(قاسم یعقوب)
ہم اکثر اپنے معاشرے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تعلیم ہماری ترجیح میں کیوں شامل نہیں؟ معاشرے کے کن اداروں کا اولین فرض تعلیم کی سرپرستی کرنا اور اسے فروغ دینا ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں ایک ادارہ تو خود تعلیم کا ہے یعنی تعلیم سے وابستہ افرادکا ۔ دوسری اہم ذمہ داری حکومت کی ہے۔ چلیں ہم ان دونوں اداروں کو دیکھتے ہیں ، کیا ان کی ترجیح تعلیم ہے؟ پھر ان کے بعد دوسرے اداروں کا رُخ کرتے ہیں۔
پاکستان میں حکومت ریاست کا سب سے طاقت ور ادارہ ہے جو ریاست کے تقریباً تمام اہم امور کو چلانے اور جواب دہی کا ذمہ دار ہے۔ریاست کے وہ ادارے جو حکومت کے زیرِ انتظام یا ماتحت نہیں، اُن کا براہِ راست انحصار بھی حکومت پر ہی ہے۔مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان کی بطور ریاست کبھی بھی یہ ترجیح نہیں رہی کہ تعلیم پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ حکومتوں نے کبھی بھی اسے اپنی ذمہ داری یا اپنے فرائض میں اولین ترجیح نہیں دی۔ اگرتاریخ کو نظر انداز کرتے ہوئے موجودہ وقت کی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کا مطالعہ کر لیا جائے تو بات بخوبی سمجھ میں آ جاتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ستر کی دہائی میں اس جماعت کو بامِ عروج پر پہنچایا۔پی پی پی ایک اکثریتی جماعت کے روپ میں سامنے آئی۔ بھٹو نے اپنی جماعت کو جن نعروں کی بدولت عوام میں مقبول بنایا وہ تھا؛ عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی۔ یعنی روٹی کپڑا اور مکان۔ اس نعرے کی اُس وقت بہت ضرورت بھی تھی۔ پاکستان ابھی دو دہائیوں کے فاصلے پر نئی ریاست کے طور پر سامنے آنے والا ملک تھا اور ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے عوام کے ان بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی تھی۔ پی پی پی نے عوام کے پسے ہوئے اور حاشیوں پر رہنے والے طبقات کی آواز اُٹھائی اور نعرہ دیا کہ عوام کو مرکز میں لایا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو نے اپنے دیے ہوئے منشور کو بہت حد تک ایک فلسفہ بنا دیا۔جس کی بنیاد عملی سطح پر رکھی گئی۔ گھر دیے گئے ، روزگار کا بنیادی مسئلہ حل کرنے پر بھرپور توجہ دی گئی۔پی پی پی آج بھی اسی فلسفے کے ساتھ زندہ ہے یعنی عوام کو ترجیح دی جائے، عوام کے بہت بنیادی نوعیت کے مسائل حل کئے جائیں۔حاشیوں کے افراد کو مرکز کا حصہ بنایا جائے۔روزگار دیا جائے ۔ مگر پی پی پی شاید یہ بھول گئی ہے کہ اب ہم پاکستان کے ابتدائی سالوں میں نہیں۔ہمارے بہت سے مسائل اب نوعیت کے اعتبار سے بدل چکے ہیں۔روزگار ، روٹی یا گھرکی فراہمی یا سہولیات بھیک کی شکل میں اب عوام قبول نہیں کر رہی۔آپ دیکھیے کہ پی پی پی کی ترجیح تعلیم نہیں تھی اور نہ اب ہے۔ بھٹو ازم کبھی تعلیم کو اپنی اولین مسئلہ نہیں بنائے گا کیوں کہ بھٹو ازم اپنے روایتی فلسفے سے باہر آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ورنہ اس ’’ازم‘‘ کا دھڑن تختہ ہو جائے۔
