یہ تصویر ہمارے سماج کا ایک ایسا چہرہ ہے جسے بیان کرتے اور جس پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم دو متوازی بحثوں میں پھنس جاتے ہیں۔ کیوں کہ ہم خیرات اور اس سے منسلک خیراتی اداروں کو خاص نیکی کا کام اور ہر طرح سے حق و صداقت کا کارِ عظیم سمجھتے ہیں۔ خیراتی کاموں کے لیے دنیا بھر میں چندہ جمع کیا ہے۔ یہ تصویر بھی یہی کچھ بتا رہی ہے کہ کچھ افراد کسی خیراتی کام کے لیے وقف ہیں سرِ راہ کچھ افراد سے کسی مسجد یا مسجد سے منسلک ’’مدرسہ‘‘ کے لیے خیرات مانگ رہے ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ہم اتنے اہم اداروں اور خدا کی نمائندہ فکریات کے لیے اتنے بھگ منگے کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیا ہم جو اتنے مذہبی اور متشدد سوچ کے حامل ہونے کے باوجود ان اداروں کے لیے خیرات کے عمل کو ضروری اور کسی حد تک ایک طرح کا طریقہ کار کیوں اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ طریقہ ہے ’’بھیک ‘‘ مانگنے کا۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا۔ لوگوں کو احساس دلانے کا کہ آپ خیرات دیں۔ بھیک دیں تا کہ مسجد ، مدرسہ یا کوئی خیراتی ادارہ چل سکے۔
کیا ہم اتنے لاغر، کمزور اور بے بس ہو چکے ہیں کہ خداکے گھر کو انتظامی امور کے لیے گلی گلی پھرتے ہیں اور پھر بھی اُسے چلانا دشوار ہوتا ہے؟ کیا ہم صرف انھی کاموں کے لیے ’’بھک منگے‘‘ ہیں؟ باقی کسی اور فلاحی کام کے لیے اتنے سخی کیوں ہو جاتے ہیں؟
اصل میں شاید ہم خیراتی اور فلاحی کاموں کے لیے اپنے سوچ کو متعین کر چکے ہیں۔ ہم خیراتی کاموں کو اپنے مذہب اور اس سے منسلک اداروں کے لیے اور فلاحی کاموں کے لیے دیگر انسانی حقوق کے لیے وقف کر چکے ہیں۔ ہمیں ان کے درمیان تفریق کو ختم کرنا چاہیے اور خیراتی اداروں کے لیے ’’بھگ منگے‘‘ کا کردار ختم کرنا چاہیے۔ اس بھیک کے پیچھے اُن افراد کو بے نقاب کرنا چاہیے جو مسجد یا خیراتی اداروں کے لیے ’’چندہ‘‘ جمع کر رہے ہیں اور سارا سرمایہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں۔ اور تو اور اب ہسپتالوں، مذہبی تعلیمی اداروں اور روٹی دسترخوانوں کے نام پر بھی ’’چندہ ‘‘ جمع کیا جاتا ہے اور ادارے بنا کے اُن کو اپنی سیاست، اپنی طاقت اور اپنے کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں معاشرتی سطح پر اس تفریق کو بے نقاب کرنا چاہیے اور خدا کے کاموں اور اداروں کے لیے ’’بھیک‘‘ کے تصور کی نفی کے لیے ’’عزت یافتہ‘‘ طریقہ اپنا چاہیے۔