(قاسم یعقوب)
ہمارے تعلیمی اداروں میں تدریس کے طریقے اُسی نہج پر ملتے ہیں جس حالت میں جدید طریقۂ تدریس انگریزوں نے برصغیر میں متعارف کروایا تھا۔جس حالت میں انگریزوں نے ڈاک کا نظام، نہری نظام اور ریلوے کا نظام چھوڑا تھا، یہ نظام ہائے زندگی آج بھی اُسی طرح موجود ہیں۔ کچھ ایسی ہی حالت تعلیمی نظام کی بھی ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ تعلیمی ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ محض اچھی عمارتیں بنا دی جائیں یا تعلیمی اداروں کے بنیادی مسائل جیسے پانی ، لیٹرین ، چاردیواری، بجلی کی فراہمی یا اساتذہ، متعلقہ سٹاف کی کمی کو پورا کردیا جائے۔جب نظام کی تبدیلی کی بات کی جاتی ہے تو اصل میں اسے مجموعی طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمارتوں اور دیگر عدم فراہمیوں کی درستی کے ساتھ ساتھ اصل مقصد اس تدریسی ڈھانچے(Teaching Structure)کی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہری بات ہے ، سہولیات (وسائل)اور اعلیٰ تدریسی نظام دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں، بلکہ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر سہولیات یا وسائل موجود ہیں مگر تدریسی ڈھانچہ بے کار ہے تو سہولیات کسی کام کی نہیں رہیں گی بلکہ اُلٹا نظام کو تباہ کرنے لگیں گی۔(اس کی ایک واضح مثال ہمارے وہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں صرف سہولیات ہیں تدریسی ویژن نہیں)، اسی طرح اگر بہترین تدریسی ڈھانچہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور حالت یہ ہو کہ اساتذہ کو بیٹھنے تک کی سہولت نہ ہو ،وہاں نئے طریقہ ہائے تدریس ناکام ہو جاتے ہیں۔
یہ یک طرفہ عمل نہیں، مگر جہاں اعلیٰ تعلیمی سہولیات میسر ہیں، ہمیں اُن تعلیمی اداروں میں تدریسی صلاحیتوں(Competency)اورمنہاج (Methods) کو تبدیل کرنا ہوگا ورنہ یہ سارا عمل کولہو کے بیل کے چلنے کا عمل ہی رہے گا۔
یہ تدریسی طریقہ ،براہِ راست تدریس(Direct Teaching)پر منحصر ہے، یعنی استاد کلاس میں ایک لیکچر پیش کرتا ہے اور طالب علم اُسے نوٹ کرتے جاتے ہیں۔یہ تدریسی طریقہ سکول سے جامعہ تک تقریباً ایک سا ہے۔براہِ راست تدریس کو teacher-centered approach بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی یہاں استاد کلاس سرگرمی کا مرکز ہوتا ہے۔استاد اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی سرگرمی کو جاری رکھتا ہے کہ طالب علم کس طرح کی Learningسے گزر رہے ہیں! طالب علموں کی کلاس سرگرمی میں شرکت کتنی ہے! طالب علموں کی ذہنی استعداد کتنی ہے! استاد اس طرح کے حقائق سے بے خبر ہوتا ہے ، اگر خبردار ہو بھی تو وہteacher-centered approach میں اپنے تدریسی مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا کہ وہ ہر طالب علم کو شاملِ حال رکھے، کچھ اساتذہ،اپنے لیکچر کو استاد۔مرکز رکھتے ہوئے بھی طالب علم۔ مرکز بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوشش طالب علموں سے سوال یاانھیں بار بار کوئی ٹاسک دے کے ہو تی ہے مگر استاد اس طرح لیکچر پیش کرنے میں رکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ بعض اوقات لیکچر کے دوران طالب علموں کے کسی سوال کو بری طرح جھٹک دیا جاتا ہے، اصل میں اس عمل میں کلاس کو teacher-centered رکھنا ہوتا ہے۔طالب علم لیکچر کے یک طرفہ عمل کو ختم کرنا چاہے بھی تو اُسے ختم نہیں کرنے دیا جاتا۔یہ ایک قسم کا خود کلامیہ (Monologue)ہوتا ہے، خود کلامیہ بنیادی طور پر ادبی اصطلاح ہے ، جو ڈراما، تھیٹر اور نظموں کے اندر استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب ہے ایک کردار کا دیگر کرداروں اورناظرین یا سامعین سے بے نیاز ہو کے اونچی آواز میں اپنے ذہنی یا ذاتی خیالات پیش کرنا۔ ہمارے تدریسی نظام میں خود کلامیہ اس قدر مختلف ضرور ہے کہ استاد کو اتنا پتا ہوتا ہے کہ اُس کے سامنے کچھ طالب علم بھی بیٹھے ہیں ۔
