اجمل کمال
دیوبند تحریک نے جدیدیت کی لہر میں آ کر خود کو کئی مخمصوں میں گرفتار کر لیا۔ پہلے تو اس سے وابستہ مذہبی تعلیم دینے والوں نے مذہب پر نسبی سجادہ نشینوں کی اجارہ داری (گویا اتھارٹی) کو چیلنج کر کے مذہبی رسوم و قواعد کو(تعویذگنڈوں کے نفع بخش کاروبار سمیت) درگاہ کی مرکزیت سے ہٹا کر مسجد اور مدرسے پر مرکوز کر نے کی کوشش کی، اور اس عمل کا جواز یہ کہہ کر پیش کیا کہ مذہبی علم کا سرچشمہ سلسلہ نسب نہیں بلکہ حصول علم ہے، جس کی روشنی میں سنی مسلمان عوام کی مذہبی ضروریات کی تسکین کا بندوبست درگاہ حضرت نظام الدین اولیا وغیرہ میں نہیں، دارالعلوم دیوبند اور دیگر جدید مدرسوں میں ہے، چنانچہ شائقین کو چاہیے کہ مزار پر چڑھاوے چڑھا کر سجادہ نشین اور اس کے اہل و عیال کی پرورش کرنے کے بجاے مسجد اور مدرسے کو چندہ دے کر جدید دور کے مولوی کو باعزت روزگار فراہم کریں جس کے لیے امتدادِزمانہ کے سبب روایتی مولویوں کی طرح روایتی امراکے درِدولت سے خوشہ چینی ممکن نہیں رہی تھی۔ حصولِ علم کو مذہبی متون کی تعبیر کا سرچشمہ ٹھہرائے جانے کے بعد مولوی چراغ علی، سید امیر علی، مرزا غلام احمد، ابوالکلام آزاد، مولوی نذیر احمد، شبلی، مودودی، اقبال، عنایت اللہ مشرقی، غلام احمد پرویز، ڈاکٹر فضل الرحمن وغیرہ نے اپنے اپنے انداز سے مذہبی متون کی تشریح شروع کر دی، اور ان کی راہ روکنے کے لیے کسی قسم کے روایتی استناد کے عدم و وجود پر اعتراض کی کوئی گنجائش یا اہمیت نہ رہی۔ مولانا مودودی وغیرہ کی مخالفت یہ کہہ کر کی گئی کہ وہ دیوبند جیسے کسی دارالعلوم سے فارغ التحصیل نہیں، لیکن یہ مخالفت کارگر نہ ہوئی کیونکہ جدید مذہبی مدرسوں کو خود کوئی متفق علیہ روایتی استناد حاصل نہ تھا۔ نتیجے میں ایک ہی مذہب کی نت نئی عملی تعبیریں سامنے آئیں، جس کی جدیدیت کے رجحان کے زیراثر توقع کی جا سکتی تھی۔ مثلا شبلی نے اپنی تعبیر کے ذریعے یہ نتیجہ نکالا کہ جن حدودوتعزیرات کو اسلامی سزائیں کہا جاتا ہے وہ دراصل بعثت کے دور کے حجاز کی قبائلی سزائیں تھیں اور جدید دور کی اسلامی ریاست کے لیے انھیں جوں کا توں نافذ کرنا ضروری نہیں۔ اقبال نے اس امر میں شبلی سے اتفاق کیا، اس کے علاوہ جدید دور کی منتخب پارلیمنٹ کو مذہبی معاملات میں اجتہاد کرنے کے اختیار کا حامل قرار دیا، اور سنی مسلمانوں میں عورت کے طلاق لینے یا ناگوار نکاح کو فسخ کرانے کی گنجائش نہ ہونے کے باعث پنجاب کی عورتوں میں تبدیلیِ مذہب کے رجحان پر تشویش ظاہر کی اور اس سنگین مسئلے کا کوئی اجتہادی حل نکالنے کی ضرورت پر زور دیا۔
(اس موخرالذکر مسئلے پر حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب الحیل الناجزہ للحلیل العاجزہ،اشاعت اول )تصنیف کی جس میں، حکیم الامت علامہ اقبال کا نام لیے بغیر، ان لوگوں کی مذمت کی جو پنجاب میں عورتوں کی تبدیلیِ مذہب کو جواز بنا کر اسلامی فقہ میں تبدیلیاں تجویز کر رہے تھے۔ مولانا تھانوی کی اس تصنیف کا مختصر مطالعہ میں نے اپنے ایک مضمون میں پیش کیا جو’’ ترجمہ، تعبیر اور سیاستِ اجتہاد ‘‘کے عنوان سے ادبی کتابی سلسلہ نقاط، فیصل آباد، کے شمارہ 7(عالمی ترجمہ نمبر)میں شائع ہوا۔
