(فارینہ الماس )
جس طرح ماحولیاتی تغیرات و تبدل انسانی حیات کے لئے ایک بڑا سانحہ بنتے ہوئے بھوک، افلاس اورکسمپرسی کو جنم دے رہے ہیں ،اسی طرح انسانی مزاج اور عادات کا تغیر و تبدل بھی خود انسان ہی کی زندگی کو دشوار اور پر خار بنا رہا ہے۔ طمع ،لوبھ اور حرص انسان کی حوس پرستی اور خود پرستی کے روپ میں اس جیسے کئی انسانوں کی زندگی کو کھا جانے کا سبب بن رہے ہیں۔ جدت ادوار کے ساتھ ساتھ جدت اطوار نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے،انسان کا رنگ ڈھنگ،اس کی سوچ، اس کا انداز تکلم ،اس کا انداز فکر۔یہاں تک کہ اس کے لئے کامیابی کا فارمولہ بھی یکسر بدل چکا ہے اورایک ایسا فارمولہ اس کے ہاتھ آچکا ہے کہ جس میں کامیابی صرف ذاتی اور مادی ترقی کا نام بن کے رہ گئی ہے۔ہماری سہل اندازی یا خوش حالی کسی کے لئے دکھ، تکلیف یا بھاری نقصان کا باعث بھی بنے تو چلے گا ۔کیونکہ ہماری حرص اور طمع کا اب کوئی کنارہ نہیں، یہ ایسے بے کنارہ سمندر ہیں جن کی اتھاہ گہرائیوں میں اور ابھرتے پانیوں کی بنتی ٹوٹتی لہروں میں ہر سو ہماری انگنت خواہشات نا تمام ہی تیرتی پھرتی ہیں۔پھر بھی ہمیں تنگیء حالات کا شکوہ ہے ۔ہماری اسی خودساختہ تنگیء حالات نے ہمیں تنگیء خیالات کا شکار بنا کے رکھ دیا ہے اور نتیجتاًکل کے مسیحا آج کے پتھر دل انسان بن چکے ہیں ۔ارشاد ربانی ہے ’’تمہارے دل سخت ہو چکے ہیں جیسے کہ پتھر کے ہوں‘‘
حال ہی میں ایک دل فگار واقعہ میری یادداشت سے کبھی نہ مٹنے والا نقش بنا ۔یہ واقعہ کسی خیراتی یا سرکاری ہسپتال کا نہیں بلکہ ایک پرائیویٹ ہسپتال کا واقعہ ہے،جس کا اپنا ذاتی میڈیکل کالج بھی ہے اور اس میں بھی ینگ ڈاکٹرز اپنی خدمات سینئیر ڈاکٹرز کی نسبت ذیادہ انجام دیتے ہیں ۔،یہاں میں اپنے مریض کی تیمارداری پر مامور تھی ۔میں نے وہاں ایک درمیانی عمر کی عورت کو ڈاکٹروں کی بے حسی کی بھینٹ چڑھتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔وہ خاتون جو محض ایک معمولی سرجری کی غرض سے اپنے قدموں پر چل کر ہاسپٹل آئی تھی کس طرح ڈاکٹروں کی لاپرواہی کا شکار ہوئی یہ بہت دل دھلا دینے والی کہانی تھی ۔اس خاتون کو بظاہر کوئی بھی دوسرا مرض لاحق نہ تھا ۔چہرے مہرے سے وہ خاصی ہشاش ،بشاش دکھائی دے رہی تھی لیکن اسے آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا تو وہ اک عجیب سے خوف میں مبتلا ہو گئی اسے اس خاص ماحول سے پیدا ہوتے خوف نے شدید قسم کے بلند فشار خون کا شکار کر دیا ۔جس کا براہ راست دباؤ اس کے دل پر وارد ہو کر ’’ دل کے دورے ‘‘کا باعث بن گیا ۔یوں اسے فوری طور پر انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں منتقل کرنا پڑا۔
