بلوچستان کا ٹوٹا پھوٹا نظام تعلیم
(ببرک کارمل جمالی)
اللہ میاں نے انسان کو اشرف مخلوقات کا درجہ دے دیا ہے اور زمین پر اپنا نائب بنا کر اتارا ہیں اور انسان کو علم کی دولت سے آراستہ کرکے دیگر مخلوقات سے افضل بنایا ہے تعلیم کی اہمیت کا ادراک رکھنے والی اقوام آج بھی دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں دنیا میں ناخواندگی ختم ہو رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ شرح ناخواندگی بلوچستان میں ہیں۔ آخر پورا ملک ناخواندگی کو ختم کر رہا ہے یا نا خواندگی کو بڑھا رہا ہے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ویسےدنیا بھرمیں ایک بات طے ہوچکی ہے کہ اب تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہی اقوام ترقی یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کررہی ہیں جو تعلیمی میدان میں گرانقدر اقدامات کررہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ملک میں تعلیمی پسماندگی پر حکومتی سطح پر تمام جمہوری حکومتوں کے ادوار میں کسی قسم کے موثر اقدامات نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں ناخواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ عدم توجہ اور غیر سنجیدگی کے باعث کئی تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں سی پیک جب بن جائے گا تو یہ تعلیمی ادارے کیا اپنا رول پلے کریں گے یا نہیں ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ حکمرانوں کے پاس نہ عوام کے پاس۔
بلوچستان کی احساس محرومی کا تذکرہ ہرگز نیا نہیں۔ گزرے کچھ سال میں سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستانیت پر یقین رکھنے والے بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کو پہاڑوں میں شہید کرکے مسئلہ” حل” کرنے کی کوشش کی تو آصف علی زردای نے بھی حقوق آغاز بلوچستان جیسے پروگراموں کے ذریعے اربوں روپے دے کر صوبے کو ترقی دینے کے جتن کرتے رہے مگرافسوس کہ حالات بہتر نہ ہوسکے۔اسی طرح بلوچستان کا تعلیمی نظام بھی کھٹارہ بس کی طرح جس پہ سوار ہونا تو آسان مگر منزل پر پہنچا بہت مشکل ہے۔
بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں کی ماں بلوچستان یونیورسٹی بھی اس خلا کو پر نہ کر سکا ویسے بلوچستان میں کئی تعلیمی ادارے موجود ہیں مگر ان سب سے اعلی مقام بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کو حاصل ہے بلوچستان یونیورسٹی صوبے کی واحد یونیورسٹی جو قیام پاکستان کے ون یونٹ کے خاتمے پر بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیئے جانے کے بعد 1970ء میں قائم کیا گیا قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں چند گنے چنے ادارے تھے جن میں چند سکول تھے کوئٹہ شہر سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے دو ہزار ایکڑ کے قریب رقبے پہ پھیلی ہوئی یہ یونیورسٹی اپنے قیام کے دو سال میں ہی شروع کی گئی۔
1972ء میں میں بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین مرحوم تھے جن کی سربراہی میں ایم اے اور ایم ایس سی کا پہلا بینچ 1973ء میں فارغ ہواتھا حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وقت یونیورسٹی طلبہ اور طالبہ کی تعداد صرف 33 تھی اس کے بعد بلوچستان یونیورسٹی میں ہزاروں کی تعداد ہوگئی بلوچستان کے طلبہ اور طالبہ کی تعلیم کی لگن بڑھنے لگی اور پھر طالبہ اور طلبہ آتے گئے تو یونیورسٹی میں مزید بلاک بنائے گئے 1980ء میں آرٹس فیکلٹی اور سائنس فیکلٹی کے الگ الگ خوبصورت بلاک بنا لیئے گئے اور ساتھ میں 1980 میں بلوچستان یونیورسٹی کو خوبصورتی میں اضافے کیلئے درخت اور پودے لگائے گئے اور یونیورسٹی کو اس قدر خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا کہ اسی سال یونیورسٹی کو ملک کی سب سے خوبصورت یونیورسٹی کا اعزاز حاصل ہوگیا۔
بلوچستان یونیورسٹی نے اپنےدور میں بہت سے دکھ سکھ دیکھے ہیں آج پاکستان کےسب سے خوبصورت یونیورسٹی کئی مسائل سے گھری ہوئی ہے آج بھی نوجوان مختلف فیکلٹی میں ڈگریاں حاصل کرتے ہیں جن میں فیکلٹی آف مینجمینٹ سائنس، فیکلٹی آف بزنس، فیکلٹی آف سوشل سائنسز، فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوارمنٹل، فیکلٹی آف لائف سائنسز، سمیت گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی بھی اعزازی ڈگریاں دی جاتی ہے بعض چار سالہ پروگرام بھی جاری ہیں بلوچستان یونیورسٹی سے ہر سال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں طلبہ و طالبات ڈگریاں حاصل کرتی ہیں یونیورسٹی میں درس و تدریس کے شعبے سے تقریبا 500 اساتذہ منسلک ہیں۔
