(ترجمہ: عاطف نثار نجمی، ریسرچ اسکالر، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی)
ابھی حال ہی میں بلغاریائی نژاد فرانسیسی ادبی نظریہ ساز اور شر کی تاریخ (History of Evil) رقم کرنے والے تزوتان تودوروف Tzvetan Todorovکا انتقال ہو گیا۔ اصلاً وہ ادبی نظریے ساختیات سے علاقہ رکھتے تھے لیکن ساتھ ہی برائیوں کی تاریخ پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ ان کی بڑی شناخت یہ بھی تھی کہ وہ فرانس کے ایک بڑے دانشور رولاں بارتھ کے شاگرد تھے۔ مندرجہ ذیل مضمون در اصل ان پر نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کا ترجمہ ہے۔ رپورٹ سازی کے وقت نیو یارک ٹائمز نے ان کے ادبی خیالات کے بجائے زیادہ تر سیاسی خیالات کو جگہ دی۔ اپنے سیاسی خیالات میں شمولیت پسند رویے کے باوجود کہیں کہیں تودوروف کے اندر تضاد بھی ہے مثلاً تمام ثقافتوں کی قبولیت کے باوجود بھی انہوں نے عراق پر حملے سے قبل یورپی حکومتوں سے اپیل کی کہ اندرونی دشمنوں سے لڑنے کے بجائے بیرونی دشمنوں سے لڑیں اور اس کے لیے وہ دفاعی اور عسکری کاموں میں امریکہ پر انحصار ختم کریں۔ اصل رپورٹ کے متن کے لیے اس لنک دیکھیں:
تزوِتان تودورف (Tzvewtan Todorov) بلغاریائی۔فرانسیسی ادبی نظریہ ساز اور افکار کے موٴرخ تھے۔ اپنی درجنوں کتابوں میں ان کے خیالات کی مرکزی گردش فکشن میں فنتاسی، نو آبادیات کے اخلاقی نتائج، مذہبی تشدد پسندی اور یہودیوں کے قتل عام (Holocaust) کے ارد گرد ہے۔ حال ہی میں 77 سال کی عمر میں 7 فروری کو پیرس میں ان کا انتقال ہو گیا۔
ان کے بیٹے ساشا (Sacha) کے مطابق ان کی موت کا اہم سبب خوراک یا غذا کے ہضم نہ ہو پانے کی وجہ سے ہونے والا دبلا پن (atrophy) اور بڑھتا ہوا دماغی ڈزآرڈر (progressive brain disorder) تھا۔
رولاں بارتھ (Roland Barthes) کے شاگرد تودوروف کو شہرت تشریح و تعبیر کے ایک طریقہٴ کار ساختیات (Structurulism) پر کام کرنے کی وجہ سے ملی۔ اصلاً یہ کام ثقافتی علم بشریات (Cultural Anthropology) سے متاثر تھا جس نے خیال اور رویے کے تکراری سانچوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔
تودوروف نے اپنی قصہ گوئی کے رسمی عمل کے مطالعے کو 1973 میں آنے والی اپنی کتاب ‘The Fantastic: A Structural Approach to a Literary Genre’ میں ارتقا پذیر کیا جس میں انہوں نے مبنی بر فنتاسی متون ‘Arabian Nights’ اور کافکا کے ‘Metamorphosis’ کے ساختیاتی خدوخال کا جائزہ لیا۔
تودوروف نے اپنی بعد کی تصانیف میں بنجامن کونسٹینٹ (Benjamin Constant) ، جین–جیکس روسو (Jean-Jacques Rousseau) ، اور میخائل بختن (Mikhail Bakhtin) جیسے مفکرین کی دانشورانہ پیکر تراشی کو بھی شامل کیا۔ بعد میں انہوں نے روسی شاعرہ مارینا تزوِتاییوا (Marina Tsvetayeva) کے خطوط، نوٹس اور ڈائریوں سے روشنی حاصل کرتے ہوئے ان کی غیر تحریری خود نوشت کی تدوین بھی کی۔
تودوروف اخلاقی ہنگامہ آرائیوں کے واقعات کی جانب خاص طور پر کھنچاوٴ رکھتے تھے۔ 1985 میں آنے والی اپنی کتاب ‘The Conquest of America: The The Question of Other’ میں انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقامی لوگ، جو یوروپی لوگوں کے برعکس غیر/غیریت (otherness) کے تصور سے نا آشنا تھے وہ اپنا دفاع ایک ایسے دشمن سے نہ کر سکے جس نے ان کے تصورِ حقیقت میں ہیر پھیر کیا اور ان کی منصوبہ بندی اور منطقی کاموں میں زبردست تشکیک پیدا کر دی۔
1989 میں ان کی ایک اور کتاب آئی ‘On Human Diversity’ جس میں انہوں نے یہ دکھانے کی کوششش کی کہ فرانسیسی مصنفین نےکس طرح ’غیر’ تک رسائی حاصل کی اور یہ کہ کیسے عالمی اقدار اور متنوع ثقافتوں کے مابین احترام کا رشتہ قائم کیا جائے۔
