بر عظیم پاک وہند کی موسیقی کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ اس عظیم خطے کی موسیقی کو مسلمانوں نے کس حد تک اور کیونکر متاثر کیا ہے اور ان کی وجہ سے اس نظام موسیقی میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
ابھی تک تو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ہندوستانی موسیقی سال ہاسال سے ایک جامد فن تھا۔اس میں تحریک اور انقلاب کا مکمل فقدان تھا اور صدیوں سے مندروں میں بند ایک ایسا فن تھاجو مخصوص لوگوں تک محدود تھا۔مسلمانوں کی آمد پر اس فن نے کروٹیں لینا شروع کیں اور اس میں انقلابات کا آغاز ہوا۔
لیکن موجودہ تحقیق اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دوسرے فنون کی طرح موسیقی کا فن کبھی جامد یا مفلوج نہیں رہا ۔ہر دور میں یہ فن متحرک رہا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس فن کی حرکت کبھی سست رہی اور کبھی تیز مگر یہ فن حرکت سے کبھی محروم نہیں رہا۔اس میں انقلابی تبدیلی صدیوں پر محیط رہی اور مسلمانوں کی آمد پر بھی اس فن میں ایسی تبدیلیاں واقع ہوئیں جو انقلابات کی محض چند کڑیاں تھیں۔پچھلے دو ہزار سال میں جو تبدیلیاں اس فن میں وقوع پذیر ہوئیں ان کا مختصر سا خاکہ یہ ہے۔۱۔ قدیم موسیقی میں تین گرام تسلیم کیے جاتے تھے یعنی شٹرج گرام،گندھار گرام اور مدھیم گرام ۔ان گراموں کا ذکر بھرت کے نٹ شاستر کے علاوہ موسیقی کی دیگر کتب بھی موجود ہیں اور ان کتابوں میں ان گراموں کے تعین کرنے کے تفصیلی طریقے موجود ہیں لیکن عملی موسیقی میں صدیوں سے یہ گرام رخصت ہو چکے ہیں۔موسیقی کا دارومدار صرف شٹرج گرام تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے اور کتابوں میں اس کا تذکرہ ایک منجمد تصور تک ہی محدودہو کر رہ گیا ۔آج کل بھی ان کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن عملی طور پر ان کا کچھ اتا پتا نہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ گرام کیوں اور کب معدوم ہوئے اور موسیقی میں یہ بنیادی تبدیلی کیونکر وجودمیں آئی؟
۲۔ موسیقی کی قدیم کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ تھاجب دوسری قوموں کی طرح ہمارا سکیل (Scale)اُوپر سے نیچے کی طرف آتا تھا۔اور سرسب سے اونچاہوتا تھا دوسرا اس سے کم اور تیسرا اس سے بھی کم۔آخری سریا نوٹ سب سے نیچا ہوتا تھا ۔یہی حال برصغیر کی موسیقی میں مور چناؤں کا تھا۔سام وید کا گانا اسی اوپر سے نیچے آنے والے سکیل کا پابند تھا۔لیکن اقتدار زمانہ کے ساتھ ہماری سکیل کی ہیت بالکل تبدیل ہو چکی ہے اور اس نے صعودی صورت ا ختیار کر لی ہے یعنی اب شروع کا سر یا نوٹ سب سے نیچے ہے اور آخری سر سب سے اونچا۔
