بموں کی ماں بمقابلہ انسانیت کی ماں
(نعیم بیگ)
اپریل ۱۹۴۵.ء میں دوسری جنگ عظیم کے یقینی خاتمے، ہٹلر کی خودکشی اور برلن کے ہتھیار پھینکے جانے کے باوجود امریکہ کو ایک کسک تھی کہ اسکے سائنسدانوں کی محنت کسی ٹھکانے نہ لگی اور دنیا کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ہم ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں ، سو اُس نے ’’لٹل بوائے ‘‘ نامی عفریت کو ۶ ، اگست ۱۹۴۵۔ء میں ہیروشیما پر گرا دیا۔ اس کے ٹھیک تین دن بعد ’’ فیٹ مین ‘‘ نامی دوسرے ایٹمی بم کو ناگا ساکی پر گرا کر اوپر تلے دو لائیو بم ٹسٹ کر لئے اور کئی ایک مقاصد جس میں عالمی سیاسی برتری ، قوت کا مظاہرہ اور کمزور ممالک پر دھاک جمانا، بم بنانے اور چلانے کی صلاحیت کا امتحان ، اسلحی مارکیٹ میں نام پیدا کرنے جیسے ہمہ جہت مقاصد حاصل کر لئے۔
راقم کو اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا، جب امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد پہلے عراق اور بعد میں۷، اکتوبر ۲۰۰۱.ء میں جب ناٹو فورسسز کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ ان دنوں امریکہ کے وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فلڈ Donald Rumsfeld روزانہ امریکی ٹی وی پر ایک وار ( جنگی ) بریفنگ دیا کرتے تھے جس میں گرائے جانے والے بموں کی تفصیل ، کہاں گرائے گئے ، کیسے گرائے اور ان بموں کو کن امریکی کمپنیوں نے بطور سیمپل ٹسٹنگ عطیہ کے طور پر امریکی اور ناٹو افواج کو دئیے تھے۔
انہی بریفنگ میں مسٹر رمز فلڈ ان بموں کی تباہ کاریاں اور انکے طریقہ کار کے بارے میں تفصیل بتاتے تھے۔ جیسے مثال کے طور پر ڈرٹی بم کی کارکردگی ، انکے گرائے جانے کے طریقِ کار اور اسکی تباہ کاریاں اور کیسے پہاڑوں کے اندر اوکسیجن کی سمت میں اپنے ہدف کی تلاش کرنے جیسا مشکل کام یہ بم سر انجام دیتے تھے۔
ان تشہیری بریفنگز میں یہ بھی کہا گیا کہ اس بار فلاں کمپنی نے چند سو بم بطور عطیہ دئے تھے چونکہ ان بموں کی کارکردگی بہت اچھی نکلی ہے اور اپنے اہداف پر چلائے جانے کے بعد مرنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لہذا ہم نے اس کمپنی کو مزید بموں کا قیمتاً آڈر بھی دے دیا ہے۔
یہ وہ پہلو ہے جو درحقیقت امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے ریپبلکن پارٹی کو الیکشن جیتنے کے لئے مالی امداد اور اسکے نتیجے میں ووٹ دئیے جانے کا سبب بنتے ہیں ۔ یہ اسلحہ ساز کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کی خاطر خواہ تشہیر عالمی سطح پر چاہتی ہیں ۔ چونکہ اسلحہ کے علاوہ ہر پروڈکٹ کی تشہیر کا عالمی نظام میڈیا کے ذریعہ وضع کر دیا گیا ہے لہذا وہاں کسی قسم کی دشواری نہیں ہے۔ اسلحہ سازی میں اس صنعت کے ساتھ ایک اور بڑی صنعت بھی منسلک ہے جسے فارماسوٹیکل صنعت کہتے ہیں ۔ یہاں اس صنعت کی خفیہ کاروائی یا سائنسی اہداف زیرِ بحث نہیں لہذا ہم اس وقت اس صنعت سے اغماض برتتے ہوئے صرف اسلحہ سازی پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