خود کلامیہ تدریسی نقطہ نظر طالب علم کی شمولیت کوغیر ضروری قرار دیتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مکالماتی (Dialogic)تدریس شمار کی جاتی ہے، جس میں طالب علم بھی شامل ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ تدریس (student-centered approach)کہلاتی ہے جس میں تحقیقی پہلو(Inquiry-based) غالب ہوتا ہے۔
مکالماتی تدریس عموماً سائنس میں زیادہ متاثر کن(Affective)ہوتی ہے مگر ہیومینٹیز میں بھی اس تدریس کو بہت خوبی سے برتا جا رہا ہے۔ استاد طالب علم کو inquiry of knowledge میں مشغول کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسے سوالات اٹھاتا جاتا ہے جس میں طالب علم پھنستا جاتا ہے اور اپنے جواب تلاشنے کی تگ دو سے دوچار ہونے لگتا ہے۔اس طرح ایک خاص موضوع کی قید بھی بعض اوقات ختم ہو جاتی ہے۔ ’’طالب علم۔بنیاد طریقۂ تدریس‘‘ میں استاد کا کردار خود کلامیہ طریقۂ تدریس(Monologue)سے کہیں زیادہ ہو جاتا ہے گو بظاہر استاد ایک درمیانی کردار (Mediator)سے زیادہ کچھ نہیں کر رہا ہوتا۔
مکالماتی طریقہ تدریس(Dialogue method)میں کچھ اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ استاد کے پاس ایک باضابطہ موضوع ہوتا ہے جس میں اُسے طالب علموں کو مشغول کرنے کا ارادہ ہوتا ہے۔ یہ ٹاپک یا موضوع خود کلامیہ طریقہ تدریس کے لیکچر کی طرح ہی ہوتا ہے۔
۲۔ استاد اپنے پاس اپنے موضوع یا دیگر حوالہ جات کے لیے مواد استعمال کرتا ہے، سائنس میں اپریٹس اور سماجی سائنسوں یا زبانوں کے لیے نقشہ جات، چارٹ ، گراف ، کتابیں، مخطوطات وغیرہ ہو سکتا ہے۔
۳۔ طالب علم استاد کو منہا نہیں کرتا بلکہ استاد کے معنی یا نتائج پر انصار کرناچھوڑ دیتا ہے۔ اس طریقہ میں رہنمائی کی زیادہ ضرورت پڑ جاتی ہے۔
۴۔ یہاں مونولاگ کے برعکس طالب علم اپنے سوالوں سے خود دوچار ہوتا ہے اور خود ہی نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔البتہ استاد کا کردار بعض اوقات فیصلہ کُن حیثیت میں سامنے آتا ہے۔
۵۔ ڈائیلاگ طریقہ تدریس صرف کلاس روم سرگرمی تک محدود نہیں رہتا بلکہ تعلیمی اداروں کی تجربہ گاہوں اور فطرت کے نظاروں ، دیگر اذہان سے ملاقاتوں (Interactions) اورلائبریریوں میں اترنے پرانحصار کرتاہے۔
ہمارے تعلیمی نظام میں رائج مونولاگ طریقہ ایک ناکام تدریسی طریقہ بن چکا ہے۔ طالب علم ایک غیر متحرک اکائی(Dead Unit)کے طور پر کلاس روم میں موجود ہوتا ہے۔ جب کہ استاد کے لیے سب سے بہتر اور آسان کام اس سے زیادہ کوئی نہیں کہ وہ چند رٹّے رٹائی لفظوں کو مسلسل دہراتا رہے۔ یہ دہرانے کا عمل ہر نسل اور ہر نئی جماعت کے لیے اُسی طرز پر ہوتا ہے جس قسم کا پہلی جماعتوں کے ساتھ تھا۔
مونولاگ طریقہ استاد کی صلاحیت کو کسی صورت بڑھنے نہیں دیتا۔ یہ اور بات ہے کہ استاد اپنے مضمون(Subject)میں کسی اور حوالوں سے متحرک ہے تو وہ اپنی صلاحیت بڑھا پاتا ہے ورنہ اس طریقہ تدریس میں استاد زنگ آلود لوہا اور دیمک زدہ لکڑی بننے میں دیر نہیں لگاتا۔ مونولاگ طریقہ تدریس سے اساتذہ بے کاری کے علاوہ کچھ کما نہیں پاتے اس کی بہترین جانچ اساتذہ کا علمی آڈٹ ہے۔ ہم باآسانی اساتذہ کی اپنے مضامین پر گرفت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
اسی طرح دوسرے طرف طالب علم رٹے اور دہرائی ہوئی باتوں کو بھیڑ چال کی طرح اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طریقہ تدریس کی طرز پر امتحانات ہوتے ہیں۔سکول ،کالج سطح پر ٹیوشن کلچر اسی مونولاگ تدریس کی ایک مثال ہے۔جو صرف امتحانی نتائج کو فوکس کرنے پر زور دیتے ہیں۔ جامعات میں تو صورتِ حال اور بھی خراب ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مونولاگ اور ڈائیلاگ طریقۂ تدریس کے درمیان پہچان کروائی جائے اور مونولاگ سے زیادہ ڈائیلاگ طریقۂ تدریس کو رائج کیا جائے، ظاہری بات ہے اس کے لیے پورے امتحانی نظام کو تبدیل کرنے اور بے کار اساتذہ کی فوج ظفر موج کو شکست دینے کی ضرورت ہے جس کے لیے امیر تیمور قسم کی جنگ جوئی درکار ہے۔