۳۔ کسی وقت قدیم موسیقی میں سکیل کا پہلا سر شٹرج چوتھائی شروتی پر قائم تھا لیکن اب اسے پہلے شروتی پر قائم کیا گیا ہے۔
۴۔ قدیم موسیقی میں شٹرج اور پنجم یعنی موجودہ پہلااور پانچواں سر “اچل”یعنی قائم یاغیر متحرک نہیں تھے بلکہ سکیل کے باقی سروں کی طرح متحرک تھے اور تیور کومل سروں میں تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ان کا استعمال عام سروں کی طرح تھا۔اور ان کی کوئی امتیازی حیثیت نہیں تھی۔لیکن موجودہ زمانے کی موسیقی میں یہ اس حرکت سے مبرا قائم سر خیال کیے جاتے ہیں اور آج کل یہ غیر متحرک ہیں اور اپنی جگہ پر اٹل ہیں۔
موسیقی کی گرائمر میں ان کو “اچل”خیال کیا جاتا ہے اور سکیل کے دونوں حصوں میں باقی ماندہ سروں کی قیمت کا تعین انھی سروں کو بطور ا استشاری سُرمان کر ہی کیا جاتا ہے۔
۵۔ قدیم موسیقی میں استشاری سُر مدہم (یعنی چوتھا نوٹ)مانا جاتا تھا اسے غیر متبدل سر خیال کیا جاتا تھا اور اس کا سکیل میں وہی منصب تھا جو آج کل کی موسیقی میں شٹرج اور پنجم کو حاصل ہے لیکن اس منصب میں بھی انقلاب آیا۔اور آج کل یہ غیر متحرک نہیں رہا بلکہ اس کی اہمیت کے باوجود جو اسے سپتک کے دونوں حصوں میں باہمی ربط پیدا کرنے میں حاصل ہے۔یہ سر حسبِ ضرورت اونچا نیچا ہوتا رہتا ہے یہ بھی انتہائی اہم اور بنیادی تبدیلی ہے۔
۶۔ قدیم موسیقی میں سکیل چونکہ اوپر سے نیچے آتا تھا اور مدہم یعنی چوتھا سر بہت اہم خیال کیا جاتا تھا۔اس لیے موسیقی میں سموا،یعنی Consonance کا دارو مدار چوتھے سر پر تھا یعنی پہلا اور پھر اس سے چوتھا سر اور پھر چوتھے سے اگلا سر وعلیٰ اہذالقیاس ۔ آج کل کی زبان میں اسے (Cycle of the fourth) کہتے ہیں۔ سکیل کی ہیت تبدیل ہونے سے یعنی اس کے نیچے سے اوپر جانے کی وجہ سے سمواد کا دارومدار پانچویں سر پر مبنی ہوگیا ہے اسے Cycle of the fifth کہتے ہیں۔
۷۔ قدیم موسیقی میں آپس میں متصل سروں کے باہمی تناسب اور پھر ان تناسبات کے اسی قسم کے دوسرے تناسبات کے رشتوں کو اہمیت حاصل تھی۔لیکن یہ تصور پرانی موسیقی کی دیگر روایات کے ساتھ متروک ہو گیا۔اور اب ان کی جگہ سکیل کے پہلے حصے میں ساری سروں کا رشتہ شٹرج اور دوسرے حصے کاپنجم یا مدھم سے جُڑ گیا ہے اور مکمل فرما ں روائی شٹرج کے حصہ میں ہی ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی تبدیلی ہے اور موسیقی میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
۸۔ قدیم موسیقی میں سکیل جب چار سُروں سے بڑھ کر سات پر پہنچ کر مکمل ہوا تو ہمارا بنیادی سکیل مکھاری قرار پایا لیکن از منہ وسطیٰ میں یہ بنیادی سکیل کافی سکیل میں تبدیل ہو گیا۔اور انیسویں صدی میں یہ بھی متروک ہو گیا اور بلاول کا سکیل بنیادی قرار پایا۔آجکل یہی سکیل بحیثیت بنیادی سکیل کے مروج ہے۔
