاپ نہ لگ جائے،یا جو متنازع ہونے سے ڈرتے ہیں۔نیز وہ متوازن،معتدل ہونے کی شہرت چاہتے ہیں،یا یہ خواہش رکھتے ہیں کہ انھیں کسی باوقار بورڈ میں شامل کر لیا جائے،وہ فیصلہ سازوں کی مین سٹریم میں رہیں،اور امید رکھیں کہ انھیں کوئی اعزازی ڈگری مل جائے،کوئی بڑا نعام یا شاید سفارت۔سعید کے نزدیک دانش ور کے لیے اگر کوئی شے اس کی پر جوش دانش ورانہ زندگی کی خاصیت بد ل سکتی ہے ،اسے بے اثر اور بالآخر اسے قتل کر نے والی ہو سکتی ہے تو ان عادات کو ’داخلی بنانا‘ ہے۔دانش ور کے خوف اور ترغیبات ،اس کی ذہنی زندگی کو زہر آلود کرتے ہیں،جس کا اثر اس کی تحریروں میں بھی ظاہر ہوتا ہے؛وہ طاقت کے آگے کلمہ ء حق کہنے کی بجائے ،طاقت کی رضامندی کا طالب رہنے لگتا ،اور مشکل وقت پڑنے پر طاقت کی آئیڈیالوجی کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔تاہم سعید یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ طاقت کے سامنے اظہار کوئی سادہ لوح قسم کی مثالیت پسندی نہیں۔بہ قول سعیددانش ور کا کلمہ ء حق دراصل متبادلات کا محتاط جائزہ ہے،یعنی صحیح بات کا انتخاب ،اور اس کی قابل فہم انداز میں نمائندگی ،اور اس پلیٹ فارم سے نمائندگی جہاں یہ زیادہ مؤثر ہو اور صحیح تبدیلی کا سبب بن سکے۔
ان خطبات میں سعید اس مؤقف کو کئی بار دہراتے ہیں کہ دانش ور انہ سرگرمی ،سیاست سے الگ نہیں رہ سکتی۔سیاست ہر شے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔یہ سعید کا پسندیدہ مقو لہ لگتا ہے۔نیزوہ دانش ور کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ تبدیلی کے عمل کا حصہ بھی بنے۔ایسے میں اس بات کا امکان ہے کہ دانش ور کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے،لیکن ساتھ ہی سعید اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کی جماعت میں شمولیت اسے دانش ور کی بجائے جماعتی نظریے کا معتقد بنا سکتی ہے۔ اس سوال پر وہ بحث اپنے آخری خطبے ’’ دیوتا جو سدا ناکام ہوتے ہیں‘‘ میں کرتے ہیں۔خطبے کا یہ عنوان انھوں نے رچرڈ کراس مین کی کتابThe God that Failed (مطبوعہ ۱۹۴۹)سے لیا ہے۔
ایک دانش ور کے طور پر سعید کسی دیوتا میں یقین نہیں رکھتے۔لکھتے ہیں:’’میں کسی بھی قسم کے سیاسی دیوتا میں اعتقاد کے خلا ف ہوں‘‘۔سعید بعض تاریخی مثالوں سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیاسی دیوتاؤں میں دانش ور کے اعتقاد کا انجام بالآخر اعتراف گنا ہ کی اذیت ہے۔وہ اپنے ایک ایرانی دوست کی کہانی لکھتے ہیں ،جو خمینی انقلاب کا پر جوش حامی تھا۔انقلا ب کے بعد خمینی حکومت کا حصہ بنا،بعدمیں مایوس ہوا۔جب اسلامی انقلاب کے ممکنہ نتائج سامنے نہیں آئے ،تو وہ امریکا آگیا ۔یہی نہیں بلکہ خلیج کی جنگ کے دوران میں اس نے امریکا کی حمایت بھی کی۔گویا ایک دیوتا سے مایوس ہوکر ،دوسرے دیوتا میں اعتقاد پختہ کر لیا۔ بہ قول سعید ا س کا رویہ ،بائیں بازو کے یورپی دانش وروں کا ساتھا،جو فاشزم اور امپیریل ازم میں سے امپیریل ازم کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’دانش ورانہ اور سیاسی طور پر مطلوب رویہ ،یہ تھا کہ فاشزم اور امپیریل ازم دونوں کو ردّکیا جاتا‘‘۔برصغیر کے بائیں بازو کے دانش وروں نے بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران میں فاشزم کے مقابلے میں برطانوی امپیریل ازم کا ساتھ دیا تھا۔سعید نے یہ واضح نہیں کیا کہ بائیں بازو کے یورپی دانش وروں نے فاشزم کی مخالفت میں کیوں امپریل ازم کا انتخاب کیا؟بائیں بازو کے یورپی دانش ور ہوں یا برصغیر کے،ان کی فکرطاقت کی حرکیات میں اسیر تھی؛ان کے لیے یہ بات قابلِ فہم تھی کہ طاقت کی ایک سفاک شکل کا خاتمہ ،طاقت کی دوسری زبردست صورت سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک طاقت کے مقابلے میں دوسری طاقت کے انتخاب کا ’جبر‘، دوسری عالمی جنگ (جس میں فاشسٹ جرمنی و اٹلی کے مقابلے میں اتحادی ملکوں میں سوویت یونین بھی شامل تھا،جو بائیں بازو کی جماعتوں کی دانش ورانہ فکر کا قبلہ تھا) کی پیداوارتھا۔سوال یہ ہے کہ اس میں آج کے دانش ور کے لیے کیا پیغام ہے؟ہماری رائے میں بڑا سادہ پیغام ہے۔دانش ور کو طاقت کے مراکزسے فاصلہ رکھنا چاہیے،تاکہ وہ طاقت ،جبر،استحصال کی واضح اور مخفی یعنی مادی ،نفسیاتی اور علمیاتی صورتوں کا پردہ چاک کر سکے۔ یہ دانش ور کا حاشیائی مقام ہے ،مگر اس کی دانش کی ساری طاقت کا خزینہ یہیں دفن ہے۔
رچرڈ کراس مین کی کتاب میں ممتاز مغربی دانش وروں ،جیسے آندرے ژید، آرتھر کوئسلرکے ماسکو کی طرف جانے اور پھر واپس غیر کمیونسٹ ملکوں میں آکر ’اعتراف گناہ‘کے قصے ہیں۔ بہ قول سعیدسرد جنگ کے زمانے میں اکثر لوگوں کے ’دانش روانہ کیریر‘کی بنیاددانش ورانہ کامیابیوں کے بجائے کمیونزم کی برائیوں کو ثابت کرنے ،نیز کمیونسٹ ملکوں میں جاکر رہنے کے ناکام تجربے پر ندامت کے اظہار پر تھی۔اس پر سعید طنزاً کہتے ہیں :’’میں پوچھنا چاہتا ہوں ،ایک دانش ور کے طور پر آپ کیوں دیوتا میں یقین رکھتے ہیں؟مزید براں آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ آپ کا سابقہ اعتقاد اور بعد کی التبا س شکنی[ہمارے لیے] اس قدر اہم ہیں؟‘‘سعید دیوتا میں یقین کو تشدد سے وابستہ دیکھتے ہیں۔نئے نظریے کو مذہب بنانے والے،اور پرانے نظریے کی طرف مراجعت کرنے والے اکثر عدم روادار اور متشدد ہوتے ہیں۔قصہ مختصر ،دانش ور کے لیے دیوتا ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔
دیوتا کیوں ناکام ہوتے ہیں؟دیوتا (اورہیرو بھی)،ایک ایسی شبیہ ہے ،جس کی اصل ہمیشہ ماضی میں ہوتی ہے ،مگر یہ حال میں پوری شان سے جلوہ گر رہتی اور مستقبل سے متعلق امیدوں اور خواہشات کا مرکز بنی رہتی ہے؛گویا یہ لازمانی شبیہ ہے،جس کا تصور ہم اپنے اس ذہن سے کرتے ہیں ،جس کی ساری کارکردگی زمان و مکاں کی اسیر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیوتا کو اپنی عقیدت کا مرکز بنانے کے لیے ہم اپنے مکانی وزمانی شعورکو معطل کرتے ہیں۔