تاریخی تسلسل کا مقدمہ.واقعہ کربلا کے تناظر میں

(وقاص احمد)

زیرِ نظر مضمون کے مندرجات ایک علمی بحث کے تناظر میں شائع کئے جا رہے ہیں۔ا س ساری بحث کو علمی تناظر میں پڑھاجائے۔وقاص احمد ’’ایک روزن‘‘ پر مسلسل اپنا موقف دے رہے ہیں۔ ادارہ اس ضمن اور ردعمل میںآنی والی مختلف آرا اور مضامین کو بھی بخوشی شائع کرے گا۔
—————————————————————————-

محرّم کے دوران کربلا کے سانحے کے تناظر میں فیس بک پر بہت سارے مباحث دیکھنے کا اتفاق ہوا.کربلا کے واقعہ کے درست پس منظر،حالات اور واقعات کی صحیح منظرکشی،واقعہ کے بعد درپیش آنے والے قضیے اور اس کے حوالے سے اسلامی تاریخ کا ایک مفصل تجزیہ.یہ سب کچھ بہت تفصیلاً اور پوری شدومد سے مختلف الخیال افراد و احباب جن میں اہل عقل و دانش ،علماکرام،وکلا،اساتذہ،طلبہ الغرض ہر شعبہ زندگی کے لوگ شامل تھے،اپنی بساط بھر بیان کرتے پائے گئے.کچھ مسلک کی نمائندگی کرکے ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش میں لگے رہے.کچھ درست تجزیے کی اصطلاح کی آڑ میں چوں چوں کا مربہ بنا لائے.کچھ نے لعن طعن اور دھمکیوں سے کام چلایا.کچھ فتوے بانٹتے پائے گئے اور رافضیوں،ناصبیوں اور دیگر خطابات سے ایک دوسرے کو خوب نوازا گیا.آخری حال احوال تک نوبت پاکستانی فیس بکی روایات کے عین مناسب ماں،بیٹی اور بہن تک بھی پہنچی.محرّم الحرام میں اس بحث کے متوقع آغاز،نکتہ عروج اور پھر انشاءللہ حتمی اختتام کی تمام حضرات فیس بک دھماچوکڑی مبارک باد قبول فرمائیں.
اس سارے ہنگامے اور ہڑ بونگ کو دیکھ کر ایک منطقی سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ جب اجماع امت امام حسین رضی الله عنہا کی مظلومیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مسلے پر اتنی لے دے ہوئی؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ تاریخی واقعات نگاری ایک انتہائی پیچیدہ مضمون ہے.اور جب کسی ایک مخصوص تاریخی وقوعہ کے ظہور کو حقائق کی چھان بین کے ثقیل عمل سے گزارا جاتا ہے جو ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے.تو لامحالہ غلطیوں کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے.اس لئے تاریخی واقعات اور حالات کو ایک اجتمائی نکتہ نظر سے دیکھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہو جاتا ہے.یھاں تک کہ سیاق و سباق اصل متن سے بھی بعض اوقات زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے.ایک مکمل دور کی واقعاتی تشریح اجتمائی نکتہ نظر سے اس دور کے معاشرتی،سیاسی اور ثقافتی حالات کے حوالے سے کرنا اتنا مشکل امر نہیں مگر وقت کے ایک انتہائی
مختصر دائرے میں ہونے والا واقعہ جو صرف چند روز کے دورانیہ پہ مشتمل ہو.واقعاتی شہادت کے حوالے سے اغلاط اور مبالغہ آرائی سے مبرا نہیں ہو سکتا.پھر اتنے حساس اور پر پیچ امر کوفیس بک جیسی عمومی سطح پر لا کر پرکھنے کی کوشش بار بار کیوں کی جاتی رہی تھی؟ اور آخر یہ مسلہ اتنا اہم کیوں بن گیا تھا؟
کیا صرف حضرت حسین رضی الله عنہا کی مدحت نیز ان کی مظلومیت اور بے کسی پر ان کا ہم نوا ہونا،ان کی یاد کو سینے سے لگانا اور اس موقع پر اپنے اہل تشیع بھائیوں کے جذبات کا خیال رکھنا زیادہ اہم نہیں تھا؟ہمارے خیالات اور افکار محرّم کے ختم ہونے کا انتظار نا کر سکتے تھے؟
