(قاسم یعقوب)
پاکستان کے جنوب مغر ب کی سمت وسیع و عریض علاقے پر پھیلا خشک پہاڑی سلسلہ بلوچستان اپنی مختلف ثقافت کے ساتھ پاکستان کے مجموعی تہذیبی تشخص میں اہم حصہ دار ہے۔ بلوچستا ن بھی صوبہ سرحد کی طرح قبائلی نظام پر مشتمل ہے۔ یہاں پر جتوئی، مزاری، بروہی، بگٹی، کھوسہ، گورشانی، دریشک، بجارانی وغیرہ مضبوط اور بڑے قبائل ہیں۔ مقامی مادری زبان بلوچی بلوچستان کی سماجی، تہذیبی تاریخ کی آئینہ دار ہے اس لیے بلوچی میں بلوچوں کے تہذیب و اقدار کامطالعہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس علاقے میں دیگر مقامی زبانیں، پشتو اور براہوی بھی بولی جاتی ہیں مگر بلوچی کو خاص اہمیت حاصل ہے جو اپنے جدا گانہ رنگ کے ساتھ تمام بلوچستان میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ جس طرح صوبہ سرحد میں ہند کو، سرائیکی اور شمالی علاقہ جات میں شنا وغیرہ بولی جاتی ہے مگر پشتو غالب مادری زبان کے طور پر اہلِ صوبہ سرحد کی مشترکہ زبان قرار دی جاتی ہے اسی طرح بلوچی بھی تمام بلوچی قبائل کی نمائندہ زبان بن کر عرصے میں تہذیب و ثقافت کی آبیاری میں مصروفِ عمل ہے۔ بلوچی زبان کے شعری سرمایے کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک بڑا حصہ رزمیہ قصوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ یہ وہ داستانیں ہیں جنھیں تاریخ میں مستند واقعات کی حیثیت حاصل ہے۔ بعض اوقات تاریخ نویس حقائق کی درستی کے لیے بلوچی رزمیہ شعری داستانوں سے مدد لیتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ بلوچستان کا وسیع و عریض علاقہ جنگجو قبائل کی مختصر آبادی پر مشتمل ہے، اس علاقے کے غیور عوام نے سامراجی قوتوں کو بھی در اندازی کے جواب میں خوب مزاحمت پیش کی۔ مگر بلوچی رزمیہ داستانوں میں زیادہ تر قبائل کے آپس میں جنگ و جدل کے واقعات منظوم صورت میں ملتے ہیں۔ ان رزمیہ داستانوں میں میر چاکر رند کا کردار تمام بلوچ سرداروں کے لیے نمونہ ہے۔ میر چاکر رند ایک بلوچ قبیلے کا سردار تھا۔ وہ اپنی فہم و فراست اور تنک مزاجی کی وجہ سے اہلِ بلوچ میں ہر دل عزیز سمجھا جاتاہے۔
میر چاکر کی تنک مزاجی کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اوراق میں، اس کی فریب کاری کے حوالے سے بھی عجیب و غریب قصے ملتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر واضح ہو گیا کہ میر چاکر کا زمانہ اکبر اعظم کے دور میں بنتا ہے، یہی وہ دور تھا جب مغل پوری طرح برصغیر میں پھیل چکے تھے۔ بلوچی ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بلوچ قبائل اپنے قول نبھانے میں کس درجہ پورے ہیں۔ میر چاکر کی عیاری اور بلوچوں کے ایفائے عہد کے متعلق کامل القادری لکھتے ہیں:
’’جاڑو نے قول کیا تھا کہ اگر کوئی اس کی داڑھی کو ہاتھ لگائے گا تو وہ اسے قتل کر دے گا۔ میر چاکر خا ن رند نے دائی کو سکھا کر بھیجا کہ اس طرح شیر خوار بچے کو اس کی گود میں دو کہ جاڑو کی ریش تک اس کا ہاتھ پہنچے۔ شیر خوار بچے کا ہاتھ ریش کو چھونے لگا اور قول نبھانے کے لیے جاڑونے بے دریغ و بے تامل اپنے بچے کو قتل کر دیا۔ دوبارہ چاکر نے ہادی کو جاڑو کی داڑھی چھونے کی ترغیب دی۔ یہ مرحلہ جاڑو کے لیے آزمائش کا تھا کیونکہ اس کا یہ بھی قول تھا کہ جو ہادی کو قتل کر ے گا میں اس کا بدلہ لوں گا۔ بہر کیف جاڑو نے اپنے بھتیجے شاہو سے ہادی کو قتل کرنے کے لیے کہا اور جب شاہو نے ہادی کو قتل کر دیا تو جاڑو نے اپنے بھتیجے شاہو کو قتل کر کے ہادی کے خون کا بدلہ لے لیا اور اس طرح مرداں جان دارد کی مثال بن گیا۔‘‘
جاڑو ایسا کردار ہے جو اپنے قول نبھانے میں نہایت غیر ت مند ہے مگر ہادی کو قتل کرنے سے اس لیے ہچکچاتا ہے کہ اسے خود قتل ہونا پڑتا تھا، اس لیے وہ اپنے بھتیجے کو اس قتل پر آمادہ کر کے پھر اس کا قتل اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے۔ یوں یہ قول نبھانا بھی دراصل ایک مصلحت کی کارفرمائی لگتا ہے۔
دوسرے اہم کرداروں میں نود بندغ لاشاری، میر جان، بی برگ وغیرہ شامل ہیں۔ رزمیہ شعری داستانیں بلوچ سرداروں کے عسکری عزائم کا پتہ دیتی ہیں۔ سولہویں صدی عیسوی میں میر چاکر رند اور لاشاریوں کے سردار نود بند غ لاشاری کے درمیان تیس سال تک جاری رہنے والی جنگ نے بلوچ قوم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ جنگ و جدل، خون خرابہ اور قتل و سفاکی کے مسلسل واقعات نے بلوچ قوم کا شیرازہ بری طرح بکھیر کر رکھ دیا۔ بڑے قبیلے مزید چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں بٹ گئے۔ نقل مکانی بلوچوں کا مقدر بن گئی۔ کئی قبیلے نیست و نابود ہو گئے۔ کئی قبائل بڑے قبائل میں ضم ہو کراپنے وجود کی جنگ لڑنے لگے۔ ان حالات میں شاعر کا دل و دماغ جاگ رہا ہوتا ہے۔ وہ صرف حالات کا واقعہ گو نہیں ہوتا بلکہ جذبات کی بھٹّی میں تلخ حقائق کو ایسے پکاتا ہے کہ تاریخ کے صفحات اور ان کے جذبے کی شدت قارئین کے دلوں تک اتر جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بلوچی شعری ادب میں موجود رزم ناموں پر گفتگو کی جائے، پہلے ان رزم ناموں کے اسباب پر روشنی ڈال لی جائے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ میر چاکر اور نود بندغ، جو بلوچوں کے نہایت مضبوط قبیلے اور لاشاریوں کے بالترتیب سردار بھی تھے، کے درمیان ایک لمبی جنگ کی داستان ہی بلوچی شاعری میں رزم ناموں کے آغاز پر مشتمل ہے۔
کامل القادری نے ان جنگوں کے اسباب میں رند اور لاشاری قبائل کے مابین جنگ کی وجوہات کو بتاتے ہوئے لکھا ہے:
’’متعدد قبائل پر مشتمل بلوچ ایک قوم ہے جس کے سردار رند اور لاشاری ہیں۔ انہوں نے نقل مکانی کی۔ درّہ مولا، درّۂ بولان اور دوسرے درّوں سے یہ سندھ کی جانب آئے اور سبی، بھاگ، شوران اور کچھی میں آباد ہوئے۔ یہاں رندوں کے سردار میر چاکر خان رند اور لاشاریوں کے سردار اور ان کے حلیفوں میں پانی پر چپقلش شروع ہوئی۔ یہ چپقلش جاری ہی تھی کہ ہیلن آف ٹرائے کی طرح ’’گوہرجتنی‘‘ فوری نزع کا باعث بن گئی۔ اسی اثنا میں ایک اور واقعہ ہوا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ میرگہرام لاشاری کا بیٹا رامین لاشاری اور میر چاکر رند کے بھتیجے ریحان رند کے درمیان گھوڑ دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ جس میں رامین کی گھوڑی آگے نکل گئی۔ لیکن چونکہ یہ مقابلہ رندوں کے علاقے (ڈھاڈر) میں ہوا تھا اس لیے رندوں نے اس کی جیت تسلیم کرنے میں سبکی محسوس کی اور گڑ بڑ کر کے ریحان رند کی جیت ظاہر کرنے لگے جس سے رامین کبیدہ خاطر ہوا۔ اس ناانصافی کی خبر جب لاشاریوں کو ملی تو نوجوانوں کی ایک ٹولی ریحان رند سے لڑنے کے لیے آئی۔ رند بھی لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن لاشاری گھوڑے دوڑاتے لوٹ گئے اور جاتے ہوئے ’’گوہرجتنی‘‘ کے نوجوان اونٹوں کو زخمی کر دیا اور کئی اونٹنیوں کے تھن کاٹ ڈالے۔۔۔۔ رندوں اور لاشاریوں کی فوجیں درّۂ مولا کے دہانے کے قریب ٹکرائیں۔ گھمسان کا رن پڑا۔ جنگ میں رندوں کو شکست ہوئی۔ بی برگ اور میران مارے گئے۔ میر چاکر بھی زخمی ہو کر اپنی گھوڑی ’’پھل‘‘سے گرپڑا۔۔۔ میر چاکر فرار ہو کر ہرات اور قندھار کی مغل عملداری میں چلا گیا اور مغلوں سے فوجی مدد لے کر لاشاریوں پر حملہ آو رہوا۔ رندوں اور لاشاریوں کے درمیان حرب و ضرب کا سلسلہ تیس سال جاری رہا۔ یہاں تک کہ لاشاری بالکل تباہ ہو گئے اور میر چاکر کو ملتا ن ہجرت کرنا پڑی۔ ‘‘
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی دو قبائل پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، ملتان، مظفرگڑھ کے علاقوں میں پھیل گئے۔ سندھ، سرحد کے بھی بیشتر علاقوں میں بلوچ قبائل کے افرادمستقل سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ایک سردار کی سربراہی میں نقل مکانی کرنے والے قبیلے نے بعد میں اسی کے نام سے اپنے قبیلے کا نام رکھ لیا۔ مری قبیلہ پہلے بجارانی کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا جو سردار میر بجار کے ساتھ منسوب تھا۔ یہ قبائل جہاں بھی جاتے اپنے عسکری اوصاف کی بناء پر جنگ و جدل میں مصروف ہو جاتے۔ جیسا کہ آج تک اس طرزِ زندگی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ بلوچ رزمیہ شاعری میں جن قبائل کے درمیان جنگوں کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے ان میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ مزاری اور بروہیوں کی جنگ
۲۔ یٹی لنڈ قبیلہ کی جنگ (لغاری اور گورچانی قبیلوں کا مشترکہ حملہ، یٹی کنڈ قبیلے پر)
۳۔ گورشانی اور دریشک قبیلوں کی مزاریوں سے جنگ
۴۔ مزاری اور گورشانیوں کی جنگ
۵۔ جتوئی اور مزاری قبیلے کی جنگ
۶۔ قبیلہ بجارانی مری اور موسیٰ خیل پٹھان قبیلے کے درمیان جنگ
۷۔ دریشک اور بگٹیوں کی جنگ
۸۔ کھوسہ قبیلہ اور لغاری قبیلہ کی جنگ
