تعلیمی اداروں کی اخلاقیات
(منزہ احتشام گوندل)
پچھلے ایک ڈیڑھ عشرے سے نجی تعلیمی اداروں کی کثرت نے ملک میں جو کہرام برپا کررکھا ہے اسے اب ہر حساس شہری محسوس کرنے لگا ہے۔ان اداروں میں جو ہو رہاسو ہو رہا افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں میں بھی اب ایسی خرافات جنم لینے لگی ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ادارے کے نگران کو نگران سمجھنے کی روایت دم توڑ چکی ہے۔ہر شخص بجائے خود نگران ہے۔ اور وہ بھی ایسا کہ جس پہ کوئی ضابطہ لاگو نہیں ہوتا۔یہاں میں کوئی کتابی نہیں بلکہ تجربے کی بات کررہی ہوں۔سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک ادارے میں سربراہ کے طور پہ بیٹھے شخص کی حیثیت کو ماننے سے انکاری ہیں تو پھر ہم سرکاری ملازمت کی طرف کیوں آتے ہیں۔
ہم اپنا کوئی کاروبار کیوں نہیں کر لیتے جہاں ہمیں کسی کے ماتحت کام نہ کرنا پڑے۔اور اپنی انا بھی سلامت رہے۔ابھی کچھ دن قبل کی بات ہے ایک طالبہ کا داخلہ روکنے پر میرے ادارے کی ایک لیکچرر کو محتسب کی طرف سے نوٹس آیا،نوٹس کافی سنجیدہ نوعیت کا تھا،مگر میں نے دیکھا کہ مذکورہ لیکچرراوراس کی ساتھی نے یوں محسوس کرایا جیسے یہ نوٹس بجلی کے بِل کا ہے۔کوئی مسئلہ نہیں ایسے نمونے تو آتے رہتے ہیں،جبکہ میں نے اپنے کچھ دوستوں سے اس سلسلے میں جب ڈسکس کیا تو معلوم ہوا کہ یہ کافی سنجیدہ نوعیت کی انکوائری ہے اور اگر یہ کسی سرکاری ملازم کی فائل میں لگ جائے تو اس کی ترقی پہ سٹاپ کی مہر لگ جاتی ہے۔مگر میری مذکورہ ساتھی کو چونکہ لاپرواہی اور (don’t care) کی بھنگ پلائی گئی ہے لہذا وہ یہی محسوس کررہی تھیں۔
یہ تو صرف ایک مثال ہے۔کہ جہاں ہم اداروں کا مذاق اڑانے کو اپنی خاندانیتربیت اور انفرادیت سمجھتے ہیں،وہیں دوسری طرف ہم یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ ادارے بالخصوص وہ جن کا تعلق انصاف کے ساتھ ہے۔ وہ ہمارے ساتھ انصاف بھی کریں۔آج آپ کے خلاف عدالت میں کوئی شخص گیا ہے اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے کا مذاق اڑا رہے ہیں،کل کو ممکن ہے آپ کو کسی کے خلاف انہیں اداروں سے رجوع کرنا پڑے،تب آپ کیا کریں گے؟تب فیصلہ اپنے ۔۔۔خلاف آنے پر آپ ہی احتجاج کریں گے۔
دوسری طرف نظم و ضبط کا مذاق اڑانے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے۔اگر کوئی شخص نظم و ضبط کا پابند ہے یا حاضری کا پابند ہے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے،اکثر تو یہ تک سننے میں آیا ہے کہ اس کو کوئی گھر میں منہ نہیں لگاتا؟یا یہ کیا ہے روز یہ منہ اٹھا کے چلے آرہے ہیں۔ارے بھئی! یہ اور چھٹی۔۔۔ھاھاھاھا۔۔۔۔گویا یہ بھی کوئی مزاحیہ بات ہے۔اپنی ذمہ داریوں کی ادائی سے اجتناب اور دوسروں پر منفی تنقید کرنے کا رواج روز بروز پھیلتا جارہا ہے۔یہ لوگ جو کسی نظام کے سب سے بڑے ناقد ہوتے ہیں جب ان پہ خود اس نظام کو سنبھالنے کی ذمہ داری آتی ہے تو پہلے دن ہی ساری قابلیت اچھل کر سامنے آ جاتی ہے۔تب یہ نام نہاد ناقدین اپنی بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔طلباء وطالبات کی عزت نفس مجروع کرنا،ہفتے میں تین دن ادارے میں آنا اور تین دن غیر حاضر رہنے کے بعد طلباء کو کمرہ ء جماعت سے باہر نکال دینا،یا کسی ایک کمزور طالب علم پہ انفرادی توجہ دینے کی بجائے اسے مضمون تبدیل کرنے پر مجبورکرنا،یہ سب چیزیں کسی بھی طرزکی اخلاقیات کے زمرے میں کہاں آتی ہیں۔
ایسے رویوں کے شاکی لوگ اپنے بچوں کو نجی اداروں میں داخل کراتے ہیں،وہاں اور طرز کی قباحتیں موجود ہیں۔ابھی چند دن قبل میری ایک دوست کے ساتھ بات ہورہی تھی جو کہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھا رہی ہیں۔بتا رہی تھیں کہ کیسے یونیورسٹی کیمپس کے مالک نے سارے نظام کو اپنا غلام بنا رکھا ہے اور من مانی کرتا ہے۔اور ابھی مردان یونیورسٹی کے سانحہ نے اور بھی زیادہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔اگر پیغمبری پیشے میں ہم لوگوں کی اخلاقیات کی یہ حالت ہے تو باقی شعبوں میں کیا ہوگی۔
کہنے کو ہم لوگ استاد ہیں، مگر جو ہماری اخلاقیات ہے وہ بھتہ لینے والے کسی بھتہ خور کی سی ہے ،تو ایسے میں علمی سطح پہ تبدیلی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ جہاں ہم اپنی ترقی کی خاطر طلباء کا مستقبل داو پہ لگا دیں۔اپنی من مانی کریں،چھٹیاں کرنے اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی
کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگیں…؟