میرے نانا نے کہانی سنائی: بندر میاں درخت سے اُتر کر آپ نے اچھا نہیں کیا!
از، ذولفقار علی
میرے نانا ایک عظیم کہانی کار تھے ۔ وہ بستی کے بچوں میں کافی مقبول ہوتے تھے وجہ یہ تھی کہ وہ رات کو اپنے قصوں سے ہمیں مسحور کر دیتے تھے۔ روز نیا قصہ نئی کہانی جس میں سماجی رجحانات سے لے کر فطرت کی خوب صورت منظر کشی تک سب کچھ موجود ہوتا تھا۔
وہ کمال کا فکشن تخلیق کرتے تھے جس میں ہم یوں کھو جاتے تھے جیسے ہم اس کے کرداروں میں ایک کردار ہوں۔ بچپن میں اُن کہانیوں کے کردار میں کھو کر ایک وسیع اور خوب صورت کائنات کا حصہ بننا میرے لیے کمال کا تجربہ ہوتا تھا۔ اُن کرداروں میں ایک جہاں آباد ہوتا تھا۔ میں تصوراتی طور پر جنگل کے جانوروں کےساتھ رہ بھی سکتا تھا اور اُن کے ساتھ ہمکلام بھی ہو سکتا تھا۔ انسان کا یہ تعلق اُن قصے کہانیوں میں بہت مضبوط اور متوازن اصولوں پر مبنی تھا مگر جوں جوں بڑا ہوتا گیا تو یہ تعلق کٹتا گیا اور میں انسانوں کے ساتھ جینے کی تگ و دو میں لگ گیا۔
انسانوں لائق بنانے کے لیے میری ماں نے پہلے پہل مولوی سے اخلاقیات کا سبق پڑھوایا، پھرمجھے سکول میں تہذیب سکھائی گئی ، درزی نے کپڑوں کے ڈیزائن بتلائے، کاسمیٹکس والوں نے اپنی اپنی پراڈکٹ کے فائدے میرے دماغ میں گُھسیڑے، الیکٹرانکس میڈیا نے چمکتی دمکتی دنیا کو ہمارے سامنے پیش کر کے دل کو موہ لینے کے حربے آزمائے، نظریات بیچنے والوں نے اپنے اپنے نظریات کی ترویج کرنے پے اُکسایا، سیاسی پارٹیوں نے اپنے منشوروں سے میرا دھیان بانٹا قصہ مختصر ہر طرف سے انسان ، انسان پر حملہ آور ہوا اور اپنے اپنے ہتھیاروں سمیت ایک دوسرے کو فتح کرنے کے درپے ہوگیا۔ مگر۔۔
زندگی کےاس سفر میں کسی نے یہ نہیں بتایا یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ دادی اماں کی “سمی” گانے کا مطلب کیا تھا، نانے ابو کے قصے کے کردار مہذب دُنیا میں فٹ کیوں نہیں بیٹھتے تھے، مشترک ویہڑے (گھر) پرائیویسی کے نام پر سُکڑ کر ایک کھولی میں بدل گئے تو انسان کی اس خود ساختہ قید کی پیشین گوئی کرنے والا بھی کہیں نہ ملا، لوک دانش کی بجائے سرکاری فلسفوں کی سوچ اپنانے سے سچی خوشیوں اور روح کا کیا بنے گا یہ بھی کوئی نہ سمجھا پایا، شومئی قسمت یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ کچی مٹی کے برتن پسماندگی کی علامت بن گئے تو کیا ہو گا، گھر کے آنگن میں اُگے گھنے پیڑ کاٹ کر کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کرنے سے چڑیاں کہاں جائیں گی، دور دراز علاقوں میں گُھستی کالی سڑک اپنے ساتھ کونسی بلاوں کو بسا کر بدلے میں وہاں سے کیا لے جائیگی۔
