(پروفیسر شہباز علی)
قیام پاکستان سے قبل خاتون گائکوں میں سردار بائی، انور بائی لوہاری منڈی والی ،عیدن بائی اکھیاں والی، عنایت بائی ڈھیرو والی، ہیرا بائی بڑودیکر، زہرہ بائی آگرے والی، رسولن بائی، اختری بائی فیض آبادی اور مختار بیگم امرت سری بہت مشہور ہوئیں۔ مختار بیگم نے ٹھمری، دادرا اور غزل گائکی میں بہت نام پیدا کیا۔
کلاسیکل میوزک ریسرچ سیل ریڈیو پاکستان لاہور کے مطابق مختار بیگم ۱۹۲۳ء کو امرت سر میں پیدا ہوئیں۔ میرے نزدیک مختار بیگم کی پیدائش کا یہ سنہ درست نہیں اور اس کی دو وجوہات ہیں: پہلی وجہ یہ ہے کہ ملکہ ترنم نور جہاں مختار بیگم کو اپنا آئیڈیل قرار دیا کرتی تھیں اور یقیناًمختار بیگم نور جہاں سے کافی سینیرمغنیہ تھیں۔ ملکۂ ترنم نور جہاں کی پیدائش میونسپل کمیٹی قصور کے پیدائش رجسٹر کے مطابق ۲۱ ؍ستمبر ۱۹۲۶ء ہے۔ اگر مختار بیگم کی پیدائش کا مذکورہ بالا سنہ درست مان لیا جائے تو مختار بیگم ملکہ ترنم نور جہاں سے عمر میں صرف تین برس بڑی معلوم ہوتی ہیں۔ تین برس کا فرق کوئی خاص فرق نہیں ہوتا اور عمر کا اتنا تفاوت رکھنے والے فن کار عموماً ایک دوسرے کے ہم عصر ہوا کرتے ہیں سینیرنہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض روایات کی روشنی میں مختار بیگم نے آغا حشر کاشمیری سے شادی کر لی تھی۔ آغا حشر کاشمیری نے ۱۹۳۵ء میں لاہور میں وفات پائی اور لاہور ہی میں دفن ہوئے۔ اگر مختار بیگم کی پیدائش کاسنہ ۱۹۲۳ء درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کے مطابق آغا حشر کاشمیری کے انتقال کے وقت مختار بیگم کی عمر صرف بارہ برس بنتی ہے، تو کیا صرف بارہ برس کی عمر میں مختار بیگم آغا حشر کاشمیری کی منکوحہ بنی تھیں؟ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے۔
لندن میں مقیم کلاسیکی موسیقی کے رسیا سردار بلبیر سنگھ کنول اپنے ایک مضمون ’’امرت سر کی ایک مشہور مغنیہ —-مختار بیگم داری‘‘ میں امرت سر کے موسیقی سے مزیّن ماحول اور مختار بیگم کی پیدائش کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اس شہر کا ماحول کچھ ایسا تھا جیسے کلاسیکی سنگیت کی شیرینی ، چہکار اور مہکار اس کے تمام گلی کوچوں میں پھیل گئی ہو، کچھ ایسے ہی ماحول میں مختار بیگم کا جنم اسی شہر میں ۱۹۱۱ء کو ہوا۔ کٹڑا گھأیاں جو کبھی سکھ سرداروں نے بسایا تھا، اونچے درجے کی گانے والیوں کا گڑھ تھا۔ اس کے علاوہ رام باغ کے اندرونی دروازے میں (جسے کٹڑا بھگیاں والا کہا جاتا تھا) بھی کچھ طوائفیں رہا کرتی تھیں مگر ان کا شمار ذرا نچلے درجے کی نرتکیوں میں ہوتا تھا۔ ان دونوں آبادیوں میں مختار بیگم کے خاندان کی کافی جائداد تھی۔ اُن دِنوں امرت سر شہر میں دو نرتکیوں کا بڑا شہرہ تھا۔ ایک تھی مختار بیگم اور دوسری تھی مشہور زمانہ اداکارہ نرگس کی ماں جدّن بائی‘‘۔ ۱
ملکہ ترنم نور جہاں کے سابق شوہر سید شوکت حسین رضوی کے مطابق مختار بیگم آغا حشر کاشمیری سے شادی کا دعویٰ رکھتی تھیں وہ بیان کرتے ہیں:
’’ مختار بیگم کا دعویٰ تھا کہ اس نے آغا صاحب سے شادی کی تھی، میں کیا کَہ سکتا ہوں۔ میں ان کے نکاح میں موجود تو تھا نہیں۔ جب میں نے میڈن تھیٹر چھوڑ دیا تھا اور ایسٹ انڈیا فلم کمپنی چلا گیا تھا۔ وہاں مختار بیگم سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ دیو کی بوس کی پکچر میں جوگن بنی ہوئی تھی۔ اس کے بعد برابر ملاقات ہوتی رہی۔ بڑی عزت سے بات کرتی تھی۔ بڑی با تہذیب عورت تھی‘‘۔ ۲