تودوروف کے ایک دیرینہ رفیق اور فرانس کی ڈاکٹرز ودھاوٴٹ بارڈرس نامی تنظیم کے سابق صدر رونی براومین (Rony Brauman) ان کے بارے میں کہتے ہیں ’’انہوں نے مجھے دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھنا سکھایا، ہمارے آس پاس جو ’وہ اور ہم’ کا دائرہ بنایا جا رہا ہے، اس سے باہر آنے میں انہوں نے میری کافی مدد کی’’۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ تودوروف ایک غیر معمولی کھلے ذہن کے مالک تھے۔ ایک ایسا ذہن جو ہمیشہ ظاہری اشیا سے پرے دیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ جو بڑی بڑی برائیوں کے سحر میں گرفتار ہونے سے انکار کر دیتا تھا لیکن ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد اور حساسات میں شامل ہونے کا متلاشی تھا۔ ان کی ذات اور تحریروں میں نیک ارادی اور رحمدلی کی ہمیشہ ایک متاثر کن گنجائش تھی۔
تودوروف نے اپنی کتاب Facing the Extreme: Moral Life in the Concentration Camps میں اسی تناقض کی جانب توجہ دلائی کہ انسانی سرشت میں نہایت شر پسند اور مجرمانہ حالات میں بھی بھلائی یا خیر کا عنصر موجود رہتا ہے۔ علم سیاسیات کے ماہر اسٹینلے ہافمین (Stainley Hoffmann)، جن کا 2005 میں انتقال ہو گیا تھا، انہوں نے Foreign Affairs نامی میگزین میں اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ان چند مرد اور عورتوں کو نذرانہٴ عقیدت ہے جنہوں نے اولوالعزمی اور فیاضی کا مظاہرہ کیا۔
اپنی کتاب A French Tragedy: Scenes of Civil War, Summer 1944 میں ایک واقعے، جس میں مرکزی فرانس میں فرانسیسی مزاحمت کے کچھ ممبران نے نازی حمایتی ملیشیا (militia) کے تیرہ افراد کا قتل کر دیا تھا، کا ذکر کرتے ہوئے تودوروف رقم طراز ہیں کہ اس کی جوابی کارواہی میں سینٹ–ارمانڈ (Saint-Armand) نامی گاوٴں میں 38 یہودیوں کو کنویں میں پھینک کر قتل کر دیا گیا اور انہیں سیمنٹ اور چٹانوں کے نیچے دفن کر دیا گیا۔
بلغاریائی یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے دوران ہونے والی رہائی مہم کی 2001 میں اسٹڈی کرتے ہوئے تودوروف نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انہیں بچانے والے ذہنی طور پر کئی پیچیدہ ترغیبات سے متاثر تھے مثلاً ایک جانب تو وہ جرمنوں اور آمرانہ حکومت کے خیرخواہ بھی تھےوہیں ساتھ ہی ساتھ دوسری جانب سامیت مخالف جذبات کی وجہ سے پسپائی بھی اختیار کرنا چاہتے تھے۔
اپنی ایک اور کتاب The New World Order: Reflections of a European جو انہوں نے عراق پر حملے سے ٹھیک پہلے رقم کی تھی، جس کی فرانسیسی، جرمن اور دیگر کئی یوروپی ممالک نے خاصی مخالفت بھی کی تھی۔ اس میں انہوں نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ یوروپ کو اپنی ’امن پسندی’ اور ’حالتِ جمود’ کی پالیسی سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے نیو یارک ٹائمز سے بات چیت میں کہا کہ ہمارے مخفی دشمن اب یوروپ میں مزید نہیں ہیں بلکہ ہمیں تو بیرونی دشمنوں کے خلاف دفاعی افواج سے جڑنا چاہیے۔
تودوروف یوروپ میں آنے والے مہاجرین کو خطرہ نہیں سمجھتے تھے۔ 2009 میں آنے والی اپنی کتاب Fear of the Barbarians: Beyond the Clash of Civilisation میں وہ لکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کسی بھی ملک میں آنے والوں (مہاجرین) سے یہ تقاضا کر سکتا ہے کہ بھلے ہی وہ اس ملک سے محبت نہ کریں لیکن کم از کم وہ وہاں کے قوانین اور سماجی معاہدوں کا احترام کریں جو تمام شہریوں پر لازمی طور پر لاگو ہوتے ہیں کیوں کہ عوامی ذمہ داریوں، ذاتی احساسات، اقدار و روایات کا تعلق یکساں مقامات سے نہیں ہوتا بلکہ یہ تو یک حزبی مطلق العنان حکومتوں (Totalitarian) کا خاصہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کو کسی ملک کی محبت کے تئیں مجبور کریں۔
