( زمرد مغل)
نئے سال کی شروعات اردو داں طبقے کے لئے بہت اچھی نہیں رہی کہ اس سال کے پہلے ہی مینے میں اردو کے اہم افسانہ نگا ر بلراج مین را چل بسے وہ بھی اس طرح کے کسی کو خبر بھی نہ ہوئی نہ ہی ان کی موت سے پہلے اردو داں طبقے نے ان کی خبر گیری کی اور نہ ان کی موت پر آنسو بہائے نہ ہی ان کے آخری سفر میں کوئی اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑنے شمشان گھاٹ تک گیا سوائے جامعہ میں اردو کے استاد سرورالہدی کے۔ ہم آہستہ آہستہ ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں جو اخلاقی ،ذہنی اور سماجی طور پر بہت ہی پسماندہ ہے۔بلراج مین را جو ساری زندگی ادبی دنیا اور اس دنیا کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے لیے ایک نہ حل ہونے والا اور نہ سمجھ میں آنے والا مسئلہ بنا رہا جدیدافسانے کو استحکام بخشنے والا یہ افسانہ نگار کس طرح اور کیوں نظر انداز کردیا گیا یہ سوچنے کا مقام تو ہی مگر ایسا تو ہر اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو سوال کرتا ہے سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کو نہیں مانتا نہیں مانتا ادبی گروہ بندویوں کو نہیں بات کرتا کسی ایسے شخص سے جو بے جا سوال کرکے اپنا اور اس کا وقت برباد کرتا ہے ۔اس میں منع کرنے کی جرات تھی وہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا جانتا تھا۔اسی جھوٹی تعریفیں نہ کرنی آتی تھیں اور نہ سننا پسند کرتا تھا تو ظاہر ہے اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا یہ راستہ اس نے خود اپنے لیے چنا تھا کہ لوگ نہ اس سے زیادہ بات کریں اور نہ اس پر زیادہ بات ہو۔زندگی جینے کا یہ طریقہ اس نے خود اختیار کیا تھا تو ایک طرح سے اچھا ہوا کہ ہم نے مین را کو اس کی موت کے کئی سال پہلے ہی مار دیا تھا بس کچھ دن پہلے اسے جلا آئے ہیں اب کہانی ختم ہوئی تو کیا واقعی اس طرح کسی بڑئے لکھاری کی کہانی ختم ہوسکتی ہے کیا کسی بھی ادبی معاشرے میں اپنے عہد کے بڑئے لکھنے والوں کے ساتھ یہی سب کیا جاتا ہے ۔اردو کی اتنی بڑی آبادی والے شہر میں مین را کو کاندھا دینے والے چار لوگ بھی نصیب نہ ہوئے کسی بھی بڑئے ادیب کی موت پر اتنی بے حسی۔ میں بھی اسی شہر میں موجود تھا میں نے فیس بک پر مین را کے انتقال کی خبر دی پاکستان کے کئی دوستوں نے میری ہی خبر کو شئیر کیا مگر میں دلی میں رہتے ہوئے نہیں جاسکا یا نہیں گیا ۔
بلراج مین را۱۹۳۵ ہوشیار پور میں پیدا ہوئے زندگی کا بیشتر حصہ دلی میں گزرا ابتدائی تعلیم سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک میر و غالب کی دلی ان کا مسکن رہی اس مٹی میں ہی کچھ ایسا ہے جو یہاں آتا ہے یہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے مگر اس مٹی اس زمین پر چلنے پھرنے والے لوگ شاید اب وہ نہیں رہے ہیں نہ انہیں کسی کی موت سے کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ کسی کے زندہ رہنے سے بلراج مین را جب زندہ تھے تب بھی اردو ادبی حلقوں نے انہیں لائق اعتنا ء جانا تھا جو اس کی موت سے کوئی خاص فرق پڑتا ۔لگ بھگ تیس سال سے زاہد سال کے عرصے تک کچھ نہیں لکھناصر ف ۳۷ کہانیاں لکھیں اور اردو فکشن کو ایک نئی طرز سے متعارف کروا گئے جس پر اس زمانے کے کئی اہم لکھنے والوں نے ایک خوبصورت عمارت تعمیر۔ترقی پسند تحریک کے بعد اردو افسانے کو ایک نئی طرز عطا کرنے پرانے دھارے کارخ موڑنے میں بلراج مین را،سریندر پرکاش ،انور سجاد وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا ۔