برصغیر کی موسیقی:دُھر پَد سے غزل تک

(تبصرہ نگار: یاسر اقبال)

یاسر اقبال

شاعری اور موسیقی دونوں کا تعلق تخلیقیت سے ہے اور دونوں کی تخلیق میں خیا لات ،جذبات اور احساسات کار فرما ہوتے ہیں ۔ دونوں کا تعلق انسانی نفسیات سے ہوتا ہے ،دونوں کی تخلیق جغرافیائی ،تہذیبی اور سماجی حالات سے متاثر ہوتی ہے۔جس طرح شاعری مختلف اسلوبوں پر جن میں قصیدہ،مرثیہ،قطعہ، غزل اور نظم شامل ہیں ،قائم رہی اسی طرح موسیقی بھی مختلف اسلوبوں میں برتی جاتی رہی جن میں الاپ،دھرپد،ٹپہ،خیال، ٹھمری دادرا، غزل اور گیت شامل ہیں۔کسی بھی فن سے حظ تب ہی اٹھایا جا سکتا ہے جب اس فن کے اصول و ضوابط سے آگاہی ہو۔ قصیدے کا ذکر آتے ہی اس کا اسلوب ،اس کے مضامین ہمارے تخیل میں اجاگر ہو جاتے ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ قصیدہ ایک مداحی نظم ہوتا ہے اور ا س کی ساخت کیا ہوتی ہے۔ اسی طرح غزل سے بھی ہم اس لیے حظ اٹھاتے ہیں کہ ہم غزل کے مضامین اور اس کے ڈھنگ سے واقف ہوتے ہیں۔ یہی کیفیت فن مصوری میں ہوتی ہے جب تک ہمارے تخیل میں تجریدی فن کا پس منظر موجود نہیں ہو گا ہم اس فن سے لطف نہیں اٹھا سکتے ۔ شاعری کے اسلوبوں کی طرح فن موسیقی کے اسلوبوں کے بھی اپنے خدو خال ہوتے ہیں اور ایک مخصوص اجزائے ترکیبی سے وجود میںآتے ہیں۔
جیسا کہ برصغیر مختلف تہذیبوں کا سنگم رہا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف قومیں اس خطے میں وارد ہوتی رہی ہیں اور ہر قوم اپنی تہذیب ، زبان کے ساتھ ساتھ اہلِ ہنر و فنکاران کی بڑی تعداد کو ساتھ لائی۔ نوواد اقوام کے کلچر، زبان اور فنون کا برصغیر کے مقامی کلچر، زبان ، فنو ن میں
آمیزش ہوئی تو اس سلسلے میں نہ صرف برصغیر کی مقامی تہذیب اور زبانوں میں بلکہ فنونِ لطیفہ میں بھی تبدیلیاں اور اضافے سا منے آئے۔فنون لطیفہ کے حوالے سے برصغیر کی ترقی مسلمان فاتحین کی مرہونِ منت رہی ہے۔عربی ،ایرانی ،تورانی، ترک اور افغنانی موسیقی کا مقامی موسیقی پر گہرا اثر پڑا اور نئی موسیقی سامنے آئی جو اپنی اثرانگیزی کی بنا پر عوام میں مقبول ہونے لگی۔ اور درباروں کی سرپرستی میں ترویج و ترقی کے مدارج طے کرنے لگی۔ مسلمانوں سے قبل برصغیر کی موسیقی پھند، پربند، گیت ، دوہا، اشلوک، دھرو اور پد جیسی اصناف پر مشتمل تھی اورمذہبی حصار میں مقید تھی۔دوسری بات یہ کہ فنِ موسیقی میں فنی لوازمات کی کمی تھی۔ مسلم اقوام نے آکر نہ صرف موسیقی کو مندروں سے باہر نکالا بلکہ ایک باقاعدہ فن کے طور پر اس کی ترویج کی اور اس سلسلے میں کئی نئی اصطلاحات سامنے آئیں۔مثلاً ہندی اور ایرانی راگوں کی آمیزش سے نئے راگ کی اختراعات،دھرو اور پد کو ملا کر دُھر پَد وضع کیا۔ مردنگ کو کاٹ کر طبلہ بنایا۔بائیس سُرتیوں کی بجائے بارہ سروں کو قائم کیااور خیال ، ٹھمری، اور قوالی جیسی اصناف کو وضع کیا۔ذیل میں برصغیر کی موسیقی کی وہ چند اصناف جن کی ترویج و ترقی مسلمان بادشاہوں اور سنگیت کاروں کے ہاتھوں ہوئی،کا ایک جائزہ لیا جاتا ہے۔