۹۔ قدیم موسیقی میں راگوں کی تقسیم مور چھناؤں کے تصور پر مبنی تھی۔جو قدیم سکیل کی طرح اوپر سے نیچے آتی تھیں۔یہ نظام کسی وقت ہماری موسیقی سے بالکل غائب ہو گیا ۔بارھویں تیرھویں صدی میں ان کی جگہ سمستھیان کا تصور رائج ہوا جو بعد میں متروک ہو گیا اور ان کی جگہ جنک میل کا تصور آیا ۔یہ بھی متروک ہو گیا۔اور آ ج کل ہمارے ہاں ٹھاٹھ کا تصور ہے جو غیر تسلی بخش خیال کیا جاتا ہے۔شمالی ہند کی موسیقی کی روایات میں دس ٹھاٹھوں کا تصور محض سہولت کے پیش نظر اپنایا گیا۔ورنہ ریاضی کی رو سے ہمارے ہاں بہتر72ٹھاٹھ ہونے چاہیں۔یہ بحث کرنا ٹک روایت اور شمالی روایت میں ابھی تک چل رہی ہے۔اور اس پر مختلف اور متضاد خیال آرائیاں ہو رہی ہیں۔
۱۰۔ متوں اور اس کے بعد بانیوں کا تصور متروک ہو چکا ہے ان کے بعد گھرانوں کا تصور پیدا ہوا اور وہ بھی مروج موسیقی میں متزلزل نظر آتا ہے۔
۱۱۔ موسیقی کی مختلف اوضاع (Forms) میں بھی بتدریج تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔تیرھویں صدی سے پہلے کی موسیقی وضع دھرو تھی۔اس صدی کے بعدموسیقی میں پر بندھ کا رواج تھا۔پر بندھ کی جگہ بعد میں دھر پد نے لے لی اور اٹھارویں صدی تک یہ رائج رہا۔جب اس کی جگہ خیال نے لے لی اور دستوری موسیقی میں آج اس کا وہی مقام ہے جو اردو اور فارسی شاعری میں غزل کا ہے۔اس کے علاوہ دستوری موسیقی میں کئی مثالی شاعری کی اوضاع داخل ہوتی چلی گئیں۔ان میں ٹپہ،ٹھمری،کجری،غزل،دادرا،چہتی وگیرہ شامل ہیں اور آج کل کی مروج موسیقی کا ایک اہم حصہ ہیں۔یہ دیسی یعنی مقامی موسیقی کی اوضاع بھی تھیں لیکن ان کو موسیقی کے ضابطہ کے تحت کر دیا گیا اور یہ موسیقی کا حصہ بن گئیں۔
۱۲۔ سکیل اور اوضاع کے علاوہ ہماری تالوں میں بھی بتدریج تبدیلی واقع ہوتی رہی ہے۔گرنتھ کی تالوں کی جگہ ایک تال ،تین تال، جھپ تال اور تلواڑہ قسم کی تالیں آج کل مروّج ہیں۔
ہزاروں سالوں پر محیط موسیقی میں بنیادی تبدیلیوں کا یہ ایک مختصر خاکہ ہے اور ان میں سے ایک سر ایک مبسوط مقالے کا متقاضی ہے۔لیکن ان کے علاوہ بھی کئی تبدیلیاں ایسی ہیں جو آج بھی واقع ہو رہی ہیں مثلاََ کئی راگ متواتر متروک ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ کئی راگ مروّج ہو رہے ہیں۔
مندرجہ بالا تمام سُر انتہائی ٹیکنیکل ہیں اور فن سے بنیادی تعلق رکھتے ہیں۔ان کا کھوج لگانے کے لےئے باریک بینی کے علاوہ موسیقی کی صرف و نحو اور تاریخ سے مکمل واقفیت کی ضرورت ہے۔عام آدمی جو فن کا بنیادی علم نہیں رکھتا اکثر شدید اغلاط کا مرتکب ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں موسیقی پر مرتب کتب اسی قسم کی بوالعجبیوں سے اٹی پڑی ہیں۔