بھارت کے مسلمانوں کو قتل ہونے سے انکار کرنا ہوگا

لکھاری
پروفیسر اپورو آنند

بھارت کے مسلمانوں کو قتل ہونے سے انکار کرنا ہوگا

از  پروفیسر اپوروانند ، دہلی یونیورسٹی

مترجم :  ابو اسامہ،  اسسٹنٹ پروفیسر،  مولانا آزاد یونیورسٹی،  حیدرآباد، بھارت

پروفیسر اپورو ا نند  ہندوستان کی ان محدود اور منتخب   آوازوں میں سے ہیں جو اقلیتوں کے تئیں ایک دانشمندانہ اور عقل پر مبنی پوزیشن لیتے ہیں  اور سماجی اور ثقافتی  نا انصافی پر اپنی رائے اور احتجاج درج کرتے ہیں۔ وہ روز مرہ کے سیاسی اور سماجی مسائل پر لکھنے اور بولنے کے ساتھ سیاسی اور سماجی اسٹیبلشمنٹ پر بھی مستقل لکھتے رہتے ہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے ہم نے معاشرے میں کئی ایسی مثالیں دیکھی ہیں جنہوں نے مکمل طور پرتنوع اور یگانگت پر مبنی  ہماری صدیوں پرانی تہذیب کو صدمہ پہنچایا ہے۔ مایوسی کے ان لمحات میں کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ ہمیں یہ صدمہ صرف ذہنی طور  پر نہیں لگا ہے بلکہ فرقہ پرست طاقتوں نے جسمانی اور مالی نقصان پہنچانے کو ہی اپنا  ‘مذہبی اور تاریخی’فرائض کا بدل سمجھ لیا جس کے نتیجہ میں ہندو-مسلم رشتوں میں دن بہ دن درار پیدا ہو رہی ہے اور  جو ہر بار  ایک نئے حادثے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔  ہر دن آپ کو  کوئی نہ کوئی اس متحدہ اور ملی جلی تہذیب کو نقصان پہونچا دینے والی خبر مل جائے گی جو  مڈل کلاس سے زیادہ نچلے طبقے کے لوگوں کے لیے بے چینی اور پریشانی کا سبب ہے۔  اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ لوگوں کو پہونچ رہا ہے مگر ایک دوسرا پہلو شناخت کا بھی ہے  جس کا اثر  مجموعی اعتبار سے مسلمانو ں پر ہو رہا ہے ۔  ہر بار ان کو ایک نئے  ‘امتحان’ کے لیے  حاضر ہونا پڑتا ہے۔ راہی معصوم رضا نے ‘آدھا گاؤں’ میں  کہا تھا کہ’ جن سنگھ کہتی ہے مسلمان باہر سے آئے ہیں اس لیے انہیں یہ ملک چھوڑ کر پاکستان چلے جانا چاہئے، مگر میں تو باہر سے نہیں آیا ہو ں،  میری پہچان، میرا ملک  تو میرا   گاؤں ہے۔ صاحب  میں تو نہیں جاتا ‘۔  اس طرح کے دعوے اور انصاف پر مبنی زندگی کی مانگ ہمیں مستقل اور کھل کر کرنی ہوگی۔  اپوروانند کا یہ مضمون   The Wire  میں انگریزی اور ہندی دونو ں زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ قارئین کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (عرض مترجم)

مسلمانوں کو یہ کہنا ہوگا کہ وہ یہاں ہیں اور یہیں رہیں گے۔ انھیں یہ کہنا ہوگا کہ کسی کو بھی انھیں اس ملک کو چھوڑ کر جانے کے لیے کہنے کا حق نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی کہنا ہوگا کہ وہ یہاں اپنے مسلم پن کے ساتھ ویسے ہی رہیں گے جیسے ہندو اپنے ہندو پن کے ساتھ رہتے ہیں۔مسلمانوں کو قتل ہونے سے انکار کرنا ہوگا۔

