(نجیبہ عارف)
’’ہمارے ہاں ان قومی مجرموں کے خلاف غداری کے مقدمے چلائے جا رہے ہیں، جنھوں نے ۱۹۷۱ میں پاکستان آرمی کا ساتھ دیا تھا۔‘‘ اس نے بنگالی لہجے کی انگریزی میں جوش سے کہا۔’’غداری کے مقدمے؟ پاکستانی آرمی کا ساتھ؟ یہ کیسے؟ پاکستانی آرمی تو اس وقت خود بنگلہ دیش کی فوج تھی۔ اپنے ملک کی فوج کا ساتھ دینے پر غداری کا مقدمہ کیوں؟‘‘
’’جی نہیں۔ پاکستانی فوج غاصب اور دشمن تھی۔ وہ ہماری حفاظت نہیں، ہماری بے آبروئی پر مامور تھی۔ پاکستانی فوج نے ہزاروں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا، لاکھوں خواتین کی بے حرمتی کی، ہمارے گھروں کا تقدس پامال کیا۔ ہم پر ناقابل بیان ظلم توڑے۔‘‘
’’اور اس ظلم میں خود بنگالیوں نے بھی پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ کچھ سٹپٹائی۔
’’سب نہیں، کچھ تھے ایسے غدار۔ ایسے غداروں کی سزا موت ہونی چاہیے۔ ہماری حکومت یہ قانون منظور کر رہی ہے۔ ہم ان غداروں کو سزائے موت سنائیں گے۔ ‘‘
’’اور مکتی باہنی کے لوگوں کو؟‘‘
’’مکتی باہنی کے لوگوں کو کیا؟‘‘
’’کیا ان پربھی غداری کے مقدمے چلیں گے جنھوں نے خود اپنے ملک کی بجائے، دوسرے ملک کی فوج کا ساتھ دیا؟ ‘‘
’’جی نہیں، وہ غدار نہیں تھے، وہ تو Freedom fighterتھے؟ انھیں تو ایوارڈ دیے جائیں گے۔ہم ان کے احسان مند ہیں، انھوں نے قوم کی آزادی کے لیے جدو جہد کی۔‘‘
’’مگر انھوں نے بھی تو مغربی پاکستانیوں کو، جو اس وقت ان کے اپنے ہم وطن تھے، قتل کیاتھا، ان کی خواتین کی عزتیں پامال کی تھیں۔ عام شہریوں کے گھر جلائے تھے، لوٹ مار کی تھی ۔‘‘ؔ ’’انھوں نے اپنی قوم کی حفاظت کی تھی۔ انھوں نے غداروں کو مارا تھا۔‘‘
’’کیا عام شہری،عورتیں اور بچے بھی غدار تھے؟ کیا مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص غدار تھا؟‘‘
’’ وہ ہمارے freedom fighters تھے۔ انھوں نے ہمیں آزادی دلائی۔‘‘
اب کے اس کی آواز میں پسپائی کے آثار تھے مگر وہ ان پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی اور اس کوشش میں اس کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی، اس میں جوش کا عنصر غالب آتا جا رہاتھا۔
نوشی اور یاسر کی ہشت ہشت، اب باقاعدہ کہنی ما کر چپ کرانے کی حد تک پہنچ چکی ہے۔
’’باجی ، باجی! ‘‘ نوشی نے سر گوشی میں کہا اور میرے پہلو میں کہنی چبھوئی۔
سامنے یاسر آنکھوں آنکھوں میں مجھے اشارے کر رہا تھا کہ سیاسی گفتگو منع ہے۔
’’دیکھو رومی! غصہ نہ کرو، میں تمھیں جھٹلانا نہیں چاہتی، میں تو سمجھناچاہتی ہوں۔ مجھے حقائق جاننے سے دلچسپی ہے، اس لیے کہ میں نے مغربی پاکستان میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جو سولہ دسمبر کا ذکر آتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے تھے۔ میں نے اسلام آباد کے کالجوں میں بنگالی اساتذہ کی یاد وں کی شمعیں روشن دیکھی ہیں۔ میں نے وہ ادب پڑھا ہے جو بنگال کی سندرتا کی محبت اور یاد سے جگمگاتا ہے۔ میں نے شدت درد سے پھٹ جانے سینو ں سے اٹھتی ہوئی آہیں دیکھی ہیں۔ میں نے بہاری کیمپوں میں بے وطنی، لاچاری اور دکھ کی آنچ پر پگھلتے ہوئے انسانی اجسام دیکھے ہیں۔ میں نے مسعود مفتی کی کتابوں میں مشرقی پاکستان کے انہدام کے روح فرسا مناظر بھی دیکھے ہیں اوردوسری طرف احمد سلیم کی گفتگو میں آئینہ دکھانے کی کوشش بھی محسوس کی ہے۔ وہی احمد سلیم، جنھیں کچھ دیر بعد بنگلہ دیشی حکومت سے بنگلہ دیش دوست ہونے کا قومی اعزاز ملنے والا ہے۔ سو میری پیاری!میرا تعلق سیاست سے نہیں ہے۔ میں فوج کی بھی نمائندہ نہیں ہوں۔ مجھے کہیں سے کوئی وظیفہ،اعزازیہ یا لفافہ نہیں ملتا۔
میں تو پاکستان کی ایک عام شہری ہوں۔ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو میری عمر سات سال تھی۔ میں ان اسباب کی چشم دید گواہ نہیں ہوں، جنھوں نے اس صورت حال کو جنم دیا۔ میں اور میری نسل کے لوگ حقائق جاننا چاہتے ہیں۔ہم صرف ایک طرف کی نہیں، دوسری طرف کی بات بھی سننا چاہتے ہیں۔ مگر آپ لوگ بھی تو ہماری مدد کریں۔ ہمیں بتائیں کہ حقائق کیا تھے؟خود بھی ذرا دور کھڑے ہو کر تاریخ کاجائزہ لیں۔ ہمیں بھی یہ موقع دیں۔ ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں۔ ہم تو ہم سفر تھے، ایک ہی منزل کے مسافر تھے۔ یہ جدائی کی دیوار کس نے اٹھادی، کیسے اٹھا دی۔ چلو اب سیاست دانوں، جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور استحصالی طبقوں کے حوالے سے نہیں، میرے اور تمھارے حوالے سے اس دوری کو سمجھنے کو کوشش کرتے ہیں۔‘‘
اب وہ ذرا دھیمی پڑ گئی۔ میز کے ارد گرد بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں کی بھی سانس میں سانس آئی۔
’’تم روز صبح مجھے ناشتہ بنا کر دینے پر اصرار کرتی ہو، میرے لیے پراٹھا بناتی ہو، میں بھی جب تمھیںیاسر سے بحث میں شکست کھاتے دیکھتی ہوں تو تمھاری مدد کو لپکتی ہوں۔ تمھیں میں پاکستانی لگتی ہوں لیکن مجھے تو تم بھی پاکستانی لگتی ہو۔بالکل اپنی۔تمھیں ایسا نہیں لگتا؟‘‘
سامنے ہی عزیز ریسٹورنٹ کے بنگلہ دیشی مالک ، خاموش بیٹھے ٹک ٹک ہمیں دیکھ رہے تھے۔ ان کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا اور وہ مکمل غیر جانب داری کا تاثر دینا چاہتے تھے۔ ہم ان کے مہمان تھے۔ وہ ہم پر خصوصی نوازشوں کی بارش برسا رہے تھے۔ ان کا ریستوران شرقی اوکسفرڈ کے عین قلب میں مرکزی شاہراہ، کولی روڈ (Cowley Road)پر واقع ہے اور تقریباً ربع صدی سے قائم ہے۔ اسے اپنی کارکردگی کی بنا پر برطانوی حکومت سے کئی اعزاز مل چکے ہیں اور انھیں فخر تھا کہ ان کے ریستوران کو کئی عظیم اور نامور شخصیات کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے۔ہمیں یہاں بنگلہ دیش کی رومی لے کر آئی تھی۔ اسی کی وجہ سے یہاں ہمیں خصوصی سلوک کا مستحق سمجھا جا رہاتھا۔ گفتگو میں ذرا سے وقفے کو غنیمت سمجھ کر انھوں نے فوراً کھانا میز پر چنوا دیا۔
