(یاسر چٹھہ)
ہم برصغیر کے کلمہ پڑھنے والے ہیں۔ جو اب ہماری پہچان پاکستانی ہونے میں ہے تو کیا ہمارا مزاج بدل گیا؟ ہماری روح کی عادت تبدیل ہوگئی؟ اے دہشت گرد، اے تیرے سہولت کار، اے تیری کھوپڑی کی رذالت کردی کے پس منظری فتوٰی گر، اے تیرے حکمت طراز، اے تیرے بیانیاتی پناہ پرور، تم سب کسی غلطی پر ہو۔ تم ہمیں اپنے کسی حسابی اور لفظی لکیری دین کی صفحات گردی پر لانا چاہتے ہو؟ تو جان لو، ہم دھماکے کی آواز، اس بم کے جگر میں ڈلے بارود، اس بارود کی شیطانی کوکھ سے بھاگ نکلنے والے چھرے، لوہے کی پٹیوں اور ان کے ہمارے جسموں میں پیوست ہونے سے پھوٹ پڑنے والے گلاب کے پھول ایسے خوش رنگ خون کے ہماری دھرتی کے بوسے لینے سے بھی اپنے طریق پر نہیں لا پاو گے۔
ہماری روحیں محبت کے تیروں سے اپنی راہیں متعین کرتی آئی ہیں۔ وہ بھی تو عرب سے اور عرب کے آس پاس کے خطوں سے ہی آئے تھے جن کے روشن سینے اس حقیقت کو جان گئے تھے۔ انہیں پتا چل گیا تھا کہ ان برصغیر والوں کی روحوں کے کعبے بڑے منفرد طریقوں سے متعین ہوتے ہیں۔ یہ تلواروں اور سنگینوں کے سائے تلے اپنے دل پیش نہیں کرتے۔ انہیں پاس بلانے کے گر اپنے ناکام اورکامیاب پیش رووں کے تجربوں سے سیکھو۔
ستلج کنارے آو۔ بابا فرید بیٹھے ہیں۔ بہت عالم فاضل تھے۔ فارسی بھی آتی تھی، اور عربی میں ملکہ حاصل تھا۔ عالی مرتبت مومن مسلمان تھے۔ لیکن دیکھیو، اے دہشت گرد، اے تیرے سہولت کار، اے تیری کھوپڑی کی رذالت کردی کے پس منظری فتوٰی گر، اے تیرے حکمت طراز، اے تیرے بیانیاتی پناہ پرور! ان کا مطمح نظر اسلام قبول کروانا نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی آج ایسا کیوں ہے کہ پنجاب کے اتنے سارے قبائل یہ دعوٰی کرتے پھرتے ہیں کہ ان کے اجداد کو بابا فرید کے ان کے آباء کی زبان میں سنائے گئے اشلوکوں سے دین اسلام کی راہ آشکار ہوئی۔ بابا فرید کے اشلوکوں اور شبدوں میں ایسا کیا تھا جو تمہارے زوردار دھماکوں میں نہیں۔ سوچو، اپنے اندھیارے نگر کے ضمیر میں جھانکو!
اگر تو کچھ منوانا ہے تو اس دیس دھرتی کے قلب کے محاورے کو سمجھو، یہ دھماکوں سے نہیں سہمتے بلکہ یہ تو رد عمل میں بھی دھمالیں ڈالتے ہیں، حال کھیلتے ہیں۔ پر تم کیا جانو۔ تم تو سادہ لوح ہو، تمہیں تو کسی حرص کے پادشاہ نے برہنہ حوروں سے مباشرت کا لالچ دے کر پھسلایا۔ تمہیں کیا پتا تحفے میں ملی عورت کی سپردگی اور اور من کی موہی عورت کی وارفتگی کا کیا فرق ہوتا ہے۔ تمہیں کیا سمجھ لگے گی، تمہارے تو سارے اعمال ثواب کی حسابیات و ریاضیات کے ترازووں میں تلتے ہیں، لذت کے بازاروں سے صورت پذیر ہوتے ہیں۔
ستلج کنارے نہیں جانا تو سیستان کے اس جوان کے رستے کی گرد چومو۔ اس کے رستے کی گرد جسے علی ہجویری علیہ رحمہ نے رہنمائی فرمائی تھی کہ اجمیر چلے جائیو۔ مشکل منزل تھی؛ اسلام دشمن راجے مہاراجے اپنے دور کی سرشاریوں میں تھے۔ لیکن محبت ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے۔ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے فرزند اسماعیل کی شہ رگ پر چھری رکھنے سے بھی زیادہ مشکل کوئی صورت ہوگی!
