(عرفانہ یاسر)
ایک خبر ہے، جو اب خبر سے بڑھ کر کچھ بن گیا ہے۔ پیمرا کی طرف سے تمام تفریحی ٹی وی چینلز اور ریڈیو پر بھارتی ثقافتی مواد نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سینماؤں میں بھارتی فلموں کی نمائش پر بھی روک کے حکم لگ گئے ہیں۔ تفریح پر یہ تین طرف سے وار والی خبر بہت سارے لوگوں کی تفریحی ضروریات کے احساس پر ایک بھاری پتھر گرنے جیسی ہے۔ کچھ نے اس کا اظہار برملا کر دیا ہے، اور کچھ دم سادھے رہ گئے ہیں کہ کہیں غداری کا الزام ہی نہ دھر دیا جائے۔ لیکن رکئے، ذرا دیوار سے پار کی آتی صداؤں پر بھی کان دھرتے ہیں۔ جی، سرحدیں بھی تو دیواروں جیسی ہی ہوتی ہیں۔ خطئہ برصغیر میں ہمسائیگی کے طور اطوار بالکل ایسے ہی ہیں جیسی اندورن شہر کی تنگ گلیوں والے محلوں کی ہمسائیگی کی ہر دھند والی صبح، ہر کڑکتی دوپہر اور ہر حبس آلود شام ہو۔ برداشت کی فضا بن سکتی تھی، لیکن ہر دو طرفوں سے لڑائی بھڑائی کی باتیں ہی سرکٹ میں بیچی جا رہی ہیں۔
سرحد کے پار کے ازلی، تنگ گلی کے باسی ہمسایوں کی طرف سے بھی کچھ اسی قسم کی خبریں آ رہی ہیں۔ ہمسائے کا گھر گو کہ بہت بڑا ہے لیکن دل اس قدر بڑا نہیں ہو پایا۔ پاکستان کے فنکاروں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ (اور یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔) جن فلموں میں پاکستانی فنکاروں نے کام کیا ہے ان کی ریلیز میں مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں۔ پاکستانی فنکار فواد خان کی فلم ”اے دل ہے مشکل” کو تو بالآخر ریلیز کی جازت مل گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ تین شرائط بھی رکھ دی گئیں۔ بالکل ایسی یاد پڑتی ہے جیسی شرائط جنگ عظیم اول کے فاتحین نے اس جنگ کے ہار جانے والے جرمنی کے گلے کا طوق بنائی تھیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ فلم کے شروع میں اوڑی حملے میں جان سے جانے والے فوجیوں کی عظمت کے پسندیدہ انداز میں ترانے گائے جائیں گے؛ دوسری بات، فوجی کے فلاحی فنڈ میں مبلغ پانچ کروڑ روپے جمع کروائے جائیں گے( جیسے پہلے وہاں کا دفاعی بجٹ تھوڑا ہو۔) اور آخری شرط کے طور پر، آئندہ کسی بھی پاکستانی فنکار کو فلم میں کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔ اس لئے اس فلم کی ریلیز کے ساتھ ساتھ پاکستانی فنکاروں کا بھارتی فلموں میں کام کرنے کا راستہ بھی روک دیا جائے گا۔ کیونکہ مشہور بھارتی فلم پروڈیوسر، کرن جوہر کو بھارت میں موجود شدت پسندوں کی جانب سے پہلے ہی کہنے پر مجبور کر دیا گیا کہ آئندہ وہ کسی پاکستانی کو اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کریں گے۔
پاکستان اور بھارت میں تعلقات رواں سال مقبوضہ کشمیر کے کشمریوں کی طرف سے احتجاج کے بعد کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن اوڑی حملے کےبعد تعلقات میں مزید کشیدگی آ گئی۔ جس کے بعد نہ صرف بھارتی میڈیا نے پاکستان پر الزامات کی بارش کر دی بلکہ پاکستان فنکاروں کے خلاف بھی بیانات سامنے آنے شروع ہو گئے۔ اس سارے کھیل میں بھارت کے کچھ فنکار جن میں اوم پوری، سلمان خان اور کرن جوہر شامل ہیں، انہوں نے پاکستانی فنکاروں کے حق میں بیانات دیئے جس پر ان کےملک میں ان کو نا صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ ان کا جینا دو بھر کر دیا گیا۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں جب بھی کشیدگی پیدا ہوتی ہے اس کا سب سے پہلا نشانہ شوبز انڈسٹری بنتی ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں۔ 2015 میں لائن آف کنٹرول پر حالات خراب ہونے کے بعد بھارت میں پاکستانی فنکاروں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اور ان انتہا پسندوں کی طرف سے ان کو دھمکیاں دی گئیں۔
اوڑی حملے کے بعد زی زندگی (Zee Zindagi) نام کے چینل نے پہل کرتے ہوئے اپنے چینل پر پاکستانی مواد کو نشر کرنے سے روک دیا۔ بھارت میں زی ٹی وی نے 2014 میں اپنا ایک نیا چنیل زی زندگی کے نام سے لانچ کیا جو کہ پاکستان اور بھارت کی شوبز انڈسٹری کے لئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ اس پر پاکستانی ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ بھارت کے ناظرین نے ان ڈراموں کو بڑا پسند کیا اور ان ڈراموں میں کام کرنے والے بہت سے فنکاروں کو بھارت میں کام بھی دیا گیا۔ لیکن پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کے بعد پاکستانی ڈراموں کو بند کر دیا گیا۔
