(یاسر چٹھہ)
کہتے ہیں نہ تو سچ مطلق تھا اور نہ ہی اب رہ بھی گیا ہے۔ بلکہ سچ اس صاحب دست کی زبان کی ملکیت میں ہے جس کے ہاتھ میں بندوق کا گھوڑا ہے، اور یہ بندوق بھی بھری ہوئی ہو۔ مطلب یہ کہ جس ہاتھ میں طاقت ہے وہی سچ کے تشکیل دینے کا روادار اور حقدار ہے۔ اس بندوق کو کچھ لمحوں کے لئے عمومی طاقت کا استعارہ فرض کر لیجئے؛ اس والی طاقت کا استعارہ جو دولت، سماجی، مذہبی، معاشرتی، ثقافتی، انصرامی، حکومتی اور دیگر اقسام کے اثر و نفوذ کے حدوں سے بڑے پستانوں کے دودھ پر پلی ہوئی ہو۔ طاقت ہی اخلاقیات و غیر اخلاقیات، صحیح و غلط، خیر و شر، اجازت و پابندی، آزادی و بندی، جزا و تادیب اور اس طرح کی دیگر دل فگار اور جان سوز ثنویتوں کی مادر تشکیلی ہے۔ اس طاقت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب یہ کسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو اس کے حامل کو اپنا ہر عمل عین مبنئ بر حق، ہر قسم کے سوال کی نوک سے بالکل بالا تر، ایک دم پویتر، ہمہ دم نور یافتہ، ہمہ گیر جہتوں اور زاویوں سے مزیّن اور تاباں نظر آتا ہے۔
طاقت کے ضمنی نتائج و عواقب کے رواں تسلسل سے تخلیق شدہ یہ رویہ انسان کے درون کے علاوہ اس کے اپنے خوارج میں پائے جانے والے ماحول اور آب وہ ہوا سے تعلق کی بھی تشکیل کرتا ہے۔ انسان اپنی تاریخ کے گذرے ادوار میں اپنے چاروں سمتوں کے ماحول اور آب و ہوا سے مختلف انواع کے رشتوں اور تعلق داریوں میں منسلک رہا ہے۔ فطرت و ماحول کے جو پہلو بہ آسانی اس کی دسترس و تسلط میں آ گئے، ان پر یہ حکمرانی جتانے لگا اور جو غلبہ و تصرف میں نا آسکے ان کو با امر مجبوری خداؤں اور دیوتاؤں کی سی معراج دے دی۔ پروہیتوں کے کاروبار، حکمرانی اور روٹی پانی بھی اسی طرح چلتی رہیں۔ ایک جملے میں بات کہنی ہو تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ تاریخی طور پر انسان کو یا تو خداوند بننے کی عادت رہی یا خدا بنا لینے کی۔ سماجی حقیقت و اخلاق اس نفسیاتی ثنویت ہی میں مقید رہے ہیں۔
صدیوں کی صدیوں پر محیط انسانی تاریخ و ما فوق التاریخ میں ایک بہت بڑی جست بھرنے دیجئے (اور ساتھ دلیل کی خاطر ہی سہی) یورپ کی نشاہ ثانیہ کو جدید انسانی تاریخ کا ایک مہا نقطئہ آغاز فرض کر لینے دیجئے۔ اس نقطئہ آغاز کے کافی دیر بعد منظر عام پر آنے والے ایک ضمنی اثر یعنی صنعتی انقلاب پر کچھ لمحے توقف کیجئے۔ ان وقتوں میں انسان کو سائنس نے ٹیکنالوجی کا رستہ سجھایا۔ ٹیکنالوجی نے فطرت پر تسلط کے نئے در وا کئے۔ لیکن انکے پیچھے انسان کی وہی دسترس میں لا کر غالب ہوجانے کی نفسیات کارفرما نظر آتی رہی: غالب ہو جا اور غلام کر لے؛ Survival of the Fittest اخلاق کی بنیاد گذار قدر قرار پائی تو جو کمزور ٹھہرا، وہ محکوم ہو گیا۔ انسان اور انسان، ایک نسل اور دوسری نسل، ایک ملک اور دوسرے ملک، ایک خطے اور دوسرے خطے، بنی نوع انسان اور زمین/آسمان/ سمندر/ماحولیات/ چرند، پرند/ نباتات/ جمادات اور ٹیکنالوجی بھی ان اصولوں کی بنا پر تعلق داریوں میں بندھے، یا غیر مساویانہ ساجھے داریوں میں آئے۔ ٹیکنالوجی ایک نیا دیو بن کر ابھرتی آتی رہی، اور اس دیو کی سانسیں ابھی تک انسان کے ہاتھ میں رہی ہیں۔
آج وقت کے دھارے میں آگے سے آگے بڑھتے ہوئے انسان کو اسی ٹیکنالوجی نے بندوق دے دی، دھواں نکالتی مشینیں، دے دیں، پر تعیش اور اصراف کی علامتیں مکان و سواریاں دی دیں۔ طاقت کے بہت سارے ضمنی علائق میں سے ایک بڑا گھن کی طرح چاٹ جانے والی اس کی ایک طفیلیہ صفت خو بھی ہے کہ یہ روشن تر شعور اور فہم کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ آج حال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی نیند کی گولیوں میں مست انسان اپنے اس ماحول کو جو اس کے کافی حد تک تسلط میں ہے، اس سے بڑے بھدے تعلق میں مبتلا ہے۔ یہ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سے بھی بڑھ کر جاننے ماننے لگ گیا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی خارجیت میں موجود ہر جاندار اور بے جان چیز کا کوئی اور وجود نہیں، بلکہ وہ محض اس کے صرف کرنے کے لئے ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ اکیلا وہ ہی اپنے ماحول کا حاکم ہے اور باقی سب محکوم۔ اس نفسیاتی وبال میں مبتلا ہو کر اس نے اپنے ارد گرد بنی کائنات اور دنیاؤں میں اس توازن پر کئی سارے کاری وار کئے ہیں کہ اب یہاں زندگی کا چلن دشوار رستوں میں بھٹکتا محسوس ہونے لگا ہے۔
