اس موضوع کے انتخاب کا سبب پچھلے دنوں کا میرا ایک انٹرویو ہے، جسے دہلی میں مقیم تصنیف حیدر نے کیا تھا۔ انھوں نے نہ جانے کس وجہ سے مجھ سے ایک سوال کیا کہ اردو کے دو ایسے نام بتائیے جن کا تخلیق کردہ ادب آپ کو پسند نہیں ہے۔ اِس سوال کے جواب میں مَیں نے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو اپنا ناپسندیدہ ترین ادیب کہا؛ اِن کے ساتھ ساتھ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بابا یحیٰ وغیرہ کو بھی اِسی صف میں رکھا۔ بعد میں اِسی سوال کو بنیاد بنا کر ریختہ کی طرف سے زمرد مغل نے ایک ویڈیو انٹرویو کیا جہاں ، مَیں نے مزید وضاحت سے درج بالا مصنفین کے ساتھ صوفی ازم پر بھی سوال اُٹھایااور اُسے انسانوں کے لئے ایک افیون قرار دیا۔ اس کے ردِ عمل میں جن لوگوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اُن میں زیادہ تر خواتین تھیں، جو انتہائی
نازیبا زبان کے ساتھ اپنا اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
کیا صوفی ازم کو پروموٹ کرنے والے ادیب اسٹیبلمنٹ کے نمانیندے ہیں ؟ اور کیا ااشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بابا یحیٰ اور پروفیسررفیق اختر مکمل فراڈ اور ادب کے نام پر جعل سازی کر رہے ہیں ۔؟علی اکبر ناطق کی طرف سے ایک چونکا دینے والی گفتگو
نہیں۔ مگرمیری حیرانی اُس وقت ختم ہو گئی جب غور کرنے پر اور معاشرے کے خد و خال پر نظر کی۔ اب سنیے ، ہندوستان اور پاکستان کا یہ معاشرہ، جہاں جہالت، احساسِ کمتری، غربت ، افلاس، جنسی ناآسودگی اور مذہبی اجارہ داری تمام انسانوں کے مقدر کا لکھا بن چکی ہے۔ وہاں عورت کے لئے یہ مسائل مرد سے زیادہ بھیانک ثابت ہوتے ہیں اور اِن سے بچاؤ کا عملی طور پر کوئی طریقہ نہیں۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مردوں کی نسبت عورتوں نے بے عملی پر ابھارنے والے تصوف کا استعمال زیادہ کر کے اُسے اپنی تسکین کا وسیلہ بنانے کی کوشش زیادہ کی ہے۔ آپ ایسے تصوف کی تاریخ پڑھ جایئے، اِس نابکار پیشے پر جو کچھ عورت کا خرچ ہوا ہے، مردوں کا اُس کے شمہ برابر بھی نہیں لگا۔ جادو، ٹونے سے لے کر تعویذ گنڈے اور وہاں سے پیروں فقیروں کے مقبروں مزاروں کی حاضری اور چڑھاوے عورت ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ یہ عورت چاہے دیہاتی ہو یا شہری، سستے طریقے سے اپنے مقصد کے حصول تک پہنچنا پاک و ہند کی عورت کا مطمع نظر رہا ہے۔ اور اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اِسی کے پردے میں یہ مزید استحصال کا شکار ہوئی ہے۔ مگر یہ بات وہ ماننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ معاشرے اور کائنات کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنا ہی نہیں چاہتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ میرے بیان کردہ نظریے کا تعلق دیہاتی عورت سے ہے، شہری عورت پڑھی لکھی اور باشعور ہے، تو مَیں یہ بات اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں ہو ں کہ اس بے عمل تصوف کی موجودہ دور میں زیادہ راہ دکھائی ہی ہماری پڑھی لکھی خواتین نے ہے۔ اور وہ بھی بڑی ناول نگار خواتین نے! اِن میں سب سے بڑی اس وقت عمیرہ احمد ہیں۔ اِن خواتین نے اصل میں معاشرے کا وہ حال کیا ہے جو کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حتیٰ کہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مغربی این جی اوز میں بھی اِن کا اثر رسوخ ڈھکا چھپا نہیں۔
