بر صغیر کے عظیم محسن، سر گنگارام

Sir Gangaram سر گنگا رام
سر گنگا رام

برصغیر کے ایک عظیم انجینئر اور محسن سر گنگارام

از، گوہر قیوم

قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے 62 برسوں کے دوران پنجاب کے حکم رانوں نے لاہور میں جو ترقیاتی کام کروائے وہ سر گنگا رام کے کیے گئے رفاحی کاموں کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہیں۔

1851ء میں پیدا ہونے والے گنگا رام نے 22 سال کی عمر میں انجینئرنگ کی ڈگری گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی 1873ء میں لاہور کے اسسٹنٹ انجینئر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔

مال روڈ پر نیشنل کالج آف آرٹس، عجائب گھر، گورنمنٹ کالج، جی پی او، لاہور کیتھڈرل، ہائی کورٹ اور ایچی سن کالج سمیت کئی تاریخی عمارتوں کی ڈیزائنگ، پلاننگ اور تعمیر سر گنگا رام کے ہاتھوں انجام پائی۔ اس وقت سر گنگا رام ایکسئین آف سٹی تھے۔

بلا شبہ اس عہد کو سر گنگا رام کا دور کہا جا سکتا ہے اس کے علاوہ انھوں نے پٹھان کوٹ اور امرتسر کے درمیان ریلوے ٹریک بچھایا۔

میو ہسپتال لاہور میں پہلا جدید سینی ٹیشن سسٹم اور واٹر ورکس کا نظام قائم کیا۔ اس کے علاوہ لاہور میں سب سے پہلی جدید بستی ماڈل ٹاؤن بنائی۔

ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد سر گنگا رام کو مہا راجہ پٹیالہ شہر کی تزئین و تعمیر پر مامور کیا۔ پٹیالہ میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد وہ واپس لاہور آ گئے اور پھر فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ گنگا رام ہسپتال، لیڈی میکیگن گرلز ہائی سکول اور راوی ہاؤس فار ڈس ایبلڈ قائم کیے۔

ہندو سٹوڈنٹس کیریئر سوسائٹی کے علاوہ ہندو سکھ خواتین کے لیے بیوہ گھر اور سکول تعمیر کیا۔ ان تمام خیراتی اداروں کا خرچہ چلانے کے لیے مال روڈ پر گنگارام ٹرسٹ بلڈنگ بنائی۔

ہیلے کالج کی تعمیر کے لیے بھی بیش تر رقم ادا کی۔ ملازمت سے فراغت کے بعد گنگارام نے فلاحی کاموں کا سلسہ جاری رکھا۔ ضلع لائل پور (فیصل آباد) 5 سو ایکڑ زمین خرید کر ایک گاؤں گنگا پور آباد کیا۔


متعلقہ تحریریں:

آئیڈیا فار جسٹس، اگر  سَر گنگا رام جنت نہیں جاتے تو…؟  از، پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد، اخذ و ترجمہ از، عرفانہ یاسر

غیر مسلم پاکستانی اور قومی خزانے سے مندر بنانے کا مسئلہ  از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

آؤ سب لنگڑے گنگا جمنا نشانوں پر چڑھ دوڑیں    از، فاروق احمد


اس گاؤں کی تمام تر بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 2 مربعے اراضی پر مشتمل ایک باغ بنوایا۔ آج کل یہ باغ سرکاری تحویل میں ہے اور اس کا سالانہ ٹھیکہ 10 لاکھ سے زائد ہے۔

اس گاؤں کے رہائشی کاشت کار سر گنگارام کی زمین کی آمدن میں شراکت کی بنیاد پر حصے دار تھے۔ اس کے بعد سر گنگا رام نے منٹگمری (ساہی وال) کے تقریباً 50 ایکڑ بے آباد اور بنجر زمین کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے سینکڑوں کلومیٹر لمبے نظام آب پاشی کی تعمیر

(مصنف :گوہر قیوم)
(مصنف :گوہر قیوم)

کروائی۔ پانی کی فراہمی کے لیے بجلی سے چلنے والے پمپ لگائے گئے۔ اس وسیع نظام کو چلانے کے لیے 1925ء میں اپنی جیب سے رینالہ خورد کے قریب رینالہ ہائیڈل پاور سٹیشن تعمیر کیا اور صرف 3 سال کے عرصہ میں اس بنجر اور  بے آباد صحرا کو گلزار میں تبدیل کر دیا۔

سر گنگا رام کا ایک اور حیران کن اور دنیا بھر میں منفرد کارنامہ گھوڑا ٹرین آغاز تھا۔ 1898ء میں انھوں نے گنگا پور گاؤں جو فیصل آباد سے 60 کلومیٹر اور لاہور سے 100 کلومیڑ کے فاصلے پر تھا۔ اپنی زمین کے لیے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک موٹر منگوائی جو بہت وزنی تھی۔ اسے گنگا پور لے کر جانا بہت مشکل تھا۔

