(رضا علی)
کل میری ملاقات ایک انڈین مسلمان وکیل سے ہوئی جس کا تعلّق بہار سے تھا- اس نے بتایا کے اس کے والدین کا تعلّق اصل میں یو پی سے ہے لیکن وہ کئی عشرے پہلے بہار منتقل ہو گئے۔ تعلیم اس نے علی گڑھ سے حاصل کی اور اب لندن میں ایل ایل ایم کر رہا ہے۔ آگے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ ہے۔
میں نے پوچھا کہ کس موضوع پر ریسرچ کرنی ہے تو اس نے کہا کے انڈیا میں اب ایسے کیس بہت بڑھ رہے ہیں جہاں دہشت گردی کے واقعات کے بعد لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور ان پر تشدّد کیا جاتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کے انہوں نے پاکستان سے ٹریننگ حاصل کی ہے۔ بعد میں عدالت میں ثابت نہیں ہوتا تو وہ چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو پاکستان میں بھی حال ہے۔ یہاں بھی آئے دن لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ انہیں تشدّد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پتا چلتا ہے کے انہیں انڈیا نے ٹرین کیا ہے اور پھر بہت سے عدالت سے چھوٹ بھی جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کے جہاں انڈیا میں یہ مسلمانوں اور نگژالائیٹ کے ساتھ ہو رہا ہے، پاکستان میں نسل اور صوبے کے نام پر۔
پھر اس نے بتایا کہ انڈیا میں ہندو دایاں بازو بہت زور لگا رہا ہے کہ اپنی طاقت اور حاکمیت ثابت کرے- پھر چاہے پاکستان کی مخالفت ہو، گاۓ کے گوشت کی ممنوع ہو، گھر واپسی یا لووجہاد، ہر طریقے اپنی مذہبی فوقیت کو دکھایا جا رہا ہے۔ میں نے کہا، ارے یہ تو پاکستان کا بھی حشر ہے! یہاں بھی دایاں بازو اسی طرح زور لگا رہا ہے اور مجال ہے کے کوئی انکی مخالفت کر سکے۔ ہندو انڈیا سے نفرت ہو، غیر مسلموں سے رویہ ہو، آئے دن توہین کے نام پر قتل، یا پاکستان کو انڈیا پسند لبرلز سے خبردار کرنا ہو، ادھر بھی یہی قصّہ ہے۔
پھر اس نے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنی پڑتی ہے۔ ان سے امید کی جاتی ہے کے وہ پاکستان سے نفرت کریں گے، اسے گالیاں دیں گے، انڈیا کے ترانے گائیں گے، تب ہی اچھے انڈین ہوں گے ورنہ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ کسی صحافی جس کام نام پونا والا ہو اسے کراچی والا کہہ کے پکاریں گے۔ یہ کہیں گے کہ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے! میں نے کہا، ارے پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے! یہاں بھی آپ کی نسل، علاقے اور مذہب سے فیصلہ ہوتا ہے کے آپ کتنے حب الوطن ہیں۔ یہاں بھی امید کی جاتی ہے کے انڈیا سے نفرت کی جائے، اسے برا بھلا کہا جائے، اگر آپ غیر مسلم ہیں تو اسلام کے نام پر بنے پاکستان میں آگے بڑھ بڑھ کر اپنی حب الوطنی ثابت کریں ورنہ آپ کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھا جائے گا۔ یہاں کسی کراچی والے کو انڈیا والا بنایا جاتا ہے۔ اسے بھی کہا جاتا ہے کے انڈیا کیوں نہیں چلے جاتے۔ معیار دونوں طرف ایک ہی ہے۔
پھر اس نے کہا کہ انڈیا کے مسلمان پاکستان کی حرکتوں کو پسند نہیں کرتے، پاکستان پر تنقید بھی بہت کرتے ہیں لیکن کھل کے نفرت نہیں کر سکتے۔ آخر ہیں تو اپنے مسلمان بھائی ہی نا۔ اس پر بھی مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ میں نے کہا، ارے یہ تو پاکستان میں بھی ہے! پاکستان میں بھی کوئی کھل کے انڈیا سے نفرت نہ کرے تو وہ پاکستانی نہیں بن سکتا، چاہے وہ ملک کا وزیر اعظم ہی کیوں نا ہو۔ پاکستان میں بھی ایسے لوگ ہیں جو کھل کے انڈیا سے نفرت نہیں کرتے۔ یہ سوچ رکھتے ہیں کے آخر انڈیا میں بھی تو مسلمان رہتے ہیں اور سارا انڈیا برا تو نہیں ہو سکتا۔ انہیں بھی کوئی نہ کوئی لیبل لگا کے غدّار بنا دیا جاتا ہے۔
اس نے بتایا کہ پہلے انڈیا میں اتنی نفرت کا ماحول نہیں تھا۔ اگر انڈیا پاکستان کا میچ ہو تو ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھنے والے سٹوڈنٹ انڈیا اور پاکستان دونوں کو سپورٹ کرسکتے تھے، لیکن اب فوری طور پر بات لڑائی تک پہنچ جاتی ہے۔ کشمیر کے مسلمان اکثر پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں اور یہ بات قابل برداشت نہیں۔ میں نے کہا کے پاکستان میں بھی کوئی یہ برداشت نہیں کرتا کہ کوئی انڈین ٹیم کو سپورٹ کرے، لیکن عام طور پر پاکستان میں یہ مسئلہ کھڑا ہی نہیں ہوتا۔
اس تمام گفتگو کہ نتیجے میں مجھے یہ احساس ہوا کے ہم انڈیا پاکستان کے رہنے والے کس قدر بدقسمت ہیں کے دونوں طرف بیٹھکے ایک ہی جیسی حرکتیں کر رہے ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر سمجھ رہے ہیں۔ اپنے مسائل کی وجہ بھی خود ہیں لیکن اپنا علاج بھی نہیں کرتے ۔ اپنی ساری توانائی دوسرے سے نفرت کرنے میں لگا دیتے ہیں پھر سوچتے ہیں کے ہم آگے کیوں نہیں بڑھ رہے۔ سرحد کو حق اور سچ کا معیار بنا کے بیٹھے ہیں اور پریشان ہیں کے دنیا ہم سے متفق کیوں نہیں۔ لیکن اس کنویں کی سوچ کا کیا کریں۔