اسی طرح پاکستان میں بھی بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں سینما گھر بھارتی فلموں کی نمائش کے بعد آباد ہونا شروع ہو گئے تھی۔ جس کے بعد پاکستان میں نئی فلمیں بنیں اور لوگ سینما گھروں کا رخ کرنے لگے۔ لیکن بھارتی فلموں پر پابندی کے بعد ایک بار پھر سینما گھر ویران ہو جانے کا خدشہ ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش سے پہلے سنسر بورڈ سے اس کی سکریننگ کرائی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلمیں جن میں پاکستان کے خلاف مواد ہوتا تھا، ( یا خلاف ہونے کی definition پر پورا اترتا سمجھ لیا جاتا تھا) ان کو پاکستان میں نمائش سے روکا جاتا رہا ہے۔ فینٹم، ایک تھا ٹائیگر، اور ایجنٹ ونود ایسی فلموں کی مثالیں ہیں، جن کو سنسر بورڈ نے پاکستان میں ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس لئے بھارتی فلموں پر صرف اس وجہ سے پابندی لگا دینا کہ یہ قومی سلامتی سے متصادم کوئی کام کر رہی ہیں/تھیں کو درست کہنا مشکل امر ہوگا۔
پیمرا کی طرف سے حالیہ ایکشن پر مختلف چھوٹے اور بڑے شہروں میں کیبل آپریٹرز کے بھارتی مواد دکھانے کے لئے استعمال ہونے والے تکنیکی آلات اور مشینوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ بھارتی مواد پر پابندی کے باوجود پاکستان کے چھوٹے شہروں میں بھارتی چینل دکھائے جاتے تھے، لیکن اس بار کے آپریشن میں ان کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ بھارتی مواد کے بند ہونے کے بعد اس وقت پاکستانی چینلز اور کیبل آپریٹرز ناظرین کو دکھائیں تو کیا دکھائیں۔ اگر ان دنوں میں ٹی وی لگایا جائے تو کیبل آپریٹرز کی طرف سے ٹی وی پر جو نشر ہو رہا ہوتا ہے اس کو انٹرٹینمنٹ کے علاوہ کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیبل ٹی وی پر مناسب پاکستانی تفریحی مواد کے نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جتنے ٹی وی چینلز اس وقت پاکستان میں چلائے جا رہے ہیں اس حساب سے خالص پاکستانی ساختہ انٹرٹینمنٹ کا مواد مہیسر نہیں ہے۔ کچھ چینلز جن میں جیو کہانی، اے آر وائی زندگی، سی ٹی وی اور اردو ون شامل ہیں، ان کا زیادہ تر حصہ بھارتی مواد پر مشتمل تھا۔ اب یہ چینلز پرانا پاکستانی مواد چلا کر ٹائم پورا کر رہے ہیں۔ اسی طرح اگر میوزک چینلز کی بات کی جائے تو وہاں چند ایک پاکستانی گانوں کے بار بار چلاتے جانے سے ہی فیتہ گرم ہے۔
یہ بات گوش گزار کرنا تھی کہ اگر پیمرا نے بھارتی مواد کے خلاف اتنا سخت ایکشن لینا ہی تھا، تو منطقی اور حقیقت پسندی پر مبنی یہ طریقہ کار ہوتا کہ پاکستانی شوبز انڈسٹری کو کچھ دم لینے کا، اور اتنی بڑی تبدیلی سے مناسب انداز سے ہمکنار ہونے کے لئے تھوڑا وقت دیا جاتا، تاکہ اس حساب سے مواد تیار کیا جا سکتا۔ آخر میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں بھارتی مواد پر پابندی اور بھارت میں پاکستانی فنکاروں پر پابندی ہی کشیدگی کے مسئلے کا حل ہے۔ صرف فنکار ہی کیوں نشانہ بنتے ہیں؟ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی فوری طور پر یاد آ جاتی ہے کہ ہماری تنگ گلی کی ہمسائیگی کے کلچر میں ساتھ والے گھر کے ہمسائے کا جوش جنگ تو کرکٹ، کبڈی اور ہاکی پر بھی آ کے ٹوٹنے کا چلن ہو چلا ہے۔ کس کس چیز پر افسوس کریں۔ کھیلیں، فلمیں اور تفریحی پروگرام، نفرتوں کی شدتوں کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ گو کہ ان میں سے کچھ چیزیں پروپیگنڈہ کا ذریعہ ہو سکتی ہیں، لیکن ان کو سنسر بورڈ دیکھنے کے لئے ہے تو سہی۔ ان چیزوں کے مثبت استعمال سے people to people contacts کی صحتمند کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں نا صرف بہتر جانکاری کا موقع ملتا ہے، بلکہ تنگ نظری کے stereotypes سے نجات کی راہیں بھی کشادہ ہوتی ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم جو برصغیر کے ان دو ملکوں کی وہ عوام، جن کی، جھوٹ بولنے اور بولتے جانے، ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور گالیاں دیتے جانے، ایک دوسرے کو فتح کر لینے، جھنڈے گاڑ دینے، اور اپنے the other کی دم دیکھ کر اس کے چہرے کی تصویر بنا دینے سے تفریح نہیں ہوتی، وہ کیا کریں؟