(ناصر عباس نیر)
تبدیلی توایک عمل ِمسلسل ہے جس میں کچھ لوگ شریک ہوتے، اکثر اسے بھگت رہے ہوتے اور بعض اس کے تماشائی ہوتے ہیں۔ بدلتی ہوئی دنیا کی قطعی اور سائنسی تفہیم نہایت مشکل ہے۔ بدل چکی دنیا یعنی تاریخ کی تفہیم نسبتاً آسان ہے مگر تاریخ جب بن رہی ہوتی ہے تو یہ بقول ہیر اکلی تو س، بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی رفتار اور تغےّر کے عمل کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے، مگر اس کے باطن میں مضمرورواں جملہ عوامل کو جاننا محال ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ معروض ایک ساخت کی صورت موجود ہو، یعنی اس کے ضوابط طے ہو چکے ہوں، جب کہ رواں تاریخ ایک فی نومی نن یا پراسس ہے، مسلسل تبدیلی اور روانی جس کی خصوصیت ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بدلتی دنیا کی تفہیم کی کوشش بھی بے جواز اور غیر ضروری ہے (ویسے تو بن رہی تاریخ کو پراسس کہنا بھی اسے جاننے کی ایک صورت ہے)۔ جب ہم دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا تبدیلی کے تنددھارے میں خود کو بے دست و پا ہونے سے بچانے کا اقدام کرتے ہیں۔
جب ہم بدل رہی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو تفہیم کے طریقے اور پیمانے کہاں سے لیتے ہیں؟ عمومی طوپر تاریخ سے۔ جو گزر چکا ہے، اس کا علم ہم گزر رہے کی تفہیم میں بروے کار لاتے ہیں۔ کارل پاپر کا خیال ہے کہ بن رہی تاریخ کو پرانی تاریخ کے اصولوں کی مدد سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا اور اس ضمن میں نہ ہی کوئی درست پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ ہر تبدیلی نئی ہے، لہٰذااس کی تفہیم کا پیمانہ بھی نیا اور تبدیلی کی نوعیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ خیر یہ ایک طویل بحث ہے کہ پرانا نئے کے سلسلے میں کتنا کار آمد ہوتا ہے۔ اس بحث کا یہاں محل نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ بدلتی ہوئی دنیا کا ہم کچھ نہ کچھ فہم حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا کو بدلنے یا بہتر بنا نے سے متعلق تمام تدبیر یں ناکام ہوتیں۔ تمام تھنک ٹینک ایک بے معنی مشقت میں مبتلا ہوتے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔یہ اچھا ہی ہے کہ رواں تاریخ کی کلی سائنسی تفہیم ممکن نہیں، اگر ہوتی تو غالباً اس کا سب سے زیادہ فائدہ آمر انہ قوتوں کو ہوتا؛ وہ دنیا کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب ہوتے اور ان کے اقتدار کا سورج کبھی غرو ب نہ ہوتا؛ رواں تاریخ کی ساخت ہر وقت ان کی دست رس میں اور ان کے رحم و کرم پر ہوتی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ متعدد تاریخی عوامل ان قوتوں کی تدابیر کی گرفت سے باہر رہتے ہیں اور ان کا منھ چڑاتے ہیں۔