دو چار روز کے بعد ڈاکٹروں نے اسے یہاں سے پرائیویٹ وارڈ میں منتقل کرا دیا لیکن اسے بدستور آکسیجن مہیا ہو رہی تھی ۔اور وہاں کچھ خاص قسم کی ایمرجنسی کارڈیک مشینری بھی بیڈ کے سرہانے موجود تھی ۔پھر ایک رات اچانک کسی وجہ سے اسے آکسیجن کی فراہمی معطل ہو گئی اور مریضہ کی حالت بگڑنے لگی۔رات کے سناٹے بہت گہرے ہو چکے تھے ۔ ڈیوٹی پر مامور جونئیر ڈاکٹرز اپنے کمرے میں گہری نیند سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ دوسری طرف نرسیں بھی نیند کے جھپکے کا شدید شکار تھیں ۔ تیمار دار ، پریشان حالی میں نرسوں کو نیند سے جھنجوڑنے کی کوشش میں تھے ،جب وہ الرٹ ہوئیں تو ڈاکٹرز کو فوری مریضہ کی طرف لے جانا مشکل ہوگیا۔اسی دوران اچھی خاصی تا خیر ہوگئی ۔اس تاخیر نے مریضہ کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کر دیا ۔آکسیجن کی فراہمی تو بحال کر دی گئی۔ لیکن اس کے دل کی صورتحال خاصی دگرگوں ہو چکی تھی ۔جب خدا خدا کر کے ڈاکٹرز تشریف لائیں تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ اس کارڈیک مشینری کے استعمال سے ہی نابلد ہیں۔اب مریضہ کو آئی۔سی۔یو میں لے جانا ضروری ہوگیا۔سو اس کی منتقلی کے لئے وارڈ بوائیز کو بلاوہ بھجوایا گیا ۔لیکن اسی دوران مریضہ کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں ۔اور وارڈ بوائیز کے اسے لے جانے سے پہلے ہی وہ دم توڑ گئی ۔ آہ و بقا کا اک طوفان برپا ہو گیا ۔لواحقین ڈاکٹروں کی غفلت اور بے حسی پر سینہ کوبی کرنے لگے اور ینگ ڈاکٹرز گارڈز کو بلوا کر ماحول شانت کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے ۔لیکن یہ سوالات کبھی نہ حل ہونے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ آیا اگر مریضہ کی حالت بدستور پیچیدہ تھی تو اسے وارڈ میں شفٹ کیوں کیا گیا ؟ اور اگر کسی قسم کا کوئی انتظامی مسئلہ تھا تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز اس مشینری کا استعمال کیوں نہیں جانتے تھے ۔؟تیسرا سوال ڈاکٹرز کی سستی اور غفلت کا، تو یہ سوال کوئی انوکھا یا نیا سوال نہیں ۔
یہ اور ایسے کئی واقعات ہیں جو ینگ ڈاکٹرز کی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت بنتے رہتے ہیں۔اور جہاں تک امراض کی تشخیص کا معاملہ ہے اس میں تو سینئیر ڈاکٹرز بھی اب اپنی نالائقی کا کھلے عام ثبوت دینے لگے ہیںْ۔پاکستان میں اس وقت رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار سے بھی ذائد ہے جن میں سے ایک اندازے کے مطابق تقریباً80 فیصد ڈاکٹرز ینگ ڈاکٹرز کی کیٹگری میں آتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال اوسطاً ساڑھے تین ہزار نوجوان ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں میڈیکل کالجوں کی تعداد تقریباً 118ہے جن میں سے معیاری درجے کی تعلیم ذیادہ سے ذیادہ صرف دس کالج فراہم کر رہے ہیں۔میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے تقریباً 80 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔جن میں سے بہت کم ہی تعلیم کے مکمل ہونے کے بعد فوری طور پر اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔یہ کل طالبات کا صرف 23فیصد حصہ ہے ۔جس کی وجہ عموماً خانہ آبادی اور گھر داری بنتی ہے۔ملک میں ہر 1200افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہے اور ہر 1700مریضوں کے لئے ہسپتال کا ایک بستر ہے۔اس لئے ڈاکٹروں کی قلت نے پہلے سے ہی مریضوں کی حالت تشویش ناک بنا رکھی ہے۔ہر سرکاری میڈیکل کالج میں پڑھنے والے طالبعلم کو فیس میں حکومت اندازاً 35 لاکھ کی رعایت دیتی ہے ۔اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان برطانیہ کے لئے ینگ ڈاکٹرز کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے ۔یہاں کے ینگ ڈاکٹرز کی اکثریت یو۔کے کا میڈیکل ٹیسٹ پاس کر کے وہاں منتقل ہونے کی متمنی ہوتی ہے ۔تاکہ وہاں اچھی ملازمتوں اور بہتر سٹیٹس سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔2007 ء سے2012 ء کے دوران تقریباًچھ ہزار آٹھ سو چھبیس ڈاکٹروں نے ٹیسٹ دیا۔پاکستان اس طرح برطانیہ میں ینگ ڈاکٹرز کی منتقلی کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جب کہ بھارت جیسا گنجان آباد ملک بھی اس سلسلے میں پانچویں نمبر پر ہے ۔گویا حکومت ان کی تعلیم پر جو لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے،وہ دراصل عوام ہی کے ٹیکسوں سے وصول کئے جاتے ہیں جو برباد ہو جاتے ہیں دوسری طرف میڈیکل کی تعلیم کے معیار پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔
آج ہسپتالوں کا ماحول کچھ ایسا بن چکا ہے کہ سینئیر ڈاکٹرز خاص مریضوں کو ہی چیک کرتے ہیں اور دن بھر میں وارڈ کا محض ایک ہی راؤنڈ لیتے ہیں ۔جب کہ جونئیر ڈاکٹرز مریض کی تمام تر رپورٹ تیار کرتے ہیں ۔مریض سے یا اس کے اٹینڈنٹ سے مریض کی پیدائش سے لے کر موجودہ وقت تک کی تمام تر معلومات لی جاتی ہیں ۔اسے کھانسی آخری بار کب آئی ۔پہلی چھینک کا حملہ کب ہوا ۔؟ایسے ہی بے شمار سوالات گردانے جاتے اور فائلوں میں اتارے جاتے ہیں ۔اور دن میں کم سے کم دو بار ینگ ڈاکٹرز کا ہجوم مریض کو اٹھا بٹھا کر چلا لٹا کر اس کا معائنہ بھی کرتا ہے ۔پھر ایک طویل لسٹ ہزاروں روپوں کے ٹیسٹوں کی تھما دی جاتی ہے لیکن اگر بظاہر رپورٹوں سے کچھ واضع نہ ہو پائے تو پھر سے نئے ٹیسٹ لکھ کر جان چھڑالی جاتی ہے ۔لیکن جب تک بیماری خود اپنی تمام تر علامات کے ساتھ ظاہر نہیں ہو جاتی ڈاکٹرز کچھ نتشخیص نہیں کر پاتے۔تقریباً ایسا ہی حال سینیئر ڈاکٹرز کا بھی ہے ۔اور اگر کوئی خوش قسمتی سے عرف عام میں ’’سیانا ‘‘ ڈاکٹر مل بھی جائے تو وہ مریض کو کم ہی منہ لگاتا ہے ۔اگر آپ پھر بھی بضد ہیں اس کے علم اور تجربے سے فیض یاب ہونے کے تو پھر آپ کو اپنا مریض اس پرائیویٹ ہسپتال میں لے جانا ہو گا جہاں وہ ’’سیانا‘‘ ڈاکٹر پارٹ ٹائم میں بیٹھتا ہے اور دو چار ہزار روپے مریض کے ایک دن کے معائنے کے لیتا ہے۔ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ ماضی میں ڈاکٹروں کی تشخیص ایسی سست اور ناقص نہ تھی بلکہ ڈاکٹر مریض کی نبض چھو کر ہی کم از کم پچاس سے ساٹھ فیصد بیماری دریافت کر لیا کرتے تھے ۔ان وقتوں میں مریض اور ڈاکٹر کا باہمی تعلق بھی بہت خوشگوار اور دوستانہ ہوتا تھا ۔ڈاکٹر اپنے مریض کی نفسیات کو بھی اس سے طویل ملاقات میں طے کر لیا کرتا تھا جس سے اس کے مرض کو سمجھنے اور اسے بیماری سے لڑنے کا بھرپور حوصلہ دینے میں مدد مل جایا کرتی ۔ایسے حالات میں مریض نہ صرف اپنی بیماری کے تمام تر عوامل ،بچاؤ کے طریقوں اور علامات سے واقف ہو جایا کرتا تھا بلکہ اسے کئی بیماریوں ، اور مختلف ادویات کے استعمال اور اثرات سے بھی واقفیت مل جایا کرتی ۔