جدید معاشیات کے نظریات کس طرح مقامی معیشت کی شراکتی اقدار کو ہڑپ کر کے انسان کو مشینری کے سپرد کر دیں گے، مجھے کسی نے نہیں سکھایا کہ مختلف حیات و انواع زندگی کے بندھن میں ایک ہی دھاگے سے پروئے گئے ہیں ، یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ مقامی باشندے کا اپنی شناخت سے جُڑے رہنا کتنا ضروری ہوتا ہے، ستاروں کی چال، آسمان کے رنگ، چاند کے قصے، موسموں کی ادائیں یہ سب وقت کے ہاتھوں بے وقعت کیونکر ہوئیں اب سمجھ میں آتا ہے، یہ سب کچھ گنوا کے، دھکے کھا کے عقل ٹھکانے لگی کہ لمبی داڑھی والا تبلیغی میرے گاوں کیا کرنے آیا تھا، ڈالڈا گھی بستی کے لوگوں کو مُفت کیوں بانٹا جاتا تھا، زرعی ادویات کی کمپنی والے لوگوں میں ریفریشمنٹ کے نام پر مفت مٹھائی کیوں بانٹتے تھے، پٹواریوں نے بڑے بڑے پتھروں سے زمین کی حد بندیاں کیوں کی تھیں۔
ترقی کے خواب دکھانے والے حضرات کس مقصد کے لیے تشریف لاتے تھے، بہشت بیچنے والے میلوں، بیٹھکوں ، موسیقی کی مقامی چوکیوں اور ثقافتی تہواروں سے بد خواں کیوں ہیں، امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری کالے اور خاکی لباس والے کے سپرد کرنے کا مطلب کیا تھا، دادا نے جب اپنی چادر اُتار کر ٹخنوں سے اوپر شلوار کے پائنچے چڑھائے تو اُس خوف کی منطق کیا تھی، محمد بن قاسم دیبل فتح کرنے آیا تو اُس کے پیچھے کہانی کار کے مقاصد کیا تھے ، میرے دیس کے ہُنر مند، دستکار اور فنکار گھٹیا لطیفوں سے بے عقل اور بُدھو ثابت کر کے ہمیں ہنسانے کے پیچھےکیا گھناونا پن تھا۔
سردار کوڑے خان کو آباد کاروں جتنی عزت کیوں نہیں دی گئی، یوسف رضا گیلانی صادق اور امین کیوں نہ رہا، ٹی-وی والے مینڈک سندھ کی پسماندگی پر ٹراں ٹراں کیوں کرتے ہیں، بلوچوں کو بندوق بردار اور پسماندہ ظاہر کرنے کے پس پردہ عوامل کونسے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کے تخلیق کار لال مسجد کے برقعہ پوش امام کو ہاتھ کیوں نہیں لگاتے، حاضر سروس جج کے آنسو بہانے کا مطلب بھی خوب سمجھ میں آتا ہے، عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی کیسے بن گئی اس سوچ کی بھی پرکھ ہے، حالیہ پانامہ گیٹ کا فیصلہ کب سُنایا جائیگا اور اس فیصلے کا متن کیا ہو گا اس کی بھی سمجھ لگتی ہے۔
مگر اب نہ تو رونا آتا ہے اور نہ ہی غصہ۔۔کیوں کہ اس نا عاقبت اندیشی کی ذمہ داری ہم انسانوں پر ہی آتی ہے چاہے وہ جنت سے نکالے جانے کا قصہ ہو، یاوہ فلسفہ جو اساطیری کرداروں کے تخلیق کا موجب بنا، یا پھر وہ تخلیق کار جو پتھروں کو تراش کر نوک دار بناتا تھا تاکہ دوسرے جانوروں کا شکار کر سکے یا کلاشنکوف خاں کی تخلیق، یا ایٹم بم بنانے والا سائینس دان ، مگر دو باتوں پر اب بھی میرا غصہ کم نہیں ہوا ایک مصنوعی دانش جس سے رہی سہی انسانی آزادی کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ اور دوسراوہ بندر جو سب سے پہلے درخت سے اُتر کر زمین پر تشریف لے آیا تھا جس کی وجہ سے بندوبستی سماج کی تشکیل ہوئی۔!