اس سوال کا جواب تاریخی حقیقتوں کو کنگھالتے کسی فرد کی تحریر میں نظر نا آ سکا.لوگ مسلکی رنگ میں وجوہات بتاتے رہے.اہل تشیع حضرات کا محرم کے دوران ملک میں غیر معمولی حالات پیدا کرنے کی حوصلہ شکنی ،اقلیت ہونے کے باوجود اکثریت کے نظریات پہ حاوی ہونے کا توڑ، عام عوام کے عقیدے کو مسخ کرنے کی روک تھام،مسلکی درست نکتہ نظر کا عوام میں فروغ.یہ بظاھر وہ بنیادی مقاصد تھے جو اہل تشیع کے نظریات کے مقابل حالات و واقعات کی درست ترجمانی کے زریعے حاصل کرنا مقصود ٹھہرے.
کیا یہی حقیقی حاصل تھا کہ تقسیم در تقسیم اس انسانی سماج میں اپنے مسلکی پروپگنڈہ کے لئے دوسرے فرد کے مذہبی جذبات کو برانگیختا کیا جاۓ.عوام انسانی شعور سے محروم ہو تو مسلکی الہام کو کیسے سہار پائے گی.فقہہ زمان بھوکی ننگی فاطرالعقل عوام کے نظریات سیدھے کرنے چلیں ہیں .دین کی فکر میں غلطاں صاحبان منبر کو اقلیت کے نظریات حاوی نظر اتے ہیں…کیا پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ کچلے ہوۓ نفوس کے نظریات کیا ہو سکتے ہیں…جب چودہ اگست اور عید میلاد النبی پر ہونے والے طوفان بدتمیزی کا انسداد نہیں کیا جا سکتا تو اہل تشیع کے پر امن جلوسوں کے لئے تھوڑی سے تکلیف کیوں نہیں برداشت کی جا سکتی جب کہ امن و امان کا بنیادی مسلہ بھی تکفیری اذہان کی ارادتاً پروان چڑھائی گئی نمو کا شاخسانہ ہے.جلسے اور جلوس ازخود تو کوئی غیر معمولی حالات پیدا نہیں کرتے.
اس تنقید کے جواب میں کچھ دیوبندی مکتب فکر کے افراد شاید یہ دلیل پیش کریں کہ اکابر دیوبند نے اکثر و بیشتر واقعہ کربلا پر اپنے نکتہ نظر و نگارشات کو صراحتا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے ہر موقع پر بیان کیا ہے.اور باقاعدہ اپنے موقف کی ترویج کا وقتاً فوقتاً التزام فرمایا ہے تو ظاہر ہے اکابرین کی روش سے ہم کیوں پیچھے ہٹ جایئں.مگر تشنگی اس امر میں یہ رہ جاتی ہے کہ وہ حکمت کیا تھی جس کی بنا پر اکابرین دیوبند نے واقعہ کربلا کے حوالے سے اپنے موقف کے حوالے سے کسی بھی مصلحت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.واقعہ کربلا کے صحیح پس منظر کے تعین کا قضیہ کسی مسلکی تنازعہ کا منطقی نتیجہ نہیں بلکہ نظم اسلامی کے ایک بنیادی جزکےتحفظ کی جنگ ہے.اور وہ جز ہے ہماری تاریخ.
مستشرقین کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ دراصل قرآن اور شریعت محمدی پرانے ادیان و مذاہب کے دستاویزات کی تلخیص شدہ نقل ہے جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کے کہنے کے مطابق اپنے مختلف تجارتی اسفار میں حاصل کیں اور پھر انھیں ایک مذہب کی شکل دے کر رائج کرنے کی کوشش کی.بعینہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور کے غلبے کو آنحضرت کی شخصی خصوصیات اور آپ کے دیگر ممتاز اصحاب کے ذاتی کمالات پر محمول کیا .ان کا استدلال تھا کہ کیوں کہ آنحضرت کو شروع میں بہت باکمال افراد میسر آگئے تھے تو ان افراد کی محنتوں اور مشقتوں کے سبب آپ عرب و فارس پہ غالب ا گئے.جیسے ہی آنحضرت اور آپ کی باصلاحیت ٹیم دنیا سے رخصت ہوئی،اسلام کا نظام زمین بوس ہو گیا.یعنی اس ابدی نظام حیات کے اصول اور قوانین جو قرآن حکیم کی شکل میں انسانیت کو ودیعت ہوۓ،اس لائق نا تھے کہ کسی نئے تمدن کی بنیاد رکھ سکتے.صرف چند شخصیات نے اپنے زور بازو پر اس نظام کو کچھ دہائیوں تک چلایا اور پھر یہ نظام زمانے کی دھول میں اوجھل ہو گیا.(نعوزباللہ من ذالک)