نون لیگ کی سیاست اسّی کی دہائی میں شروع ہوئی جب میاں نواز شریف نے اقتدار میں بطور وزیراعلیٰ شمولیت اختیار کی۔نواز شریف ایک حادثاتی سیاست دان تھے جو بھٹو حکومت کے ’’قومیائے‘‘ گئے اداروں کی زد میں آنے کے بعد سیاست میں آئے۔ نواز شریف خاندان قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی اس ملک کا طاقت ور سرمایہ دار خاندان تھا جس نے بھٹو کی نیشنل لائزیشن پالیسی کے خلاف قدم اٹھایا اور بھٹو کے مخالف کیبن میں پناہ لی جسے آج سب ’’ضیا آمریت‘‘ کہتے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے یہ نظریہ متعارف کروایا کہ ملک میں سرمایہ کاری کا پہیہ چلنا چاہیے۔ انڈسٹری لگائی جائے اور کاروباری کلچر کو فروغ دیا جائے۔اگر ملک میں سرمایہ کاری ہوگی، معیشت کا پہیہ چلے گا تو ملک کے تمام ادارے بہتر انداز میں چل سکیں گے۔نون لیگ حکومت کی ساری توجہ یا اولین توجہ معیشت رہی ہے۔معاش اور معیشت کے ساتھ جڑے ہر ادارے کو حکومتی ترجیح قرار دے دیا گیاہے، جیسے آئل، ٹرانسپورٹ، مواصلاتی نظام، انفراسڑیکچرکی سہولیات وغیرہ۔ باقی اقدامات ان ترجیحات کے بعد سامنے آتے ہیں۔حتیٰ کہ خطے میں بین الاقوامی تعلقات بھی تجارت، معیشت اور سرمایہ کاری کے مرہونِ منت وقوع پذیر ہوتے ہیں۔تعلیم نون لیگ کی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی۔وہ تعلیم کی بہتری یا اعلیٰ تعلیمی نظام بھی معیشت کی بہتری کے ساتھ مشروط قرار دیتے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب میں ووکیشنل تعلیمی اداروں کی فراہمی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں ایک بڑے پیمانے پر پروفیشنل اداروں کے قیام سے صنعتوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اذہان تک رسائی دی جا رہی ہے۔یہ پروفیشنل ادارے سینکڑوں کی تعداد میں کھولے گئے ہیں۔
حال ہی میں گذشتہ چار پانچ سال پہلے سامنے آنے والی پارٹی تحریکِ انصاف ہے جس نے ایک نیا نظریہ متعارف کروایا ہے۔ اس پارٹی کے سربراہ یا نظریہ ساز ایک سابق کرکٹر عمران خان ہیں۔ عمران خان اپنی عمر کے تقریباً پینتالیس سال کھیل کے میدان میں گزار چکے ہیں اور ان دنوں میں جب ایشائی خطوں میں کرکٹ جیسا کھیل بے پناہ مقبول تھا۔عمران خان نے اپنی ’’شہرت‘‘ کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور خود کو میدانِ سیاست میں اتارا۔ عمران خان نے ایک نیا سیاسی نظریہ دیا کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور وہ تبدیلی پرانے سیاست دانوں کو بدلنے سے وقوع پذیر ہو گی۔ اس وقت تمام سیاست ان ناکامیوں اور بد حال معیشت و معاشرت کے ذمہ دار ہیں۔ اصل تبدیلی ان سیاست دانوں کو تبدیل کرنے سے آئے گی۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی نے خصوصاً نون لیگ پارٹی کو اپنا ہدف بنایا اور ان کی بے دخلی پر پورا زور لگایا۔اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ سیاست دانوں نے ملک کو بہتری کے بھرپور کوشش کی مگر ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں آ سکی۔ عمران خانی نظریہ سیاست میں بھی تعلیم اولین ترجیح نہیں تھی۔ گو کہ تعلیم اور اس کے ملحقہ کلچر کو ایشو تو بنایا گیا مگر پی ٹی آئی کی صوبہ خیبر میں حکومت میں بہت واضح انداز میں تعلیم کو ایک نعرے کے طور پر استعمال کیاگیا۔نعرے سے مُراد سیاست کے لیے استعمال ہے۔ یعنی تعلیمی اداروں کی تزئین و آرائش یا مختلف سہولیات کی فراہمی کے ذریعے مرکزِ سیاست میں لانا۔ بالکل اسی قسم کی ترجیحی منصوبے پنجاب میں بھی نظر آتے رہے ۔مگر وہ سب مل کر بھی تعلیم کوسیاست دانوں کی اولین ترجیح نہیں بنا پائے۔
ان جماعتوں کے ساتھ اے این پی، جماعتِ اسلامی، متحدہ اور قاف لیگ طرز کی وقتی اقتدار میں رہنے والی جماعتوں نے بھی تعلیم کو کبھی اپنی ترجیح نہیں بنایا۔