مختار بیگم نے آٹھ برس کی عمر میں اُستاد عاشق علی خاں پٹیالہ والے کی شاگردی کی لیکن کچھ عرصہ بعد اُستاد عاشق علی خاں صاحب کے مشورے کے مطابق مختار بیگم کو ان کے ماموں اُستاد اللہ دیا خاں مہربان کے سپرد کر دیا گیا۔ اُستاد اللہ دیا خاں مہربان نے مختار بیگم کو اپنے جانشیں اُستاد فتو خاں کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں اُستادوں کے بعد ایک بار پھر اُستاد عاشق علی خاں مختار بیگم کی تعلیم پر مامور ہوئے۔ مختار بیگم کے والد غلام محمد نے مختار بیگم کو اظہارِ جذبات کا فن سکھانے کی غرض سے دو بھائیوں پنڈت شمبھو مہاراج اور پنڈت لچھو مہاراج کو امرت سر بُلایا۔ یہ دونوں بھائی مختار بیگم کو ایک سال تک اظہارِ جذبات کے فن کی تعلیم دیتے رہے۔
مختار بیگم کے متعلق کلاسیکل میوزک ریسرچ سیل ریڈیو پاکستان لاہور کے سابق ایڈوائزر ایم۔ اے شیخ صاحب لکھتے ہیں:
’’غزل گائکی میں انھوں نے بہت کمال حاصل کیا۔ غزل کو ایک راگ میں ملبوس کر کے اس کو ٹھمری انگ میں پیش کیا۔ غزل کے جذبات کو سُروں کے رچاؤ سے ادا کرنا انھی کا حصہ تھا۔ ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ مختار بیگم سے کوئٹہ میں ملاقات ہوئی جہاں وہ ایک نمائش کے سلسلے میں اُستاد عاشق علی خاں کے ہمراہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے آئی ہوئی تھیں۔ وہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ویو ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ شام کو ملاقات ہوئی۔ اُستاد عاشق علی خاں صاحب بڑے تپاک سے ملے۔ پوریا کا خیال سکھا رہے تھے لیکن ایک پلٹا بار بار کوشش کے باوجود مکمل نہیں ہو رہا تھا۔ جس کی وجہ سے ناراض تھے۔ فریدہ خانم بھی اس وقت موجود تھیں ان کی عمر اس وقت تقریباً نو دس برس تھی۔ اس کے بعد ان کا گانا آل پاکستان میوزک کانفرنس لاہور اور ریڈیو پاکستان لاہور کے سالانہ جشنِ موسیقی میں کئی بار سنا ۔۔۔۔۔۔ ان کے متعلق ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ ریاست حیدر آباد گئیں تو نظام میر عثمان علی خاں نے دربار میں ان کو اپنی بیٹیوں شہزادی نیلوفر اور شہزادی دُرشہوار کے برابرکرسی دی جس پر اعتراض کیا گیا۔ نظام نے اس اعتراض کے جواب میں کہا کہ یہ کرسی مختار بیگم کو نہیں بلکہ ان کے فن کو پیش کی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ ایک اور واقعہ یوں ہے کہ مہاراجا الور کے دربار میں ننگے سر ناچنے یا گانے کی اجازت نہیں تھی لیکن گانے کے دوران مختار بیگم کے سر سے ساڑھی کا پلو ڈھلک گیا۔ کسی نے اعتراض کیا تو مہاراجا نے کہا کہ یہ مغنیہ دربار کے آداب کی قید سے آزاد ہے۔ میں اگر صاحب تخت و تاج ہوں تو یہ بھی اپنے فن کی ملکہ ہے‘‘۔3