دنیا کی تبدیلی ایک مستقل عمل اور پراسس ہے، مگر تبدیلی کی رفتار ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی۔ کبھی سست، کبھی تیز اور کبھی تیز تر ہوتی ہے۔ خصوصاً جب کوئی غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے۔ ویسے تو معمول کے واقعات بھی دنیا کو اور ہمیں تبدیل کر رہے ہوتے ہیں (جس کی ہمیں خبر نہیں ہوتی)۔ مگر غیر معمولی واقعہ دنیا کو تیزی سے بدل ڈالتا ہے (جس کی ہمیں فوراً خبر ہو جاتی ہے)۔ غیرمعمولی واقعہ سیاسی، جنگی، تجارتی، ثقافتی اور فطری ہو سکتا ہے اور کوئی بڑی علمی و فکری اور ٹیکنالوجی کی کوئی انقلابی پیش رفت بھی!مثلاً سوویت یونین کا انہدام غیرمعمولی سیاسی واقعہ تھا، جس نے عالمی سیاست کا رُخ بدل کے رکھ دیا۔ سیاست عالم، بائی پولر سے یونی پولر ہو گئی۔ نیا ورلڈآرڈرآگیا اور ایک ملک پوری دنیا کی تقدیر اپنے قلم سے لکھنے کے اختیار کا دعویٰ کرنے لگا۔ بیسویں صدی کی عالمی جنگیں اور اکیسویں صدی میں امریکہ/ افغانستان اور امریکہ/عراق جنگ بھی غیر معمولی واقعات ہیں، جو نائن الیون کے غیر معمولی واقعات کا نتیجہ ہیں (یا نتیجہ قرار دیے گئے ہیں) ڈبلیو ٹی او اور گلو بلائز یشن،تجارتی (اور ثقافتی) نوعیت کے ”واقعات“ ہیں، جو معاصر دنیا کو بدل ر ہے ہیں۔ دوسری طرف جینیات میں کلوننگ، طبیعیات میں ایم تھیوری، ٹیکنالوجی میں سیل فون، کیبل، انٹرنیٹ وغیرہ؛لسانیات، ادب اور فلسفے میں ساختیات اور مابعدجدیدیت کی تھیوری۔ یہ سب غیر معمولی واقعات ہیں جنھوں نے معاصر زندگی کو اور اس زندگی کے شعور کو تبدیل کیا ہے۔ ان کے علاوہ مختلف ممالک کے مابین تنازعات؛مشرق و مغر ب کی کشمکش؛ قحط، سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری، جہالت، غربت وغیرہ بھی ایسے ”واقعات“ ہیں جو دنیا کی صورتِ حال تبدیل کر رہے ہیں۔ اب ہم سیاسی، معاشی، ثقافتی اور فکری سطحوں پر ایک مختلف دنیا میں جی رہے ہیں۔ یہ دنیا آج سے تین چار دہائیوں پہلے کی دنیا سے بے حد مختلف ہے۔ اس بات کا احساس تو ہمیں فی الفور ہو جاتا ہے، مگر اس مختلف دنیا کے چند نمایاں خدوخال ہی ہم پرروشن ہیں۔ اور اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ ان خدوخال کی تشکیل میں بڑا حصہ مغربی دنیا کا ہے۔ اس لیے جب ہم بدلتی دنیا کا تصور کرتے ہیں تو بڑی حد تک مغرب کی تشکیل دی گئی یا اس سے متاثر دنیاکا تصور کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا ”واقعہ“ بھی ہے اور ”بیانِ واقعہ“ بھی۔ ایک عملی حقیقت و صورتِ حال بھی ہے اور اس کی تعبیر و توجیہہ بھی۔ دنیا دراصل زبان کی طرح ہے، جس میں سطح پر اظہار کے صد ہا پیراے ہوتے ہیں اور زیر سطح وہ نظام یا گرامر ہوتی ہے جو اظہار کو ممکن بھی بناتی ہے اور اظہار کے تنوع کو کنٹرول بھی کیے ہوتی ہے۔ اگر ہم زبان کی گرامر سے لاعلم ہو ں تو ہمارے اظہار میں لکنت اور بسا اوقات لغویت پیدا ہو جاتی ہے، اسی طرح اگر ہم دنیا کی صور ت حال اور اس کے عقب میں مضمر و کار فرما عوامل و عناصر (جو دنیا کی صورتِ حال کی گرامر ہیں) سے بے خبر ہوں اور اس طرح دنیا کا کلی تصور نہ رکھتے ہوں تو دنیا سے متعلق ہمارا تجربہ ناقص اور بدلتی دنیا کا ہمارا شعور بد نظمی کا شکا ر ہو تا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا کا سائنسی کلی تصور تو ممکن نہیں کہ بدلتی دنیا ایک ساخت کے طور پر معروض نہیں بن سکتی، تاہم دنیا کا فلسفیانہ کلی تصور بہ ہرحال کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ دنیا کے واقعات و حوادث اور ان کی گرامر میں رشتہ کیا ہے؟ کیا واقعہ ”گرامر“ کو پیداکرتا ہے یا گرامر واقعے کو؟