یہ تصوف، جس میں سارا زور صبر اور قناعت پر دیا جاتا ہے اور اُس کے نتیجے میں کسی لافانی طاقت کو اپنا دوست بنایا جاتا ہے۔ اِن خواتین ناول نگاروں نے اُسے بڑی بے دردی سے استعمال کر کے عورت کو مزید کنویں میں پھینکنے کی کوشش کی ہے۔ این جی اوز سمجھتی ہیں کہ وہ عورت کے حقوق کی بات کر رہی ہیں حالانکہ وہ ایسا کچھ نہیں کر رہیں ہوتیں ماسوائے اپنی ذاتی تسکین کے۔
ہمارے معاشرے کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی شخص بندھے ٹکے اصولوں پر ضرب لگاتا ہے تو تمام طبقات کے لوگ اُس کے پیچھے لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ لیکن آپ دیکھیں گے، ہمارا سوشل میڈیا ، ٹیلی وژن ، اخبار، ڈرامے ایسی ہی خواتین کے کام سے اور تحریروں سے بھرے پڑے ہیں، جو عورت کے حقوق کے نام پر اُلٹا عورت کی جڑیں کھودنے کا کام کر رہے ہیں۔
دوسری بات ہمارے معاشرے کی یہ ہے کہ اُس نے عربی زبان میں تمام لکھنے والوں کو پاکیزہ و متبرک ہستیاں، پنجابی اور فارسی میں لکھنے والوں کو صوفی، انگریزی میں لکھنے والوں کو دانشور، اور روسی زبان میں لکھنے والوں کو ملحد سمجھ لیا ہے۔ میرے خیال میں پنجابی زبان کے شاعر محض شاعر تھے، وہ صوفی ہوں گے تو بعدمیں کہیں ہوں گے۔ وارث شاہ، بلھے شاہ، خواجہ فرید، شاہ حسین کی پہلی پہچان شاعری ہے، صوفی ہونا نہیں۔
آپ مانیں یا انکار کریں، ہماری خواتین آج بھی بدھا کے دور کی راہبانہ زندگی کو ترجیح دینے کو تیار ہیں اور یہ فقط اس لئے ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور این جی اوز اُسے یہی کچھ رکھنا بھی چاہتی ہیں تاکہ آئندہ کی نسلیں بھی ایسی ہی فکری اور عملی طور پر بانجھ پیدا ہوں۔
اگر وقت کا چلن ایسے ہی رہا جیسا کہ آج کل ہے تو پھر مزید آنکھیں بند رکھئے؛ آنے والے دور میں مزید عمیرہ احمد،جیسی لکھاری پیدا ہوں گی، اور اُن کو پروموٹ کرنے والا میڈیا ایسا ہی کرتا رہے گا؛ اور ہم جیسوں کو اسی طرح مردود رکھا جائے گا جیسا کہ اب رکھا جا رہا ہے اور اس بے عملی کا شکار کر دینے والے تصوف کا جھنڈا بلند کرنے والے ادیبوں ہی کا جھنڈا بلند ہوگا۔
ڈیپارچر لاؤنج افسانہ از، نعیم بیگ ایک ہاتھ میں اعلیٰ چمڑے کا براؤن بیگ دوسرے میں پاسپورٹ اور دیگر سفری کاغذات تھامے ڈاکٹر بدرالدین ہادی اپنی قدرے پھولی سانس کے ساتھ وسیع و عریض بزنس […]
خالدہ حسین اردو کی منفرد افسانہ نگار از، ڈاکٹر تہمینہ عباس خالدہ حسین کااصل نام خالدہ اصغر ہے۔ وہ ۱۸ جولائی ۱۹۳۸ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر اے جی اصغر انجینئرنگ […]
ڈولی ، افسانہ از ، پیغام آفاقی دو ڈھائی سال پہلے میں ایک سرکاری کام کے سلسلے میں چمپارن، بہار گیا تو مجھے خیال آیا کہ وہیں آس پاس میں کہیں میرے طالب علمی کے […]
7 Comments
آپ کی رائے متوازن ہے. ہشیار اور کائیاں لکھاری سماج کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ہی شہرت کا زینہ چڑھتے ہیں. تصوف پر لکھنا کسی ادیب کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور فنکارانہ اپچ سے زیادہ شاطرانہ امر ھے. ایسے موضوعات فکری کوتاہ قامتی پر دلالت کرتے ہیں نہ کہ ادیب کے فنی تنوع اور ورسٹائلٹی کے.