یہاں اوکسفرڈ میں ، میں اپنی بہن کے ساتھ اس کے دفتر کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری ہوئی تھی۔ میری بہن ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم میں ملازمت کرتی ہے۔ اس کے ادارے کا ہیڈ آفس اوکسفرڈ ہے۔ ان دنوں وہ کسی تربیتی پروگرام کے سلسلے میں اوکسفرڈ آئی ہوئی تھی۔ میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور میں بھی ایڈنبرا سے واپس آتے ہی اوکسفرڈ پہنچ گئی۔ مجھے یہاں بودلئن لائبریری کے آرکائیوز کی تلاشی لینا تھی۔ دن بھر نوشی اپنے دفتر میں مصروف رہتی اور میں صبح سے شام، بلکہ کبھی کبھی تو رات نو دس بجے تک لائبریری میں گھسی رہتی۔ رات کو کھانا ہم سب اکٹھے کھاتے۔ یہ گیسٹ ہاؤس بین الاقوامیت کا بہت خوب صورت مظہر تھا۔ یہاں بنگالی، افریقی، برطانوی، ہندوستانی، انڈونیشی، ہر قومیت کے لوگ تھے۔مرد بھی اور عورتیں بھی۔ دن بھر یہ دفتر میں رہتے، رات کو کبھی اکیلے اکیلے، کبھی مل کر کہیں کھانا کھانے چلے جاتے، جو لوگ کسی دوسرے شغل کے تمنائی ہوتے وہ اپنی راہ لیتے۔
یہاں جو چند دن گزرے وہ کئی اعتبار سے بہت اہم تھے۔خاص طور پر بودلئن لائبریری میں گزرا ہوا وقت تو میرے پورے دورے کی جان تھا۔پہلے دن جب میں بس میں بیٹھ کر سٹی سینٹر پہنچی اور پوچھتے پچھاتے اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی طرف جانے والی گلیوں میں چلنے لگی تومجھے اپنا پہاڑی گاؤں انگہ یاد آگیاجس کے نیلے پتھروں سے بنے ایک پرانے مکان کی موٹی موٹی دیواروں پر، کارنس پر سجے پیتل کے گلاسوں اور طشتریوں پر، سیاہ لکڑی کی پرچھتیوں پراور لالٹین کی مدھم روشنی میں کمرے کی چھت پر ،کبھی رینگتی اورکبھی دوڑتی بھاگتی، میرے بچپنے کی یادوں کی پرچھائیاں، حافظے کے مال گودام میں اب تک سانس لیتی ہیں۔ اوکسفرڈ کی ان گلیوں میں چلنے والی سرد ہوا قدیم زمانوں کی باس سے یوں بوجھل ہے کہ قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ قدیم کی خوشبو جانے کیوں مجھے اس قدر شدت سے اپنی جانب کھینچتی ہے، بے اختیار کر دیتی ہے۔ایسے لگتا ہے میں کسی گزرے ہوئے زمانے کی کوئی بھولی بھٹکی صدا ہوں جو غلطی سے وقت کی سرحد پار کر کے، حال میں آگئی ہے۔وقت کی یہ پہیلی، ماضی ، حال اور مستقبل کی حدبندیوں کا یہ اسرار ابھی مجھ پر منکشف نہیں ہوا۔شاید کسی پر بھی نہیں ہوا۔ یا شاید کسی کسی پر ہو جاتا ہو۔لیکن میں مایوس نہیں ہوں۔ مجھے اس دن کا انتظار ہے جب میں اس لکیر کو پھلانگ جاؤں گی۔ اپنے اسی شعور کے ساتھ، اسی جسم کی زندگی میں۔