برصغیر میں فلم انڈسٹری کے قیام سے قبل کا زمانہ تھیٹریکل کمپنیوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ اُستاد جھنڈے خاں صاحب اور ماسٹر غلام حیدر صاحب جیسے عظیم موسیقار فلمی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے تھیٹر کے ساتھ وابستہ رہے۔ تھیٹر کے حوالے سے آغا حشر کاشمیری کا نام بھی بہت اہم ہے۔ تھیٹر کے لیے ان کے لکھے گئے ڈرامے ’’آنکھ کا نشہ‘‘، ’’تُرکی حور‘‘ ، ’’یہودی کی لڑکی‘‘ اور ’’رستم و سہراب‘‘ بہت مقبول ہوئے اور اُنھیں ’’انڈین شیکسپیئر‘‘ کا لقب دیا گیا۔
آغا حشر کاشمیری جب میڈن تھیٹریکل کمپنی میں ملازم تھے تو یہ کمپنی ایک بار امرت سر آئی۔ آغا حشر نے مختار بیگم کا گانا سُن کر انھیں کلکتہ آنے کی دعوت دی۔ اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے مختار بیگم نے امرت سر سے کلکتہ کی راہ لی اور آغا حشر کی تھیٹریکل کمپنی سے وابستہ ہو گئیں۔ تھیٹر سے وابستگی کے بعد مختار بیگم کا نام زباں زدِ خاص و عام ہو گیا اور انھیں ملک گیر شہرت نصیب ہوئی۔
مختار بیگم نے آغا حشر کاشمیری کی تھیٹریکل کمپنی میں بہت سا وقت گزارا۔ ۱۹۳۵ء میں آغا حشر کی وفات کے بعد وہ بمبئی چلی گئیں جہاں انھوں نے مختار فلم کمپنی کے نام سے اپنا فلمی ادارہ بنایا لیکن یہ ادارہ کام یاب نہ ہو سکا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاکستان آ گئیں اور راول پنڈی میں سکونت پذیر ہوئیں۔ راول پنڈی میں مختار بیگم نے سید قمر الزّماں سے شادی کر لی تھی۔
لطف اللہ خاں کی مختار بیگم سے کراچی میں اکثر و بیشتر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ وہ اپنی انھیں ملاقاتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قارئین نے مختار بیگم کا نام ضرور سُنا ہوگا۔ یہ مغنیہ پورے برصغیر میں اپنے وقت کی مشہور مغنیہ تھیں۔نام ور ڈراما نگار آغا حشر سے ان کی وابستگی بھی بہت شہرت رکھتی ہے۔آغا صاحب نے مختار بیگم کے لیے بطور خاص کئی ڈرامے لکھے جن میں سے تین فلمائے بھی گئے۔ میرے سینما پمفلٹ کے ذخیرے میں ’’ہندوستان‘‘، ’’بلوا منگل‘‘ اور ’’عورت کا پیار‘‘ کی رنگین تصویریں موجود ہیں۔ فتح علی خاں کے کہنے کے مطابق مختار بیگم نے کسی سے یہ کہا تھا کہ اس جوڑی کی لَے کاری کمزور ہے۔ دراصل اس عیب جوئی کا کوئی موقع نہ تھا کیونکہ لَے کاری یا تال کی باریکیاں مختار بیگم کے دائرہ عمل سے باہر تھیں۔ یہ بات میں اس لیے یقین سے کَہ رہا ہوں کہ مرحومہ سے برسوں میری ملاقاتیں رہی ہیں۔ اکثر و بیش تر ان کا ہمارے ہاں آنا جانا رہتا تھا۔ میں اور میری اہلیہ مہینے،دوسرے مہینے ان کے گھر بھی جایا کرتے تھے۔ مختار بیگم کے شوہر قمر الزّماں کھانا پکانے میں مہارت رکھتے تھے۔ پی۔ آئی۔ اے کچن کے انچارج تھے۔ گھر میں بھی بڑے مزے دار کھانے پکاتے تھے۔ جس دن کوئی اچھی ڈش بنائی جاتی، مختار بیگم بہ صد اصرار ہمیں فون کر کے بلواتیں اور بہت خاطر مدارات کرتی تھیں۔ لہٰذا میں وثوق سے کَہ سکتا ہوں کہ انھوں نے اپنے دائرہ کار سے ہٹ کر یعنی ٹھمری، دادرا اور غزل کے حلقوں سے نکل کر یہ اعتراض نہ کیا ہوگا۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ امانت اور فتح کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ یہ الزام غلط ثابت کر سکیں۔ چنانچہ جلد ہی یہ موقع میسر آ گیا‘‘۔ ۴
سراج نظامی مختار بیگم کے متعلق کچھ یوں رقم طراز ہیں:
’’آپ کی پیدائش امرت سر میں ہوئی لیکن قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور میں مقیم ہو گئیں۔ آپ کلکتہ میں رہیں اور آغا حشر کاشمیری مرحوم کی صحبت سے فیض یاب ہوئیں۔ اُستادی موسیقی آپ نے مشہور موسیقار عاشق علی خاں پٹیالوی سے حاصل کی اور پنجاب کی مشہور گانے والیوں میں شمار ہونے لگیں۔ ہندوستان کی وہ کون سی ریاست ہے جس میں آپ نے اپنے فن کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔ استادی موسیقی اور ٹھمری گانے میں آپ اتنی ماہر ہیں کہ اب خود بھی اس کی تعلیم دیتی ہیں۔ آپ کی مشہور شاگردوں میں نسیم بیگم امرت سری ہیں‘‘۔ ۵
ملکۂ ترنم نور جہاں مختار بیگم کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی تھیں۔ انھوں نے گانے کی ابتداء اختری بائی فیض آبادی اور مختار بیگم کی غزلیں سُن کر کی۔ بچپن میں وہ انھی کے انداز میں گانے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے دل میں مختار بیگم سے ملنے کی خواہش مچلتی رہتی تھی۔ ان کی یہ خواہش اس وقت پوری ہوئی جب ۱۹۳۲ء کے لگ بھگ وہ فلموں میں گلوکاری کے لیے کلکتہ پہنچیں۔ فلمی صحافی عاشق چودھری ملکۂ ترنم نور جہاں پر لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ملکۂ ترنم نے بتایا کہ میں نے ہمیشہ اپنے اساتذہ اور سینیرز کا احترام کیا ہے۔ مختار بیگم کی غزلیں سننے اور گانے کی وجہ سے بچپن ہی سے میں ان کی زبردست پرستار تھی۔ میرا یہ خواب ہوا کرتا تھا کہ میں کبھی ان سے ملوں گی۔ میرا یہ خواب اس وقت پورا ہوا جب میں گلوکاری اور فلموں میں اداکاری کے لیے کلکتہ گئی۔ وہاں مختار بیگم سے ملاقات کے دوران مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے مجھے دنیا بھر کی دولت مل گئی ہو۔ مختار بیگم کو پہلی بار میں نے کلکتہ میں ایک سٹیج پر گاتے دیکھا۔ گلوکاری کرتے وقت وہ عام طور پر سفید ساڑھی کے ساتھ سلور کلر کے جوتے پہنا کرتی تھیں۔ یہاں یہ پہلو قابل ذکر ہے کہ میں نے ساڑھی پہننے کا انداز مختار بیگم سے سیکھا۔ ان کی پیروی میں، مَیں آج بھی زیادہ تر ساڑھی ہی زیب تن کرتی ہوں۔ میں جب بھی مختار بیگم سے ملتی تو انھیں کہتی کہ بی بی جی میں آپ کو آپ کا گایا ہوا گانا سناؤں، میرا شوق دیکھ کر وہ مجھے کہتیں کہ سناؤ تو میں سٹیج پر ان کا پیش کیا ہوا گانا اسی انداز اور انگ میں پورے فنی رچاؤکے ساتھ سُنا دیتی۔ گانا سُن کر مختار بیگم مجھے پیار کرتے ہوئے کہتیں کہ برسوں کی ریاضت اور محنت کے بعد ہم نے گانے کا یہ انداز سیکھا ہے۔ تم اتنی چھوٹی سی عمر میں ایسا گا رہی ہو۔ مجھے ڈر ہے کہ تمھیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ سٹیج پر گاتے ہوئے مختار بیگم کا یہ انداز ہوا کرتا تھا کہ وہ گانے کے دوران دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے اپنے جوتے اُتار دیا کرتی تھیں۔ میں ان کے سلور کلر کے جوتے اٹھا کر احتراماً اپنے سینے سے لگا کر بیک سٹیج پر لے آیا کرتی تھی۔ میرا تو ایمان ہے کہ جن استادوں کے جوتے اٹھائے ہوں، ان کی عمر بھر عزت کرو۔ چنانچہ میں نے نہ صرف مختار بیگم بلکہ اپنے تمام سینیرز کا احترام کیا ہے۔ لیکن بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج یہ روایت ختم ہو چکی ہے اور اب اُستادوں کا احترام نہیں کیا جاتا۔ جب میں مختار بیگم کے جوتے سینے سے لگائے رکھتی تو وہ مجھے دُعائیں دیتیں۔ عام طور پر ان کی دُعا ہوا کرتی تھی کہ ’’نور جہاں تم جیسا کوئی نہ ہو‘‘۔ ایک مرتبہ میرے والد محترم نے مختار بیگم سے کہا کہ دُعا کرو کہ میری بیٹی بھی تمھاری طرح گائے۔ اس کے جواب میں مختار بیگم نے میرے والد سے کہا کہ دیکھ لینا جب نُوری گائے گی، اُس وقت کوئی دوسرا نہیں گا سکے گا۔ ایسا ہی ہوا‘‘۔ ۶