میری نظر میں ادیب موضوعاتی تنگ دامنی کے پیش نظر ایسے استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جنکے بل بوتے پر وہ جلد قبول عام حاصل کرتے اور اپنی فنی و فکری بوسیدگی اور لاچاری پر پردہ ڈال لیتے ہیں. ” شہاب نامہ”کے اختتامی ابواب میں ( اسکے علاوہ بھی بہت بار) مصنف نے محض جذباتی استحصال اور مذہبی وابستگی کو اپنے حق میں کیش کروانے کی کوشش کی ھے. اشفاق احمد،ممتاز مفتی اور بانو آپا نے بھی اس ہنڈیا کو اترنے نہیں دیا. یہ ہمارے ادیبوں کی.ناکامی ھے کہ سماج کے اتنے پیچیدہ اور گنجلک ادارے سے فرد سے وابستہ ٹھوس اور قابل عمل موضوعات تک رسائی میں ناکام رہے.
“اگر یہ کہا جائے کہ میرے بیان کردہ نظریے کا تعلق دیہاتی عورت سے ہے، شہری عورت پڑھی لکھی اور باشعور ہے، تو مَیں یہ بات اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں ہو ں کہ اس بے عمل تصوف کی موجودہ دور میں زیادہ راہ دکھائی ہی ہماری پڑھی لکھی خواتین نے ہے۔ اور وہ بھی بڑی ناول نگار خواتین نے! اِن میں سب سے بڑی اس وقت عمیرہ احمد ہیں۔ اِن خواتین نے اصل میں معاشرے کا وہ حال کیا ہے جو کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا” متفق آپ سے علی اکبر نا طق
ناطق صاحب نے بلاشبہ ہمارے سماج کی ایک بہت بڑی جہالت کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ناطق صاحب نے جس طرح تصوف کی توضیح پیش کی ہے اس کا تو تصوف کے ساتھ سرے سے کوئی جوڑ بھی نہیں۔کیوں کہ جادو ٹونے ،تعویذ گنڈوں کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔اگر جو لوگ ان چیزوں پر تصوف کی بنیاد رکھتے ہیں تو وہ یقینا تصوف کی تعریف سے واقف نہیں۔تصوف تو خود ان چیزوں کی نفی کرتا ہے۔ناطق صاحب نے عورتوں کی جس
ناقص عقیدت کو تصوف کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس طرح تصوف کی تفہیم کرنا یا تصوف کے پیراے میں ایسی صورتحال کو پیش کرنا خود ایک بڑی جہالت ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم موجودہ دور میں رائج خانقاہی نظام کے اندر تصوف کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح تو ہم موجودہ دور میں تمام مذہبی فرقوں کے تناظر میں مذہب اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں ہر طرف جہالت ہی نظر آتی ہے۔ہمیں حقیقی تصوف کے دائرہ کار کو سمجھ کر گفتگو کرنی چاہیے اور مذہب کے اندر یا سماجی سطح پر جو خرابیاں موجود ہیں انھیں زبردستی ایسے موضوعات کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے جن کو آپ ذاتی سطح پر ناپسند کرتے ہیں ۔اور اگر موجودہ مذہبی شدت کا جائزہ لیا جائے تو اس شدت کا توڑ صرف تصوف کے ذریعے ممکن ہے۔