مذکورہ نظمیں اپنے عنوان سے ہی واضح ہیں کہ تمام بڑے قبائل آپس میں برسرِ پیکار ہیں۔ ہر قبیلہ خود کو میر چاکر رند کی تنک مزاجی، فراست اور مکاری کا دعویٰ کرتے ہوئے دوسرے قبیلے کو شکست دینے کی کوشش میں نظر آتا ہے۔ یہ نظمیں پشتو اد ب میں ادبی فنی لحاظ سے اتنی پختہ نہیں۔ نظموں کی بُنت کاری پر توجہ دینے کی بجائے شاعر واقعات نگاری اور بیانیہ جذبات نگاری پر زیادہ متوجہ ہے۔ اکثر نظموں کے شاعر نامعلوم ہیں۔ یہ نظمیں اپنے تاریخی حقائق کی وجہ سے سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی مختلف قبائل کی عظمت و سر بلندی کی ضمانت بنتی رہیں، اسی لیے قبیلوں میں اپنے متن کے ساتھ محفوظ ہیں۔ یہ علاقہ چونکہ محدود آبادی اور بنجر و ویران ہونے کی وجہ سے باہر کے حملہ آوروں کے لیے کشش کا موجب نہ بن سکا، ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں بہت کم حملہ آوروں نے اس علاقے کا رُخ کیا، جس کی وجہ سے رزم ناموں میں مقامی قبائل اپنے ساتھ ہی برسرِ پیکار ہیں۔ ان کی قوت کسی بیرونی طاقت سے لڑنے پر صَرف نہیں ہوئی۔ پنجاب اور سرحد کی طرح یہ علاقے مستقل بیرونی حملہ آوروں کا ہدف بنتے رہتے تو قبائل آپس میں مل جل کر اپنے علاقے کے جغرافیائی اور نظریاتی تحفظ کے لیے دفاعی حکمتِ عملی اپناتے۔ یہ عمل کاری ہمیں بیسویں صدی میں نظر آتی ہے جب انگریز اس علاقے میں وارد ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی قبیلے انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوتے نظر آتے ہیں۔
مزاریوں اور بروہوں کے درمیان جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے شاعر (نامعلوم) اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے اپنے پروردگار، حضرت علیؓ، پنج تن پاک اور چار یاروں کو یاد کر کے مزاریوں کی مد د کی درخواست کرتا ہے۔ یہ سارا جھگڑا اونٹ چوری کے واقعے سے شروع ہوتا ہے اور پھر طبلِ جنگ بج جاتاہے۔
میرؔ گھوڑے پر سوار سب سے آگے تھے
مع اپنے عزیزوں اور قبیلے کے
چل پڑے وہ سلطانِ عربی (محمدؐ) کے سہارے
کہ نہیں چھوڑوں کا اپنے اونٹ دشمنوں کے پاس
نکل آؤ!اے مزاریو!
حمل ھوت جیسا بہادر آگے آگے تھا
جو ہماراامیر اور رہنما ہے
جنگ کے دوران بھی شاعر دشمن کے خلاف حضرت محمد ا کی شفاعت کا طالب ہے تاکہ وہ دشمن پر غالب آسکے۔ بروہوں کو شکست دینا ہی اصل ہدف ہے۔ آخر میں جب مزاری، گل محمد اور تاجو بروہی کو بھگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو شاعر کہتا ہے:
مارڈالا ہم نے گل محمد کو مع چوبیس ساتھیوں کے
دی ہم کو فتح اللہ نے
جو قیامت تک یادگار رہے گا
اے سننے والو! کلمہ پڑھو۔
گویا وہ یہ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ بہرحال اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا غیبی امداد کا معرکہ حق و باطل کی صورت میں طلوع ہو نا خود ساختہ خیر کی فتح تو ہو سکتا ہے حقیقت میں ممکن نہیں۔
ایک اور نظم جو گورشانی اور دریشک قبیلے کی مزاریوں کے ساتھ جنگ کی صورت میں سامنے آتی ہے، اس میں مزاریوں کو شکست ہوتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ شاعر (نامعلوم)گور شانیوں کا ہوگا۔ یہاں شاعر کا سارازورِ قلم مزاریوں کو بزدل قرار دینے اور گورشانی قبیلے کی عظمت کے بیان میں صَرف ہے۔ بلکہ وہ صرف جنگی معرکہ آرائی کی نقشہ کشی تک محدود نہیں بلکہ مخالف قبیلے پر الزامات اور تہمتیں کستا ہے۔ مخالف قبیلہ صرف دشمن نہیں بلکہ خیر و شر کے معرکے میں شر کی نمائند گی بھی کر رہا ہے جس کی شکست دراصل نظریہ کی فتح بھی ہے:
اللہ کے نام جب نبیؐ نے لڑائیاں لڑیں
تو علیؓ نے کافروں کے جگر چیر ڈالے
کافروں کو شکست دے کر
مومنوں کے دینِ اسلام کو عام کر دیا
اسی دن سے آج تک کافروں سے ہماری جنگ ہے
مزاری میرے سردار کے نوکر ہیں
جو ماہوار تنخواہ اور انعام حاصل کرتے ہیں
جب نورخان سردار تھا
تو مزاری آکر خیرات مانگتے تھے
ان دونوں قبیلوں کے درمیان قرآن رکھ کر
آپس میں صلح صفائی کی گئی
مگر اے مزاریو! تمہاری عقل و فہم جاہلوں کی ہے
کہ تم نے اس صلح کو چھری سے کاٹ ڈالا
نظم کے مذکورہ ابتدائیہ میں تاریخ اسلام کی کارروائیوں کو اپنے دشمن کے خلاف صف آرائی کے ساتھ جوڑا گیااور پھر مخالف کو ذلیل و حقیر قرار دے کر شکست ان کا مقدر لکھ دی گئی۔ بلوچ رزمیہ شاعری میں قبیلوں کے مابین جنگوں میں یہ عمومی رویہ ہے۔ تمام اخلاقی قوانین کی پاسداری کا اقرار اور مددِ خدا کا یقین لے کر جنگ کا آغاز کیا جاتا مگر یہ جان بوجھ کر بھولتے ہوئے کہ وہ جو خون بہانے جا رہے ہیں، خدااور رسولِ اکرم ا کے دین کے منافی عمل ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ مزاری قبیلے کا اس سلسلے میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ شاید ہی ایسا قبیلہ ہو جس کے ساتھ مزاریوں کی جنگ نہ ہوئی ہو۔
بلوچستان سے نقل مکانی کر کے سندھ کے آس پاس بسنے والے مزاری جب جتوئیو ں سے ٹکراتے ہیں تو خون ریز جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ جسٹس میر خدابخش بجارانی مری بلوچ نے جتوئی اور مزاری قبیلے کی جنگ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
’’ضلع ڈیرہ غازی خان میں جتوئی زیادہ تر مظفر گڑھ کے علاقے میں سندھ کے کنارے آباد ہیں۔ مزاری قبیلہ ان سے کچھ دور دریا کے دونوں طرف رہتا ہے۔ چونکہ مزاری ان علاقوں میں قدرے پہلے آباد ہو چکے تھے، لہٰذا بعد کے آنے والے جتوئیوں سے بہت سی لڑائیاں ملک گیری کے لیے لڑی گئیں۔ موجودہ نظم ان میں سے کسی ایک لڑائی کی داستان ہے۔ نظم میں کشتیوں میں بیٹھ کر لڑائی کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے۔‘‘
نظم کے اندر واقعات کا نقشہ عمومی نہیں بلکہ واقعات نگاری سے لگتا ہے کہ شاعر جنگ میں شریک تھا یا عینی شاہد تھا۔ وہ نظم لکھتے ہوئے واقعات اور مختلف تعصبات میں اس قدر گم ہے کہ وہ الفاظ اور جملوں کی در و بست میں ناکام ہو جاتاہے۔ مذکورہ جنگ نامے میں بھی مذہبی جذبات کا بھرپور سہارا لیا گیا ہے۔ مقامی روایت اور جنگی ہتھیاروں کا اعلیٰ انتخاب شاعر کی اعلیٰ ذوقی کا پتہ دیتا ہے۔ مثلاً ریشمی کپڑوں پر گھوڑی کی زین، طرّہ، چیتے کا شکار، کابل کی بنی ہوئی گولیوں کی بارش، تلواریں پتنگ کی طرح اٹھنے لگیں وغیرہ۔