۱۔دھُر پَد: برصغیر کی قدیم اصنافِ موسیقی میں دھورو اور پدموجود تھیں۔جن میں مذہبی اور اخلاقی موضوعات باندھے جاتے تھے۔بعد میں مسلمان سنگیت کاروں نے دھورو اور پد کوملا کر دُھر پد کے نا م سے ایک نئی صنف متعارف کرائی۔’’ دھر‘‘ کا مطلب رکنا اور ’’پد‘‘کا مطلب نظم یا اشلوک کے ہیں۔ دھرپد جس کے چار تکوں،استھائی انترا اور ابھوگ کو رباعی کے کینڈے پر مرتب کیا گیا۔برصغیر کی سب سے قدیم ترین موسیقی کی صنف ہے جس کی ابتداء پر بند ،دھورو ،پد کے بعد ہوئی ۔اپنی موسیقانہ فصاحت اور اثر انگیزی کی وجہ سے دربا ر میں دھرپد نے خوب جگہ پائی۔اکبر کے عہد میں اس کو کا فی عروج ملا۔تیرھویں صدی میں ہری داس، بابا گوپال داس اور تان سین جیسے قد آور گائیکوں نے اسے بہت عروج بخشا۔تان پورا اور پکھاوج کے ساتھ اسے گایا جاتا تھا۔دھرپد کی شاعری عام طور پر برج بھاشامیں ہوتی تھی۔اگرچہ بنگالی،پنچابی اور راجستانی اور اردو زبانوں میں بھی دھرپد گایا جاتا رہا۔تاہم اس کی قدیم شکل کے نمونے سنسکرت میں بھی ملتے ہیں۔ دھرپد گانے والوں نے جن میں میں تان سین، لعل خاں، درنگ خاں، بلاس خاں اور دیگر کئی مسلم فنکار شامل ہیں،نے فروغ دیا۔ آج بھی سینی گھرانادھر پد کا امین سمجھا جاتا ہے۔دھرپد کا اسلوب بھی منفردہوا کرتا تھا۔ عظیم تصورات،جاہ و جلال کی ایک پر شکوہ موسیقانہ مصوری اس کی خصوصیات ہوا کرتی تھیں۔ اور موضوعات میں حمد، نعت، منقبت یا کسی عظیم انسان کے جاہ و جلال کو پیش کیا جاتا تھا۔ دھرپد گائیکی فنی لحاظ سے کافی مشکل اور ریاضت طلب سمجھی جاتی تھی اور سنگیت کی دنیا میں دھرپد گانے والے کو بلند مرتبہ حاصل ہوتا تھا۔ دربار میں بھی اس کا مقام بلند ہوتا تھا۔دھرپد کی گائیکی سے سامع کا تخیل الجھ کر انبساطی کیفیت محسوس کرتا تھا۔ تانوں کے بتدریج بڑھے سے سننے والامحو جاتا تھا۔ مرزا فخرالدین کی کتاب’’تحفت الہند‘‘جو کے چھ جلدوں پر مشتمل ہے،میں بتایا گیا کہ دھرپد ایک ایسی صنف تھی جو دو سے چار مصرعوں پر مشتمل ایک دعائیہ نظم تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پنچابی ٹپہ بھی ہیئت کے لحاظ سے اس سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔موسیقی کی یہ صنف خیال گائیکی کے سامنے اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور یہی وجہ ہے کی دھرپد کی گائیکی آج کے دور میں نایاب ہے۔جبکہ خیال گانے والے بیشتر موجود ہیں۔
۲۔خیال:یہ عاشقانہ موضوعات کی ایک صنف ہے اور ہندوستانی اور ایرانی کلچر کی آمیزش کے نتیجے میں سامنے آئی۔بعض موئرخوں کے نزدیک اٹھارویں صدی میں محمد شاہ رنگیلا کے دورِ حکومت میں اس کے ابتداء ہوئی۔جب کہ بعض اسے حسین شاہ شرقی کی ایجاد سمجھتے ہیں۔جب کہ ایک روایت میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی میں حضرت امیر خسرو نے دیگر اختراعات کے علاوہ’’خیال ‘‘ بھی ایجاد کیا تھا۔ ممکن ہے یہ روایت درست بھی ہو۔