(ثنا ڈار)
کئی سال پہلے کا ذکر ہے کہ دور ایک وادی میں دو گہرے دوست رہا کرتے تھے۔ ان کی دوستی صدیوں پرانی تھی۔ ایک دن ایک فرنگی دشمن نے حملہ کر کے ان کے گھر پر قبضہ کرلیا اور ان کے بچوں پر بیش بہا ظلم ڈھائے۔ اپنے بچوں کو دشمن سے نجات دلانے کے لئے دونوں دوستوں نے سر توڑ کوششیں شروع کردی۔ لیکن دشمن ان سے زیاہ ہوشیار نکلا۔ وہ تھک ہار کر ان کے گھر سے تو نکل گیا لیکن جاتے جاتے ان کی دوستی میں دراڑیں ڈال گیا۔ جس کے بعد دونوں دوستوں نے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے الگ الگ گھر بنا لئے۔
صدیوں دوست رہنے والے پھر ہمسائے کہلانے لگےاپنے اپنے گھر بنانے کے ایک سال بعد ہی زمین کے ایک زرخیز ٹکرے پر دونوں لالچی ہمسایوں میں لڑائی ہو گئی۔ ایک بولا یہ میری شہ رگ ہے، تو دوسرا بولا یہ میرا اٹوٹ انگ ہے۔ لڑائی کے بعد وہ زمین کا ٹکرا تو کسی کے ہاتھ نہ آیا لیکن ہاں دونوں دوستوں میں محبت دشمنی میں بدل گئی۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان ان کی آنے والی نسلوں کو ہوا۔
پہلی لڑائی کے کوئی سترہ اٹھارہ سال بعد ایک ہمسائے نے دوسرے ہمسائے پر حملہ کر دیا۔ دونوں سترہ دن تک لڑتے رہے۔ ایک بظاہر عقل مند بڑے نے ان کے درمیان لڑائی تو ختم کرا دی لیکن صلح کرانے میں ناکام رہا۔ کوئی چھ سال بعد دوبارہ ان میں لڑائی کا آغاز ہوا۔ یہ لڑائی پہلی دونوں لڑائیوں سے زیادہ خوفناک ثابت ہوئی جس میں ایک ہمسائے کا بازو کٹ گیا۔
ان تین لڑائیوں کے باوجود بھی ان بد دماغ دوستوں کو عقل نہ آئی اور وقتا فوقتا چھوٹی موٹی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چند روز قبل دونوں ہمسائے اسی زمین کے ٹکرے پر پھر لڑنے لگے جس پر ان کے درمیان پہلی لڑائی ہوئی تھی۔ ایک دن رات کے اندھیرے میں دونوں نے اپنی اپنی چھتوں پر چڑھ کر ایک دوسرے پر فائرنگ کی جس کے بعد پھردونوں کے درمیان لڑائی کے سائے منڈلانے لگے۔
تین بے مقصد، بے نتیجہ جنگیں لڑنے کے بعد یہ ستر سال کے دو بوڑھے اب پھر لڑنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ان کے گھروں میں غربت، افلاس، بے روزگاری، بیماری اور دہشتگردی ڈیرے جمائے بیٹھی ہے۔ تین لڑائیوں میں نجانے ان کے کتنے ہی بچے تڑپ تڑپ کے مر گئے مگر ان ظالموں کو ان کے خون اور خوف میں لت پت چہرے یاد نہیں آتے۔ نجانے ان کمبختوں کو اپنی حالتوں پر ترس کیوں نہیں آتا؟ یہ اپنے ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھتے؟
طاقت کے نشے میں مست یہ جنگجو ہمسائے اپنی انا کی تسکین کے لئے آخر کب تک لڑتے رہیں گے؟ کیا ان کی یہ انا ان کی بچوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا بچپن کی لڑائیوں کی طرح یہ لڑائی بھی صرف اس جملے پر ختم نہیں ہو سکتی کہ لڑائی لڑائی معاف کرو اللہ کا گھر صاف کرو۔ آخر کیوں، اس کہانی کے اختتام پر یہ نہیں لکھا جا سکتا کہ وہ ہنسی خوشی اپنی اپنی زندگی بسر کرنے لگے۔