ترقی پسند ی کے زمانے میں جتنا اچھا فکشن لکھا گیا اتنی اچھی شاعری نہ ہوسکی اسی زمانے کو ہم اردو فکشن کا اہم دور مانتے ہیں مگر آہستہ آہستہ یہ تحریک بھی اپنے مینی فیسٹو میں اس قدر کھوئی کہ اب ادب، ادب سے زیادہ کچھ اور لگنے لگا تھا اور ایک خاص اسلوب میں لکھا جانے والے ادب سے اب قاری اوب سا گیا تھا کچھ نیا کچھ الگ اسے پڑھنے کو نہیں مل رہا تھا اس کے بعد ہی عینی آپا پیدا ہوہیں جو تاریخ کو فکشن بنانے کے فن سے واقف تھیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں عبداللہ حسین اداس نسلیں لکھ رہے تھے ان سے کے بیچ یہ دو تین افسانہ نگار اپنی زمین تلاش رہے تھے جہاں انہیں ان سب سے الگ طرح کا کچھ لکھنا تھا جو شاید یہی لکھ بھی سکتے تھے زندگی میں وہی کچھ نہیں تھا جو ہمیں دکھایا جارہا تھا بہت کچھ ایسا تھا جو ہماری نظروں سے اوجھل تھا مگر ہم اسے اپنے آس پاس محسوس کررہے تھے وہی جو ہمارے آس پاس تھا اسے کاغذ پر اتارا لفظوں کو زبان دی ایسے کے لفظ بول اٹھے اگر بلراج مین را نہیں ہوتے تو ہم نہیں جان پاتے کہ علامت نگاری اور تجریدیت کا سہارا لے کر کس قدر عمدہ تحریریں لکھی جاسکتی ہیں ۔تجریدیت اور علامت نگاری کو سہارا بنا کر ایک نئی طرز کی بنیاد ڈالنا اور اس مشکل پسندی کو تحریروں کا حسن بنا دینا کوئی آسان نہ تھا ۔ بلراج مین رااور جدید دور کے افسانہ نگاروں نے افسانے کو انسان کے اندر کی طرف کی سیر کروائی اب تک کہانیاں باہر کی دنیا کی سیر پر تھیں اب جب کہانی کا رخ اندر کی طرف موڑا گیا تویک نیا جہان ہمارے سامنے کھل کر آیا۔اس مشکل پسندی نے اردو میں ایک نئی طرح کی نثر لکھنے کو فروغ دیا یہیں سے پرانی نثر اور نئی نثر کی بحث کا آغاز بھی ہوتا ہے ۔1971 کے بعد بلراج مینرا نے کوئی افسانہ نہیں لکھا مگر آج بھی وہ جیتے کہانی میں ہی تھے اردو میں کم مغربی ادب میں زیادہ کہ وہاں ان کی ملاقات دوستوئکی سے ہوتی ہے۔ جین آسٹین سے ہوتی ہے۔ کہانی کے علاوہ بلراج مینرا کی پہچان کا ایک حوالہ ہے ان کی ادارت میں شائع ہونے والا رسالہ ’’شعور‘‘ ہے جس کی اپنی ایک ادبی اہمیت ہے۔بلراج مینرا ایک ایسا نام جو کہانی لکھتے لکھتے خود کہانی بن گیا لگ بھگ ۳۰ سال سے کوئی کہانی نہیں لکھی۔ کسی ادبی محفل میں وہ آپ کو نظر نہیں آئے نہ ہی کسی ادبی گروہ میں شامل ہوئے۔ فکشن کے اس عہد کو جو ترقی پسند تحریک کے بعد نمودار ہوا ہم بلراج مینرا کا عہد کہہ سکتے ہیں جب کہ اسی دور میں انور سجاد، عبداللہ حسین، سریندر پرکاش، یہ تمام حضرات لکھ رہے ہیں ۔ بلراج مینرا کی کہانیاں چونکاتی بھی ہیں ،مگر ایسی کہانیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ بلراج مینرا ایک تہہ دار کہانی کار ہے ان کی کہانی کی دنیا آپ پرایک دم سے نہیں کھلتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اپنے علم کی نمائش نہیں کرتے نمائش تو دور کی بات آپ کبھی ان کی تعریف کریں تو وہ گفتگو کو دوسری سمت موڑ دیتے ہیں۔