کیوں کہ خسروی اختراعات کے سلسلے میں خیال کا بھی ذکر اکثر کتب کے مطالعہ میں ملتا ہے۔لیکن خیال کی ترویج و ترقی کا سہرہ سلطان حسین شرقی ہی کے سر ہے۔خیال کی رعنائی کے آگے دھرپد کا چراغ نہ جل سکا اور خیال گائیکی نے دربار سے لے کر عوام تک سب کو اپنی سحر انگیزی میں جکڑ لیا۔اس کی وجہ خیال گائیکی کی موضوعاتی وسعت تھی۔اس کے موضوعات مکمل طور پر انسانی جذبات، خیالات اور احساسات کی ترجمانی کرنے لگے۔بلکہ اس کی گائیکی کے اسلوب میں بھی ایک خاص طرح کا ڈھنگ سامنے آیا۔تان،پلٹے۔مینڈسُریں اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھانے لگیں۔اس کی گائیکی استھائی انترا پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی تانوں سے ہی خیال اور دھرپد کی گائیکی میں فرق کو الگ کیا جاتا ہے۔فطری مناظر،مدحت،ہجرو فراق اور وصال کی تڑپ اس کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ محمد شاہ دہلی کے درباری گائیکوں میں شاہ سدارنگ اور شاہ ادارنگ نے اسے اپنی اپنی ترکیبوں میں باندھ کر چار چاند لگا دیے۔تانوں کا ایساسحر انگیز جال بچھایا جاتا ہے کہ سامع اس میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور جب تک خیال ختم نہیں ہوتا اس کی رہائی ممکن نہیں ہوتی۔خیال گائیکی آج بھی کئی گھرانوں کی پہچان ہے جن میں چند گھرانے خیال کے حوالے سے بہت مشہور ہیں جن میں دہلوی گھرانا،پٹیالہ آگرہ،گوالیار گھرانا،جے پورگھرانا بہت مشہور ہیں ۔ گوالیار گھرانا خیال گائیکی کا قدیمی گھرانا اور تمام گھرانوں کی ماں سمجھا جاتا ہے۔خیال دو اقسام میں جن میں بلمپت(آہستہ لے میں) اور دُرت(تیز لے میں ) میں گائے جاتے ہیں۔برج بھاشا،مراہٹی،پنجابی،راجستانی سنسکرت اور اردو زبانوں میں اس کے نمونے موجود ہیں۔تان پورا،طبلہ کے ساتھ ساتھ سارنگی،ہارمونیم جیسے ساز اس کے گائیکی کی سنگت میں ہوتے ہیں۔
۳۔ٹھمری:لکھنو میں جب مردانگی کو زوال اور نسوانیت کو عروج ملا اور اعصابِ انسانی پر جب عورت سوار ہوئی تو ٹھمری نے جنم لیا۔ہیئت کے اعتبار سے ٹھمری بھی خیال سے مماثلت رکھتی ہے یعنی اس میں بھی گائیکی استھائی انترا پر مشتمل ہوتی ہے مگر اس کے گانے کا اسلوب منفرد ہوتا ہے۔چونکہ اس کی گائیکی میں ایک خاص طرح کا جھول ہوتا ہے۔ہر بول کا بھاؤ بتا کر رچاؤ کے ساتھ گایا جاتا ہے یعنی بول کی تصویر ہاتھوں ، آنکھوں ،ابروؤں اور گردن کی نازک جنبش سے پیش کی جاتی ہے۔اس لیے اس کی گائیکی کو صنفِ نازک کا گاناکہا جاتا ہے۔ان حرکات و سکنات سے ٹھمری گانے اور سننے کا لطف کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ہر بول کو کئی طرح سے پیش کیا جاتا ہے اور لفظ کی نئی نئی تعبیریں پیش کی جاتی ہیں۔کہتے ہیں کہ گائیکی کے ضمن میں کافی اور ٹھمری میں صرف زبان کافرق ہوتا ہے۔کافی ملتانی زبان میں ہوتی ہے۔جبکہ ٹھمری خالص پوربی زبان میں گائی جاتی ہے۔ باقی دونوں کا رنگ ڈھنگ ایک جیسا ہوتا ہے۔