(شکور رافع)
میں اسے سازش کہوں یا اپنی رسوائی کہ سال پہلے ہم اسی برکس BRICKS اجلاس میں چین کے پیچھے کھڑے تھے.. کوٹ پتلون والے بخشو جیسے!
چین کے برابر روس تھا اور روس کے ساتھ برابر میں واسکٹ قمیض پہنے انڈین مودی کھڑا تھا, ایران شیران بھی تھے. پھر جانے ایسا کیا ہوا کہ اس برس اسی اجلاس میں جغرافیائی حقیقت سمجھتے سمجھاتے یہ زیرک ہمسائے پھر سےجمع ہوئے تو ہم نہ تھے, ہمارا تذکرہ تھا.. ہم پہ تبری تھا.. “ایک دہشتگرد ہمسایہ” جیسے طعنے تھے۔۔شاعرہ تنہائی میں کہتی ہے
دل سوال کرتا ہے آج کیوں اکیلی ہوں
لوگ تو اسی کے تھے, کیا خدا بھی اس کا تھا
نظریہ سے محبت اورہماری قربانیوں کی فہرست طویل ہے. ریاست نے ہر معرکہ حق و باطل میں مال غنیمت کی بحث تک نہ کی, محض نظریاتی سرحدوں کا دفاع کیا. کیا ہماری مدد کے بغیر آج امریکہ واحد سپر پاور بن سکتا تھا؟ کیا سعودی عرب ایسی دفاعی و عقیدتی پیداوار دے سکتا تھا؟ ایران اور چین کو عالمی تنہائی سے کس نے نکالا؟
ہم نے ہی برادر افغانستان کو ملحد ریچھوں سے آزاد کرا کے اسے سچائی اور ‘حقانیت’ کا راستہ دیا. ہم نے ہی چین امریکہ کی دوستی سے لے کر مشرقی پاکستان میں ان کی بے وفائی تک کو جھیلا.. یہ تو خیر ماضی تھا. آج بھی اپنے بنگالی عسکری ونگز کے بے لوث وارثوں کی پھانسی پر دنیا کے ساتھ ہم نے بھی اس خاموش اذیت کو مصلحتا جھیلا کہ دنیا ہمیں لڑاکا نہ کہے. افغان سرحدی دراندازیوں سے برادر مسلکی ساز و آواز تک بلکہ ڈرون کی پرواز تک کیا کچھ نہ سہہ گئے. انڈیا کے سرجیکل سٹرائیک کے پراشتعال دعووں پر جواب آں غزل کے بجائے سفارتی سا اخلاقی جواب دیا سوویت مجاہدین کا لہو ابھی چمکتا تھا کہ اس رسوائی اور تنہائی سے نکلنے کو یہاں روسی فوجیوں تک کا پرجوش استقبال کیا.. مگر سارک سے برکس تک ہم اکیلے گنگنا رہے ہیں
تنہائی ملتی ہے, محفل نہیں ملتی
راہ محبت میں کبھی منزل نہیں ملتی
اتنی قربانیاں دے کر بھی ہم مشکوک ہیں .. ہم مظلوم نیپال بھوٹان بنگلہ دیش تک کو نہ بلا سکے اور اس مودی نے اپنے ہاں چین روس جیسے ویٹو پاورز کو جمع کر لیا ..انڈین میڈیا پر ابھی امریکی بلین ڈالر سمجھوتوں کی مٹھاس باقی تھی کہ روس نے دفاعی اور چین نے معاشی سمجھوتوں سے اسے شیروشکر میں ڈبو دیا اور ہم ..ہم ایسی تذویراتی و اثاثہ جاتی دلدل میں ڈوبے رہ گئے کہ جہاں کہیں عمران جیسے جذباتی اثاثے بغیر ٹکٹ سیاسی وکٹ پر ایمپائر کے منتظر ہیں..کہیں ضیائی اثاثے “ناموس سیاست” پر اپنی قمیضیں اور دوجوں کی گردنیں اتار رہے ہیں.. کہیں نظریاتی اثاثے گڈ طالبان کے دفاع میں نصاب سے ابلاغ تک کا بیڑا پار کر چکے, کہیں علاقائی اثاثے سی پیک نقشے کو لہو رنگ کر رہے ہیں یا سوشل میڈیا پر نظریاتی جنگ کر رہے ہیں.. رہ گئے عسکری اثاثے تو سرل تو یہی بتاتا ہے کہ وہ اپنے لشکر کی تلاشی پر نالاں ہیں اور سعید و مسعود کے ورود مسعود کے خواہاں بھی…
دل جلتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سربراہ واسکٹ پہنے دیہاتی مودی کو ایک پپی ادھر اور ایک پپی ادھر دے کر شوخی سے یوں دیکھتے ہیں جیسے وہ جنگل کا بادشاہ ہو اور ہم اس جنگل میں تنہا جعلی شیر…ایسا سیاسی, معاشی, عسکری و تہذیبی تغیر … کیا واسکٹ پہنے ان علاقہ مکینوں میں ہمیں بھی نہیں کھڑا ہونا چاہیے تھا؟؟ اس کا جواب اب واسکٹ پہننے والے تھوڑی دیں گے!