خود دارالعلوم دیوبند میں بھی دیوبند تحریک اپنے اصل منصوبے کے مطابق نہ چل سکی جس کی تفصیل بانی دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی نے ابتدا میں ( کے لگ بھگ) یوں بیان کی تھی:
افلاس پر افلاس جو اہل اسلام خصوصا شرفا میں برابر چلا آتا ہے اس کا باعث بجز اس کے کیا ہے کہ اہل اسلام میں علم و ہنر نہ رہا۔ یہ جوہر اہل اسلام خصوصا ان چار قوموں ]سید،شیخ،مغل،پٹھان[ کے حق میں فقط موجب امتیاز دین ہی نہ تھا بلکہ سرمایہ دنیا بھی ان کے حق میں یہی تھا۔ اور قوموں کے اگر اور پیشے تھے تو سادات و شیوخ وغیرہم کا پیشہ یہی علم تھا۔ الغرض جب یہ حال دیکھا تو چند خیرخواہانِ بے غرض نے بنام خدا اس قصبہ دیوبند میں مدرسے کی طرح ڈالی۔
بہرحال، کرنا خدا کا یہ ہوا کہ شرفا ذاتوں کے ہونہار نوجوانوں نے جدید دور میں مذہبی تعلیم سے خاطرخواہ رغبت نہ دکھائی اور مولوی کا پیشہ اختیار کرنے پر جدید انگریزی تعلیم حاصل کر کیسول سروس، (فاروقی صاحب کی طرح) پوسٹل سروس، فوج، پولیس اور دوسرے مقتدر محکموں میں شامل ہونے کو ترجیح دینے لگے۔ دارالعلوم چونکہ اس دور کے دیگر مذہبی مدرسوں کی طرح کلاس روموں اور تنخواہ دار اساتذہ سے لیس جدید درسگاہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور مخیر حضرات سے چندہ پانے کے لیے طالبعلموں کی متواتر موجودگی کا محتاج تھا، اس لیے جلد ہی اسے ان چار اعلی ذاتوں سے باہر کے (اجلاف، بیشتر جلاہے اور قصائی) مسلمانوں کے لیے (جو اپنی بتدریج معاشی ترقی کی بدولت خود کو بالترتیب انصاری اور قریشی کہلوانے لگے تھے اور چندے کا ایک بڑا ذریعہ تھے) اپنے دروازے کھولنے پڑے۔ اس طرح اس نے خود کو ایک اور مخمصے میں پھنسا لیا۔ اس کا اظہار مفتی محمد شفیع عثمانی کے کے تحریرومرتب کردہ نہایت دلچسپ رسالے نہایات الارب فی غایات النسب کے اس اعلان سے ہوتا ہے:
معاملہ انساب میں دوسری بے اعتدالی یہ ہے کہ بعض لوگ اپنا نسب آبائی چھوڑ کر اپنے کو دوسرے انساب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ایک قوم اس میں سرگرم ہے کہ اپنے آپ کو انصاری ثابت کرے اور اپنا نسب انصار سے جا ملائے تودوسری اس کے درپے ہے کہ اپنے کو قریش میں داخل کرلے، تیسری یہ چاہتی ہے کہ راعی بن کرعرب میں داخل ہو جاوے، کوئی اس فکر میں ہے کہ اپنے آپ کو شیخ، صدیقی یا فاروقی یا عثمانی، علوی ظاہر کرے، تو کوئی سید بننے کے درپے ہے۔… بعض نسب بدلنے والوں کا عذر لنگ کہ ہم انصاری بہ حیثیت پیشہ ہیں۔ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ لفظ انصاری جو ایک خاص خاندان کے لیے بولاجاتا ہے، اس معنی میں شہرت پا چکا ہے۔ اس کو اپنا لقب قراردینا عرف عام کے لحاظ سے اسی نسب کا مدعی بننا ہے اور یہ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوچکا ہے کہ غیر نسب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا سخت حرام ہے اور وعید شدید کا موجب ہے…
مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں:
نسبی شرفا کے سب گناہ قیامت کے دن بلاشبہ نسبی شرافت کے سبب معاف کردیے جائیں گے۔
مفتی محمد شفیع کے مرتب کردہ مجموعے میں ایک مضمون سہارنپور کی شیخ برادری کے صدر احمد عثمانی صاحب کا بھی شامل ہے جس کا ایک اقتباس اس لائق ہے کہ یہاں نقل کیا جائے:
اس زمانہ پرفتن میں ہر چہار طرف سے آوازیں بلند ہورہی ہیں ۔ کہیں سے آواز آتی ہے کہ زلزلے سے فلاں آبادی تباہ ہوگئی، کہیں سے صدا بلند ہورہی ہے کہ مشرکین وکفار کی جانب سے فلاں ظلم وتشدد ہورہا ہے۔ واقعی ، یہ ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جو کچھ کہا جارہا ہے ، وہ درست وراست ہے ؛ مگر اس کی طرف بالکل توجہ نہیں کہ اصل سبب ان تمام واقعات کا امورِ شرعیہ کو ترک کردینا ہے۔ ہم جملہ اقوام سے اس کی استدعا نہیں کرسکتے کہ وہ کیا کریں ، مگر اپنی قوم، حضراتِ شیوخ سے ضرور درخواست کریں گے کہ تاوقتے کہ آپ حضرات امور شرعیہ پر عامل نہ ہوں گے، ان مسائل سے نجات نہ ہوگی۔ امور شرعیہ (من جملہ) دیگر امور کے یہ بھی ہیں کہ رذیل اقوام سے خلط ملط بالکل نہ رکھیں، کیونکہ ان کی رذالت کا اثر ضرور واقع ہوگا ۔ تخم تاثیر ، صحبت کا اثرمشہور مقولہ ہے۔ نیزان دیگر اقوام رذیلہ سے معاملات خرید وفروخت وامورِ دینیہ ، تحقیق مسائل وغیرہ مطلقا تعلق نہ رکھیں؛ کیو نکہ یہ جملہ امور علامت قیامت میں سے ہیں کہ اخیر زمانہ میں اقوام شریفہ پستی میں ہوں گی اور اقوام رذیلہ کو ترقی ہوگی ۔ آج دیکھا جاتاہے کہ جولاہوں، تیلیوں، قصائیوں، دھوبیوں، بھٹیاروں، لوہاروں، درزیوں، سناروں، بساطیوں، کلالوں اور راجپوتوں وغیرہ وغیرہ کو ترقی ہورہی ہے ، بلحاظ دنیا ،]وہ[بڑے بڑے عہدے پر قائم ہیں، محلات کھڑے ہیں ،مولوی، مفتی، قاری، صوفی، شاہ صاحب، بابو،منسٹر وغیرہ کہلاتے ہیں، مگریہ خیال نہیں کرتے ہیں کہ یہ باتیں ہمارے اندر کیوں آرہی ہیں؟ بس وہی قرب قیامت کی نشانی ہے؛ لیکن یہ جاہل لوگ خوش ہورہے ہیں، جہنم کو بھول رہے ہیں۔ صاحبو! جب تک علمِ دین حضراتِ شیوخ میں رہا اور اقوامِ دیگر تابع رہیں، کوئی آفت نہیں آئی، مگر جب سے قصائی، نائی، تیلی، لوہار، بساطی، کلال اور جولاہا وغیرہ مولوی، مدرس، قاری، صوفی اور حافظ وغیرہ ہونے لگے، مصائب کا دور دورہ بھی آنے لگا، کیونکہ یہ لوگ مطلقا عقل سے کورے ہوتے ہیں اور بوجہ نادانی عقل کے اندھے ہوتے ہیں؛ چنانچہ بعض احادیث سے ثابت ہورہا ہے کہ دجال پر ایمان لانے والے اکثر جولاہے ہوں گے۔ (مندرجہ بالا حوالے ڈاکٹر مسعودعالم فلاحی کی کتاب برصغیر میں ذات پات اور مسلمان سے لیے گئے ہیں، جن کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔)
مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے پاکستان ہجرت کے بعد مفتی اعظم پاکستان کا لقب اختیار کر لیا تھا، لیکن اسے استناد حاصل نہ ہوا، کیونکہ سرکاری یا مذہبی طور پر ایسا کوئی رسمی عہدہ (تاحال) پاکستان میں موجود نہیں، اور نہ قبول عام ہی نصیب ہوا کیونکہ ایک اقلیتی فرقے کی سرکردگی سنی اکثریت اور دیگر اقلیتوں کو منظور نہ ہوئی۔ ان کے ایک صاحبزادے مولانا محمد تقی عثمانی جنرل ضیا کی فوجی آمریت میں قائم کردہ شریعت کورٹ کے جج کے عہدے تک پہنچے اور جسٹس کا لقب پایا، جبکہ دوسرے صاحبزادے مولانا محمد رفیع عثمانی کو ورثے میں دارالعلوم کورنگی کی سربراہی اور غالبامفتی اعظم پاکستان کا لقب بھی حاصل ہوا، اگرچہ وہ انکسارا موخرالذکر کا استعمال کم ہی کرتے ہیں۔ مولانا رفیع عثمانی ہی کو فاروقی صاحب (اور دیگر معتقدین) کے مرشد محمد حسن عسکری کی ارادت حاصل ہوئی اور انھی کی فرمائش پرعسکری نے مذکورہ بالا شاہکار جدیدیت عرف مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ دارالعلوم کی درسی ضروریات کے پیش نظر تحریر کیا، تاہم چنددرچند وجوہ سے مولانا نے اسے درس میں شامل کرنا پسند نہ فرمایا۔