اس طرح مریض بذات خود آدھا ڈاکٹر بن جاتا تھا۔ہو سکتا ہے اس دور میں ڈاکٹروں کی کامیاب تشخیص اور کارگر علاج کی وجہ ان کی نیک نیتی اور بے لوث خدمت کے جذبے کی دین رہی ہو۔آج کل تو ڈاکٹرز پرائیویٹ طور پر ہزاروں روپے فیس کی مد میں لے لیتے ہیں پھر بھی مرض کے بارے وہ کچھ نہیں جان پاتے جتنا کہ مریض گھر آ کر گوگل کی سرچ سے جان لیتا ہے ۔یہ سینئیر ڈاکٹروں کی فراہم کردہ ناقص تعلیم کا اثر ہے کہ ہمارے ینگ ڈاکٹرز کی اکثریت نالائق ہے ۔اور جو خوش قسمتی سے لائق ہو جاتے ہیں وہ پاکستان کے ہی لائق نہیں رہتے اور برطانیہ یا امریکہ جیسے ممالک میں اپنی خدمات انجام دینے لگتے ہیں۔اس سب سے ذیادہ حساس معاملہ یہ ہے کہ یہ ینگ ڈاکٹرز مریض اور اس کے تیمارداروں کی نفسیات سے یکسر ناواقف ہیں ۔ان کا رویہ عموماً سنگدلانہ اور خود غرضانہ ہوتا ہے۔اور اگر ہسپتال میں ایڈمٹ کسی مریض کا کوئی تیماردار ان کے اس رویے کی شکایت کر بھی دے تو وہ الٹا دھونس اور کرختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔وہ انسانیت کے اس سبق کو یکسر بھول جاتے ہیں جو میڈیکل کی تعلیم کے دوران اک عہد کی طرح کبھی انہوں نے خود سے لیا ہوتا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کی بے حسی کا کمال مظاہرہ ہم وقتاً فوقتاً دیکھتے ہی رہتے ہیں۔خصوصاً ان کی اپنی مراعات بڑھانے کے لئے کی گئی ہڑتالوں میں۔2012 ء میں ڈاکٹرز کی ہڑتال کی وجہ سے مریضوں کے حالات ایسے دگرگوں ہوئے کہ پاک آرمی کے ڈاکٹرز کو لاہور کے ہسپتالوں کو take over کرنا پڑا ۔نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم ’’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘‘جو 2008 ء میں بنائی گئی اب ایک پریشر گروپ کی طرح منظم ہو چکی ہے جو وقتاً فوقتاً اپنی طاقت اور اثرو رسوخ کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے ۔ان کے اثرو رسوخ کے آگے ہسپتال کے ایم ۔ایس صاحبان بھی بے بس نظر آتے ہیں ۔
گزشتہ آٹھ سالوں میں یہ پندرہ ہڑتالیں کر چکے ہیں ۔ان ہڑتالوں کے دوران لاتعداد مریض ہسپتالوں کی سیڑھیوں پر اور برآمدوں میں دم توڑ چکے ہیں۔ بااثر ڈاکٹروں کی پشت پناہی میں ان کی بھی دھڑے بندی ہو چکی ہے اور ان کے لئے اپنا دھڑا اتنا مقدم اور اہم ہو چکا ہے کہ انسانیت یا انسان کی کوئی قدرو منزلت ان کی نظر میں نہیں رہی۔ حال ہی میں 25اکتوبر کو میو ہسپتال میں ایک مریض کے لواحقین اور ینگ ڈاکٹرز کے درمیان جھگڑا اتنی شدید نوعیت احتیار کر گیا کہ انکوائری بورڈ بنانا پڑا اور اس بورڈ کی رپورٹ کے فیصلے کے مطابق دو ڈاکٹرز کو معطل کر دیا گیا تب سے اب تک ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں ۔گویا اپنے حق کے لئے احتجاج تو ایک طرف کبھی کبھی خود اپنی غلطیوں پر ملنے والی سزاؤں سے بچنے کے لئے بھی ایسا سنگین اور غیر انسانی احتجاج ان کی نظر میں ان کا حق بن جاتا ہے۔ اس دوران اپنے احتجاج سے نا صرف سڑکوں کو بلاک کر کے شہریوں کو پریشان کیا گیا بلکہ ڈاکٹرز کا ایمرجنسی تک میں کام نہ کرنے سے ایک معصوم بچی ثناء جو گرم چائے گرنے سے جھلس چکی تھی وہ علاج نہ ہوپانے کی وجہ سے دم توڑ گئی ۔