تصوف ہمیں رواداری،خدمت خلق کا درس پیغام دیتا ہے اور تمام صوفیا کرام نے اس کا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ناطق نے جو کہا کہ وارث شاہ، یا بابا بلے شاہ پہے شاعر تھے اور بعد میں صوفی۔۔اس سٹیٹمینٹ کے اندر بھی کوئی قوی صداقت نہیں۔کیوں کہ صوفیاءنے اپنے پیغام کی پر زور اور پر تاثیر تفہیم کے لیے شاعری کا سہارا لیا،کیوں کہ شاعری ابتداء ہی سے ابلاغ کے تمام ذرائع میں سے بہتر اور زیادہ اثر انگیز ذریعہ رہا ہے۔لہذا تصوف میں شاعری کا تعلق صرف ابلاغ تک رہا۔صوفیا کرام نے اپنے اپنی تمام زندگیاں خود کو ماسوائے شاعر بنانے میں صرف نہیں کیں ۔صوفی میں اور جادو ٹونے کرنے والے عامل میں بڑا فرق ہے کیوں کہ عامل کا جو طرز زندگی ہوتا ہے اس کا تصوف کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہوتا ۔
ناطق صاحب آزادی رائے کے بڑے حامی اور ہر بات کھل کر کہتے ہیں اس مضمون میں بھی انہوں نے کھل کر بات کی ۔ لیکن دوسری طرف جب میں نے انہیں ایک بار کہا کہ اگر یہی بات میں آپ کے افسانوں کے بارے کہوں کہ پسند نہیں ہیں تو ؟
تو صاحب اُس دن سے بلاک ہوں
🙂
تو صاحبو بات کہنا بڑی بات نہیں بات سننا بھی بڑی بات ہے۔
بھارت میں تصنیف حیدر کو دیے گئے انٹرویو میں ایک طرف تو آزادی رائے یہ ہے کہ آپ اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کو ناپسندیدہ ادیب کہہ دیتے ہیں لیکن جب کو ئی آپ سے یہ کہے کہ صاحب آپ کی شاعری بہت اچھی ہے ہاں لیکن افسانے پر بات ہو سکتی ہے ۔ اور اتنی سی بات پر بلاک کر دیتے ہیں۔ اردو ادیبوں کا یہ رویہ کہ دوسروں پر تو بے جا تنقید اور خود پر زرا سی بات بھی ناقابل برداشت ۔ قابلِ افسوس ہے
محترم ںاطق صاحب آب نے ایک اہم موضوع پر عمدہ کالم لکھا ہے ،صورت حال کچھ ایسی گھمیر ہو چکی ہے کہ لہگ ایسی بے لاگ باتیں سننے کو تیار نہیں ہیں ، ٹکور کرتے رہیں نتیجہ صد فی صد درست اور حسب دل خواہ نکلے گا ۔
سلامتی کی دعا۔
ناطق صاحب آپ نے بہت اہم موضوع چھیڑا بلکہ ہماری خواتین کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ مجھے اس بات پر شدید کوفت اور جھلاہٹ ہوتی ہے ہماری خواتین قرات العین حیدر، عصمت چغتائی اور امرتا پریتم کے ناموں تک سے آگاہ نہیں ہیں اور اگر آگاہ ہیں تو صرف بانو قدسیہ، نور الہدی شاہ، عمریرہ اہمد اور آمنہ مفتی کی قبیل کی لکھنے والیوں سے جو مضنوئی اور جھوٹے موضوعات پر لکھ لکھ کر خواتین کو گم راہ کر رہی ہیں۔ اس موضوع پر مزید بات ہونی چاہیے۔
بہت اچھا لکھا اے …. ہمارے پاک و ہند کی خواتین کی اکثریت دیہاتی اے …. اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان خواتین کی ثقافتی ذہن سازی کیسی ہے ۔۔۔۔ شہری آبادی میں بھی یہ تناسب کچھ ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔متفق .
آپ کی رائے متوازن ہے. ہشیار اور کائیاں لکھاری سماج کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ہی شہرت کا زینہ چڑھتے ہیں. تصوف پر لکھنا کسی ادیب کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور فنکارانہ اپچ سے زیادہ شاطرانہ امر ھے. ایسے موضوعات فکری کوتاہ قامتی پر دلالت کرتے ہیں نہ کہ ادیب کے فنی تنوع اور ورسٹائلٹی کے.
میری نظر میں ادیب موضوعاتی تنگ دامنی کے پیش نظر ایسے استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جنکے بل بوتے پر وہ جلد قبول عام حاصل کرتے اور اپنی فنی و فکری بوسیدگی اور لاچاری پر پردہ ڈال لیتے ہیں. ” شہاب نامہ”کے اختتامی ابواب میں ( اسکے علاوہ بھی بہت بار) مصنف نے محض جذباتی استحصال اور مذہبی وابستگی کو اپنے حق میں کیش کروانے کی کوشش کی ھے. اشفاق احمد،ممتاز مفتی اور بانو آپا نے بھی اس ہنڈیا کو اترنے نہیں دیا. یہ ہمارے ادیبوں کی.ناکامی ھے کہ سماج کے اتنے پیچیدہ اور گنجلک ادارے سے فرد سے وابستہ ٹھوس اور قابل عمل موضوعات تک رسائی میں ناکام رہے.
“اگر یہ کہا جائے کہ میرے بیان کردہ نظریے کا تعلق دیہاتی عورت سے ہے، شہری عورت پڑھی لکھی اور باشعور ہے، تو مَیں یہ بات اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں ہو ں کہ اس بے عمل تصوف کی موجودہ دور میں زیادہ راہ دکھائی ہی ہماری پڑھی لکھی خواتین نے ہے۔ اور وہ بھی بڑی ناول نگار خواتین نے! اِن میں سب سے بڑی اس وقت عمیرہ احمد ہیں۔ اِن خواتین نے اصل میں معاشرے کا وہ حال کیا ہے جو کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا” متفق آپ سے علی اکبر نا طق
ناطق صاحب نے بلاشبہ ہمارے سماج کی ایک بہت بڑی جہالت کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ناطق صاحب نے جس طرح تصوف کی توضیح پیش کی ہے اس کا تو تصوف کے ساتھ سرے سے کوئی جوڑ بھی نہیں۔کیوں کہ جادو ٹونے ،تعویذ گنڈوں کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔اگر جو لوگ ان چیزوں پر تصوف کی بنیاد رکھتے ہیں تو وہ یقینا تصوف کی تعریف سے واقف نہیں۔تصوف تو خود ان چیزوں کی نفی کرتا ہے۔ناطق صاحب نے عورتوں کی جس
ناقص عقیدت کو تصوف کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس طرح تصوف کی تفہیم کرنا یا تصوف کے پیراے میں ایسی صورتحال کو پیش کرنا خود ایک بڑی جہالت ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم موجودہ دور میں رائج خانقاہی نظام کے اندر تصوف کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح تو ہم موجودہ دور میں تمام مذہبی فرقوں کے تناظر میں مذہب اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں ہر طرف جہالت ہی نظر آتی ہے۔ہمیں حقیقی تصوف کے دائرہ کار کو سمجھ کر گفتگو کرنی چاہیے اور مذہب کے اندر یا سماجی سطح پر جو خرابیاں موجود ہیں انھیں زبردستی ایسے موضوعات کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے جن کو آپ ذاتی سطح پر ناپسند کرتے ہیں ۔