لکھنوء کے اندر یہ خوب پروان چڑھی اور کئی ٹھمری گانے والیوں کا چرچا رہا۔عورتوں کی دیکھا دیکھی مرد سنگیت کاروں نے اس میں طبع آزمائی کی۔چونکہ مرد کلاکاروں میں نسوانی نازو انداز اپنانے کی گنجائش کم تھی اس لیے اچھے فنکاروں نے آواز کے مختلف انداز اپنا کر اس میں بدرجہ اعلیٰ کمال پیدا کر لیا اور ٹھمری گانے کا انداز بھی لوچ دار رکھا۔ٹھمری کے ساتھ ساتھ دادرا کی گائیکی بھی پورب سے وابستہ ہے۔دونوں کے گانے کے لیے راگ بھی مخصوص ہیں دونوں ہماری نیم کلاسیکل موسیقی میں شمار کی جاتی ہیں۔ٹھمری لکھنوی تہذیب کی ایک نمائندہ صنف رہی ہے اور واجد علی شاہ کے عہد میں اسے خوب پزیرائی ملی۔خود واجد علی شاہ بھی ٹھمری کی گائیکی میں کمال کی مہارت رکھتے تھے۔عام طور پر اس کی گائیکی کو بلمپت لے میں مختصر سے الاپ کے ساتھ باندھا جاتا ہے ۔ برج بھاشا،کھڑی بولی اور اردو زبانوں میں اس کی خوب ترویج و ترقی ہوئی۔ٹھمری کی گائیکی کے حوالے سے تین اہم گھرانوں کا نام سامنے آتا ہے،بنارسی گھرانا،لکھنوی اور پٹیالہ گھرانا۔قادر پیا،سانندپیا،لالن پیا،کنور اور نواب واجد علی شاہ لکھنوی گھرانے کے گائیک تھے۔رسولن بائی،سندیش وری دیوی اور گرجا دیوی بنارسی گھرانے کی نمائندہ گائیک تھیں جبکہ استاد بڑے غلام علی خاں جن کا شمار بڑے اچھے ٹھمری گانے والے گائیکوں میں ہوتا ہے اور پٹیالہ گھرانے میں ٹھمری کی گائیکی کوقائم رکھا۔
۴۔ٹپّہ:اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر میں اس صنف کو رواج ملا۔اس کا تعلق پنجاب کے عوامی گانوں سے ہے۔شعری ہیئت کے اعتبار سے ایک مختصر سی صنف ہے۔جس میں اخلاقی اور عاشقانہ مضامین کے ساتھ ساتھ،جدائی ،دکھ درد اور محبت کے جذبات کو آلاپا جاتا ہے۔یہ ایک ساربانوں کا گانا تھا جسے کی ترویج و ترقی کا سہرہ میاں شوری کے سر پر ہے،جس نے اسے کلاسیکی درجے تک پہنچایا۔اودھ کے شاہی درباروں کی اسے خوب سرپرستی رہی اور عوام کی اندر اس کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کی گائیکی کو تیز تانوں میں باندھا جاتا ہے ۔پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا کے خیال جیسی صنف کا بھی ٹپہ کے آگے رنگ پھیکا پڑ گیا۔لیکن خیال کا جاہ جلال اور عظمت واہمیت پھر بھی اپنی جگہ قائم رہی۔جیسا کہ ٹپہ خوب صورت تانوں کی ایک چھوٹی سی کیاری ہے۔جس کی اپنی ایک مخصوص مہک ہے۔بقول شاہد احمد دہلوی ٹپہ خوش نما تانوں کا ایک چھوٹا سا گلدستہ ہوتا ہے۔اگر خیال کو پوری آتشبازی سے تشبیہ دی جائے تو ٹپہ کو صرف پھلبھڑی کہہ سکتے ہیں۔