سائنٹفک تحقیق سے پہلی اور آج بھی عطائیوں اور موسیقاروں کی تحقیق کا محور یہی امر تھا کہ کون سا راگ کس موسیقار نے ایجاد کیااور کون سا ساز کس فن کار کی اختراع اور کون سا تال کس شخص کی وساطت سے ایجاد یا مروج ہوا۔مندرجہ بالا امور کی روشنی میں یہ انتہائی سطحی اور عامیانہ سوالات ہیں۔ان پر تحقیق کرنے سے نہ موسیقی کی بنیادی ماہیت،نہ اس کے ضابطہ اور نہ ہی ان تبدیلیوں کی تاریخ پر روشنی پڑتی ہے۔اور نہ ہی یہ تحقیق فن کے بارے میں معلومات میں کوئی مفید اضافے کا سبب بنتی ہے۔زیادہ سے زیادہ ہم ایک ارزاں قسم کے جذبہ حب القوم کی تسکین کرسکتے ہیں اور بس ۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم رکاوٹ جو حقیقت کی جستجو کی راہ میں کھڑی ہے وہ یہ امر ہے کہ ہماری موسیقی کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں ہوا۔لے دے کر ہمارے پاس گنتی کی چند سنسکرت کی کتابیں اور کچھ فارسی کی کتابیں ہیں۔ان میں قباحت یہ ہے کہ مسلمان محقق سنسکرت سے نا واقف ہونے کی بناء پر اُن ماخذوں سے ناواقف تھے اور ہندو ،فارسی ماخذوں سے۔بیسویں صدی کے نصف آخر میں ان ماخذوں کے انگریزی تراجم دستیاب ہوئے اور تحقیق اپنی سائنسی بنیادوں کی طرف بڑھنے لگی۔
موجودہ تحقیق کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ہر دور میں ہر تہذیب میں دو قسم کی موسیقی مروج رہی ہی۔ایک وہ جو دستوری موسیقی یا کلاسیکل موسیقی کہلاتی ہے جس میں ایک رکھ رکھاؤ ،سلیقے قرینے کے علاوہ ایک شدید ضابطہ ہوتا ہے اور جس کی پیروی موسیقی کی کسی تصنیف میں حصہ لینے والے فنکار پر لازم ہوتی ہے۔یہ موسیقی کی ارفع ترین سطح ہے اور سنسکرت میں اسے بندھا گانا کہتے ہیں۔
اس ارفع ترین سطح کے نیچے موسیقی تہہ در تہہ سطحوں میں موجود ہے۔اور اس کی انتہائی نچلی سطح عام گفتگو میں غنائی عنصر ہے اس ارفع ترین سطح اور اسفل ترین سطح کے درمیان موسیقی کی مختلف صورتیں نظر آتی ہیں ۔جنہیں عوامی موسیقی،فلمی موسیقی،لوگ سنگیت،دیسی موسیقی، مقامی موسیقی وغیرہ کے نام دیے جا سکتے ہیں۔ایسی موسیقی کے لیے”انبدھا”کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
موسیقی کی ان مختلف سطحوں خصوصاََ دستوری یا کلاسیکی موسیقی اور عوامی موسیقی کے درمیان ہر زمانہ میں اہم رشتہ موجود رہا ہے ۔ دستوری موسیقی کی جڑیں عوامی موسیقی میں ہوتی ہیں ۔دوسرے لفظوں میں لوگ سنگیت کو وہ زمین قرار دے سکتے ہیں ۔جس میں کلاسیکی موسیقی کے تناور اشجار اور چمن زار قائم ہیں ۔تاریخ میں اس رشتے کی نشاندہی ہماری موسیقی کے راگوں کے ناموں سے ظاہر ہوتی ہے۔اور راگوں کے یہ نام اس رشتہ کا اہم ترین ثبوت ہیں۔ان میں سے چند ایک نام یہ ہیں۔