لیکن محبت میں بہت طاقت ہوتی۔ کچھ وقت ہی میں خواجہ معین الدین علیہ رحمہ کے پاس ہر مذہب کے لوگ کھنچتے چلے آئے۔ یہ خواجہ معین الدین کیا کرتے تھے؟ غریب کو روٹی کھلاتے تھے؛ کبھی دیگ خالی نا ہوتی تھی۔ ہر مذہب کے ماننے والے کو عزت دیتے تھے، مست کرنے والی موسیقی پر حالات کھیلتے تھے۔ اے دہشت گرد ان کی شرک کو دیکھنے کی تمہارے جیسی اور تمہارے حکمت طراز ایسی کوئی مشین نا تھی۔ اور خدا کا شکر ہے کہ نا تھی۔
یہ بھی تو جاننا کہ وارث شاہ کیسے آج بھی اس دھرتی کی عوام الناس کے دلوں آواز ہی نہیں دل کی دھڑکن بھی ہیں۔ برصغیر میں آنا ہے، دھرتی پاکستان میں پاؤں جمانے ہیں تو امیر خسرو کی سنت پر آو۔ آپ نے درباروں اور سرکاروں کی مجلس چھوڑی۔ مختلف زبانیں جانتے تھے۔ لیکن آپ نے زبانوں اور ان میں موجود تصورات حیات کا روحانی امتزاج ترتیب دیا۔ ستار، طبلہ، اور خیال کا صفحہ ہستی میں لائے۔ تو کیا کام لیا؟ کچھ بھی نہیں ان لوگوں کے دل اپنے کر لئے۔ ظاہر ہے، اے دہشت گرد، تمہارے طولانی زبان والے حکمت طراز تمہیں حوروں کی تعداد سے جمع تفریق کرکے تمہارے دل کو بند ہی رکھیں گے۔ لیکن یاد رکھیو کہ یہ جو برصغیر والے ہیں، یہ جو وادی سندھ والے ہیں انہیں ڈرانے سے کام نہیں چلتا اور نا ہی کبھی چلا ہے۔ ان کے تو دل میں اترو۔
لیکن وہ کیوں اتریں دل میں؟ ان کا تو شعار ہی ظواہر ہیں اور دل تو عریاں و عیاں نہیں ہوتا۔ انہیں نے تو حال ہی میں ایک اور ایسی پاک جگہ پر بارود کی زبان بولی جو جگہ دلوں کو جوڑتی آئی ہے؛ جو آواز پاکستانی اور اس سے بھی بڑھ کر انسانی وفاقیت کی مظہر ہے۔ لکھاری ہارون خالد کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ بارود اور خودکشی کے حکمت طرازوں، دہشت اندازوں، لفظی و صفحاتی قید کے قیدیوں کو لعل شہباز قلندر کے تالیف قلب کے مرکز سے خطرہ کیوں تھا:
“لعل شہباز کا در، دروازہ اور صحن اپنے ارد گرد کے جغرافیائی سیاق سے بالکل الگ اور منفرد دنیا کا منظر نامہ پیش کرتا ہے: ایک ایسی دنیا جو پہلے موجود تھی، مگر اس کے وجود کا سرا اب دھیرے دھیرے رسائی سے سرکتا جا رہا ہے۔ بس یہی خطرہ ہے ان حملہ آوروں کو اس جزیرۂ انسیت و محبت سے! یہ در، یہ دروازہ، یہ صحن، یہ آستانہ استثنائیت پر مبنی اور عدم شمولیت پسند قومیت و مذہبی شناختوں کو درخور اعتناء نہیں گردانتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ انداز فکر محض چند ایک ہزار لوگوں کی ہو، لیکن یہ ایک بہت ہی طاقتور بیانیہ کی صورت ہے۔ یہ حملہ اس درگاہ پر نہیں بلکہ یہ حملہ اس تصور حیات پر ہے جو انسانیت کو بائیں ہاتھ کے کھیل جیسی تقسیموں میں پھینک دیکھنے کا اعتبار رکھنے والا تصور حیات نہیں۔”