بدقسمتی سے ہمارے اپنے اندر کچھ ایسے گروہ پیدا ہوۓ جو صورتحال کا درست ادراک نا رکھتے تھے.تاریخ کی مجموئی نکتہ نظر سے تفہیم کے ہنر سے عاری تھے.مودودی فکر بھی آنے والے دور میں اسی تناظر میں ایک سطحی فکر کا استعارہ بنی.صحابہ کرام کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جسارتیں کی گئیں.واقعات کے صحیح پس منظر کو یکسر فراموش کیا گیا.دلوں کا حال جان لینے کا دعوی کر کے صحابہ پہ بہتان باندھے گئے.نبی اکرم کے تربیت یافتہ لوگوں کی نیتوں پر شکوک پیدا کیے گئے.اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ حضرت حسین کی شہادت کے بعد اسلام کا نظام سیاست ملوکیت میں بدل گیا.نظام معیشت کی بنیاد حکمران طبقے کی تعیش پسندی کی تسکین ٹھہری.نظام عدل اقربا پروری اور بادشاہی آمریت میں بدل دیا گیا.اب اسی باطل نظریے کو قائم کرنے کے بعد ایک سادہ سا سوال جو پیدا ہوا کہ جو نظام اپنی پیدائش کے ساٹھ یا ستر سال بعد ہی شکشت و ریخت کا شکار ہو گیا.وہ تا قیامت راہ ہدایت اور نمونے کا نظام کیوں کر ہو سکتا ہے.جب نبی اکرم کے صحابہ اور تابعین اس نظام کو نا سنبھال سکے تو آپ کس برتے پر خلافتہ علی المنہاج نبوی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں.کیا آج کے دور میں آپ یہ دعوی رکھتے ہیں کہ آپ ان صحابہ اور تابعین سے زیادہ اخلاقیات و کردار کے مالک ہیں.اور وہ انسانی کمزوریاں جو آپ نے ان میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی ہیں.آپ کی جماعت ان سے مبرا ہو گی؟
لہٰذا اس بنیاد پر واقعہ کربلا کے درست پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ جانا جا سکے کہ اسلامی ریاست و حکومت بارہ سو سال تک دنیا میں روشنی کا مینارہ ثابت ہوئی.ادوار کے اعتبار سے اس کی درجہ بندی ایک قدرتی عمل تھا مگر خوبیاں ہمیشہ خرابیوں پہ حاوی رہیں.دین کی بنیادی خصوصیات یعنی انصاف،مساوات،بردبادی،انسانی حقوق کے تحفظ کا پورا پورا خیال رکھا گیا اور اپنے دور کے اعتبار سے ان کا ہم عصر کوئی معاشرہ ان کے مقابلے پہ نا تھا.کیا بنوامیہ کے ادوار ترقی اور خوشحالی کے نقیب نا تھے.کیا مروان بن عبدالمالک یہ دعوی کرتے نظر نہیں آتا ہے کہ آج اس کی مملکت میں کوئی مسافر ،کوئی لاچار اور کوئی بھوکا حکومتی امداد سے محروم نہیں ہے.کیا مدینہ علم و حکمت کا مرکز نہیں بنا اور یھاں سے پھوٹنے والے علوم الہیہ کے چشموں نے عجم اور فارس سے لے کر یورپ تک اس آفاقی پیغام کو نہیں پہنچایا.کیا کسی ملوکی سیاسی نظام میں اس طرح کا علمی مرکز پیدا کرنے کی استعداد ہو سکتی ہے.
نبی اکرم اور خلفائے راشدین شخصیت کی ایسی جامعیت کا نمونہ تھےجہاں انتظامی صلاحیت بھی انتہائی درجہ کی تھی،علمی قابلیت بھی کمال کا نمونہ تھی اور ذاتی اوصاف بھی بلند و بالا تھے.مگر خلفائے راشدین کے بعد ایسی شخصیات موجود نا تھیں جو ان تمام اخلاقیات اور خواص کا مرجع ہوتیں.چناچہ ادارہ جاتی تشکیل وقت کی ضرورت ٹھہری.حضرت حسن آنے والے تمام ادوار کے لئے جماعت حق کے واسطے حضرت علی کے بعد پہلے امام کا درجہ رکھتے ہیں.آپ نے اپنی دور اندیشی اور حکمت عملی سے انتظامی اور سیاسی شعبہ کو بنو امیہ کے سپرد کیا .کیوں کہ بنو امیہ تاریخی اعتبار سے سیاسی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے.اور خود دینی جماعت کے امام کی حیثیت سے جماعت کی تربیت اور فکر و نظریہ کی ترویج اور اٹھان کے اساسی کام کا بیڑا اٹھایا.اسی دور سے جماعت میں امام اور امیر کا تصور پیدا ہوا .امام دینی جماعت کا فکری سربراہ قرار پایا جو جماعتی نظریہ کو الہیات کے ساتھ جوڑتا ہے . افراد سازی اور نظریاتی تعلیم کا عمل سر انجام دیتا ہے.جب کہ امیر سیاسی اور انتظامی امور کا نگھبان ہے.