جامعہ بلوچستان نے پی ایچ ڈی کی بھی تقریبا 60 ڈگریاں اساتذہ کو دے چکی ہے۔ جبکہ تقریبا 45 اساتذہ کے لگ بھگ اساتذہ بیرونی ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں جامعہ بلوچستان کا اصل مقصد تحقیق اور تحقیقی عمل کے ذریعے علم اور تحقیق کو بڑھانا ہے اسی مقصد کےلئے جامعہ بلوچستان نے ایم اے اور ایم ایس سی کی تعلیم کے دوران تحقیقی مقالہ لکھنے سمیت فنکشنل انگلش کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ طلبہ اور طالبات میں تحقیق کا طریقہ اور اہمیت اور شعور پیدا کیا جا سکے یونیورسٹی میں جدید طریقوں سے طلبہ اور طالبات کو علم کی روشنی سے روشناس کروایا جا رہا ہے چاک اور بلیک بورڈ کے بجائے ملٹی میڈیا پروجیکٹر کے ذریعے اندرون ملک اور بیرون ملک کے لیکچر دیئے جاتے ہیں اس کے ذریعے طالب علموں کو سمجھنے اور پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
بلوچستان کے تمام شعبوں میں کمپیوٹر لیب اور لائبریری کی سہولت موجود ہے اور مرکزی لائبریری دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہے جس میں لاکھوں کتابیں اقر رسائل موجود ہیں ویڈیو کانفرنس ہال میں جو ملکی اور غیر ملکی لیکچر کا اہتمام کیا جاتا جہاں مختلف موضوعات پہ مختلف وقت میں لیکچر سنے جاتے ہیں گورنر بلوچستان جو یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی ہے وہ مختلف انتظامی اداروں کی صدارت بھی کرتے ہیں جبکہ بلوچستان یونیورسٹی اعلی تعلیم کیلئے ملکی اور بین الاقوامی 21 یونیورسٹیوں کےساتھ مفاہمتی سمجھوتوں پر دستخط کر رکھے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے جب بھی تعلیم اور امن و امان کی بہتری کے دعوے کیے جاتے ہیں اس کے اگلے ہی روز صوبہ میں کہیں نہ کہیں سے دھماکوں کی گونج سنائی دیتی ہے جو تمام بہتری کے اقدامات پر پانی پھیر دیتے ہیں اور حکومت پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ جاتی ہیں۔
اگر آج یونیورسٹی کے اندر داخل ہونگے تو آپ کو اپنا قومی شناختی کارڈ گیٹ پر جمع کروانا پڑھے گا بلوچستان یونیورسٹی میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو طلبہ اور طالبات کبھی بھول نہیں سکتے ہیں صوبے میں انتہا پسندی، دہشت گردی، علیحدگی اور عصبیت پسندی کی فضا برپا ہے، صوبہ میں ایک ضلع یا علاقہ سے دوسرے ضلع یا علاقے میں جانا تقریباً غیر محفوظ ہوگیا ہے، یعنی صوبہ بھر میں نو گو ایریاز یونیورسٹیاں بن چکے ہیں لیکن اس حقیقت کو حکومتی سطح پر کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔بلوچستان یونیورسٹی 1990ء تک واحد یونیورسٹی تھی جو صوبے کے ہزاروں طلبہ اور طالبات کو اعلی تعلیمی سہولیات فراہم کرتی تھی مگر بعد سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی انجنیئرنگ یونیورسٹی خضدار آئی ٹی یونیورسٹی سائنس یونیورسٹی اوتھل بھی قائم ہوئے تھے اس لحاظ سے جامعہ بلوچستان کو صوبے کے تعلیمی اداروں کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس یونیورسٹی کے90 فیصد طلبہ اور طالبات مختلف اداروں میں جاب میں لگے ہوئے ہیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبہ مختلف تحقیقی شعبوں میں کام کرتے ہیں حتاکہ وزیراعظم نے گوادر میں نئے یونیورسٹی کے قیام کا اعلان تو کیا ہے مگر پرانی یونیورسٹیوں کو کیا ری ماڈل نہیں کیا جا سکتا کیا ان یونیورسٹیوں میں سی پیک کی وجہ سے چینی زبان سکھائی جائے گی یا یہ یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں دیتی رہیں گی جو کاغذات میں ایک صفحے کا اضافہ کر سکے گے جو کسی بھی کام کے نہیں ہونگے۔
وطن عزیز میں شبعہ تعلیم کا مجموعی معیار کسی طور پر تسلی بخش نہیں۔ قومی ترقی میں کلیدی اہمیت کا حامل تعلیمی شعبہ عملا طبقات میں تقسیم ہوچکا۔ مثلا ایک طریقہ تعلیم اس اشرافیہ کے بچوں کے لیے مختص ہے جس کے لیے بے دریغ پیسے کا استمال کسی طور پر مسلہ نہیں لہذا انھیں ملک کے اندار اور ملک کے باہر بھی بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے میں ذرا بھر پریشانی نہیں۔اگر بلوچستان میں تعمیر وترقی کا خواب حقیقی معنوں میں شرمندہ تعبیر کرنا ہے تو تعلیم نہیں میعاری تعلیم کے فروغ کو ہدف بنانا ہوگا۔