(شکور رافع)
ایک تو عورت وہ بھی ہزارہ ٹرائیب کی عورت..اوپر سے ایک خاص فرقے کی بھی اور پھر رہائشی بلوچستان کی.. ٹارگٹ کلنگ کے بعد کی تصویروں میں..
لباس ہے پھٹا ہوا, غبار سے اٹا ہوا, تمام جسم نازنیں چھدا ہوا, کٹا ہوا
مگر یہ سب دیکھ کے زیادہ حیرت نہیں ہوئی… ظاہر ہے کہ ناپاک “را” بلوچوں سے دشمنی میں اب عورتوں تک کو قتل کر رہی ہے.. ہماری خفیہ طاقتیں چونکہ “را” کو اس کے گھر میں جا کر سبق سکھانے میں مصروف ہیں اس لیے اپنے ہاں کچھ عرصہ سیکورٹی مسائل پر نہ حیرت مناسب ہے نہ مشتعل احتجاج..
اگرچہ مصروف روڈ پر بس روک کے اور شناخت کر کر کے مارتے ہوئے وقت بھی کافی صرف ہوا مگر قاتلوں کے محفوظ فرار ہوجانے پر بھی حیرت نہیں ہوئی کہ پرائی لڑائی میں اب مداخلت کا دور بیت ہی گیا. چالیس افراد باہر اور چالیس مسافر جو اندر تھے, سب نے اپنی اپنی جان بچنے پر ہی اللہ تبارک وتعالی کا شکر ادا کیا ہو گا.
آپ پوچھیں گے کہ اس سب پر حیرت نہیں تو پھر کس پر ہے.
اصل میں حیرت ان لاشوں کی بے توقیری پر ہے. آپ خود دیکھیے کہ ان مقتولات کو کس غیر مناسب انداز میں لٹایا گیا ہے..
عورت زندہ ہو یا مردہ, اسے یوں سرعام نمائش کے لیے نہیں رکھنا چاہیے. سانحہ کے بعد سرکاری کارروائی کے انتظار میں اگر میتوں کو سربازار لٹائے رکھنا ضروری ہی تھا تو صحافیوں اور دوجے جذباتی راہ گیروں کے کیمروں کو بند کروا دینا چاہیے تھا..آخر ہم سب کی مائیں بہنیں ہیں..کیا سربازار عورت کو یوں لیٹا دکھانا مناسب ہے..حیرت تو انتظامیہ پر ہے کہ اس نے ہماری ان مشرقی روایات کا خیال کیوں نہیں کیا.. ایک اور حیرت ان خواتین کی کلائیوں اور پنڈلیوں کی برہنگی پر ہے..مجھے اندازہ ہے کہ اکثر دوست اس نشاندہی کو میری جنس زدہ گھٹیا سوچ سے تعبیر کریں گے لیکن جیسے آپ آزادی اظہار کے قائل ہیں ویسے ہی میں حرمت عورت اور حرمت میت کا قائل ہوں ..آپ خود تصویریں دیکھیے.. خاتون کے پاؤں سے جوتی لٹک رہی ہے جو کہ میت کی توہین میں شامل ہے. جوتی اتار دینے میں کیا قباحت تھی. شناخت کرنے کے لیے جب شناختی کارڈ موجود تھا تو نجس جوتی کی کیا ضرورت تھی. دوسری تصویر دیکھیے.. خاتون کی چوڑیوں سے اوپر کلائیاں بھی سرخ دکھائی دے رہی ہیں.. چوڑیاں شاید سونے کی نہیں تھیں اس لیے نہیں اتاری گئیں مگر دم نزع پھڑپھڑاہٹ سے سرخ چوڑیوں نے سفید کلائیوں کو بھی لال کر ڈالا . کانچ کی سلامت چوڑیوں تلے زخمائی کلائی سے ایک تو یہ خاموش پیغام ملتا ہے کہ ملکی حالات خراب ہوں تو کانچ شیشے کے زیورات سے پرہیز کرنا چاہیے مگر خیر آزادی کا زمانہ ہے , کسی نےاگر بناؤ سنگھار کر کے ہی بازار میں آنا ہے تو کوئی بھی اسے تنگ نہیں کر سکتا ماسوائے عرصہ حیات کے!
یہ تو “جملہ معترضہ” تھا. بات یہ چل رہی تھی کہ میت کے بازوؤں میں سرخ چوڑیاں بالکل بھی مناسب نہیں اور اگر مرنے کے بعد بھی اس ملک رہن سہن اور پہن کی آزادی ہے تو اس بہن کی قمیض کا بازو ہی نیچے کر دیا جاتا کیونکہ یہ تصویریں عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی نمایاں کی ہیں. کلائیاں پنڈلیاں مکمل حجاب میں رہنے سے یہود و ہنود کو یہ پیغام جاتا کہ وہ کتنی بھی مکروہ سازشیں کر لیں اس قوم کو شعائر اسلام سے دور نہیں کر سکتے. دوسری بات گلف بالخصوص سعودی عرب کو بھی ایک اچھا پیغام ملتا کہ حجاب و نقاب کا مقدس کلچر صرف ان کے ہاں ہی نہیں, یہ خاص مسلک والے بھی تہذیب اسلامی کا خاص خیال رکھتے ہیں. یوں اس عرب ایران مشترک ثقافتی اظہاریہ سے امت مسلمہ میں نیل سے تابخاک کاشغر یکجہتی کا ہلکا سا اظہار بھی ہو جاتا
ایک اور گلہ لہو رنگ چادر پر ہے. پیٹ سینہ لہو چاک سہی, مگر اسے ڈھانپنے کے لیے سفید چادر استعمال ہونا چاہیے تھی. ایک تو خون آلود چادر سے معصوم بچوں کے سادہ ذہنوں پر بھی خون و جنون سرایت کر سکتا ہے دوجا یہ کہ سرخ رنگ بغاوت, چپقلش, انارکی اور اشتعال کی علامت ہے ..روضہ حسین پر سرخ جھنڈے کی وجہ سمجھ آتی ہے مگر ایک میت پر لہورنگ گریباں پوشی جذباتی بچوں کو اس شعر کے یوٹوپیا میں مبتلا کر سکتی ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے!
(پالیسی کے مطابق تصاویر کو ایڈٹ کر کے شائع کیا جا رہا ہے: ادارہ)