اردو میں مین ررا منٹو کے دیوانے ہیں۔ منٹو پر ان کا کام ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ’’دستاویز‘‘ کی پانچ جلدیں ہندی میں شائع ہوئی۔ اس سے پہلے منٹو پر اس قدر تحقیقی کام ہندی میں نہیں ہوا تھا۔ سعادت حسن منٹو کو ہندی والوں سے متعارت کروانے میں بلراج مینرا کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے لیکن وہ انتظار حسین کو منٹو سے بڑا کہانی کار مانتے ہیں۔بلراج مین راکی کہانی کا جنم ایک ایسے معاشرے کا جنم تھا جس نے اپنے عہد سے آنکھ ملانے کی کوشش کی تھی مگر اس کوشش میں بہت کچھ چھوٹ بھی گیا تھا اور بہت کچھ اس میں نیا شامل بھی ہوا ۔ انسان باہر کی دنیا کا کتنا بھی مطالعہ کرے اسے وہ تجربہ کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتا جو اس کا اپنی وجود اسے فراہم کرتا۔ تو یہاں سے شروع ہوتی ہے باہر اور اندر کی دنیا کی کشمکش۔ ایک تخلیق کار جو کچھ باہر سے لیتا ہے اسے اپنے اندر جذب کرتا ہے ان تجربات کو اپنی تخلیق کا حصہ بناتا ہے مگر انسان کی اندر کی دنیا کے بھی بہت سے مسائل ہیں جن کو بیان کرنے کی کوشش میں کبھی کبھی زندگی کم لگنے لگتا ہے۔بلراج مین را نے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی افسانے کی کل تعداد یہی کوئی ۳۵ ایک افسانوی مجموعہ سرخ وسیاہ ۔تیس سال سے کچھ نیا نہیں لکھا وہ بتاتے تھے جب میں نے عالمی ادب کا مطالعہ کیا تو مجھے لگا جو لکھا جانا تھا وہ سب تو لکھا جاچکا یا جس پائے کا لکھا گیا اس سے آگے کا لکھنا میرے بس میں نہیں اس لیے لکھنا چھوڑ دیامگر پڑھنا جاری رکھا میری ان سے ایک ہی ملاقات ہوئی تھی جب میں اور شمیم حنفی صاحب نے ان سے ریختہ کے لیے گفتگو کا ارادہ کیا تھا کمرے میں ہر طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں ایک چھوٹا سا بیڈ ایک کولر دیواروں پر پینٹنگ الماری بیڈ کرسی سب طرف کتابیں اور کمرے میں گونجتی بلراج مین را کی آواز اس کمرے کے طلسم میں کھویا ہوا سامیں، کہ میں نے اس سے پہلے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا تھاجس نے صرف اور صرف مطالعہ کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھاتھااس بات سے بے پرواہ کے ادبی دنیامیں کیا ہورہا ہے اس وقت ادبی سیاست پہ کس کا سکہ چل رہا ہے ہماری جامعات میں کس طرح کے لوگ مسلط ہیں کہ جو نصاب کو ہی ادب سمجھے بیٹھے ہیں ۔ محمد حمید شاہد نے اپنے مضمون جو ان کے انتقال پر انہوں نے لکھا ہے میں لکھتے ہیں کہ آخر بلراج مینرا میں ایسا کیا ہے جو اسے اردو افسانے کا اہم باب بنا گیا اس گھتی کو محمد سلیم الرحمن نے یوں سلجھایاہے۔
’’یہ غور کرنا لازم ہے کہ مین را نے اپنے افسانوں میں ایسی کیا جدت پیدا کی جو
جدیدت پسند ادیبوں کے ہاں کم ملتی ہے ویسے بھی تقلیدیت جدیدیت پسندوں کے
پلے ہے کیا جس سے اعتنا کیا جائے؟بیسویں صدی کے نصف آخر میں دنیا جس
تیزی سے بدلی(اور اب بھی اس کی برق رفتاری پریشان کن ہے)اس کے پیش نظر
مین را نے بہت پہلے ادراک کرلیا تھاکہ پرانی طرز کی حقیقت نگاری یاترقی پسندی
نئے ماحول سے نبھا کرنے سے قاصر ہے۔نیا افسانہ کس طرح کا ہونا چاہیے ۔اس
میں کیا کچھ کہا جاسکتایہ سب مین را نے کر دکھایا۔اس کے افسانوں کی تیز رفتاری
اختصارفلم کی طرح تصویری پیکروں یا منظروں میں تحرک یا بے قراری بیانیے میں بظاہر
بے ربطی مگر غور سے دیکھنے پرایک تہہ نشین ربط آشناء بیانیے میں بیچ بیچ میں آہستہ روی
کے پیوندجن سے ارد گرد کی مضطرب اور بھیانک فضااور اجاگر ہوجائے۔اس پہلو کا
خیال رکھنا کہ کوئی افسانہ خواہ کتنی بھی بندشوں میں الجھا ہوا ہوسیاسی معنی اور کیفیت سے
خالی نہ رہے۔‘‘
بلراج مین را نے اپنی پہلی کہانی’’بھاگوتی‘‘۱۹۵۷ میں لکھی ساقی کراچی میں شائع ہوئی اور دوسری کہانی ’’ہوس کی اولاد‘‘سویرا لاہورمیں چھپی۔
