محمد عاصم
قیام پاکستان کی مہم جوئی میں ایک جانب مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] کے پرجوش عوام کا کردار مثالی تھا تو دوسری جانب دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی عوام نے ہر لحاظ سے بانی پاکستان کا ساتھ دیا۔ سوال یہ ہے کہ محب وطن اور پرامن بلوچی آخر کیوں کربدامنی کا شکار ہیں؟ آخر کیا وجوہات ہیں کہ کل تک مہمانوازی کی شاندار تاریخ رکھنے والے بلوچ آج اتنے سفاک اور خون خار ہو چکے ہیں کہ نہتے، معصوم اور بے گناہ مزدوروں تک کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے جا رہے ہیں۔۔۔
قبائلی نظام: سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی طرح بلوچستان میں بھی مضبوط قبائلی نظام پر مبنی معاشرہ آباد ہے۔ باقی صوبوں کے برعکس یہ نظام یہاں زیادہ متحرک اور موئثر اندازمیں موجود ہے۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں آج بھی قبیلےکے سردار ہی حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔ اصل حکمرانی انہیں کے پاس ہے۔
جیوپولیٹیکل ویو: ایک طرف تو بلوچستان پاکستان کا، رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے تو آبادی کےتناسب سے سب سے چھوٹا بھی۔ زیادہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ بلوچستان بیک وقت ہمسائے ممالک افغانستان اور ایران سے مشترک سرحدیں رکھتا ہے، دوسری جانب ان ممالک میں بلوچ علاقے بھی ہیں۔ یہ علاقے پاکستانی بلوچستان سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سمندری ساحل بھی بلوچستان کی اہمیت بڑھا دیتا ہے۔ یاد رہے کہ بلوچ قبائل کی بڑی تعداد پنجاب اورسندھ کے مختلف علاقوں میں بھی آباد ہے۔
تعلیمی صورتحال: تعلیمی پسماندگی یہاں کے بنیادی مسائل میں سے ایک برننگ ایشو ہے۔ سرکاری سکول بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ یہاں تک کہ بعض علاقوں میں استاد تک موجود نہیں اور سکول کی عمارت کسی سردار کے ذاتی استعمال میں ہے۔ کوئٹہ شہر جو صوبائی دارالحکومت کا درجہ رکھتا ہے میں نسبتا تعلیمی صورتحال بہتر ہے لیکن صوبے کی مجموعی تعلیمی حالت تشویک ناک حد تک خراب ہے۔ فیڈرل حکومت اور دیگر صوبائی حکومتوں نے بلوچ طلبہ کو خصوصی سکالرشپس کی سہولت فراہم کر رکھی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ابھی کافی محنت درکار ہوگی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے۔
عالمی طاقتیں: پاکستان کے لیے بلوچستان کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ لیکن دوسری جانب عالمی طاقتیں بھی اپنے اپنے مفاد لیے، بلوچستان میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ ایران کو اپنے تیل کے ختم ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ بھٹو دور حکومت میں ایک معاہدہ کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان اپنے علاقوں میں تیل کے کنووں پر کام نہیں کر یگا۔ کیوں کہ تقریبا سارے تیل کے ذخائر کا بہائو پاکستانی بلوچستان کی طرف ہے۔ دوری جانب سارا سال آمدورفت کے لیے قابل استعمال گوادر بندرگاہ اپنی خاص لوکیشن اور فنکشن کی بنا پرچین کے علاوہ کئی عالمی طاقتوں کے مفادات کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ گوادر بندرگاہ کی دوسری خوبی اس میں تیرتے جہازوں کے لیے ساحل کے قریب ترین لنگرانداز ہونے کی صلاحیت ہے، دنیا میں اس خوبی کی حامل کم ہی بندرگاہیں ہیں۔گوادر بندرگاہ کے فنکشنل ہونے کی صورت میں مصنوعی بنیادوں پرکھڑا عرب امارات کا معاشی ڈھانچہ اسی فیصد نکارہ ہوجائے گا۔ اور چین کو اپنی مصنوعات عالمی منڈی میں لے جانے کے لیےہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ صرف چند سو کلو میٹر میں طے کرنا پڑے گا جس سے ایک خطیر لاگت کی بچت ہو گی۔ جبکہ چین کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت کو بھی اس اکنامک کوریڈور کا فائدہ ہوگا۔ ہمارے کئی شہر اس معاشی خوشحالی کا مرکز بنیں گے۔
ملکی ادارے: حکومتی اداروں کی کارکردگی افسوس ناک حد تک خراب ہے۔ لیویز کی فورس نااہل افراد پر مشتمل ہے۔ خود حکوتی اہلکار جرائم میں ملوث ہیں۔ اٹھارہ ہزار لاپتہ افراد کے خاندان دن رات ازیت ناک زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کئی بار بیرونی مداخلت کے شواہد ملنے کے باوجود پارلیمنٹ نے اپنا مثبت رول ادا نہیں کیا۔ سالانہ بجٹ میں قابل زکر حصہ بلوچستان کو نہیں دیا گیا۔ سیاسی وعدے ہوئے لیکن
عمل نا کیا جا سکا۔ گذشتہ حکومتوں کے اعلان کردہ بلوچستان پیکج بھی دفتری ردی کا حصہ بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی ابھی تک کوئی قابل زکر فیصلہ نہیں دے سکی۔
مسلے کی اصل وجہ اور ممکنہ حل: چند دن پہلے پنجاب سے تعلق رکھنے والے دہاڈی دار مزدور، جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا، بلوچ لبریشن آرمی کی سفاکیت کی بھینٹ چھڑ گئے۔ ان مزدوروں سے بلوچستان کے مسائل کا کیا تعلق ہو سکتا تھا؟ آخر کیوں یہ ظلم کیا گیا؟ اس سے پہلے بھی مزدوروں کو اپنی سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ان محنت کشوں کو قتل کردیا گیا یا انہیں وہاں سے بھا گ جانے پر مجبور کردیا گیا۔
ایک گہری سازش کے تحت بلوچ نوجوان کو حکومتوں کی خراب کارکردگی کی آڑ میں یہ سبق سکھایا جا رہا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے اب واحد راستہ بندوق ہی ہے۔سوشل میڈیا پر موجود مواد اور ویڈیوز ایک الگ داستان ہیں۔ بھارت اور دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کے لیے اس سازش میں بڑے سرمایہ دار کے موجود ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سارے پاکستان میں ایک مخصوص ٹولے کے علاوہ باقی سبھی پاکستانی محرومیوں کا شکار ہیں۔
اب اس بھیانک سازش سے نکلنے کے لیے انصاف کو فورا حرکت میں آنا ہو گا۔ سچے دل سے سیاسی پارٹیوں کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ پارلیمنٹ کو تیز اور متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔ تعلیم، صحت اور امن کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے بلوچستان کے مقامی نوجوان کو اعتماد میں لیکر اپنے ساتھ خوشحالی و ترقی میں شامل کرنا گا۔اب جب کہ چین بھی ایک بڑی رقم خرچ کرنے لگا ہے، تو اس موقعہ سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ باقی ملک کی یوتھ کے ساتھ ساتھ بلوچ نوجوانوں کو خصوصی توجہ دی جائے۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