انیسویں صدی کے آخر تک انگریز بلوچستان میں در اندازی کرنے لگے تھے جس سے اس علاقے میں شدید ردّعمل پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ چونکہ اس قوم کی برسوں کی تربیت جنگی ماحول میں ہوئی تھی، علاقے کی حفاظت کے ساتھ غیر ت و حمیت کا تحفظ اس قوم کو ورثے میں ملا تھا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزوں کی جتنی شدید مزاحمت اس علاقے سے ملی، برصغیر میں دیگر علاقوں میں کم ہی اتنی ملی۔ اس سے پہلے بھی کئی روایات میں آیا ہے کہ بلوچوں نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مضبوط دیوار بن کر دفاع کیا۔ ۱۵۸۱ء میں پسنی اور گوادر کے ساحلی علاقوں پر پرتگالیوں کی چڑھائی، وہاں قتل و غارت اور گھروں کو آگ لگانا تاریخ کا زندہ اور ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ یہاں بھی شعراء کی منظر نگاری میں سب سے اہم مرکزی نقطہ ’’بدلہ‘‘ ہی ہے۔ پہلے قبیلے جذبۂ انتقام میں ایک دوسرے کے ساتھ خلاف صف آرا ہیں پھر انگریزوں کے ساتھ بھی اسی کیفیت میں بر سر پیکار نظر آتے ہیں۔ شاعر محض منظر نگار نہیں بلکہ دل اور ذہنی کیفیت کے ساتھ مرقع کشی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
کامل القادری نے بلوچوں کے اس خون ریز انتقامی جذبے کے حوالے سے مختلف شعراء کے اشعار نقل کئے ہیں:
’’دودا کے زبردست دشمنوں (کے ساتھ )
میں بتاؤں کہ کیسا سلوک کروں گا
(ایسا سلوک کروں گا جیسے کہ) بازکبوتروں کے ساتھ کرتا ہے
گر م لو چھوٹے چشموں کے ساتھ کرتی ہے
سؤر فصلوں کے ساتھ کرتے ہیں
بکری درخت کی کونپلوں سے کرتی ہے
بھیڑیا اونٹنی کے بچے سے کرتا ہے
ماہی گیر مچھلی کے ساتھ کرتا ہے
اسی خیال کو انیسویں صدی کے ایک شاعر نورمحمد بَم پشتی نے بھی یوں پیش کیا ہے لیکن وہ زور نہیں جو بالاچ کی آتشیں آواز میں ہے۔
اس وقت میری صلح تجھ سے ہوگی
جب مرغ و کبوتر کاگیدڑپاسبان بن جائے گا
شکاری پلنگ اونٹ کا محافظ بن جائے گا
جب آتش و پنبہ میں آتشی ہو جائے گا
جب بھیڑیا، بھیڑوں کا گلہ بان ہو جائے گا
جب کوے دودھ دینا شروع کردیں گے
جب ہتھیلی پر بال اگ آئیں گے
جب سانپوں کے پاؤں نکل آئیں گے
جب کشتیاں خشکی پر چلنا شروع کر دیں گی
جب جنگل میں شیر پالتو بن جائیں گے‘‘
یعنی کسی حال میں بھی جاں بخشی ممکن نہیں۔ انتقام ہی واحد ذریعہ ہے جس کی تکمیل سے غیر ت و حمیت کا حصول ممکن ہے، اپنی اور اپنی نسل کی بقا اور جغرافیائی سلامتی کا تحفظ ممکن ہے۔ یہ اس لیے بھی تھا کہ مخالف قبیلے کی عسکری قوت اور اس کے مقابلے میں اپنی عسکری قوت کا اندازہ ہو جاتا تھا، لہٰذا شکست ذاتی انا کا مسئلہ بن جاتا مگر انگریز کے خلاف یہ جذبات مختلف نوعیت کا رنگ اختیا ر کر جاتے ہیں۔ انگریزوں کے ساتھ جنگوں کی عکاسی ’’ریکی زنگی شاہی‘‘ نے کی ہے۔ یہ شاعربلوچی اور براہوی دونوں زبانوں میں شعر کہتا تھا۔