اس واقعہ کے باوجود ڈاکٹرز کو اپنے ضمیر پر کوئی خلش محسوس نہ ہوئی اور ایک دل کا مریض بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گیا ۔ اس خبر سے ایسا ہی محسوس ہوا جیسے اچھے طالبان اور برے طالبان کی اصطلاح کے بعد اب اچھے ڈاکٹر اور ینگ ڈاکٹر کی اصطلاح بھی سامنے آگئی ہے اور ینگ ڈاکٹر کا مطلب ہے جان لینے والا ڈاکٹر ۔ان کی بے حسی کا ثبوت یہ ہے کہ دوران ہڑتال ہسپتال کی ایمرجنسی تک کو اپنا کام نہیں کرنے دیا جاتا۔لاہور جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں مریض گردو نواح کے علاقوں کے علاوہ دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں سے بھی آتے ہیں اور ان کا یہاں پہنچنا ایک طویل مسافت کے بعد ممکن ہو پاتا ہے ان میں سے اکثر مریض انتہائی سنگین بیماریوں کے باعث لائے جاتے ہیں ۔اور وہ عموماً ڈاکٹروں کی ہڑتالوں سے بھی نابلد ہوتے ہیں ۔لیکن جب یہاں صورتحال سنگین تنازعات کا شکار نظر آتی ہے تو وہ انہی ڈاکٹروں سے رحم کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔شاید ایسی تکلیف انگیز گریہ زاری سن کر پتھر بھی پگھل جاتے ہوں گے لیکن انسان کی بابت قرآن کی یہی بات صادق آتی ہے کہ ’’تمہارے دل سخت ہو چکے ہیں جیسے کہ پتھر کے ہوں‘‘
ڈاکٹر نہ صرف اس معاشرے میں ایک مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ بیماری کا روگ کاٹتے انسان تو اسے اپنے خدا کا درجہ بھی دے دیتے ہیں ۔وہ اپنے دکھ اور تکلیف میں ڈاکٹر کو ایک خدائی مددگار اور امید کی ایک آخری کرن جانتے ہیں ۔لیکن ڈاکٹروں کی انا اور خودغرضی مریضوں کے اس مان کی دھجیاں اڑا دیتی ہے ۔گو کہ اس ملک میں مسائل سے گھرے ہر انسان کی طرح ینگ ڈاکٹرز بھی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ۔ان کو بھی ان مسائل کے لئے شنوائی درکار ہے لیکن اپنے مسائل کے لئے ایسا طریقہء احتجاج بھی اپنایا جا سکتا ہے جو کسی کی جان لینے کا باعث نہ بنے۔ڈاکٹرز تو کسی نہ کسی طریقے سے بعد ازاں اپنی محنتوں اور قابلیتوں کو کیش کر ہی لیتے ہیں ۔ایک گلی محلے میں کلینک کھول کے بیٹھا ڈاکٹر بھی رات کو جب کلینک سے اٹھتا ہے تو 100 روپے کی بھی فیس پر مریضوں کے بنے تانتے کو نپٹا کر آٹھ یا دس ہزار روزانہ کا سمیٹ کر ہی اٹھتا ہے ۔اور جو ڈاکٹرز پرائیویٹ ہسپتال بنا لیتے ہیں ان کی آمدن کا اندازہ تو بے حساب ہے جو شاید دیہاڑی کے حساب میں لاکھوں کا ہے ۔اپنا ہسپتال نہ بھی بنائیں تو دن بھر دو چار پرائیویٹ ہسپتالوں میں دو دو گھنٹے دینے سے بھی ان کی آمدن کو چار چاند لگ جاتے ہیں ۔تو وہ تاحیات اپنی لیاقت ،محنت اور ہنر کو کیش کرتے رہتے ہیں ۔کیا ایسا کبھی آپ نے دیکھا کہ ایک ڈاکٹر کی فیس دو ہزار ہے اور اس نے دن بھر میں محض دو غریبوں کو مفت علاج کی سہولت دے رکھی ہو ۔ایسا بہت کم ہوتا ہو گا توکیا چند سالوں کی سختی برداشت کرنا ینگ ڈاکٹرز کے لئے اتنا ہی بڑا آزار ہے جو وہ سہہ نہیں پاتے ؟ انہیں تو باقی طبقات کی نسبت حساس اور خیال کرنے والا ہونا چاہئے کیونکہ وہ ہمارے مسیحا ہیں ۔اور اگر وہ بھی عام طبقات کی طرح بے حس ہوگئے تو پھراس دنیا سے انسانیت کا بھرم ہی ختم ہو جائے گا۔