عدلیہ نے بھی کبھی تعلیم کو ایک اہم ایشو نہیں سمجھا۔ استاد، تعلیمی ادارے، طالب علم عدالتوں میں چیخ رہے ہوتے ہیں ،رو رہے ہوتے ہیں مگر عدلیہ انھیں ایک بوجھ یا اضافی سرگرمی کے طور پر یا کسی حد تک فضول سرگرمی سمجھتی ہے۔ بلکہ عدلیہ کے سامنے کسی ادارے کے الحاق کا مسئلہ اور طالب علموں کی توہین اتنا اہم کیس نہیں ہوتا جتنا کسی ماڈل گرل کی منی لانڈرنگ اہم کیس۔سیاست دانوں کی نااہلی ہماری عدلیہ کا مرکزی کیس تو بن سکتا ہے مگر تعلیمی اداروں کی بد حالی پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔کچھ یہی حال میڈیا کا ہے۔ میڈیا نے تعلیمی اداروں کو ایک سفید ہاتھی سے زیادہ کبھی اہمیت نہیں دی۔سیاست اور سیاست دان ہمارے میڈیا کے اہم مسائل اور ہاٹ کیک سمجھے جاتے ہیں۔کبھی کوئی استاد یادانش ور اتنا وقت نہیں لے پاتا جتنا ایک فضول سیاست دان اپنی بے کار اور گھٹیا باتوں سے میڈیائی دنیا کو محظوظ کرتا ہے۔
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ میری تعلیم کو اولین ترجیح بنانے سے کیا مراد ہے۔ اگر حکومت سکول بنا رہی ہے، تنخواہیں دے رہی ہے، سہولیات بھی فراہم کرنے میں زور لگا رہی ہے تو تعلیم اولین ترجیح کیوں نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی پی کے دور کی نسبت نون لیگ کے دور حکومت میں ایچ ای سی کو فنڈز فراہمی میں وہ دقّت نہیں۔کئی سکول کالجز اور یونیوسٹیاں (سب کمپسز)بھی بنے ہیں مگر پھر بھی تعلیم کسی حکومت کی ترجیح نہیں ۔
ترجیح سے میری مُراد تعلیمی بالادستی،تعلیمی اقدار کا احیا، تعلیم کی توقیر، تعلیم سے وابستہ افراد کی توقیر، تعلیمی کلچر کا فروغ ہے۔بد قسمتی سے تعلیم کبھی بھی، کسی کا بھی شوق نہیں رہا۔ یہ ہمیشہ سے ہی ایک اضافی سرگرمی کے طور پر جاری ہے۔جب ہم تعلیمی کلچر کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تعلیم ہماری زندگیوں کی مرکزی سرگرمی بن چکی ہے۔ہمارے ہاں سب سے اہم جگہ کوئی شاپنگ مال یا حکومتی عمارت نہیں بلکہ کوئی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارہ ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ تعلیمی اقدار کا احیا تو اس کا مطلب ہے کہ طالب علم، کلاس روم، استاد اور تعلیمی ادارے کی عمارت کا تقدس عدالتوں سے سے بھی زیادہ کرنا ہے۔مگر افسوس ایسی کوئی صورت حال یہاں نہیں ہے۔
تعلیمی اداروں کی لاوارثی کا اندازہ یہاں سے لگائیں گے ٹیچرز، طالب علم، نصابات اور عمارتیں جس گھٹیا پن، کسمپرسی اور خستہ حالی سے گزر رہی ہیں ان کی جمع آوری بھی باعث شرم ہے۔ کہتے ہیں کہ مسجد، مندر، چرچ (عبادت گاہیں)اور تعلیمی ادارے معاشرے کی وہ جگہیں ہیں جہاں سب سے پاکیزہ(pious)سرگرمی ہو رہی ہوتی ہے۔ ہمارے نصابات کی دقیا نوسی، ہماری تعلیمی مقاصد بالکل زیرو پہ کھڑے ہیں۔ ذرا اک نظرتعلیمی آڈٹ کروا کے دیکھ لیں۔
یہی حال کچھ تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد کا ہے۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ تعلیم کے سب سے خلاف ہوتی ہے۔ استاد خود ایک نوکری سے زیادہ اسے اہمیت نہیں دے رہا۔ طالب علم کے کلچر میں یہ شامل ہی نہیں کہ وہ اسے اپنی ذہنی و فکری گزر گاہ بنائے۔ ایک شرم ناک حد تک دوئی موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جسے کوئی بھی دل سے نہیں کرنا چاہ رہا، بس مجبوری ہے جسے انجام تک پہنچانا ہے۔ اور بہتر یہی ہے کہ جلدی انجام تک پہنچ جائے۔آپ دیکھتے ہوں گے کہ ایک عرصے کے بعد استاد (اکثریتی استاد)تعلیمی سرگرمی کو ایک روٹین سے زیادہ اہمیت دینا بند کر دیتے ہیں۔ اسی طرح طالب علم ڈگری لیتے ہی تعلیمی اداروں کو ایسے بھول جاتے ہیں جیسے یہاں وقت کو ضائع کرتے رہے ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو مرکزی اہمیت دی جائے جب تک یہ کام قومی سطح پر نہیں ہوگا اُس وقت تک اس کے ثمرات لینے کا موقع نہیں آ سکے گا۔ چند سر پھرے تعلیم کے فروغ کے لیے جتنا مرضی چاہیں کام کرلیں ،وہ بے کار ہی جاتا رہے گا۔