یہ سارا خارجی الجھاؤ لب و لہجہ کو اتنا قنوطی اور اسلوب کو ایسا مایوس نہ کرتا کہ اگر داخلی موسم ہی کچھ اچھا ہوتا .کہتے ہیں کہ مضبوط جسم کے لیے ہر رت اطمینان کی رت ہے اور کمزور وجود کے لیے ہر موسم خطرے کا موسم ۔۔ میں اپنے قومی جسم کے اس بے ڈھبے پن پر اتنا مایوس نہیں کہ معاشی, مزاحمتی و چینی مشقیں اسے سڈول بنا دیں گی. مگر اندر کا نظام انہظام ہو یا تنفس نہیں بگڑنا چاہیے تھا.. کراچی کوئٹہ اعضائے رئیسہ میں شمار ہوتے ہیں. ان کی نکاسی کا بدتر نظام اگر بہتر ہو تو قومی وجود سنبھل سکتا ہے اور اس تنہا موسم سے نکل سکتا ہے.
ایک متبادل معاشی نظام کی جدوجہد اپنی جگہ مگر ایک ناکام ریاست ظاہر ہے رائج الوقت معاشی نظام میں ہی ناکام رہنے والی ریاست ہوتی ہے… سی پیک سے شہری انفراسٹکچر تک اور بجلی گیس مسائل سے زرمبادلہ کے زخائر تک.. ریاست اب عوام کا اضطرار سمجھ رہی ہے۔۔۔۔ شاید اسے لیے ایک مذہبی ریاست میں عقیدت اور شخصیت کی کوزہ گری پھر سے جاری ہے. مزاحمت اور اشتعال کے فطری عوامی جذبات فیض آباد سے آبپارہ تک سڑکوں پہ جوش و جذبہ سے قربان ہونے کو ہیں.. لگتا یہی ہے کہ جیسے سوشلسٹ ایدھی کا کردار ملک ریاض اور جماعت اسلامی کا ‘باغیانہ’ کردار اب جماعت الدعوہ کے پاس جا رہا ہے ۔۔ویسے ہی قومی کتھارسس طالبان کے بجائے اب عمران خان صاحب کر رہے ہیں.
مگر ایسے میں سب کچھ ہی مایوس کن نہیں.. دو باتیں اچھی ہوئیں. اپوزیشن کی اکثریت کھچڑی پکانے اور تماشا لگانے کے بجائےاتنی سنجیدگی کا اظہار ضرور کر رہی ہے جو کہ میمو گیٹ سکینڈل میں نواز لیگ نے نہیں کیا تھا.. (میاں صاحبان کا سیاہ کوٹ پہنے صبح سویرے کورٹ پہنچ جانا آج بھی سب کو یاد ہے) آج سوائے کھلنڈرے ‘نوعمر ان’ کے, پی پی پی, ایم کیو ایم, اے این پی بلکہ جماعت اسلامی نے بھی وفاقی سطح پر سیاسی دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے روایتی ’’پنڈ یاترا‘‘ سے پرہیز کیا..مگر بازی ان سب سیاسی جماعتوں میں بہرحال عوامی ورکر پارٹی جیسی نوزائیدہ جماعت لے گئی کہ جس نے انڈوپاک کشیدہ صورتحال میں پریس ریلیز جاری کرنے کے بجائے پشاور تا کراچی ٹرین مارچ کیا جس میں جماعت کی لیڈرشپ کئی نازوانداز کے پلے محبان انسانیت موجود تھے اور پھر پانچ سات سو کمیٹیٹڈ افراد کے ساتھ اپنی بھرپور کانگریس میں میچور سطح پر عالمی اور ملکی مسائل پر بات کی اور ساتھ میں آرٹ کا بہترین اظہار بھی!
ایسی عالمی تنہائی میں اگر جمہوری جماعتیں اسی بالغ نظری سے عوام کو ستونوں کی اصل حیثیت اور کارکردگی بارے آگاہ کرتی رہیں اور امن کی صدا بھرتی رہیں تو
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے!
بہت عمدہ شکور صاحب شعور کی منزلیں پھلانگتے ہوئے۔۔۔۔ آپ کا “کلپنا” کمال کا ہے۔ ۔ the great….. آپ کےدلائے احساس سے ڈسپلے پکچر بدل ڈالی ہے۔ سلامت رہیں۔ ۔ ۔ ۔