…… جب ہم کسی کل کو ثنویتی تصور کرتے ہیں، اسے واقعے اور گرامر یا عیاں اور نہاں میں تقسیم کر کے دیکھتے ہیں تو ہمیں دونوں میں ایک درجہ بندی ضرور قایم کرنا ہوتی ہے۔ ایک کو سبب اور دوسرے کو نتیجہ قرار دینا پڑتا ہے۔ ایک کو اوّل او ر دوسرے کو ثانوی ٹھہرانا پڑتا ہے۔ تاہم یہ درجہ بندی حتمی نہیں ہوتی۔ جسے نتیجہ / ثانوی قرار دیا گیا تھا، وہ بعد ازاں سبب / اوّل بھی ٹھہر سکتا ہے۔ سبب اور نتیجہ Overlap کرتے ہیں۔ تاہم دنیا کا کلی تصوران ہی دو کے مجموعے سے مرتّب ہوتا ہے۔ یہ بات ہمیں معاصر دنیا کے تجزیے میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً نائن الیون کا واقعہ سبب بنااور اس نے سیاست ِعالم کے ساتھ ساتھ دنیا کی فکری اور دانش ورانہ جہت کو بھی تبدیل کیا۔ نائن الیون کے بعدجہاں عالمی سیاسی بساط پر نیا کھیل شروع ہوا؛ دوست اور دشمن ممالک کی نئی فہرست بنی، وہاں نئے کلامیے (ڈسکورسز) بھی شروع ہوئے اور واضح رہے کہ ہر کلامیہ دنیا سے تو متعلق ہوتا ہے، مگردنیا کی تفہیم و توجیہہ کے اپنے اصول، معیارات اور ترجیحات رکھتا ہے اور ان تینوں کا تعےّن”طاقت“ کرتی ہے۔ یوں ہر کلامیہ دراصل طاقت کے حصول کی حکمتِ عملی اپنے اندر مضمر رکھتا ہے۔ پیشِ نظر رہے کہ ”طاقت“ سے مراد محض سیاسی یا فوجی طاقت نہیں بلکہ کسی مخصوص نقطہئ نظر کا اجارہ بھی ہے۔ اور یہ اجارہ متعدد دوسرے کلامیوں کو بے دخل اور غیر موثر کرنے کی در پر دہ کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا نائن الیون کے بعد جو کلامیے شروع ہو ئے ان کا ہدف ایک مخصوص ملک کی آئیڈیالوجی کا نفاذ ہے۔ کلامیہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے نئی اصطلاحات رائج کرتا، پرانی اصطلاحات کو نئے مگر اپنے مخصوص ترجیحی ڈھنگ میں استعمال کرتا اور تازہ بیانیے گھڑتا ہے۔ نائن الیون کے بعد جو کلامیے برقی و طباعتی میڈیا کے ذریعے رائج کیے گئے، ان میں یہ بات مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ مثلاًدہشت گردی، حقِ خودارادیت، مزاحمت، بنیاد پر ستی، روشن خیالی، اعتدال پسندی، جیسی اصطلاحات کے نئے مگر غیر متعےّن مفاہیم وضع کیے گئے ہیں۔ پیش بند اقدام (Pre-emption) کی اصطلاح متعارف ہوئی ہے۔ اور ایک خطے کے عوام کو ایک غیر ملکی آقا کے ذریعے ان کی بنیادی سیاسی حقوق دینے کا بیانیہ اختراع ہوا ہے۔ کلامیہ کس طور انسانی اذہان کو بدلتا، انھیں کنٹرول کرتا اور سوچنے کی حد یں مقرر کرتا ہے، یہ دیکھنا ہو تو جارج آر ویل کا ناول ۴۸۹۱ء ضرور پڑھا جائے۔ اس ناول میں دکھا یا گیا ہے کہ کس طرح ریاستی جبر کے لیے زبان کو سب سے بڑے ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور کلامیہ بھی زبان کے ذریعے ہی اپنے غیر اعلان کر دہ مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ خود ہمارے یہاں انگریزی زبان کو ایک کلامیے کا درجہ دیا گیا ہے۔انگریزی محض زبان نہیں،جیسی دوسری زبانیں ہیں بلکہ طاقت، اختیار اور مرتبے کی علم بردار ہے،جس سے دوسری زبانیں محروم ہیں۔یوں محض اس زبان کے ذریعے کتنے ہی وہ مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں جن کا محصولعسکری طاقت سے بھی ممکن نہیں۔ ادب چوں کہ زبان ہے اس لیے کیا اسے کلامیہ بھی کہا جا سکتا ہے؟ سوچنے کی بات ہے!