انگریزوں نے وظیفہ خواروں کی جو فوج تیار کر رکھی تھی، ان میں بلوچ بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ انگریزوں نے اپنی طاقت کے زور پر بلوچستان کے متعدد سرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر انھیں سرکار کا وظیفہ خوار بنا لیا۔ یہی سردار جب دوسرے قبیلے کے ساتھ بر سرِ پیکار ہوتے تو بالاچ کے رزمیہ اشعار سا جذبہ لے کر خون بہاتے مگر انگریزوں کے معاملے میں ان کے خیالات و نظریات یکسر تبدیل ہو گئے۔ شاید اس قسم کی غیر ت و حمیت کی تربیت ان کی نہیں ہوئی تھی، وہ تو صرف اپنے مخالف قبیلے کو ہی دشمن سمجھتے رہے تھے جو معمولی باتوں پر دشمنی کی ان حدوں کو چھو لیتے جہاں انتقام امر حق بن کر دونوں قبیلوں کااثاثہ قرار پاتا۔
انگریزوں نے اپنی اسی پالیسی کو یہاں بھی جاری رکھا جواودھ، پنجاب اور دیگر علاقوں میں کامیاب اصول بن کر جاری تھی۔ ان حالات میں بلوچ شاعر زندہ تھا، وہ اس بغاوت اور غداری کو سمجھ رہا تھا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کئی شعراء نے حب الوطنی کے جذبات کا والہانہ اظہار کیا اور ان وظیفہ خواروں کی تذلیل کرتے ہیں جن کی بدولت انگریزوں کی غلامی ملی۔ انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبا ت اس وقت کی پشتو شاعری میں بھی بہ کثرت دیکھے جا سکتے ہیں۔ فقیر ایپی شاعر نے پشتو میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہا ر کیا۔ اسی طرح مشہور منظوم قصہ ’’داستانِ عجب خان‘‘ بھی پشتو میں انگریز غلامی سے نفرت کا کھلا اظہار ہے۔ بلوچی زبان میں کسی دریشک شاعر کی کہی ہوئی نظم ’’سر رابرٹ سنڈیمن کی نظم‘‘ میں فرنگی حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں اور ظلم و زیادتیوں سے علاقے پر پھیلتے اثرات کی خوب نقشہ کشی کی گئی ہے۔ شاعر سرداروں کی فرنگیوں سے وفاداری کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تیرہویں صدی میں ہر شخص حرص و لالچ میں مبتلا ہو گیا۔ جائیداد اور دولت نے بھائیوں کو آپس میں لڑا دیا۔ شاعر بتاتا ہے کہ کس طرح سر رابرٹ سنڈیمن نے مقامی تمندداروں سے اپنی حکومت کی آشیر باد حاصل کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فرنگی انہی تمنداروں کی مدد سے پورے علاقے پر قابض ہو گیا۔ بلوچ قوم اقتدار سے محروم ہو کر طاقت، آسودگی اور بہادری جیسی صفات سے محروم ہو گئی۔
کثیر فوجوں کی وجہ سے بہادر مرد بھی عورتوں کی طرح
چپ رہے
پھر فرنگی سندھ کے میدانوں میں واپس آیا
اس خدمت کے صلے میں تمنداروں کو بہت ملازمتیں دیں
پھر کیا تھا۔ چوروں کو تمندار از خود ہتھکڑیاں لگا کر
حاضر کرنے لگے
اس طرح (فرنگی کی آمدسے) تمام علاقوں سے دولت اور آسودگی جاتی رہی
میر ی عقل اور سمجھ کے مطابق تو
اب تمام ملک سے ایمان اور غیر ت رخصت ہو رہی ہے
بیسویں صدی میں بیشتر بلوچ شاعری رزم ناموں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ وہ نفرتیں جو قبیلوں کو ایک عرصے سے آپس میں لڑا رہی تھیں، غیر قوم کے حملہ آور ہونے سے پوری قوم کو متحد کر کے دشمن کے خلاف صف آرا کر دیتی ہیں۔ بلوچی رزمیہ شاعری صرف شاعری نہیں بلکہ اس خطے کے لوگوں میں مروّجہ رسوم، ان کا طرزِ زندگی، آپس میں میل جول کے آداب، آلاتِ حرب کا استعمال اور زندگی میں مختلف امور کی دلچسپی کا سراغ بھی دیتی ہے۔