۵۔قوالی:اصنافِ موسیقی میں قوالی ایک ایسی صنف ہے جسے مضامین کے لحاظ سے مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔چونکہ یہ ایک متصوفانہ کلام ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اس کی آمد اہلِ فارس کے توسل سے ہوئی ۔خسروی اختراعات میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔امیر خسرو نے قوالی کاایک خا ص انداز متعارف کرایا۔اس لیے آج بھی بڑے بڑے قوال امیر خسرو کو اپنا محسن اور مرشد مانتے ہیں۔تصوف کی دنیا میں قوالی تزکیہء نفس کا بہترین وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ الفاظ اور مصرعوں کی تکرار سے وجد و حال کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔عارفوں کے نزدیک قوالی عشقِ حقیقی کے خیالات و جذبات کی ترجمانی کرنے کا بہترین وسیلہ ہے اس لیے صوفیائے کرام نے اپنی زندگیوں میں قوالی کے اہتمام کو جاری و ساری رکھا۔روایت ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے ایک مجلس میں قوالی کا جب یہ شعر سنا:
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر نفس از غیب جانِ دیگر است
اس شعر کے سننے کے بعد خواجہ صاحب پرتین دن تک وجد و حال کی ایسی کیفیت طاری رہی اور آخر کار اسی کیفیت میں اس کی روح پرواز کر گئی۔
قوالی کی گائیکی کے لیے ایک نہیں پورے گروپ کی ضرورت ہوتی ہے اور کورس کی شکل میں اسے پیش کیا جاتا ہے۔ڈھولک کی تھاپ اور تالیوں کی ضربیں سامع کے تخیل میں ایک ایسی اثر انگیزی پیدا کرتے ہیں کے سننے والا اس میں محو ہو جاتا ہے۔آج کل قوالی کے انداز میں عاشقانہ غزلیں بھی گائی جا رہی ہیں۔
۶۔غزل: قوالی کی طرح غزل بھی برصغیر میں اہل فارس کے ساتھ پہنچی۔فارسی شاعری کے تتبع میں اردو شاعری میں بھی غزل کا رواج ہوا۔اس سے پہلے جتنی بھی اصناف موسیقی موجود تھیں ان کی نسبت غزل کا نہ صرف موضوعاتی دائرہ وسیع تھا بلکہ اپنے اندازِگائیکی کی بنا پر یہ صنف اتنی مقبول ہوئی کہ مشاعروں اور غزل سرائی محفلوں کی زینت بن گئی۔ہما ری مجلسی زندگی میں مجرے کا دستور بھی غزل سے جاری ہوا۔شعری ہیئت کے اعتبار سے اس کا ہر شعر اپنے اندر ایک جدا موضوع رکھتا ہے۔اس لیے ایک غزل میں ایک ساتھ کئی موضوعات کو باندھا جا سکتا ہے۔مغل حکمرانوں نے اس کی خوب سر پرستی کی آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نہ صرف ایک مشہو ر غزل گو شاعر تھے۔بلکہ غزل گائیکی کے رموزو اوقاف پر بھی مکمل دسترس رکھتے تھے۔اردو شاعری میں غزل کا وسیع سرمایہ موجود ہے۔گولکنڈہ اور بیجاپور میں مسلمانوں نے اس کی خوب آبیاری کی جن میں ولی دکنی کا نام اردو شعرا میں ممتاز سمجھا جاتاہے۔لیکن اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کا
دور غزل کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اس لیے غزل گو شعر اء کے ساتھ ساتھ برصغیر میں غزل گائیکوں کی بھی کافی تعداد نظر آتی ہے۔پاکستان میں شام چوراسی گھرانے نے بھی غزل کی روایت کو قائم رکھا اور شہشائے غزل مہدی حسن نے تو غزل گائیکی کو نئے نئے اسلوبوں سے ہمکنار کر دیا۔دورِ حاضر میں غلام علی خاں اور دیگر غزل گائیک غزل کی آبیاری کر رہے ہیں۔

حوالہ:
۱۔The lost world of Hindustani music (kumar prasad mukherji)
۲۔مضامینِ شاہد احمد دہلوی۔(ترتیب و تدوین عقیل عباس جعفری )ورثہ پبلی کیشنز
۳۔تحفت الہند (چھ جلدیں) ازمرزا فخرالدین