پتھروں کے فرش پر پتھر کی حویلیوں کی دیواروں کے ساتھ ساتھ، جن میں بڑے بڑے لکڑی کے پھاٹک لگے ہیں، اور جن کی بغل سے چھوٹی چھوٹی سی گلیاں سرنگوں کی طرح نکلتی ہیں،میں رک رک کر گزرتی تھی۔ایک گلی تو اتنی تنگ تھی کہ صرف ایک آدمی اس میں سے گزر سکتا تھا۔ ان میں سے اکثر گلیاں صرف پیدل چلنے والوں کے لیے ہیں۔ گاڑیاں یا تو گزر ہی نہیں سکتیں ، یا پھر ان کے راستے رکاوٹیں لگا کر بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہاں صرف پیدل راہگیر ہی نظر آتے ہیں جن میں سے اکثر طلبہ ہیں۔ کہیں کہیں یہ گلیاں نیم چھتی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ کبھی ان پر قوس کی شکل کاپل سا بنا نظر آتا ہے جو گلی کے دونوں طرف کی عمارتوں کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیتا ہے۔ یہ سارا ماحول جدید طرزِ حیات کے منافی ہے۔ہر شے ایک دوسرے میں گتھی ہوئی، ساتھجڑ جڑکر چلتی ہوئی، ٹھہری ٹھہری، وقار اور تمکنت سے قیام پذیر، کئی موڑ مڑ کر میں اچانک اس چوک میں پہنچ گئی جہاں بورڈ سٹریٹ پر لائبریری کی مرکزی عمارت ہے۔
بودلئین لائبریری پورے یورپ کی قدیم ترین لائبیریوں میں سے ایک ہے اور اس کا آغاز چودھویں صدی میں سینٹ میری چرچ کی عمارت میں ایک چھوٹے سے پا بہ زنجیرذخیرۂ کتب سے ہوا ۔ ان دنوں کتابوں کی حفاظت اور انھیں کتاب چوروں کی دست برد سے بچانے کے لیے پابہ زنجیر لائبریریوں (chained libraries)کا رواج عام تھا۔ ہر کتاب کو زنجیر سے باندھنا دشوار اور مہنگا تھا، لیکن قیمتی اور ضخیم نسخوں کو ضرور لوہے کی زنجیر کی مدد سے الماری سے پیوست رکھا جاتا تھا۔بودلئین لائبریری شروع ہی سے اہم اور نادر نسخوں کا مرکز رہی اور اس کی حفاظت کا ہمیشہ خاص اہتمام کیا جاتا رہا۔ اسی روایت کی پیروی میں آج بھی لائبریری سے استفادہ کرنے کے ہرخواہش مند کو حلف اٹھانا پڑتا ہے کہ وہ کتابوں سے کوئی بدسلوکی روا نہیں رکھے گا۔
میں جب بہت بڑے اور شاندار قدیم دروازے سے گزر کر اندر کے وسیع و عریض احاطے میں داخل ہوئی، جس کے چاروں طرف دیواروں پر مجسمے نصب تھے تو ہر نووارد کی طرح بہت مرعوب ہو گئی۔ اس عمارت کا شکوہ اورجلال کسی دربار کی شان و شوکت سے کسی طرح کم نہیں۔ ایک طرف لگے بڑے سے بورڈ پر عمارت کا نقشہ اور ہدایات موجود تھیں مگر پھر بھی مجھے دو تین لوگوں سے پوچھنا پڑا۔ اس عمارت کا احاطہ چاروں طرف سے دروازوں سے گھرا ہوا ہے، پوچھتے پاچھتے، اونچی چھتوں والے برآمدوں اور چوڑے چوڑے زینوں سے گزرتے میں بالآخر اس کمرے میں پہنچی جہاں مجھے اپنے لیے لائبریری کے سپیشل کولیکشن تک رسائی کا اجازت نامہ حاصل کرنا تھا۔ ای میل کے ذریعے میں پہلے ہی یہاں اپنی آمد کا مقصد اور اپنی دلچسپی کامحور بتا چکی تھی۔ ایک کلک کی دیر تھی، کمپیوٹر کے ذریعے سارا ریکارڈ سامنے آگیا۔ کاغذی کارروائیاں ہوئیں اور ایک سنجیدہ صورت خاتون نے حلف نامہ میرے سامنے رکھ دیا۔
’’اسے پڑھیے!‘‘ اس نے کام چھوڑ کر میری طرف دیکھا۔
میں نے جلدی جلدی کاغذ پر نظریں دوڑائیں اور اس کی طرف دیکھا۔
’’براہ کرم پڑھیے!‘‘ اس نے پھر اصرار کیا۔
’’پڑھ لیا ہے۔‘‘
’’جی نہیں، بآوازِ بلند پڑھیے!‘‘