بلراج مین را سے میں نے اور شمیم حنفی نے ریختہ کے لیے ایک طویل انٹرویو کیا ہے جو چار قسطوں میں ریختہ ویب سائٹ کے علاوہ یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔بلراج مین را ایک صاحب طرز افسانہ نگار تو تھے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مین را جنرل اورشعور جیسے رسالوں کی ادارت بھی کی وہ مدیر بھی کمال کے تھے ان سے بات کریئے تو وہ آپ کو سیر کروائیں گے اس زمانے کی جس زمانے میں مین را لکھ رہے تھے بار با ر کہتے ہیں کہ کیا زمانہ تھا واقعی کیا زمانہ رہا ہوگا جب بانی،بلراج مین را،سریندر پرکاش،شہر یار،عرفان صدیقی،شمس الرحمن فاروقی ،شمیم حنفی ،گیان چند جین ،گوپی چند نارنگ وغیرہ لکھ رہے تھے اور ایک زمانہ ان کی تحریروں کا دلدادہ تھا۔ادب تو آج بھی لکھا جارہا ہے مگر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اب نہ تو لکھنے والوں میں اس طرح کی تخلیقی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی قاری کے پاس اتنا وقت کے وہ ادب پڑھ سکے ویسے بھی اردو میں اب قارئین کی تعداد بھی کم سے کم ہوتی جارہی بلراج مینرا ایک ایسا علامتی افسانہ نگار ہے جو ہماری روایتی کہانی سے بھی واقف ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں لکھے جانے والے ادب پر بھی اس کی گہری نظر تھی جو لوگ ان سے ملے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کس طرح ایک آدمی سراپا ادب بنا ہوا تھا جو ہر وقت ادب کی باتیں کرتا تھا جس نے اپنے چاروں اور ایک ایسی دنیا بنا رکھی تھی جو صرف اور صرف ادب کی دنیا تھی مین را کی دنیا اب بھی موجود ہے جب کے وہ ہم میں موجود نہیں ہے اس دنیا کی سیر ادب کے قاری کو کرنی چایئے اسے بھی جو ادب تخلیق کرتا ہے اور اسے بھی جو ادب پڑھتا ہے ۔ممکن ہے اس میل ملاپ سے ایک ایسی دنیا اپنا وجود منوا سکے آخر ہم سب کے پاس کوئی نہ کوئی کہانی تو ہے تو پڑھئے بلراج مین را کو اور داخل ہویئے کہانی کی دنیا میں جہاں سب کچھ کم سے کم ہماری دنیا سے تو بہتر ہی ہے۔مین را نے کہیں لکھا تھا۔
’’سطحی لکھنے والے اور گہرے فنکار ہر زمانے میں ہوتے ہیں پہلے بھی تھے اور اب بھی
ہیں ۔کلیشے کا بازار پہلے بھی گرم تھا اور اب بھی ہے۔سطحی اور گہرے لکھنے والوں میں فرق
یہی ہے کہ گہرا فنکار کلیشے کا طلسم توڑتاہے اور سطحی لکھنے والادوسروں کے جال میں بھنبناتا
رہتا ہے۔‘‘
بلراج مین را نے اپنا راستہ الگ بنایااور اسی پر چلتے رہے تب تک جب تک انہیں لگا کہ یہ راستہ سب سے الگ ہے اور نیا بھی اور جب انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ اب وہ کچھ بہت نیا اور انوکھا لکھنے کی سکت نہیں رکھتے تو لکھنا چھوڑ دیا حالانکہ وہ لکھتے رہتے تو اردو فکشن کے خزانے میں اضافہ ہی ہوتا مگر انہوں نے لکھنے کے بجائے پڑھنے کو ترجیح دی اور کھو گئے عالمی ادب میں عالمی ادب کے مطالعے میں مگن یہ شخص جسے ہم بلراج مین را کے نام سے ہمیشہ یاد رکھیں گے ۱۵ جنوری کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا ۔
میرے مرحوم س بہت اچھے تعلقات تھے، حالانکہ جدیدیت کی لہر میں ڈوبے ہوئے کئی لوگ ڈوبتے، ابھرتے ، ڈوبتے نظر آتے تھے، بلراج خود کو سنبھالے ہوئے تھے۔ دو برس پہلے ریختہ کے جشن میں شامل ہونے کے لیے دہلی پہنچنے کے بعد میں ان کے گھر ان سے ملنے گیا تو انہوں نے بتایا کہ کراچی سے آئے ہوءے اجمل کمال صاحب بھی ان سے ملے تھے۔ “بس، یہی ہیں، پرانے دوست۔۔۔۔ایک امریکا سے ، ایک پاکستان سے۔۔۔یہاں سے تو کوئی نہیں ہے۔”