تفہیم و تفہم اورتحلیل متن کا استفساریہ

(تالیف حیدر)

 

تعین قدر کے مسئلے پر میں نے آخری تحریر اپنے مرحوم دوست دانیال طریر کی پڑھی تھی ، اس کی بہت سی باتوں سے مجھے اتفاق بھی تھا، لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہ مسئلہ ہنوز میرے لئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے، دراصل یہ مسئلہ اپنی اولین صورت میں جہاں سے پیدا ہوتا ہے وہ متن کی تحلیل کا مقام ہے، آسان معنوں میں کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی لکھنے والے کی اہمیت کا اندازہ ہم اس وقت تک پوری طرح نہیں لگا سکتے جب تک ہم اس کے لکھے ہوئے کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو جاتے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سمجھنے کا عمل کیا ہے؟ اور اس سمجھنے سے آخر اصولی طور پر کیا کچھ مراد لیا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ تفہیم اور تفہم ان دونوں لفظوں کی معنیاتی حیثیت کن اصولوں کی روشنی میں طے ہوئی ہے؟ ان استفسارات پر غور کیا جائے تو تعین قدر کا مسئلہ موجودات صوری سے کالعدم ہو جاتا ہے ، پر بنیادی طور پر یہ استفسارات اتنے اہم ہیں کہ انہیں سے تعین قدر کے معنوی خلفشارکو دور کیا جا سکتا ہے۔ دراصل سمجھنے کے کئی معنی ہیں ،اس لئے لغت کی رو سے اس لفظ کے ترجمے میں تو مدد مل سکتی ہے پر اس کے اصل معنی تک رسائی ممکن نہیں، یہ ایک عام سا سوال ہے پر بہت زیادہ غور طلب ہے کہ کیا ہم)جو اپنے آپ کو ادب کا قاری کہتے ہیں ، )کبھی خود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم اس لفظ سے حقیقتا ً کیا کچھ مراد لے رہے ہیں ؟ مثلا ً میں نے کہا کہ انجیل میں خدا نے یہ کہا ہے کہ قیامت ایک روز ضرور آئے گی۔ میرے مخاطب میرے وہ احباب ہیں جو میرے ہم جماعت ہیں، اس سے تقریبا ً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ میں نے اپنے ذہنی میعار کے لوگوں کے درمیان ایک ایسا مقدمہ پیش کیا ہے جس کی تفہیم کوئی بہت پیچیدہ مسئلہ نہیں۔ بظاہر تو یہاں بات ختم ہو جاتی ہے ، پر کیا کوئی حتمی طور پر یہ کہہ سکتا ہے کہ میرے مقدمے سے میرے تمام ہم جماعتوں نے وہی کچھ سمجھا یا مراد لیا جو کہ میں ان سے کہنا چاہتا تھا؟ یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں کیوں کہ قیامت کا تصور ہر شخص کے لئے جدا ہے اور خدا کی کہی ہوئی باتوں کو ہر کوئی اپنے طورسے سمجھتا ہے ،بہر کیف یہ تو ایک عام سا مقدمہ تھا اب اسی کے بر عکس میں ادبی متن کے ایک ٹکڑے کو رکھ دیتا ہوں ، مثلا ً منٹو کے ڈرامے خود کشی کا یہ جملہ دیکھئے کہ:
لیلی ہزار بار میاں مجنوں سے یہ کہہ چکی ہے ،مجھے مت ڈھونڈومیں تمہارے سامنے موجود ہوں ۔
اب اس کو کیسے سمجھا جائے ، آپ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ اس جملے کو ایک اقتباس کی صورت میں یہاں پیش کیا گیا ہے ، تو ظاہر ہے کہ اس کی تفہیم کے لئے آپ سب سے پہلے اس ڈرامے کے اصل متن کی طرف رجوع کریں گے ، وہاں اس جملے کو تلاش کریں گے ، اس کے سیاق کو دیکھیں گے ، اس کی واقعاتی نوعیت کو جانیں گے اور اس طرح اس جھوٹ کو سچ مان لیں گے کے لیلی ہزار بار میاں مجنوں سے یہ کہہ چکی ہے کہ مجھے مت ڈھونڈومیں تمہارے سامنے موجود ہوں ، جب کہ اس جملے کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں کیوں کہ تخلیق سے قطع نظر تاریخ میں یہ جملہ کہیں موجود نہیں ۔ لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے کو اپنے سیاق و سباق سمیت پڑھنے والے اس کو اس سے الگ کر کے سمجھیں اور اس پر ان کے منہ سے بے ساختہ داد نکل جائے جس داد کی وجہ سے وہ خود واقف نہ ہو ں، اس صورت میں یہ جملہ اس کے ادبی تفہیم خانے میں چلا جائے گا جہاں سے وہ اس جملے کو ایک استعاراتی ماخذ گردانیں گے اور اس جملے کی کوئی موثر تحلیل کر لیں گے ، یہ عمل بھی ایک سکینڈ کے ہزارویں حصے میں ہوگا جس کے اظہار میں ہو سکتا ہے ، وہ سال بھر تک کامیاب نہ ہو سکیں ، خیر یہ تو ایک Save pointہے جہاں سیاق و سباق سے اس جملے میں Dimension پیدا ہو گئی ، مگر ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ ہم لوگ غزل کے قاری بھی ہیں ، مثلا ً غالب کا ایک شعر ہے:
ہو اہے کاٹ کے چادر کو ناگہاں غائب
اگرچہ زانو ے نل پر رکھے دمن تکیہ
اب سوال یہ ہے کہ اس شعر کو کیوں کر سمجھا جائے جبکہ اس کا نہ کوئی سیاق ہے اور نہ سباق ، آگے پیچھے کے شعروں کو کھنگا لنا بے سود ہے اورغالب کی زندگی کے کسی واقعے سے Relate کر کے اس شعر کو سمجھنا سراسر جہالت ، پھر اس میں سمجھنے کو بچا ہی کیا ہے کہ ایک مقدمہ ہے جو رمز کے پردے اوڑھے دور کہیں چھپا بیٹھا ہے ، چلئے مان لیا کہ آپ نے اپنی لسانی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر وہ پردے چاک کرد یئے ، پھر کیا ہوگا ، ایک مقدمہ سامنے آ جائے گا ، جس کا سیاق عین ممکن ہے کہ آپ کو تا قیامت نہ ملے اور آپ شعر چیز دیگر است کہنے پر مجبور ہو جائیں! اور اگرمل بھی گیا تو بھی آپ اس شعر سے کیا حاصل کر پائیں گے ، ایک ایسا مقدمہ جو اس سے بہتر انداز میں دوسروں نے نثر میں کب کا بیان کر دیا ہے ؟ کیوں کہ شعر کو مقدمہ کی صورت میں سمجھنا تو ایسا ہی ہے جیسے کسی مرد کو عورت تصور کر کے اس کےعشق میں مبتلا ہو جانا ، جب کہ یہ عین حقیقت ہے کہ اس سے آ پ کو وصال کی صورت میں بھی وہ گدازی ، لطف اور مسرت حاصل نہیں ہو سکتی جس کی چاہ میں آپ یہ حماقت آمیز عمل انجام دے رہے ہیں ۔اسی طرح شعر کو نثر کر کے سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے عین نثر کو پڑھ کر سمجھنا، اس سے لاکھ کسی شعر کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے ، براہ راست شعر کو سمجھنے کا لطف حاصل نہیں ہو سکتا۔
خیر یہ تو ہم ذرا دور نکل آئے ، لیکن ہم ابھی بھی اپنے استفسار کے دائرے ہی میں ہیں کہ سمجھنے سے ہم جو کچھ مراد لے رہے ہیں کیا وہ ہی حقیقت میں سمجھنے کی اصل تعریف ہے؟ مثلا ً میں نے آج سے کئی برس پہلے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا تھا کہ:
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے
اس وقت ہر جائی کی رعایت سے میں لا علم تھا، بعد میں علم ہوا تو شعر میں ایک عجیب سا لطف پیدا گیا، لیکن جب میرے ایک عزیز نے مجھے ہر جائی کی اس رعایت کو کھول کر سمجھایا تواس دن سے مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر بہت ہی زیادہ ہلکا اور سطحی معلوم ہونے لگا، اس واقعے سے میں نے یہ سبق لیا کہ شعر اپنی رعایت کے ساتھ جب تک سمجھ میں نہیں آتا اس وقت تک واقعتاً اس کی تفہیم میں لطف پیدا نہیں ہوتا ، لیکن اگر کوئی اس کی رعایت کھول کر بیان کر دے تو اس شعر کا رہا سہا حسن بھی مر جاتا ہے، کیوں کہ شعر کے تناظر میں جب ہم لفظ تفہیم کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ نثری تناظر سے بہت زیادہ مختلف ہوتا ہے، شعر کی تفہیم کا براہ راست تعلق شعر کی تاثیر سے ہے ، پھر چاہیں اس میں کتنی ہی رعایت کیوں نہ ہو جب تک وہ تاثیر کے خانے سے ہو کر تفہیم کی دنیا میں داخل نہیں ہوتا ، اس تفہیم تک پہنچنا ہی بے کار اور بے اثر ہے۔ واضح رہنا چاہیئے کہ سمجھ کی تعریف ادب میں ان دیگر علوم کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے جن میں ہم کسی چیز کو سمجھ کے Calculative معنی کے آئینے میں دیکھتے ہیں ، ادب میں تفہیمNon-calculativeہے، اسی لئے اس کاCalculativeہونا یہاں کوئی مستحن امر یاخبر نہیں بلکہ معیوب ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو ادب کے متن کے ذریعے پیش کی جا سکتی ہیں، مگر ان سب سے جو نتیجہ سامنےآتا ہے وہ یہ ہی ہے کہ تفہیم علم سے جتنی متعلق ہے تاثیر سے اس کا رشتہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے اور اب جبکہ ہم اپنے ادب کے ساتھ Era of after 9/11 میں داخل ہو چکے ہیں اس میں تفہیم میں نظم کی تخصیص بھی ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال ابھی حال ہی میں منظر عام پر آنے والا خالد جاوید کا ایک ناول موت کی کتاب ہے ۔ اگر ہم میں سےکچھ دوستوں نے اسے پڑھا ہے تو کیا وہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کے ہر ہر جملے کو سمجھنے میں سمجھ کی اس تعریف سے بہت آگے نکل کے آنا پڑتا ہے جس تعریف کی روشنی میں ہم نے اختر شیرانی اور علامہ اقبال کی نظموں کی تحلیل کی تھی۔ تفہیم کا وہ دور اب نہیں رہا ، لہذا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تفہیم کے نئے معنی سامنے آچکے ہیں ۔ جس کی معنیاتی بحث میں پڑ کر ہم نے اپنا وقت خراب کرنا ابھی تک ضروری نہیں سمجھا ہے۔ادب کا متن ہادی رسوا کے زمانے سے کب کا نکل چکا ہے، لہذا اب بھی ہم اگر یہ کریں کہ ایک شعر لیں اس کا ایک مفروضاتی نظام قائم کریں ، اس کا ایک متعین سیاق و سباق ڈھالیں ، اس سے ایک معنی متعین کریں ، اس کی تحلیل کا اعلان کریں اور تعین قدر کے مسئلے کو حل کر جائیں ۔ تو صاحب یہ کسی طور ممکن نہیں ۔
تحلیل کا سوال اس وقت حل ہوگا جب ہم تفہیم کے نئے معنی کی دریافت کریں گے ، اور اس مسئلے پرغور کیا جائے تو تفہیم کے نئے معنی اس وقت تک طے نہیں ہوں گے جب تک ہم بصیرت اور ادراک دونوں لفظوں کو اپنے شعوری نظام کا حصہ نہ بنا لیں ، مثلاً وہ ایک دور تھا کہ ہم نے اپنی کلاسکل Poetry میں اپنے محبوب کو مختلف النوع انداز میں دیکھا اس کے نخرے برداشت کئے ، اس کی بے وفائی پر سینہ کوبی کی، اس کے غم میں آنسو بہائے ، اس کی جھوٹن کو اپنے حق میں اکثیر جانا، اور اس کی خاطر گریباں چاک کر کے وادیوں اور سحراوں میں گھومے ، پر اب یہ سب کرنے کا عہد نہیں رہا ، اب بھی اگر ہم ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ میں بدھا ہوا دیکھ کر کلکاریاں ماریں گے تو پھرہم بالغ ہونے سے رہے ۔ تفہیم کے دائرے کو وسیع کرنے کا بنیادی حل یہ ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر گزشتہ سے پیوستہ کے قائدے کو ترک کیا جائے نہ صرف یہ کہ لفظی سطح پر بلکہ معنوی سطح پر اور اس عجیب و غیریب عمل کو بھی چھوڑا جائے کہ ان اصولوں کی روشنی میں شعر کو سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے جو آج سے دو سو سال قبل ہمارے اکابرین متعین کر گئے تھے۔ اس عہد میں ادب کے قاری کے لئے جب تک کسی بھی طرح کا اصول ثانوی شئے نہیں ٹھہرتا اس وقت تک تفہمستان میں داخلے کا منظوری نامہ اسے حاصل نہیں ہو سکتا۔ حالاں کہ نارنگ صاحب کی بھی کئی ایک باتیں تھیوری کی سطح پرگزشتہ سے پیوستہ کا درس دیتی ہیں پھر بھی کامن سینس کے متعلق انہوں نے ساختیات کی بحث میں جو کچھ کہا ہے وہ اس عہد کے ادبی متون پر بالکل کھرا اتراتا ہے، کامن سینس سے کسی بھی بات کو سمجھنے کی عادت ہی ایک ایسی بری عادت ہے کہ ہم تفہیم کے نئے معنی قائم کرنے میں مستقل نا کام ہو رہے ہیں ۔
