الیاس رئیس بلوچ
پانی اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے زندگی کا دارومدار پانی پر ہے- پانی نہیں تو زندگی نہیں- یعنی پانی سے تو زندگی کا یہ سفر رواں دواں ہے- اگر پانی ختم تو دنیا اور دنیا کی رونقیں بهی ختم۔ پانی کا مسئلہ تو ہمشہ سے بلوچستان میں رہا ہے کیونکہ یہاں بارشیں بہت ہی کم ہوتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں اتنی آبادی نہیں تهی تو پانی کی ضرورت بهی کم تهی۔ جیسے جیسے آبادی بڑهتی رہی ویسے ویسے پانی کی ضرورت بهی بڑهتی گئی- اب صورت حال یہاں تک پہنچ گیا ہے بلوچستان کے بہت سے اضلاع میں لوگ پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے بدقسمتی بلوچستان کے لوگوں کا پیچها ہی نہیں چهوڑ رہی – بےبسی لاچارگی ، غربت و بهوک افلاس تو تھا ہی اب خشک سالی نے کئی سالوں سے اپنے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ لوگوں کے کهجور انگور کے باغات مال مویشی تو تباہ ہوگئے لیکن اب تو پینے کا پانی بهی نایاب ہورہاہے۔
ہر سال دوسرے سال سے بہتر ہورہا ہے- کئی سال ہوگئے ہیں کے بارشیں بند ہیں۔ لوگوں نے زمین کے آخری حصے سے بھی پانی نکالنے کا کام شروع کیا ہے جسے بورنگ کہتے ہیں ۔ پہلے زمانے میں تو کنواں کهود کر پانی نکلا جاتا تها لیکن اب پانی بہت نیچهے چلا گیا ہے، تو لوگوں نے بور کا استعمال شروع کیا اِس سے اور گہرائی میں جا کر زمین کے اندر کا پانی نکالا جاتا ہے جسے صیح معنوں میں دیکھا جائے تو ایک منفی عمل ہے کیونکہ اِس سے آنے والی نسلوں کیلئے مُشکلات اور بڑھ جائیں گی۔ لیکن آج کل تو جیسے ایک فیشن سا چل گیا ہے جہاں ایک بور کی ضرورت ہے وہاں لوگوں نے تین تین چار چار لگا دی ہیں- پانی کا بےدریغ استعال کیا جارہا ہے- ضرورت نہیں ہے لیکن بغیر وجہ کے 24 گهنٹے موٹرز سٹارٹ ہیں اور پانی کے ضائع ہونے کا کسی کو فکر ہی نہیں اور نا ہی لوگ فکر کرنے کے موڈ میں ہیں۔
لیکن اب جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے خطرہ بڑهتا جارہا ہے جس کی مثال یہاں سے لیں کہ، پانی جو پہلے پنجگور میں 100 فٹ سے 200 فٹ تک تها اب 500 سے 800 فٹ نیچهے چلا گیا ہے- خاص طور پر کوئٹہ ، چاغی پنجگور اور گوادر پانی کی سنگین صورت حال کا شکار ہیں۔ اور پنجگور میں بورنگ کی کثرت نے ناصرف پانی کو مزید کهارا کردیا ہے- بلکہ وہ جگہیں جہاں پانی کسی زمانے میں وافر مقدار میں موجود تها لیکن بورنگ کی وجہ سے وہاں بهی پانی بڈی تیزی کے ساتھ نیچهے جارئی ہے۔
اگر یہی صورت حال رہی اور ہم نے ہوش کے ناخن نا لیئے اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا تو کچھ شک نہیں پنجگور میں بهی پانی کی صورت حال اتنا ہی خراب ہوگا جتنا آج کل گوادر والے پانی کے مسئلے کا سامنا کررہے ہیں- وہاں وہ پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔
اب ضرورت اس آمر کی ہے کے ہم لوگ پانی کا استعمال کم ازکم کریں اور غیرضروری طور پر پانی کو استعمال کرکے پانی کو ضائع نا کریں- اور تعلیم یافتہ لوگوں کو آگے آنا چائیے- کیوں کے ہماری قوم کم تعلیم یافتہ ہے- انہیں اتنی آگاہی نہیں کے دنیا میں آج کل کیا ہورہا ہے- پانی کی آج کل صورت حال کیاہے ہم پڑهے لکهے لوگوں کو اگے آنا چاہئے گهر گهر جاکر یا محلے کی سطح پر اسے پروگرام کریں تاکہ ان لوگوں کو پانی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرسکیں- اگر ہم نے ابهی سے کچھ نہیں کیا تو کچھ شک نہیں ہم سب کویہاں سے نقل مکانی کرکے خانہ بدوشوں کی زندگی پھر سے اپنانی پڑے گی۔
حکومت کو چاہیے اور خاص طور پر مقامی نمائندوں کو کہ لوگوں کو بور دینے کے بجائے واٹرسپلائی اسکیمیں زیادہ سے زیادہ شروع کی جائیں- کیونکہ بورنگ کی وجہ سے نا صرف زمین کمزور ہوتی ہے بلکے پانی کی قدرتی (واٹرٹیبل) کو بهی نقصان پہنچتا ہے۔