حضرت حسین رضی الله عنہا نے بھی بحیثیت امام الوقت مبلغ کے حیثیت سے کردار ادا کیا.آپ نے کبھی بھی حکومت اور طاقت کے حصول کی خواہش کا اظہار نہیں کیا.اپنے نانا کے دین کے حفاظت اور سربلندی ان کا مقصد اول تھا مگر مخالفین کی سازش کا شکار بنے.مگر اس واقعہ کو اسلامی نظام ریاست کے خاتمے کا نکتہ آغاز سمجھنا سنگین غلطی ہے.اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ حضرت حسین کی قربانی کے بعد ملوکیت اور جاہ پرستی کا دور جاری ہو گیا تو پھر ہمارا یہ دعوی کہ حضرت حسین نے اپنا اور اپنے اہل کا خون دے کر دین کو بچایا،باطل قرار پاتا ہے.(نعوذ باللہ)
بنوامیہ،بنو عبّاس،عثمانی ترک اور پھر ہندوستان میں اسلامی حکومتیں.تمام کسی نا کسی درجے میں اسلامی ریاستوں کے مصداق تھیں.تمام ادوار میں عدلیہ ،خانقاہ اور حکمران کی تثلیث نے سسٹم کو چلایا.جب حاکم حدود سے تجاوز کرتا تو عدلیہ اس کی تادیب کے لئے آن موجود ہوتی.جب عدلیہ کمزور اور حکمران غلط فیصلوں پر راغب ہوتا تو خانقاہ اپنا کردار ادا کرتی تھی.یہی کردار امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ نے اپنے ادوار میں ادا کیا.تاریخ بیشمار عدالتی فیصلوں کی شاہد ہے. جنہوں نے منہ زور حکمرانوں کی لگامیں کھینچیں.حضرت الف ثانی امام ربّانی دین الہی کے اصلاح اور سر زنش کے لئے خانقاہ چھوڑ کر میدان میں ا جاتے ہیں.ایسی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں.
یہ تاریخی تسلسل ہی ہے جو ہمارے آیندہ انے والے دور میں کسی مثبت سماجی تبدیلی کی بنیاد بن سکتا ہے.اپنی تاریخ سے کٹ کر مصنوئی فکری بحران پیدا کر دینا دور اول کو روایت کرنے والے مستشرقین کا اساسی ایجنڈا تھا.جس کی پسپائی کے لئے اکابرین دیوبند ہمیشہ مستعد رہے.ورنہ کسی مسلکی اختلاف کی اتنی واضح تنقید کی ضرورت نا تھی.
راقم ذاتی حیثیت میں یہ موقف رکھتا ہے کہ تاریخی تسلسل جو اسلامی نظام حکومت و ریاست کی تشکیل نو میں ذیلی بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے.اس مرحلے پر اس نکتہ کو عوام کے لئے تفصیل سے بیان کرنا قطعی طور پہ ضروری نہیں تھا.کیوں کہ اسلامی نظام ریاست کے مرکزی بنیادی عناصر ہی پر ابھی تک ہمارے معاشرے کے سر کردہ اہل دانش وفکر کا اتفاق موجود نہیں.ابھی تک تو ہم یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ اسلام کا سیاسی،معاشرتی اور معاشرتی نظام ہے کیا ؟اور ہے تو اس کی نوعیت کیا ہے اور وہ کتنا قابل عمل ہے؟اس تحریر کو قلمبند صرف اس نیت سے کیا گیاکہ کم از کم مسلکی لڑائی کے اس شور و غوغا میں اکابرین دیوبند کے اصل مقصد تنقید کی وضاحت ہو پاۓ.جو دراصل کسی فرقہ کی مخالفت نہیں بلکہ تاریخی تسلسل کے ذیلی بنیادی عنصر کی حفاظت ہے.اس لئے مودودی فکر کا بھی ساتھ ہی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے.