اصول سے متعلق میں نے اوپر جو بات کہی اس سے میرا منشا یہ ہے کہ کسی متن کی تحلیل میں جب تک پرانے اصول کار فرما رہیں گے اس وقت تک تحلیل متن کی خاطر نئے اصول بنانے کا کام بھی شروع نہیں ہوگا۔ حتی کہ ہماری یہ کوشش ہونا چاہئے کہ ہم قدیم متون کو جدید اصول کی روشنی میں ڈھالیں۔ اب جب کہ میں نے اصولوں کی جدید و قدیم تقسیم کر ہی دی ہے تو یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اس عہد میں متن کی تحلیل میں اگر کوئی اصول کار فرما ہو سکتا ہے تو وہ عدم اصول ہی ہو سکتا ہے۔ مزید وضاحت کے ساتھ یہ کہ کسی شعرکے تعین کرنے کے لئے اس شعر کی لفظی اور معنوی تحلیل کا طریقہ سب سے ناکارہ طریقہ ہے۔ شعر سیدھے ادراک کی نذر ہواور اس ادراک سے اگر اس کی تعین کا کا م انجام دیا جائے تب ہی ہم ادب کے نئے phase میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ادب کے قاری کو اس عہد میں ایک ذمہ دار قاری کا رول ادا کرنا ہوگا، اس کو ادبی متون کی مسلسل اور متواتر قرات سے اپنی ادبی بصیرت میں اتنا اضافہ کرنا ہوگاکہ کسی بھی متن کی تعین اس کے ادراک سے بہ آسانی ہو سکے ۔ یہ بات بظاہر کچھ پیچیدہ معلوم ہوتی ہے ، مگر جب تک ہم اپنے قاری کو اس سطح پر نہیں دیکھیں کہ وہ کسی اچھے شعر کو برا نہ کہے (اجتماعی طور پر)اور برے شعر کو اچھا ۔اس وقت تک نئے مباحث پیدا ہونے کے امکان نظر نہیں آتے اور نہ ہی تحلیل متن اور تعین قدر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنے قاری کو چھٹی جماعت کا طالب علم بنا رکھا ہے۔ جس کو کوئی بھی بات جب تک پوری طرح نہ سمجھائی جائے اس وقت تک وہ اس سے محظوظ ہی نہیں ہوتا۔ ابھی کچھ مہینوں پہلے شمیم حنفی مجھ سےغالب کی ایک ترکیب محمل تر کے سمجھ میں نہ آنے کا نوحہ سناتے ہوئے کیا اچھی بات کہہ گئے کہ جب تک کوئی شعر آپ کو پوری طرح سمجھ میں نہیں آتا اس وقت تک ہی اس میں لطف باقی رہتا ہے ، جب پوری طرح سمجھ میں آگیا تو پھر اس میں کیا لطف۔ ان کے جملے میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ شعر کی تشریح ایک خراب عمل ہے اور میں ان سے کچھ حد تک متفق بھی ہوں ، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی دراصل شمیم صاحب نے جو بات کہی ہے وہ کئی مغربی ادیب ان سے بہت پہلے کہہ چکے ہیں ، لیکن ہمیں اس جملے سے مزید آگے بڑھ کر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شعر کا مکمل سمجھ میں نہ آنا کوئی مستحن بات نہیں ہے بلکہ شعر کے مکمل سمجھ میں آ جانے کے بعد اس کا اظہار معیوب عمل ہے۔ آپ نے کیا سمجھا یہ کچھ مسئلہ نہیں لیکن آپ نے کیا سمجھایا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ، وہ بھی ان دونوں صورتوں میں کہ اگر آپ کو واقعتاً شعر سمجھ میں آگیا ہے اور آپ اسے سمجھا رہے ہیں تو اس سے سامنے والے کے لئے شعر کی تاثیر ویسے ہی ختم ہو گئی کیوں کہ وہ اسے منثور انداز میں سمجھ رہا ہے ، اور اگر آپ نہیں سمجھیں ہیں اور سمجھا رہے ہیں تو اس صورت میں آپ صریحاً غلط کر رہے ہیں ۔
شعر ہو یا نثر ان دونوں کو تخلیقی بنیادوں پر بصیرت کی آنکھ سے دیکھ کر شعور و ادراک کے ذریعے سمجھنے کا چلن ہی ادب کی نئی قدروں کی تعین کا مسئلہ حل کر سکتا ہے ، اور تفہیم کے جدید معنی کی معنیاتی بحث بھی اسی وقت شروع ہو سکتی ہے جب اس لفظ کی گزشتہ تعریف سے کناراکر لیا جائے۔