گنگا پور سے 3 میل کے فاصلے پر واقع بچیانہ ریل وے سٹیشن تک مال گاڑی میں منگوائی اور اسے گنگا پور تک لانے کے لیے تین میل کا ریلوے ٹریک بنوایا اور اس پر ریل کے پہیوں والی ایک لکڑی کی ٹرالی بنوائی جسے گھوڑا کھینچتا تھا۔

موٹر کو گنگا پور تک لانے کے بعد گھوڑا ٹرین گنگاپور کے باشندوں کو بچیانہ ریلوے سٹیشن تک لانے اور لے جانے کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ 1898 ؁ء میں آنے والی پانی کی یہ موٹر اور گھوڑا ٹرین ایک صدی گزرنے کے بعد آج بھی رواں دواں ہیں۔

سر گنگا رام نے اپنی زندگی میں جو فلاحی کام کیے ان کی وجہ سے ان کا نام صدیوں تک زندہ رہے گا اور خلق خدا ہمیشہ ان سے فیض یاب ہو تی رہے گی۔

انسانیت کی خاطر کیے گئے فلاحی کام کسی بھی مذہب کی میراث نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کی حدود و قیود ہوتی ہیں اور ہر مذہب کے افراد اپنے مقدس پیشوں میں اپنے کام سے ہوتے ہیں مثلاً ایک رویات کے مطابق قائد اعظم کو آخری عمر میں جو سنگین بیماری لاحق ہو چکی تھی وہ صرف ان کے ہندو معالج ہی جانتے تھے کہ وہ مزید کتنا عرصہ زندہ رہیں گے اور قائد اعظم کی درخواست پر انھوں نے اسے ان کی رحلت تک راز ہی رکھا۔ اگر وہ اپنے پیشے سے مخلص نہ ہوتے صرف ہندو ذہنیت رکھ کر سوچتے اور وقت سے پہلے بیمار کا راز افشاں ہو جاتا تو انگریز اور گاندھی پاکستان کے مطالبے اور قیام کو لٹکا سکتے تھے۔ اس لیے ان ہندو ڈاکٹر کو ایک طرح سے پاکستان کا محسن کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سر گنگا رام نے جو فلاحی کام کیے وہ بَہ طور ہندو نہیں بل کہ ایک اعلیٰ ترین انسان کی حیثیت سے کیے۔

کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی ساری عمر کی کمائی سر گنگارام ہسپتال کی تعمیر پر لگا دی اور یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جب ۱۹۴۷ ء میں ہندوستان تقسیم ہوا تو مال روڈ پر اُن کا مجسمہ نصب تھا جسے جذباتی نو جوانوں نے توڑ ڈالا تو مظاہرہ کے دوران لاٹھی چارج میں زخمی ہونے والوں کی گنگارام ہسپتال سے ہی مرہم پٹی کی گئی۔

اسی طرح چند سال قبل بابری مسجد کے واقعے کے بعد راوی روڈ کے علاقے میں اُن کی سمادھی کو بھی توڑ دیا گیا جسے بعد ازاں حکومتی اداروں نے چار دیواری کر کے تعمیر تو کر دیا لیکن اس کئی کنال زمین پر واقع سمادھی کے کسی بھی حصے پر سر گنگا رام یا عمارت کے قائم ہونے کا ذکر تک نہیں ہے نہ ہی وہاں کوئی کتبہ وغیرہ لگایا گیا ہے۔

ایک کمرے میں ایک سپاٹ چکور ’’تھڑا‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ اندر اسی کمرے میں ایک ٹوٹی پھوٹی چارپائی پڑی ہے کمرے کے اوپر گنبد بنایا گیا ہے اس کے چاروں طرف پلاٹ خالی ہے جہاں آبادی کے بچے کھیلتے ہیں اور بزرگ وہاں بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے نظر آتے ہیں۔

دائیں طرف ایک کونے میں بہادر علی شاہ نامی بزرگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ ۱۹۶۸ء سے رہائش پذیر ہیں۔ وہ ہندو اوقاف کے محکمے کے ملازم نہیں ہیں۔ اخباری انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اوقاف کے ایک آفیسر خرم کو اپنی نوکری کے لیے درخواست دی ہوئی ہے اور امید ہے کہ اُنھیں جلد ہی نوکری مل جائے گی۔

اُنھوں نے بتایا کہ اوقاف کی طرف سے عقیل نامی ایک چوکی داع بھی مقرر ہے جو صبح آتے ہیں اور دوپہر کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ اکثر یہاں ہندووں اور انگریزوں کے وفود آتے ہیں اور بات چیت کر کے اور تصاویر اُتار کے لے جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ گنگا رام سے نفرت کیوں؟ اُن کا نام لینا ہی ممنوع کیوں ہے؟ سر گنگارام تو انسان دوست فلاحی کارکن تھے، اُنھوں نے کسی مذہب کا پرچار نہیں کیا اور نہ ہی کسی شدت پسند تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔

ہم نے مذہبی انتہا پسندوں کو تو اپنا قومی ہیرو بنا رکھا ہے مگر انسان دوست رہنماؤں اور کارکنوں کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا ہے۔