انگریزی ثقافت میں اپریل کا مہینہ سخت تر گردانا جاتا ہے ، وہیں مغربی اقوام کا خیال ہے کہ اپریل کے مہینے میں کئے گئے کام دیرپا اور مستحکم ہوتے ہیں ۔ لہذا ان کی اکثر یہ کوشش ہوتی ہے کہ کچھ بڑے کام اپریل میں کئے جائیں ۔ شاید یہی وجہ رہی ہو کہ ’’ بموں کی ماں ‘‘ کو چلانے کے لئے انہوں نے اپریل کا مہینہ چنا ہو۔
اس بار صدارتی پارٹی ریپلکنز میں پریذیڈنٹ بش اور اُس کی کاؤ بوائے انتظامیہ جیسی خصوصیات تو نہیں ہیں ( ماسوائے انکے وزیر داخلہ ریحان زنکی جو گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر کمر پر پستول لگا کر شیرف یا یو ایس مارشل کے روپ میں پہلی دفعہ اپنے دفتر تشریف لائے تھے) تاہم انکی سرشت میں جنگی جنون کو بڑھاوا دینا لازم ہے ۔ جس کے لئے وہ شعوری کوشش کرتے ہیں اور اپنی پروڈکٹ کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے اس کی تشہیری مہم میں حقیقی رنگ بھرنے کے لئے انہیں زندہ میدان اور زندہ لوگ چاہئیے ہوتے ہیں۔ سرمایہ دار کو اس بات سے غرض نہیں کہ اس تشہیر کے عوض میں کوئی انسان یا ذی روح ختم ہو جائے گی۔
یہی وجہ تھی کہ اپریل کے دوسرے پندھواڑے میں امریکہ نے ۱۰ ہزار کلو بارودی مواد اور آگ لگانے کی خصوصیت کے حامل بم کو جسے ’’ بموں کی ماں ‘‘ کہا جاتا ہے کو زندہ تجربہ کو افغانستان کی نذر کیا ۔ یہ بم سنہ ۲۰۰۳.ء میں مکمل ہو چکا تھا لیکن اس کے لائیو ٹسٹ کی نوبت نہیں آئی تھی۔ درمیان میں ڈیموکریٹس کی حکومت نے آٹھ برس جمہوری نظام سنبھالے رکھا ، شاید اسی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔ تاہم ریپبلکنز کے آنے سے فوری طور پر ’’ سب سے پہلے امریکہ ‘‘ کا نعرہ جب سامنے آیا تو امریکی انڈسٹری نے سکھ کا سانس لیا۔ بالخصوص اسلحہ ساز ، فارماسوٹیکل، اور مالی اداروں نے فوری طور پر اپنے نئے اہداف مقرر کر لئے۔
’مدر آف آل بمز‘ ہوا میں اپنے ہدف کو چھونے سے پہلے ہی چھ فٹ اوپر ہوا میں پھٹ جاتا ہے جس کی تباہ کن ریڈیائی لہروں اور آگ سے اوپر نیچے ، دائیں بائیں اور زیرِ زمیں بیسیوں فٹ اندر تمام بیسمنٹس اور ان میں بسنے والے ذی روح نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ اس بم کا دائرہ کار زمینی پھیلاؤ میں کوئی پانچ ہزار گز تک ہوتا ہے۔
اس بم کی تیاری ، اسکی تباہ کاریوں کے کرشمے ، خصوصیات اور دیگر ضروری معلومات گلوبل سیکورٹی اوآرجی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہاں راقم اس بم کے سیاسی اور انسانی المیہ کے اثرات پر بات کرنا چاہتا ہے ۔ بظاہر صوبہ ننگر ہار کے ضلع آچن میں ۱۳، اپریل کو یہ بم گرایا گیا ہے جہاں داعش کے بارے میں گمان تھا کہ وہ یہاں مقیم ہیں۔ داعش کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ یہ تنظیم خود امریکہ کے زیر اثر ، اسلام دشمن خفیہ سرگرمیوں پر یقین رکھتی ہے جسے امریکی سی آئی اے گائیڈ لائن دیتا ہے ۔ اس بات کی گواہی امریکہ کی ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہنری کلنٹن اپنی صدارتی الیکشن مہم میں دے چکی ہیں اور تصدیق بھی کر چکی ہیں۔ لیکن ایسا کیا ہوا کہ اب امریکیوں نے ’ مدر آف آل بمز ‘ کو سب سے پہلے داعش پر ہی استعمال کر لیا ہے ۔
امریکی سی آئی اے کے خفیہ پروٹوکول میں یہ درج ہے کہ جب کوئی اوپریٹر ( سنگل فرد) یا اوپریٹنگ تنظیم ( جس میں کوئی بھی عالمی تنظیم یا مملکت ) جس کی مالی امداد سی ،آئی، اے کرتا رہا ہو ۔ اپنے مقرر کردہ اہداف سے نکل کر اپنے خود ساختہ اہداف پر عمل کرنا شروع کر دے تو اسے فوری طور پر ایلیمنیٹ کر دیا جاتا ہے ۔ اس کی زندہ امثال میں ہم کئی افراد یا لوگ پیش کر سکتے ہیں۔ جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایمل کانسی ، رمزی ، اسامہ بن لادن ، جولیہ اسانج ( جو قابو نہ آسکا ) و دیگر اور کسی حد تک حالات و واقعات ( اوجھڑی کیمپ واقعہ) کے تحت صدر ضیا الحق کا فضائی حادثہ بھی کہا سکتا ہے۔
گمان اغلب ہے کہ داعش امریکی اہداف سے باہر نکل کر اپنے ذاتی اہداف کو بھی شاملِ سیاست کر رہی تھی، جسے سزا دینے کے لئے امریکہ نے اپنے نئے بم کو استعمال کرنے کا تہیہ کیا۔ جس میں اسکے دیگر سرمایہ دارانہ تجارتی اہداف بھی ممکنہ طور پر پورے ہو جائیں گے ۔یہ عین ممکن ہے کہ ابھی اس بم کے کئی ایک اور تازہ ترین ’ورجنز‘ بھی استعمال میں لائے جائیں ۔ جس کے لئے انہوں نے کیمیکل ہتھیار کے شامی استعمال پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ آنے والوں دنوں میں یہ بم شام میں بھی گرایا جائے۔ اس کا دوہرا فائدہ یہ ہے کہ دیگر متوقع امیر خریداروں میں بھارت اور سعودی عریبیہ شامل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ چونتیس ممالک کا مجوزہ اسلامی اتحاد جو ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے اس بم کو مستقبل میں یمن کے لئے خریدے، بھلے استعمال کرے یا نہ کرے۔
ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے بم کو جسے پاکستانی سرحد کے قریب استعمال کیا گیا ہو، سے کوئی نیا پیغام نہ دیا جا رہا ہو کیونکہ عالمی نقشہ میں گریٹ گیم کا جو میدان سجا ہے ، اسکے متوقع کھلاڑیوں میں ایک پاکستان بھی ہے ۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم حالیہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جس جنگ میں ملوث ہو چکے ہیں ،اور ملکی آبادی کا ایک مناسب حصہ جو مذہبی عقائد کی آڑ میں ہر قیمت پر اپنے خود ساختہ انصاف کو ملکی اور قانونی انصاف پر ترجیح دے رہا ہے، اپنے اہداف کی جنگ میں غیر ملکی آلہ کار بننے کی ایسی صلاحیت کو بروئے کار لا رہا ہے جو انسانیت کو شرما دے، کو ختم کر پائیں گے یا نہیں ؟