سیاسی واقعات کے علاوہ معاشی اور ٹیکنالوجیکل نوعیت کے ”واقعات“ نے بھی ہماری دنیا کو بدلا ہے اور اس تبدیلی کا احساس ارد گرد نظر ڈالنے سے بھی ہوتا ہے اور نئے طرز کے کلامیوں سے بھی۔ ڈبلیو ٹی او، ملٹی نیشنل کمپنیاں، گلوبلائزیشن نئی قسم کی اکانومی رائج کر رہے ہیں۔ ان کے نتیجے میں نئے معاشی طبقات اور نئے معاشی روابطہ قایم ہوئے ہیں۔ اس تبدیلی کا سب سے بڑا مظہر”صارفیت کا کلچر“ ہے، جو ہر شے کو ”کموڈیٹی“ کا درجہ دیتا ہے، خواہ وہ کوئی میک اپ آئٹم ہو، دودھ کا پیکٹ ہو، زندگی بچانے کی دوا ہو، لباس ہو، کتاب ہو، علم ہو یا آرٹ یا عور ت کا جسم ہو۔ صارفیت ان سب کو اشیا ئے صَرف خیال کرتی ہے، ان کی قیمتیں مقرر کرتی اور ان کے صَرف کے لیے نئی نئی مارکیٹیں تلاش کرنے میں لگی رہتی ہے۔ صارفیت کے کلچر نے اقدار کا ایک اپنا نظام وضع کیا ہے، جس میں اوّلیت معاشی برتری کے حصول کو دی گئی ہے۔ معاشی برتری کی خاطر ملٹی نیشنل کمپنیاں کچھ بھی کر سکتی ہیں، روایتی اخلاقی اقدار کو تہس نہس کرنے سے لے کر بڑی بڑی جنگیں لڑنے کا اقدام کر سکتی ہیں۔ مگراس سارے ”کھیل“ میں وہ پس ِپردہ رہنے کوترجیح دیتی ہیں۔ صارفیت اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بالعموم اشتہارات کی صورت ”جادو اثر بیانیے“ وضع کرتی ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ، کیبل، ٹیلی ویژن اور سیل فون نے بھی ہمارے باہمی ترسیلی روابط کو نئی صورت دی ہے۔ زمان و مکان سے متعلق ہمارے تصورات اور تجربات کو بدل دیا ہے اور دنیا کو ایک گاؤں بنا کے رکھ دیا ہے۔ انسانی ابلاغ، تعلیم اور تفریح کے نئے طورپر متعارف کروائے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ طورکبھی صارفیت اور کبھی آئیڈیالوجی سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ ان ابلاغی ذرائع نے اگر ایک طرف ابلاغ و ترسیل کو معجزاتی رُخ دیا ہے تو دوسری طرف انسان سے اس کی حقیقی آزادی چھین لی ہے۔ یہ چیزیں انسان کی نجی زندگی اور اس کی خلوت گاہِ ذات میں اس بری طرح د خیل ہو گئی ہیں کہ انسان اپنی ہی صحبت کا لطف اٹھانے سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے اندر دوسروں اور غیروں کی آوازیں کہرام مچائے ہوئے ہیں۔
یہ سب واقعات خارجی دنیا کے ہیں، جنھوں نے دنیا کی فکری اور دانش ورانہ سطح کو متاثر اورمتعین کیا ہے۔ گویا یہاں واقعات سبب ہیں اور مختلف کلامیے ان کا نتیجہ۔ تاہم علمی و فکری مکاشفات بھی دنیا کو بدلنے اور نئے واقعات کو جنم دیتے ہیں۔ اس امر کی سب سے بڑی مثال طبیعیات میں تاب کاری کی دریافت تھی، جس سے ایٹم بم بنانا ممکن ہوا اور بعد ازاں جس نے تاریخ کے بدترین واقعے (ناگاساکی اور ہیر و شما پر ایٹم بم برسانے کے واقعے) کو جنم دیا۔ ماضی قریب میں ڈارون کا نظریہ ارتقا، مارکس اور اینگلز کی تاریخی معاشی تھیوری، فرائیڈ کا لاشعور اور ژنگ کا اجتماعی لاشعور کا نظریہ، کو انٹم فزکس اور اس سے متعلق ہائزن برگ کا اصول لایقینیت، نظریہ اضافیت، دایاں اور بایاں دماغ کا نظریہ، بگ بینگ کی تھیوری وغیرہ۔ اور گزشتہ چند دہائیوں میں طبیعیات میں ایم تھیوری، جینیات میں کلوننگ،لسانیات میں ساختیات، فلسفے میں ڈی کنسٹر کشن اور تاریخی فکر میں میثل فوکو کے نظریات (بالخصوص طاقت اور ڈسکورس کے نظریات) اور فرانز فینن اور ایڈ ورڈ سعید کے مابعد نو آبادیاتی نظریات نے بھی دنیا کو بدلا ہے۔ اور اس ساری فکری صور ت حال کو مابعد جدیدیت کا نام دیا گیا ہے۔ مابعدجدیدیت موجودہ عالمی صورتِ حال کا دست خط ہے۔