اور اگر موجودہ مذہبی شدت کا جائزہ لیا جائے تو اس شدت کا توڑ صرف تصوف کے ذریعے ممکن ہے۔تصوف ہمیں رواداری،خدمت خلق کا درس پیغام دیتا ہے اور تمام صوفیا کرام نے اس کا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ناطق نے جو کہا کہ وارث شاہ، یا بابا بلے شاہ پہے شاعر تھے اور بعد میں صوفی۔۔اس سٹیٹمینٹ کے اندر بھی کوئی قوی صداقت نہیں۔کیوں کہ صوفیاءنے اپنے پیغام کی پر زور اور پر تاثیر تفہیم کے لیے شاعری کا سہارا لیا،کیوں کہ شاعری ابتداء ہی سے ابلاغ کے تمام ذرائع میں سے بہتر اور زیادہ اثر انگیز ذریعہ رہا ہے۔لہذا تصوف میں شاعری کا تعلق صرف ابلاغ تک رہا۔صوفیا کرام نے اپنے اپنی تمام زندگیاں خود کو ماسوائے شاعر بنانے میں صرف نہیں کیں ۔صوفی میں اور جادو ٹونے کرنے والے عامل میں بڑا فرق ہے کیوں کہ عامل کا جو طرز زندگی ہوتا ہے اس کا تصوف کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہوتا ۔
ناطق صاحب آزادی رائے کے بڑے حامی اور ہر بات کھل کر کہتے ہیں اس مضمون میں بھی انہوں نے کھل کر بات کی ۔ لیکن دوسری طرف جب میں نے انہیں ایک بار کہا کہ اگر یہی بات میں آپ کے افسانوں کے بارے کہوں کہ پسند نہیں ہیں تو ؟
تو صاحب اُس دن سے بلاک ہوں
🙂
تو صاحبو بات کہنا بڑی بات نہیں بات سننا بھی بڑی بات ہے۔
بھارت میں تصنیف حیدر کو دیے گئے انٹرویو میں ایک طرف تو آزادی رائے یہ ہے کہ آپ اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کو ناپسندیدہ ادیب کہہ دیتے ہیں لیکن جب کو ئی آپ سے یہ کہے کہ صاحب آپ کی شاعری بہت اچھی ہے ہاں لیکن افسانے پر بات ہو سکتی ہے ۔ اور اتنی سی بات پر بلاک کر دیتے ہیں۔ اردو ادیبوں کا یہ رویہ کہ دوسروں پر تو بے جا تنقید اور خود پر زرا سی بات بھی ناقابل برداشت ۔ قابلِ افسوس ہے
محترم ںاطق صاحب آب نے ایک اہم موضوع پر عمدہ کالم لکھا ہے ،صورت حال کچھ ایسی گھمیر ہو چکی ہے کہ لہگ ایسی بے لاگ باتیں سننے کو تیار نہیں ہیں ، ٹکور کرتے رہیں نتیجہ صد فی صد درست اور حسب دل خواہ نکلے گا ۔
سلامتی کی دعا۔
ناطق صاحب آپ نے بہت اہم موضوع چھیڑا بلکہ ہماری خواتین کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ مجھے اس بات پر شدید کوفت اور جھلاہٹ ہوتی ہے ہماری خواتین قرات العین حیدر، عصمت چغتائی اور امرتا پریتم کے ناموں تک سے آگاہ نہیں ہیں اور اگر آگاہ ہیں تو صرف بانو قدسیہ، نور الہدی شاہ، عمریرہ اہمد اور آمنہ مفتی کی قبیل کی لکھنے والیوں سے جو مضنوئی اور جھوٹے موضوعات پر لکھ لکھ کر خواتین کو گم راہ کر رہی ہیں۔ اس موضوع پر مزید بات ہونی چاہیے۔
بہت اچھا لکھا اے …. ہمارے پاک و ہند کی خواتین کی اکثریت دیہاتی اے …. اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان خواتین کی ثقافتی ذہن سازی کیسی ہے ۔۔۔۔ شہری آبادی میں بھی یہ تناسب کچھ ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔متفق .