یاسر چٹھہ
معصوم بچے ایلان کردی کی گردشیں تصویر؛ اس پہ زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق افراد کا، دنیا کے ہر گوشے سے آنسو کی طرح پھوٹ پڑنے والا وسیع و بسیط ردعمل؛ ادیبوں، فنکاروں کی اپنے اپنے اظہاری طریقوں سے سینہ کوبی اور نوحہ خوانی، اور چاروں سو انسانیت کی بھیگی آنکھ سے لگا کہ آس پاس میں، ارد گرد میں شاید پتہ لگ ہی گیا ہوگا کہ جنگ بڑی ہولناک ہوتی ہے۔ یہ کوئی تفریحی ایڈونچر نہیں ہوتی، نہ یہ کوئی محض سینما میں بیٹھ کے دیکھی جانے والی فلم ہوتی ہے۔ یہ کوئی محض ’ناکوں چنے چبوا دیں گے‘، ’تگنی کا ناچ نچا دیں گے‘،’تاریخی سبق سکھا دیں گے‘، ’میلی آنکھ نکال دیں گے‘، ’آئندہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی‘، اور تو اور ’ لمحوں میں صفحہِ ہستی سے مٹا‘ دینے کی منہ پھواری سے پوری فضا کو کسیلا کر دینے کا بے ربط عمل نہیں ہوتا۔ یہ دنیا کے ہر خطے میں ایلان کردی جیسے سانحے پیدا کرتی ہے۔ گوکہ ان میں سے بیشتر تاریک راہوں کے شہید ہی رہتے ہیں، ان کو اپنا قیمتی ترین سرمایہ یعنی ہاتھ سے دھو لینے کے بعد بھی کچھ پذیرائی نہیں ملتی۔ ایسے گمنام بغیر تمغوں کے کوچ کر جاتے ہیں اور بغیر من چاہے پرندوں اور درندوں کا لقمہ بن جاتے ہیں۔ انسانی المیوں کے سفاک متن لکھنے والوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
( **یہ مشہور زمانہ تصویر امریکہ کی جانب سے ویتنام پر برپا جنگ میں ایک حملے کے کچھ لمحوں بعد کی ہے۔ بچے دہشت سے بھاگ رہے رہے ہیں۔**)
ان جنگوں میں ایسے ’پْتّر جو ہٹاں تے نئیں وکدے‘، ان کے لہو سے دھرتی رنگ جاتی ہے۔ ماؤں کو ’شہید کی ماں کے جذبات‘ سے لدی پھندی لفاظی سے آنکھوں پہ پٹی باندھی جاتی ہے کہ ’رونا مت، ثواب کم ہو جائیگا‘۔ سعادتِ عدم کی سرکاری دانشوری کے سٹیرائیڈز کھلائے جاتے ہیں؛ انہی جنگوں میں بہت سارے بچے یتیم ہو جاتے ہیں اور بہت سی خواتین غیر فطری طور پر بیوہ، بہتوں کو ساری عمر کٹی ٹانگوں، بازوؤں اور ہاتھوں سے باقی ماندہ سانسیں پوری کرنی پڑتی ہیں۔
آج کی سنسنی خیز اور مصنوعی گھن گھرج میں، ٹی وی پہ رنگ برنگی ٹرانسمیشن سے اور اخباری صفحات پہ بڑے بڑے اشتہاروں سے ہمارے دماغ کو سن کرنے، عقل کو ماؤف کرنے اور تنقیدی زبانوں کو گنگ کرنے، سوچ کو صمّ بکم کرنے کا جو کاروبار برپا ہے یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہی دکھانے پہ بضد کیوں ہے۔
کبھی یہی گولی، بم، طیارے، ٹینک اور طبلِ جنگ کے شور کے خالق موسیقار، اس جنگی کاروبار کے دوسرے پہلو کیوں نہیں بتاتے۔ یہ وہ کہانیاں کیوں نہیں سناتے کہ جنگ کے متاثرین پہ کیا کیا بن کر گزرتی ہیں۔ مجھے انہیں ٹی وی چینلوں پہ ایسی کہانیاں کیوں سننے اور دیکھنے کو نہیں ملتیں کہ جو میری ماں مجھے بتاتی ہے؛ کس طرح پینسٹھ کی جنگ میں وہ اپنے گھروں میں قید ہوگئے تھے۔ ان جنگ کے دنوں میں بتیاں اور دیئے کیوں نہیں جلائے جاتے تھے؟ کیوں کھانے پینے کی اشیا کی قحط جیسی صورتحال ہو جاتی ہے؟ راشن کی قطاریں کیونکر لگ جاتی ہیں؟ کیوں کھڑی فصلوں کی کوکھ، ان کے کھلیان اجڑ جاتے ہیں؟ مجھے انہیں ذرائع ابلاغ پر وہ قصے سننے کو کیوں نہیں ملتے کہ مجھے میرے نانا سناتے ہیں کہ وہ کھیتوں میں ہل چلا رہے ہوتے تھے، کہ ان کے آس پاس بموں کے خول گرتے تھے۔