About وقاص احمد 10 Articles
وقاص احمد پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ بچوں کے امراض میں پوسٹ گریجوایشن کر رہے ہیں۔ خود کو پاکستانی تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی اوسط مجموعی فہم کا نمائندہ خیال کرتے ہیں اور اسی حیثیت میں اظہار خیال کے قائل ہیں۔

4 Comments

  1. وقاص احمد صاحب! آپ نے تاریخ کے تسلسل اور اجتماعی نقطہ نگاہ کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے. مسشرقین اور مولانا مودودی نے جس طرح اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اس کی پیداکردہ مایوسی کے نتیجے میں ہم اپنی تاریخ سے کٹ چکے ہیں. اپنے ماضی سے نفرت اور احساس کمتری کے نتیجے میں ہم بحیثیت قوم نہ تو اپنے حال کا درست تجزیہ کر پا رہے ہیں اور نہ مستقبل کی بہتری کے لئے کوئی سوچ اور اجتماعی جدوجہد کی ہمت اور جذبہ رکھتے ہیں.

  2. محترم آپ کا اپنا مطالعہ اسلامی تاریخ کے حوالے سے انتہائ سطحی ہے آپ محض لفاظی اے کام کے رہے ہیں اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے یہ آرا فیس بک دیکھ کر قائم کی ہیں آپ نے نہ تو مودودی فکر کا مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی اکابرین دیوبند کو پڑھا ہے محض چند سنی انائ باتیں جو معاشرے میں لاعلمی کی بنیاد پر گردش میں ہیں ان کو احاطہ قلم میں لے آئے ہیں میرا مشورہ ہے کہ آپ علمائے اسلام کی کتابیں ہڑہیں اور جو انہوں نے کتابیں لکھی ہیں وہ پڑہیں صرف مخالفین کی لکھی ہوئ کتابیں پڑھ کر رائے قائم نہ کریں

  3. ڈاکٹر وقاص آپ کی کاوشک کی قدر
    لیکن معاف کرنا۔آپ کے مضمون میں بہت کنفیوزن ہے۔یا تو آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہ نہیں ہائے۔یا ہم ہی نہیں سمجھ سکے
    محسوس نہ کرنا

  4. Masha ALLAH nehayat maqool andaz mein behtar bat samjhany ka koshesh ke ap ny.
    ALLAH pak apko jaza-e-kher ata farmain.
    jo nahi samjh pa rahy ya bina study ky tanqed-o-tanz ka izhar kar rahy hen. ALLAH pak onhen durost tanazor mein tarekh ka tajziya krny ke salaheyat ata farmain.
    Ameen

Comments are closed.