مجھے معلوم ہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ بے حد عجیب ہے لیکن، دراصل وقت کی ضرورت یہی ہے۔ پولس اور شہری انتظامیہ کی کوئی دلچسپی ان کے قتل کو روکنے میں نہیں دکھائی دیتی۔ بلکہ اس کے برعکس وہ ایسے قتل کو دو طرفہ معاملے کا رنگ دینے میں زیادہ مشغول نظر آتے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے سامنے پڑے ایک لحیم شحیم جسم کی سچائی سے انکار نہیں کر سکتے اور اسی وجہ سے انھیں ایف آئی ایف آر داخل کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ لیکن وہ اسی لمحے اپنی اس مجبوری کو ایک جوابی ایف آئی آر سے مصالحت کر لیتے ہیں جس میں مرنے والے انسان کو اپنے ہی قتل کا قصوروار قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے معاملوں میں جہاں قتل کو اب تک انجام نہیں دیا گیا ہے، وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اگر نشانے پر آیا کوئی انسان کسی طرح سے جان بچا کر بھاگ جائے، تو  وہ قانون سے ملی اپنی طاقت کا استعمال شکار کو شکاری کے سامنے پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں۔  ہم نے حال ہی میں جے پور میں یہ دیکھا ہے ، جہاں ہوٹل میں کام کر رہے ایک کام کرنے والے کو پھر سے ہوٹل لایا گیا، تاکہ سب اسے مل کر پیٹ سکیں۔

نچلی عدالتوں کی دلچسپی ان کا نکتہ نظر سننے میں نظر نہیں آتی اور اگر ان کی جان نہیں گئی ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ ایک خاص قسم کے  گوشت کے ساتھ پائے جانے کے الزام میں خود کو پولیس یا جج کی حراست میں پائیں۔  اس بات کا کوئی مطلب نہیں کہ ایسے کسی قانون کا وجود ہی نہ ہو! اب سپریم کورٹ کے سامنے فریاد  کی گئی ہے، لیکن اس بات پر شک ہے کہ وہاں بیٹھے ہوئے جج مسلمانوں کی زندگی پر بن آئی ایمرجنسی صورت حال کے تقاضے کو سمجھ پائیں ۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ مسلمانوں کو مل کر ایک آواز میں اعلان کرنا چاہیے کہ وہ دوسروں کو ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق اب اور نہیں دینے والے۔  انہیں اعلان کرنا ہوگا کہ وہ راجستھان کے پہلو خان اور عبد الغفار قریشی، جموں کے زاہد خان، جھارکھنڈ کے مظلوم انصاری اور امتیاز خان، اتر پردیش کے محمد اخلاق اور ہریانہ کے مستین عباس  جیسی موت مر جانے سے انکار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں بچا ہے کیوں کہ ان  کے خلاف ہونے والے تشدد نے ایسے کسی سماجی یا سیاسی تنقید کو جنم نہیں دیا ہے، جس کی امید ہم ایک قانون سے چلنے والے سماج سے کر سکتے ہیں۔

ہندوستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس، ان سیاسی جماعتوں کے بھی مذہب سے نا وابستگی کی قسم کھاتے ہیں، آج اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ قاتلوں کو ان کے نامو ں سے پکار سکیں یا یہ کہ سکیں کہ مسلمانو ں کا قتل صرف ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔رات کو ہونے والے بحث و مباحثے میں سیاسی اور افسوس ناک طریقے سے میڈیا کا ایک طبقہ بھی چور راستے کھوج رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ بے قابو بھیڑ بنا کسی ارادے اور پلان کے مسلمانوں پر حملے کر رہی ہے، یا کہا جا رہا ہے کہ تشدد غلط فہمی کا نتیجہ تھا، یا یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ تشدد پرانے اور تاریخی غصے کا اظہار  تھا، جس نے ایک حادثہ کی شکل اختیار کر لی۔ لیکن کسی سیاسی جماعت کے پاس آج یہ کہنے کی طاقت نہیں ہے کہ یہ قتل و غارت یا حملے غیر ارادی طور پر  نہیں ہو رہے ہیں۔ ان میں کہنے کی طاقت نہیں کہ اس ظالم بھیڑ کے کے قیام کے پیچھے خطرناک اور انسان دشمن نفرت پھیلانے والی تحریک کا ہاتھ ہے۔

کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ لسانی اور تہذیبی یگانگت کے پرے ہر جگہ مسلمانوں کو ہی چن کر حملے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے وقت کا کڑوا سچ ہے کہ ہندوستانی قانون کے بنانے والے اور عوامی نمائند گان نے ملک کے مسلمانو ں کو بیچ منجھدہار  میں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کا قتل اور ان پر کیے جا رہے ظلم کے باوجود ہمارے قانون بنانے والے اور روزانہ کے کام کاج بنا کس وجہ سے چل رہے ہیں۔ ہندوستان کی جمہوریت میں مسلمانوں نے اپنا کافی کچھ لگایا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ انہیں ذرائع، تحفظ، نمائندگی یا انصاف سے صرف ان کے مذہب کی وجہ محروم رکھا جا رہا ہے،  تو ان پر فرقہ واریت یا علیحدگی پسند زبان بولنے کا  الزام لگایا جاتا ہے۔ جبکہ ایسا کرتے ہوئی وہ ایک عام ہندوستانی کی طرح ہی بول رہے ہوتے ہیں، نہ کہ صرف مسلم کی طرح۔

ہندوستان میں مسلمان اکلوتا فرقہ ہے جنھیں اپنی اولاد کے ہونے پر بے عزتی سہنی پڑتی ہے  کیوں کہ اس  نوزائید ہ کو ملک کی تہذیب یہاں تک کہ تحفظ کے لیے بھی ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہر مردم شماری کے بعد اچھے جذبات رکھنے والے تجزیہ کار اور ماہر آبادی بھی ہندوؤں کو یہ یقین دلاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں کہ آبادی میں مسلمان ان سے آگے نہیں نکلنے والے۔

یہ کیسا ملک ہے جس میں مسلم بچے کی پیدائش پر جشن نہیں منایا جاتا، بلکہ اسے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟ وہ دن دور نہیں جب میڈیا اور اسے چلانے والے مسلمانوں پر ہو رہے ظلم پر دلچسپی لینا بند کر دیں گے۔

چونکہ ان دنوں ہندوستان کے مسلم شہریوں کو لگاتار بھیڑ کے تشدد کا شکار ہونے کی عادت پڑتی جا رہی ہے، اس لیے بہت ممکن ہے کہ میڈیا کے ایڈیٹر اور مالک یہ کہنا شروع کر دیں کہ ایک ہی طرح کی موت کی بار بار رپورٹنگ کرنا بے حد اکتا دینے والا کام ہے۔  اس لیے مسلمانوں کو یہ کہنا ہوگا کہ وہ یہاں کسی کے رحم پر نہیں ہیں، بلکہ وہ یہاں اس لیے ہیں کہ ہندوستان ان کا مادر وطن ہے۔

اسی طرح جس طرح ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں، بودھوں یا جینیوں اور دوسروں کا ہے ۔ انہیں یہ اعلان کرنا ہوگا کہ کسی کو، کسی صوبے کو بھی، یہ کہنے کا حق  نہیں ہے کہ وہ کیا کھائیں، کس طرح عبادت کریں۔ کسی کو بھی ان کی بے عزتی کرنے اور انھیں نیچا دکھانے کا حق نہیں ہے۔

انھیں یہ کہنا ہوگا کہ قانون کے ذریعہ ان سے زندگی کو باوقار  اور باعزت بنانے والے سارے حقوق دنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس وعدے سے مکرنا گناہ ہے۔مسلمانوں کو ہندوؤں سے اور سیاسی نیتاؤں سے، جو یہ کہتے ہیں کہ ہندو اقلیتوں کے بڑے بھائی کی طرح ہیں، یہ کہنا ہوگا کہ جب ایک یا دوسرے بہانے سے ان پر حملے ہوتے ہیں، تب وہ ان سے مدد کی، ساتھ کھڑے ہونے کی امید کرتے ہیں نہ کہ منہ  پھر لینے کی۔

مسلمانوں کو یہ کہنا ہوگا کہ وہ یہاں ہیں اور  یہیں رہیں گے، انھیں یہ کہنا ہوگا کہ کسی کو بھی انہیں اس ملک سے چھوڑ کر جانے کے لیے کہنے کا حق نہیں ہے۔ انہیں یہ کہنا ہوگا کہ وہ یہاں اپنے مسلمان پن کے ساتھ ویسے ہی رہیں گے جیسے ہندو اپنے ہندو پن کے ساتھ رہتے ہیں اور جنھیں لگتا ہے کہ ان کا طرز زندگی ہی صرف ہندوستانی ہے۔ انہیں یہ کہنا ہوگا کہ وہ اس بات سے قطعی شرمندہ نہیں ہیں کہ ان کی مقدس جگہ اس سر زمین پر نہیں ہے۔ انہیں یہ سب کہنا کرنا ہوگا، لیکن شروعات انہیں اس اعلان سے کرنی ہوگی کہ وہ اپنا قتل ہونے دینے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ اور عدالتوں سے کہیں کہ سنو، ہمارے اس حوصلے کو درج کرو۔