یہ تصویر گذشتہ دنوں فیصل آباد میں ہونے والے وکلا کے انتخابات کے وقت لی گئی ہے۔ اس وقت کی تصویر جب ایک وکلا گروپ کی جیت پراس کے حامیوں نے خوب فائرنگ کی اور اپنی جیت کا جشن منایا۔ جیت پر فائرنگ کرنا ، کیا یہ صرف رسماتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں بہت سارے سوالات اٹھانے ہوں گے اور بہت سارے جواب بھی تلاش کرنا ہوں گے۔
ہم خوشی کے عالم میں فائرنگ کیوں کرتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم شروع ہی سے دشمن کو نیچا دکھانے کے لیے اُسے زیر کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ چوں کہ دشمن کو زیر کرنے کا واحد طریقہ ہمارے ہاں اُسے ہتھیاوں سے ڈرانے سے ممکن ہوتا ہے اس لیے ہم ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش میں اپنے اسی جذبے کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں۔ پرانے زمانوں میں فتح مند تلواروں کی مخصوص آوازوں سے ایک سماں باندھتا تھا، رقص کرتا تھا۔ بعض اوقات جانوروں کو مار کے انھیں کھایا جاتا اور اپنی خوشی کا اظہار کیا جاتا۔ یہ قبائلی کلچر تھا مگر افسوس ہم آج بھی اسی روایت کے ساتھ زندہ ہیں۔ دشمن کو ہرانا اور اُس پر خوشی میں ہتھیاروں کا ستعمال بالکل جنگلی رویہ ہے۔ خوشی میں نعرے اور وہ نعرے بھی نہایت بے ہودہ جذبات کی عکاسی کرتے ہوں، یہ ہمارا سماجی رویہ ہے۔
فیصل آباد کے بار الیکشن کے نتائج پر جیت کی خوشی میں ہونے والی فائرنگ میں نے اسی قبائلی اور جنگلی کلچر کی یاد تازہ کر دی۔ مگر حیرانی اور افسوس اس بات کا کہ یہ سب کرنے والے وکیل تھے۔ منصفی دینے والے، انصاف کا احترام کرنے والے اور عدل کا بول بالا عام کرنے والے___
کوئی اس کا جواب دے نہ دے ، یہ تصویر بول رہی ہے اور جب کوئی دیکھے کا بولتی رہے گی__________