’’جی؟‘‘
میں نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید وہ میری انگریزی کا امتحان لینا چاہتی ہے تاکہ یقین کر سکے کہ میں نے حلف نامہ پڑھ کر سمجھ لیا ہے۔لیکن ایسا نہیں تھا۔ یہ اس لائبریری کی قدیم روایت تھی کہ ہر نووارد کو نایاب کتب اور مخطوطات رکھنے والے اس مخصوص شعبے سے استفادہ کرنے سے پہلے، اس کی تمام املاک کے تحفظ اور احترام کا حلف بآوازِ بلند دہرانا پڑتا ہے۔ اس نے میری گھبراہٹ دیکھ کر مجھے تفصیل سے سمجھایا۔
میں نے اسے حلف نامہ پڑھ کر سنایا تووہ خوش ہو گئی لیکن میں جو پہلے ہی مرعوب تھی، اور بھی مرعوب ہو گئی۔ بظاہر اس رسمی کارروائی کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے لیکن یہاں آج بھی اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بودلئن لائبریری یوں ہی تو دنیا بھر میں اپنے نایاب ذخائرکی وجہ سے قابلِ احترام نہیں ہے۔اس بات کی مزید تصدیق اندر جا کر ہوئی۔ نایاب ذخائر پر مشتمل یہ حصہ ایک علیحدہ عمارت کے کونے میں واقع ہے جہاں داخل ہونے کے خاص آداب ہیں۔اندر جا کر اور چھت تک چنے ہوئے کیٹلاگ دیکھ کر احساس ہوا کہ یہ آداب کتنے ضروری اور اہم ہیں۔ اس حصے میں قدیم مخطوطات اور کتب محفوظ ہیں۔ کیٹلاگ کی مدد سے ان کے نمبر تلاش کیجیے اور ایک فہرست بنا کر عملے کو دے دیجیے۔ تھوڑی دیر میں عملہ آپ کو مطلوبہ مواد فراہم کر دیتا ہے۔ اب کاؤنٹر سے سفید فوم کے بنے ہوئے رحل اٹھا لیجیے اور ان پر رکھ کر ان قیمتی کتب کو کھولیے۔ کاغذ اڑتا ہے تو اس پرہاتھ یا پنسل رکھنے کے بجائے سفید مومی موتیوں کی مالا اٹھائیے اور صفحے کے درمیان رکھ دیجیے۔ صفحات کو الٹتے ہوئے خاص احتیاط کیجیے۔ اگر کچھ نقل کرنا چاہیں تو اپنی کاپی یا کاغذ پر پنسل سے رقم کرنا ہوگا۔ پین یا مارکر کمرے میں لانے کی اجازت نہیں ہے۔ اب ایک اجازت اور بھی محققین کو مل گئی ہے ؛ اب وہ کیمرے سے ان مخطوطات یا کتب کی تصاویر بھی بناسکتے ہیں لیکن اس کی دو شرطیں ہیں، پہلی یہ کہ فلیش لائٹ استعمال نہ کی جائے اور دوسری یہ کہ جس جس اور جتنے صفحات کی تصاویر بنائی جائیں، ان کا اندراج ایک فارم پر کر کے اپنے دستخط اور تاریخ ثبت کر کے عملے کو دے دیا جائے۔ اس فارم میں کچھ حلفیہ بیانات بھی لکھے گئے ہیں جنھیں پڑھ کر ان کی تصدیق کرنا لازمی ہے۔ ان بیانات سے اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ مطلوبہ مواد صرف علمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اوراسے کسی تجارتی سرگرمی کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔ بظاہر یہ سب اہتمام ایک رسمی کارروائی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ کوئی آپ کے بیانات کی تصدیق نہیں کرتا لیکن آنے والوں کو یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص جگہ پر آئے ہیں جہاں ایسی دولت رکھی ہے جس کی حفاظت لازمی ہے۔