چونکہ روایتی استناد (اتھارٹی) سے انکار کا رویہ خود دیوبند تحریک ہی کا اختیارکردہ تھا، اس کے نتیجے میں اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خود اپنی موثر اتھارٹی قائم نہ کر پائی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ درگاہوں پر مرکوز مذہبی زندگی برصغیر کی اکثریتی مسلمان کمیونٹی کے سماجی تانے بانے کا روایتی طور پر حصہ رہی تھی (اور اب تک ہے؛ یہاں تک کہ پاکستان میں ان کی اس مضبوط مذہبی وابستگی سے جھنجھلا کر دیوبندی اور اہل حدیث مسلح گروہوں نے داتا گنج بخش، عبداللہ شاہ غازی اور دیگرکئی بزرگوں کے مزاروں پر ہلاکت خیزبارودی دھماکے بھی کیے ہیں) علاوہ ازیں، برصغیر کی سنی اکثریت صدیوں سے شیعیت کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے جبکہ یہ انتہاپسند گروہ شیعوں کی تکفیر کرتے اور انھیں واجب القتل ٹھہراتے ہیں۔ (پاکستان میں، بھارت اور بنگلہ دیش کے برعکس، اس انتہاپسندی کو عملی شکل دینے کے مواقع بھی دستیاب رہے ہیں، اور ان مواقع کا متواتر اور منظم استعمال بھی کیا جاتا ہے۔) جب تک نوآبادیاتی دور میں قائم کردہ مخیر حضرات کے چندوں کا جدید سلسلہ مدرسے اور اس کے متعلقین کے کم و بیش واحد معاشی وسیلے کے طور پر قائم رہا، اس کی اپنے مسلک کے مذہبی عالموں اور کارکنوں پربرائے نام اتھارٹی موجود رہی۔ بعد کے برسوں میں، خصوصا سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد کے دنوں سے، فنڈز کے ذرائع تعداد اور حجم میں بیپناہ بڑھ گئے، اور جہاد کی ریل پیل کے باعث دیوبندی مسلح گروہوں کی بھی ریل پیل ہو گئی۔ نتیجہ یہ کہ آج دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی مختلف جماعتیں اورجہادی گروہ (طالبان کے متعدد دھڑوں سمیت) کسی رسمی مسلکی اتھارٹی کے تابع فرمان نہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ وسط میں دیکھنے میں آیا جب مشہور لال مسجد پر دوغازی بھائیوں اور ان کے مسلح جتھوں کے قبضے کے دوران مولانا عثمانی کو سرکاری اہتمام سے اسلام آباد لے جایا گیا تاکہ وہ اپنے ہم مسلک غازیوں کو مسجد سے قبضہ اور اتشیں اسلحہ کے ذخائر ختم کرنے پر آمادہ کر سکیں۔ ظاہر ہے، مولانا کی مداخلت بیسود رہی اور آخرکار لال مسجد پر قابض مسلح گروہ کے خلاف فوجی اقدام کیا گیا۔
(طویل مضمون ’’فاروقی صاحب کے لیے منٹو صاحب ‘‘ کا ایک حصہ)
اجمل کمال صاحب ! آداب !
لگتا ہے کہ مضمون لکهنے میں کافی محنت صرف ہوئی ہو گی ، سو آپ کا بے حد شکریہ. مگر یہ دیکهیے کہ مضمون کے عنوان اور نفس مضمون میں کتنی مطابقت ہے ؟
یہ مضمون ایک طویل مضمون کا ایک حصہ ہے اس لیے عنوان کے ساتھ نہ پڑھا جائے
احمد تارث صاحب، عنوان بےمعنی ہے اور میرا دیا ہوا نہیں۔ لیکن مضمون کے اس حصے میں جو کچھ کہا گیا ہے، کچھ اس کے بارے میں بھی ارشاد فرامائیں تو بہت اچھا ہو۔