یہ تو ملکۂ ترنم نور جہاں کا بیان تھا کہ انھیں مختار بیگم سے حد درجہ عقیدت تھی۔ لیکن ملکۂ ترنم کے سابق شوہر سید شوکت حسین رضوی کے بیان کے مطابق نور جہاں اپنے مقابلے میں کسی دوسری مغنیہ کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ وہ مختار بیگم کی چھوٹی بہن فریدہ خانم کے متعلق نور جہاں کا حاسدانہ اور مخالفانہ طرزِ عمل کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’حالت یہ ہے کہ میوزک ڈائریکٹروں کو ساتھ ملایا ہوا ہے۔ جو ٹاپ کا میوزک ڈائریکٹر ہوگا اس کو ہاتھوں میں ڈال لے گی۔ ان کی آؤ بھگت کرے گی اور کسی نئی گانے والی کو آنے نہیں دے گی۔ مختار بیگم فریدہ خانم کو لے کر میرے پاس آئیں۔ شیش محل کی بات ہے۔ میں نے اس کا ٹیسٹ لیا۔ نور جہاں اس کو اوائیڈ ہی کرتی رہی۔ اوائیڈ ہی کرتی رہی۔ فریدہ خانم کو نہیں آنے دیا‘‘۔ ۷
مختار بیگم سے کسبِ فیض کرنے والی فن کاراؤں میں ان کی چھوٹی بہن فریدہ خانم، نسیم بیگم امرت سری اور فلم سٹار رانی قابل ذکر ہیں۔ رانی کو انھوں نے رقص اور اظہارِ جذبات کی تعلیم دی تھی۔ لیکن مختار بیگم کے کراچی قیام کے زمانے میں فریدہ خانم اور فلم سٹار رانی مختار بیگم کی مخالف ہو گئیں تھیں اور ان سے بُری طرح روٹھی ہوئی تھیں۔ اس ضمن میں لطف اللہ خاں لکھتے ہیں:
’’دراصل میں ثقافتی شعبے سے کچھ ایسے مواد کا متلاشی تھا جس سے مختار بیگم کی شخصی اور فنی خوبیاں اُبھر آئیں۔ چند مہینوں پہلے نور جہاں نے اپنے کسی ریڈائی انٹرویو میں مختار بیگم کی تعریف کی تھی۔ اس کی ڈبنگ بھی میری آڈیو لائبریری میں تھی، وہ میں نے چُن لی۔ رہ گئیں فریدہ خانم (مختار بیگم کی چھوٹی بہن) اور ایکٹریس رانی (مختار بیگم کی پروردہ جسے انھوں نے رقص کی تعلیم دی تھی) ان سے چند توصیفی جملے کہلوانا کوئی مشکل کام نہ تھا بلکہ گھر کی بات تھی۔ مگر ایسا نہ ہو سکا وہ دونوں مختار بیگم سے بُری طرح روٹھی ہوئی تھیں اور کسی حیلے تعریفی کلمات کہنے پر آمادہ نہ ہوئیں‘‘۔ ۸
مختار بیگم برصغیر کی ایک منفرد اور صاحب طرز مغنیہ تھیں۔ انھوں نے ۲۵ ؍فروری ۱۹۸۲ء کو کراچی میں وفات پائی اور انھیں کراچی میں ہی دفن کیا گیا۔ ان کی وفات سے فنِ موسیقی میں جوخلا پیدا ہوا اُسے آج تک کوئی دوسری مغنیہ پورا نہ کر سکی۔
حوالہ جات:۔
۱ مراسلہ بلبیر سنگھ کنول بنام راقم، مورخہ ۲۸؍ستمبر ۲۰۰۲ء
۲ احمد منیر، نور جہاں کی کہانی، میری زبانی (راوی : سید شوکت حسین رضوی) ماہ نامہ
آتش فشاں۳۱ ٹیمپل روڈ لاہور،۲۰۰۱ء ص۳۲
۳ مراسلہ ایم ۔ اے شیخ بنام راقم، مورخہ ۳۰ ؍مئی ۲۰۰۰ء
۴ لطف اللہ خاں، سُر کی تلاش،حوالہ مذکور، ص ۱۵۳، ۱۵۲
۵ سراج نظامی، نقوش، حوالہ مذکور، ص۷۲۸
۶ عاشق چودھری، فن اور فن کار، جنگ،روزنامہ،راول پنڈی، ۲۴؍ نومبر ۱۹۹۹ء
۷ احمد منیر، حوالہ مذکور، ص ۱۱۱
۸ لطف اللہ خاں،سُر کی تلاش، حوالہ مذکور، ص ۱۵۵، ۱۵۴