دسمبر میں فرانسیسی اخبار Le Monde کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تودوروف نے تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے جس چیز کو فرانسیسی زندگی کے لیے ایک دہرے چیلنج کی حیثیت سے دیکھا وہ ہے دہشت گردی کا خطرہ اور پھر اس پر اتھارٹیز کا حد سے زیادہ رد عمل ظاہر کرنا۔ اس حوالے سے وہ جرمین ٹلین (Germaine Tillion) کی 1961 میں آنے والی کتاب Complementary Enemies کا حوالہ دیتے ہیں۔ (ظاہر ہے complementary یہاں ایک ایسے احساس کی ادائیگی کرتا ہے جس میں ہر فرد کسی دوسرے فرد کی تکمیل کرتا ہے) ٹلین کی انہوں نے خاصی تعریف بھی کی ہے جو کہ فرانسیسی مزاحمت کے ایک ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ علم بشریات سے شغف بھی رکھتے تھے نیز انہوں نے الجیریا کی جنگ آزادی کا مطالعہ بھی کیا تھا۔
تودوروف کے مطابق مشرق وسطیٰ کے کسی گاوٴں پر منظم انداز میں بمباری کرنا کسی فرانسیسی پادری کی گردن زدنی سے کم وحشیانہ عمل نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے اسلامک اسٹیٹ کے ترغیب یافتہ ان قاتلوں کے سیاق میں کہی تھی جنہوں نے جولائی میں ایک فرانسیسی پادری کی گردن مار دی تھی۔ ان کے مطابق اس ایک جان نے کئی زندگیاں تباہ کر دی (ظاہر ہے ان کا اشارہ اس پادری کی موت کے بعد مشرق وسطیٰ میں ہونے والی بمباری کی جانب تھا)
تودوروف کے مطابق فرانس کے دانشوروں کے دیرینہ خوف کی وجہ سے ہی آج فرانس عالمی طاقتوں کی صف اول سے نکل کر دوسری صف میں پہنچ کیا ہے۔
Le Monde کو دیے گئے اپنے ایک اور انٹرویو میں تودوروف نے کہا کہ وہ اچھائی/خیر کے تصور کو لے کر تشکیک کا شکار رہے ہیں۔ اس کے بجائے وہ رحمدلی اور مہربانی کو ترجیح دیتے ہیں۔ روسی ناول نگار ویزلی گراسمین (Vasily Grossman) جو کہ دوسری عالمی جنگ پر مبنی شاہکار ناول Life and Fate کے تخلیق کار ہیں، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کسی شخص کے یہاں شر/برائی ان لوگوں کے یہاں سے آتی ہے جو اچھائی/ خیر کو بھی دوسروں پر تھوپنا چاہتے ہیں۔
تودوروف نے جب فرانس کی جانب نقل مکانی کی تو چوبیس سال کے تھے۔ اس کے بعد ان کی جو بھی نشونما ہوئی وہ حکومتوں کے تئیں تشکیک پرستی (skepticism) کے سائے میں ہوئی حالانکہ سوویت یونین اور یورپ کے درمیان حائل قومی بیرئر جو کہ آہنی پردے (Iron Curtain) کے نام سے جانا جاتا تھا،1989میں اس کے انہدام کے بعد ان کے تشکیکی رویے میں تھوڑی سی نرمی آ گئی تھی۔
تودوروف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے ہر اس شئے کے متعلق شک ہوتا ہے ریاست جس کا دفاع کرتی ہے یا جو عوامی حلقوں سے متعلق ہو۔ لیکن انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ایک چھوٹی سی دیوار خود میرے ذہن میں اس وقت گر گئی تھی جب دیوارِ برلن کو ڈھایا گیا کیوں کہ اس کی وجہ سے مجھے عوامی مقامات کو استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اب میں ان جیسی شرائط کے ساتھ مزید بندھا نہیں رہوں گا جو کسی مطلق العنان دنیا میں رہتے ہوئے بچپن اور نو عمری پر لگا دی جاتی ہیں۔
اولیوئر پوسٹل-ونے (Olivier Postel-Vinay) جو کہ فرانسیسی رسالے Books کے بانی ہیں، تودوروف اسی رسالے کی ادارتی کمیٹی کے ایک رکن بھی تھے، وہ تودوروف کی ایک بڑی خاصیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سطحی اور چھچھلے تبصروں سے ہمیشہ احتراز کرتے تھے اسی طرح کسی بھی واقعے پر فوری رد عمل ظاہر کرنے سے بھی اجتناب کرتے تھے۔ رسالے میں کچھ بھی لکھنے سے قبل انہیں اچھا خاصا وقت غور و فکر کے لیے درکار ہوتا تھا۔ غالباً اسی لیے میڈیا اور ٹیلی وژن پر ہونے والی سطحی بحثوں اور نام نہاد تجزیوں کے متعلق وہ خاصے فکرمند بھی رہا کرتے تھے۔