اس سلسلے کی کڑیوں کے طور پر دو انتہائی چھوٹے درجے کی مثالیں برائے بحث و تمحیص پیش کی جا سکتی ہیں۔ (باقی عالمی سطح پر ابھی آب و ہوا کو درپیش چیلنجز سے ہم فی الوقت صرف نظر کرتے ہیں۔) ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے یہاں ملک کی عدالت عظمٰی میں آج کل ایک اہم مقدمہ چل رہا ہے۔ اس میں اسلام آباد کے نیشنل پارک کے مخصوص علاقہ میں پہاڑوں کی بجری اور پتھر کے حصول کے لئے مسلسل کٹائی جاری ہے۔ اگر آپ ملک کے دیگر علاقوں سے موسم گرما کی تعطیلات گزارنے اور شمالی علاقہ جات جا کر کچھ تازہ اور ٹھنڈی سانسیں کشید کرنے کا ارادہ کر بیٹھیں، آپ اسلام آباد سے ایبٹ آباد کے لئے نکلیں گے تو پتھر اور بجری کے بے دل سوداگروں کی مشینوں سے اٹھنے والی، پھیپھڑے بند کردینے والی ہوا میں سے، اور آنکھوں کو اندھا کردینے والی فضا سے گزرتے ہیں۔ واپسی پر بھی یہی ہوا ہاتھوں میں خاک لئے آپ کا سواگت کرے گی۔ (کیسی بد مذاقی اور بد حالی پھیلتی جا رہی ہے، الامان و الحفیظ) یہ فطرت کے توازن سے اور اس کے جان افروز کردار و خاصیت سے ایک کھلی یدھ ہے۔ بلکہ اپنی نئی آنے والی نسلوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہے۔ امید ہے اس پر وطن کی عدالت عظمٰی کوئی موثر فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائے گی اور اس کے ذمے داران کی اخلاقیات اور طاقت کے نشے کا ہینگ اوور بھی ختم ہونے کی ایک آس بندھے گی۔
ایک اور بصری دہشت و سفاکی کا اہم حوالہ سماجی ذرائع ابلاغ پر گردش کرتی اور انسانیت کی اصلی معراج اخلاقیات کے کچوکے بھرتی وہ تصویر ہے جس میں مملکت خداداد کے ایک اہم ستون کے پرائم ٹائم اینکر، جناب آفتاب اقبال کچھ قیامت خیز ساٹھ منٹوں میں اپنی بارودی اور بندوقی طاقت کے نشے میں سرشار، اتنی ہی تعداد کے چھوٹے چھوٹے پرندوں کو نشانہ کر چکنے کا جشن مناتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی حرکت اور اس حرکت پر جشن ہلاکت خیز کوئی اور قبلہ کررہے ہوتے تو بھاری دل کے ساتھ صرف نظر کیا جا سکتا تھا، کہ جہل اور لا علمی کا گناہ کم سزا کا مستوجب ہوتا ہے۔ لیکن وہ حضرت جو ملک کی اس عوام، جو ان کے پروگرام کی تاب لانے کا حوصلہ رکھتی ہے، کی اخلاقیات، اس کی سیاسی تربیت، اس کی صحت املاء و تلفظ تک کو اپنے کسی Brown Man’s Burden کی دولت تصرف میں سمجھیں ( ہرچند کہ ان کی ساری استادیاں جدید لسانیات کے تصورات سے بے بہرہ ہوں، اور ان کی یاد داشت میں موجود علم نے ان کے چہرے پر جھلکتی رعونت کا کچھ نا بگاڑا ہو) ان سے سر زد ہونے والی بصری شیخیاں اور شوخیاں کسی طور پر بھی پسندیدہ نہیں۔ خوراک انسان کی ضرورت ہے، لیکن اس ضرورت کے پورے کرنے میں اسراف اور اس کا اعلی انسانی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر جشن، کسی بہت ہی سستی نفسیات کو آشکار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ بندوق کی طاقت کو اور پرائم ٹائم کے پروگراموں پر بھاشنوں کی طاقت کو تھوڑا انسانی اقدار اور شعور سے روشنی لینے کی ضرورت ہے۔ آپ کو لوگ دیکھتے، سنتے اور اثر لیتے ہیں، فطرت میں قائم توازن کا حشر نشر کرنے والوں میں سے بننے کی ضد مت کیجئے، اس کے عذر لنگ مت ڈھونڈیئے، تعقل کی نئی بدعتیں مت اجالئے، بلکہ اچھی اور بہتر اقدار والی مثالیں قائم کیجئے۔