بھارت میں سیکولر اور ترقی پسندوں کی تشویش بجا ہے
(امتیاز عالم)
پانچ ریاستوں کے انتخابات، خاص طور پر یو پی اور اترا کھنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زبردست فتح نے بھارتی سیاست میں آئندہ سات برسوں کے لئے وزیر اعظم مودی کا سکہ بٹھا دیا ہے۔ اکثریتی ہندو قوم پرستی کے زور پہ مودی نے بی جے پی کے حلقہ اثر کو اب تمام ہندو جاتیوں تک پھیلا دیا ہے۔ جبکہ ترقی اور اچھی حکومت کے ایجنڈے نے مخالفین کی ہوا نکال دی ہے۔ اس کے باوجود کانگریس نے مہاراجہ امریندر سنگھ کی قیادت میں پنجاب میں حکمران اکالی دل اور بی جے پی کی اتحاد شکست فاش دی ہے اورگوا اور منی پور کی چھوٹی ریاستوں میں بھی بی جے پی سے آگے رہی۔
مگر حکومتیں بی جے پی ہی نے پانچ میں چار ریاستوں میں بنائی ہیں لیکن اصل میدان تو یو پی میں سجا جو بھارت کی آبادی کا چھٹا حصہ ہے۔ یہاں 2014 کے عام انتخابات میں مودی نے 80 لوک سبھا کی نشستوں میں 57 جیتی تھیں اور اب آسام کے بعد شمال مشرق کی ریاست منی پور میں بھی اس نے اپنی حکومت بنا کر پیر جما لئے ہیں۔ مودی کے مقابلے میں کوئی قومی سطح کا لیڈر نہ تھا اور چیف منسٹر اکھلیش یادیو اور راہول گاندھی کی جوڑی ٹھس ہو کر رہ گئی۔ بی جے پی کی ہند توا کی لہر کے سامنے سماج وادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد تھا جو دوسری پسماندہ جاتیوں خاص طور پر یادیو اور مسلمانوں کی حمایت رکھتا تھا اور پھر بہوجن سماج پارٹی کی مایاوتی تھیں جو دلتوں اور مسلمانوں کو ساتھ ملا کر میدان میں تھیں۔ لگتا ہے کہ مودی نے جاتی واداور پری وارواد کا بھرکس نکال دیا ہے۔
بابری مسجد کے انہدام اور رام جنم بھومی مندر کی تعمیر سے ہندو انتہا پسندی کی لہر کے پیدا ہونے اور منڈل کمیشن کے نچلی جاتیوں کو ان کا جائز مقام دینے سے جاتی واس سیاست کو فروغ ملنے سے سیاست میں جو محاذ آرائی پیدا ہوئی تھی، وہ اب جاتی واس کی سیاست کی شکست، سیکولر قوتوں کی پسپائی اور کانگریس کے مسلسل زوال کے ہاتھوں نئی نہج پر پہنچ گئی ہے۔ اب راشٹریہ سوائم سنگھ اور اس کے ہندو پری وار کی فرقہ وارانہ تنظمیں جن میں بی جے پی سب سے آگے ہے۔ بھارت میں جس ہندو راشٹراپا اکثریتی ہندو راج کے قیام کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھیں، انھیں وہ اب حاصل ہوا چاہتا ہے۔ لیکن مودی اب زیادہ زور غریبوں پر دیں گے تاکہ کانگریس سے غریبی ہٹاو کا نعرہ بھی چھین لیں اور قومی ترقی کے ایجنڈے سب کا ساتھ ساب کا وکاس کے نعرے سےآگے بڑھائیں۔
انتخابی مہم کے شروع میں تو انہوں نے لائن آف کنٹرول کے پار نام نہاد سرجیکل اسٹرائیکس کا ذکر کیا اور پنجاب میں پانیوں کا مسئلہ چھیڑا لیکن یہ چلا نہیں۔ پھر ان کا زور یوپی میں سماج پارٹی کی غنڈ ہ گردی اور بھرشٹا چار پر رہا ۔ مودی نے فرقہ وارانہ تعصب سے کام لیتے ہوئےمسلمانوں کے قبرستانوں کے مقابلے میں شمشان گھاٹوں کی نظر انداز کرنے اور ہندو پانی، مسلم پانی کی ہندوؤں سے بھی برتی جانے والی تفریق کو اچھالا۔ لیکن ان کا زور ترقی کے ایجنڈے اور غریبوں کی حالت سدھارنے پر رہا۔ یہاں تک کہ یہ نعرہ بھی خوب لگایا کی غریب غریب، ایک سمان ، ہندو ہو یا مسلمان اس کے باوجود کہ مسلمان یو پی کی آباد 19 اعشاریہ 2 فیصد ہیں اور صوبائی اسمبلی کی 130 نشتوں میں انہیں مرکزی حثیت حاصل ہے۔ باہمی تقسیم کے باعث مسلم امیدوار صرف 25 نشستوں پہ ہی جیت سکے۔ اور دیوبند جیسے مسلم گڑھ میں بھی ہندو انتہا پسند جیت گئے۔ یوں نچلی جاتیوں اور مسلمانوں کے اتحاد کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ کانگریس کی حالت اتنی خراب ہوئی ہے کہ نہرو خاندان کی امیٹھی میں چار آ بائی نشستوں میں سے وہ ایک بھی حاصل نہ کر پائی۔ اور اب راہول گاندھی کی قیادت سے سبھی مایوس نظر آتے ہیں۔
دلی میں اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے بی جے پی کے صدر امیت شاہ اور مودی نے نہ تو رام مندر کی تعمیر کا کوئی ذکر کیا اور نہ یی ہندو قوم پرستی کے نعرے کو دہرایا ہے۔ لگتا ہے کہ اپنا ہندو حلقہ انتخاب مستحکم کر کے وہ زیادہ کھلے پروگرام کی طرف جائیں گے۔ اب 2019 کے انتخابات میں ان کے سامنے کوئی نہیں اور وہ بڑے آرام سے 2024 تک راجدھانی پہ یک و تنہا براجمان رہیں گے۔ غالبا اندرا گاندھی کے بعد وہ مرد آہن بن کر ابھرے ہیں اور وہ اپنی پارٹی، دلی کے بابوؤں اور بھارتی مقتدرہ سے بالاتر ہو گئے ہیں۔ ان کا ابھار بالکل ویسا ہی ہے جیسے ترکی میں اردوان کا۔
اب لگتا ہے کہ وہ اپنے قومی و علاقائی اور عالمی ایجنڈے کی جانب راغب ہوں گے۔ اور زیادہ یکسوئی سے خطے کی طرف توجہ دیں گے، چین بھارت کا تجارت مِں سب سے بڑا حصہ دار ہے اس کے ایک سڑک ، ایک راہداری کے منصوبے میں طوعا و کرہا ا شرکت کے سوا بھارت کے پاس چارہ نہ ہے ۔ اس طرح چین چاہتا ہے کہ بھارت چین ، پاکستان اکنامک کورئیڈار میں شامل ہو جائے ۔ جون میں بھارت اور پاکستا ن شنگھائی کو آ پریشن آرگنائزیشن کے باقاعدہ رکن بننے جا رہے ہیں اور چین کا وافر سرمایہ اب امریکہ کی بجائے ایشیا کا رخ کرے گا ، ایسے میں بھارت کیسے خود کو ٹرمپ کی لن ترانیوں کے سارے چین مخالف محاذ میں دور تک جا سکتا ہے جو اس کے قومی ترقی کے ایجنڈے سے لگا نہیں کھاتا۔
پاکستان بھی اندورنی دہشت گردی سے نبردآزما ہے اور افغانستان کا عدم استحکام ہماری شمال مغربی سرحد پہ مسلسل تناؤ اور توجہ کا باعث رہے گا۔ ہمارے پاس بھی چارہ نہیں کہ ہم دوسرا محاذ گرم نہ کریں۔ پچھلے دنوں ے کچھ اچھے اشارے مل رہے ہیں۔ خطے کے بارے میں خوش قسمتی سے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم مودی کا وژن ایک ساہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دونو ں وزرائے اعظم بات چیت کا ڈول پھر سے ڈالیں۔ لیکن طاقتور مودی سے بات کرنے کے لئے تمام ریاستی اداروں کو وزیراعظم کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا، کیا ایسا ہو گا ؟ دلی شاید اسی کا منتظر ہےکہ کس سے بات کی جائے؟
بشکریہ روزنامہ جنگ اور بطور خاص مصنف امتیاز عالم