کیئوں کی روزی کا سرچشمہ، دھرتی کے سینے پر ہل چلانے والے بیل جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنگ کے بیوپاریوں کو کیا پتہ کہ کسان کا ہل چلانے ولا بیل اسے کس طرح اولاد جیسا پیارا ہوتا ہے اور کتنے برس کے بعد وہ ہل چلانے کے مشکل کام کرنے کی سکت جمع کرتا ہے۔ ایسوں کو آج اس سوال کا جواب نہیں چاہیئے کہ کون جیتا اور کون ہارا! سرحد کے دونوں پار ہی تو فاتحین نظر آتے ہیں۔ دونوں طرف کی سرکاریں اور ریاستی حب الوطنی کے بااختیار ڈسٹری بیوٹر اور ڈیلر اپنے اپنے سرکٹوں میں اپنی فوجوں کی جانب سے مختلف قلعوں لگائے گئے جھنڈوں کی تصویریں لگا رہے ہیں۔ کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ سرحد کے ہر دو پار سے ہارا کون ہے، جس کو استاد دامن کے (کسی اور موقع پر کہے گئے لیکن پوری طرح لاگو ہوتے ہوئے) اس شعر کی زبان میں کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے:
لالی اکھیاں دی پئی دَس دی اے
روئے تْسی وی او روئے اسی وی آں
ہماری قوم کی اس نسل نے ایک پوری طرح پھن پھیلائی جنگ کے مناظر ہالی وڈ کی فیچر فلموں میں، اپنے لاؤنجز میں پلازمہ ٹی وی پر اور ایئر کنڈیشنڈ سینما گھروں ہی میں دیکھے ہیں۔ جہاں سے وہ یہ جنگی اینٹرٹینمنٹ ایک گھنٹہ اور چالیس منٹ کے بعد پاپ کارن کھاتے اور سوڈا واٹر کے ڈکار میں اڑا آتے ہیں۔ انہیں جنگ کے انسانی و بحرانی پہلوؤں سے بھی تو روشناس کرایا جائے۔ انہیں یہ بھی تو بتایا جائے کہ ’ذیلی نقصان‘ collateral damage اصلًا کس بَلا کا نام ہے؟ سویلین ہلاکتیں کیا ہوتی ہیں؟ اور ان سویلینز پہ جنگ کی حقیقی سنسنی خیز فلم کے ختم ہونے کے بعد کیا گزرتی ہے؟ جنگ کی تیاری اور ریہرسل کے سلسلے میں تو انہیں صرف اپنے پروپیگنڈے کا ایندھن بنایا جاتا ہے کہ ورکنگ باؤنڈری کے پاس گاؤں کندن پور میں انسانوں اور ان کی دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی جانوروں اور ذی روحوں پہ کیا گزری ہے؟ کمبائنڈ ملٹری ہسپتالوں میں ان کے ساتھ کیمرے کے فلیش کی چمک دمک میں تصویریں بنوانے کے بعد ان کی کٹی ٹانگوں اور بازؤں کو کون جوڑتا ہے اور وہ کس طرح رینگ رینگ کر بعد کی زندگی گزارتے ہیں؟ انہیں یہ کوئی کیوں نہیں بتاتا کہ وزیرِ دفاع کے دورے کے موقع پر لگنے والے ریلیف کیمپ ان کے جانے کے فوراً بعد کیوں ہی اکھڑ جاتے ہیں؟ انہیں یہ بھی تو نہیں بتایا جاتا کہ کندن پور جیسے سرحدی دیہاتوں میں حالات کے جبر اور اونچے شملے والے جنگی سوداگروں کی اناؤں کے ہاتھوں ہو جانیوالی بیواؤں، کہ جن کو ڈی ایچ اے میں پلاٹ بھی نہیں ملنے ہوتے، ان کی بعد کی زندگی کس طرح گزرتی ہے۔
اگر آپ کے اور سرحد کی ہرطرف کے جنگی جنونیوں کے خیالات سے ہم ایسوں کی سمجھ بوجھ منطبق نہیں ہو پاتی تو منا لیجئے ہر یوم پاکستان کو ٹینکوں سے سجا کے، ہر یومِ دفاع کو پورے جنگجویانہ بخار اور جنگی ترانوں سے، اور روز چارہ ڈالئے اس بخار کو واہگہ بارڈر کی نورا کشتی سے؛ کہہ لیجئے ہمیں کہ ہم غدار ہیں، نکلنے کا حکم کر دیجئے اپنی بستیوں سے، اور نواز دیجئے ’لبرل فاشسٹوں‘ کے سیاسیات کے علم سے نابلد القابات سے!