بھیروں، اسیربھیروں، گونڈ، پہاڑی، ٹوڈی، آندھرا، ساکا، گوجری، کھوکھر راک، ابھیری، بلاول، بلاولی اور بھیرویں وغیرہ۔یہ نام صدیوں سے ہماری موسیقی میں چلے آرہے ہیں۔برعظیم میں ویدک عہد سے پہلے کی موسیقی کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں۔ اور جا تھوڑی بہت ہیں بھی تو ان پر انڈس ویلی کلچر کے رسم الخط کے نہ پڑھے جانے کی وجہ سے کوئی روشنی نہیں پڑتی۔
ویدک عہد میں دوطرح کی موسیقی تھی۔اعلی ترین موسیقی کو سام گانا کہتے تھے ۔اس میں رگ وید کی وہ مناجات گائی جاتی تھیں جن کو یکجا کر کے سام وید کا نام دیا گیا تھا۔چونکہ یہ مناجات مذہبی تھیں اس لیے ان کے گانے کے لیے ان کے الفاظ اور موسیقی کی صحت اور انداز کو بڑے مضبوط ضابطہ کے تحت کر دیا گیا تھا۔سوائے چند مخصوص خاندانوں کے جن کا پیشہ فقط یہی تھا ،یعنی کسی اور کو گانے کی اجازت نہیں تھی ان مناجات کوگانا صرف انھی خاندانوں کی اجاداری تھی۔اس وجہ سے سام گانے کو ایک خاص احترام اور تقدس حاصل تھا۔
عوام کے جذبات کے اظہار کے لیے اس زمانے میں ایک ایسی موسیقی تھی جسے سمیتراکا نام دیا گیا اور یہ عوام کے جذبات کا ذریعہ اظہارتھی۔ اس کی اپنی قسمیں تھیں مثلاََ ناراشنسی اور کتھا اگر یہ قربانی کی رسومات پراس موسیقی کی عام اجازت تھی لیکن اس کو وہ تقدس اور احترام حاصل نہیں تھاجو سام گانے کو تھا۔امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ سام گانا بھی اپنی حرمت اور تقدس کھو بیٹھااور اس کی جگہ اس سمتیرا موسیقی نے لے لی ۔چنانچہ اب یہ عوام کی بجائے خواص کی موسیقی بن گئی اور اس تقدس و احترام کی حامل ہو گئی۔
موسیقی کی تاریخ کے اس جائزہ سے چند ایک امور سامنے آتے ہیں۔
۱۔ موسیقی کی تاریخ انقلابات سے کبھی خالی نہیں رہی۔
۲۔ دستوری موسیقی اور عوامی موسیقی کارشتہ واضح ہو جاتا ہے۔
۳۔ موسیقی کی مبادیات میں زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہیں۔
۴۔ یہ امر بھی واضح ہوجاتا ہے کہ منضبط موسیقی کی جڑیں عوامی موسیقی میں ہیں۔
اس تمام بحث کا مقصد صرف یہ واضح کرناہے کہ موسیقی پر تحقیق فی الحال اپنی اوائل عمری میں ہے۔ ابھی تک جو کام بھی ہوا ہے وہ صرف گنتی کے چند موسیقاروں سے چند راگوں اور تالوں کو منسوب کرنا ہے۔اس انفرادی سطح سے یہ تحقیق بھی بلند نہیں ہوئی۔تحقیق کے لئے موسیقی ایک وسیع اور زرخیز میدان مہیا کرتی ہے۔خصوصاََ اس وجہ سے کہ اس علم کے مختلف شعبوں میں ابھی تک مسلمانوں کی دین کا تعین نہیں ہو پایا لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ ہم حقیقت پسندانہ رویہّ اختیار کریں جو ارزاں قسم کے قومی تفاخر سے بلند ہو۔
کلاسیکی موسیقی کے بڑے گھرانوں میں یہاں شام چوراسی، پٹیالہ گھرانہ کے ساتھ مہدی حسن اور نصرت فتح علی خان انفرادی طور پر بڑے گھرانوں کی طرح کلاسیکی موسیقی کی روح بنے رہے۔