جب میں بائیں بازو کے خیالات والا کالج میں پڑھتا اک لڑکا تھا!

بھٹوکا ٹرین مارچ اورگورنمنٹ کالج

جب میں بائیں بازو کے خیالات والا کالج میں پڑھتا اک لڑکا تھا!

از، نعیم بیگ

یہ کوئی سنہ ۱۹۶۸ء کی آخری چو تھائی کا قصہ ہے۔ جب تک اسکول میں رہے، ہیڈ ماسٹر عبداللہ صاحب نے ہمارے اعتماد کو بظاہر ہمیشہ زک ہی پہنچائی لیکن جو نفسیاتی خلا انہوں نے ذات کے اندر پیدا کیا، وہ آگے چل کر شخصیت کا ایک انوکھا تجربہ ثابت ہوا۔

وہ یوں تو اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور وہ بھی پبلک ہائی سکول، جسے پرائیویٹ ہونے کے ناتے گورنمنٹ کے اسکولوں سے کہیں بہتر سمجھا جاتا تھا لیکن ذاتی عادات و خصائل میں وہ کسی سرکاری اسکول کے خونخوار ہیڈ ماسٹر سے کسی طور کم نہ تھے۔ ہاتھ میں بید کی لچک دار چھڑی ان کا نشان تھا۔ گمان غالب ہے کہ شاید رات کو بھی وہ چھڑی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہوگی۔ لڑکوں کی بلاوجہ پِٹائی، ڈانٹ ڈپٹ، والدین کو بھی اکثر اسکول میں حاضر رکھنا وغیرہ ان کی شخصیت کا حصہ تھے۔

لہذا جب میٹرک کے بعد کالج میں پہنچے، تو آزادی کی نعمت سے آشنا ہوئے، اعتماد بحال ہونے لگا، شخصیت میں کالج کی تعلیمی فضا اورعلمی مباحث سے فکر و دانش کے در وا ہونے لگے، ایسے میں سیاسیات میں حصہ نہ لینا ایسا ہی تھا جیسے آپ پھر سے اسکول میں داخل ہو گئے ہوں۔

اعتماد بحال ہونے کا ایک فوری فائدہ یہ ہوا کہ میری دوستی نوجوان اساتذہ کرام سے زیادہ ہوگئی۔ ٹیوٹوریل گروپ کے استاد جاوید اقبال میرے ساتھ اس طرح شفقت سے پیش آتے کہ کئی بار ان کے بڑے بھائی ہونے کا گمان گذرا، جس طرح وہ سمجھاتے، محبت سے پیش آتے وہ انہی کا شیوہ تھا۔

اتفاق سے جاوید اقبال صاحب ہوسٹل وارڈن بھی تھے اور میری اکثر ان سے ملاقات وہیں ہوسٹل میں ہوتی جہاں میں اپنے دوستوں سے ملنے چلے جایا کرتا تھا۔ گو میں ڈے سکالر تھا لیکن کالج کے بعد میرا زیادہ وقت وہیں گزرتا۔ ہم لڑکوں کی محفل میں اکثر سر جاوید اقبال چلے آتے۔ انہیں مقامی سیاست سے لے کر قومی سیاست پر مکمل عبور حاصل تھا۔

قومی سیاست، انسانی مسائل، غربت و افلاس، تعلیمی پسماندگی، سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیاں، حکومتی ایوانوں کے پیچیدہ فیصلے اور اس کے پیچ و خم، مارکسزم اور اس کے مثبت عالمی اثرات، فیض و حبیب جالب کی شاعری اور ابنِ صفی کی کہانیاں اور منٹو کے افسانے ہمارے پسندیدہ موضوعات ہوا کرتے۔

مسٹر بھٹو کے تو وہ شیدائی تھے اور گھوم پھر کر نظام کی تبدیلی اور سامراجیوں کی شکست ان کا مطمع نظر تھا۔ یوں زرخیز اور ورجن زمین پر سیاسی پنیری لگنے کی دیر تھی کہ عملی سیاست کی کونپلیں ہمارے اندر پھوٹ پڑیں۔ نظام بدلنے کی خواہش اور احتجاج کی لہریں ہماری پرجوش رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگیں۔

یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ میں نیا نیا بائیں بازو کے نظریات پر مشتمل کالج یونین کا جوائنٹ سکریٹری بنا تھا کہ ایک دن یہ اطلاع آئی کہ سر جاوید اقبال کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے ان پر الزام ہے کہ وہ سرکاری ملازمت یعنی گورنمنٹ کالج کے استاد ہونے کے باوجود مسٹر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے سرگرم رکن ہیں جبکہ وہ  قواعد کی رو سے عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ یہ خبر ہم سب پر بجلی بن کر گری۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہر دلعزیز استاد جیل میں ہوں اور ہم سکون سے بیٹھیں۔ ہم سب سہ پہر سے ہوسٹل کے ایک کمرے میں بیٹھے ابھی لائحہ عمل کا سوچ ہی رہے تھے کہ خبر پہنچی کہ بھٹو صاحب کا ٹرین مارچ کل سے شروع ہو رہا ہے۔ سب لڑکے کل صبح وہاں ریلوے اسٹیشن پہنچیں، ہم وہاں احتجاج بھی کریں گے۔ بھٹو صاحب کی تقریر بھی سنیں گے اور سر جاوید اقبال کی رہائی کا مطالبہ بھی وہیں ہوگا۔

بھٹو کے ٹرین مارچ جو راولپنڈی سے شروع ہو کر شاید لاہور تک ہو رہا تھا، کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی ورکر اور مقامی قیادت اپنی جگہ سرگرم تھی اور ہم اسٹوڈنٹ اپنی جگہ پر، پر جوش استقبال اور ہلہ گلہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔

اگلے دن ہم سب صبح صبح ہی اپنے قریبی دوستوں اور کالج کے ساتھیوں کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پہنچ چکے تھے جہاں لوگوں کا جم غفیر پہلے سے موجود تھا۔ اسٹیشن کے چاروں طرف پولیس کھڑی تھی۔ ہم لوگ کسی نہ کسی طرح اندر پلیٹ فارم تک پہنچ گئے۔

جو لوگ ٹاؤن ریلوے اسٹیشن سے واقف ہیں، انہیں یاد ہوگا کہ یہ ریلوے اسٹیشن شہر کے بیچوں بیچ جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ جس کے پلیٹ فارم کے شمالی اور جنوبی اطراف میں ریلوے پھاٹک ہیں۔ ٹرین نے شمال کے ریلوے پھاٹک سے پلیٹ فارم پر داخل ہونا تھا اور جنوبی پلیٹ فارم سے لاہور کی طرف نکل جانا تھا۔ اس ریلوے پھاٹک کے بعد اگلا پھاٹک کوئی ایک ڈیرھ کلو میڑ کے بعد تھا۔

ٹرین کی آمد کوئی گیارہ بجے دن کے قریب تھی جبکہ صبح نو بجے ہی پلیٹ فارم پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ چاروں طرف سرخ کوٹ پہنے نوجوانوں کے سر یا پولیس کے ہیلمٹ نظر آ رہے تھے۔ ہمارے کالج میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ہر اسٹوڈنٹ اپنے کالج کا سرخ بلیزر پہن کر جائے گا تاکہ کوئی سبز بلیزر پہنے یا کوئی اور لڑکا الٹی سیدھی حرکت کرے تو پہچانا جائے اور پکڑا جائے۔ کیونکہ ہمیں اطلاع تھی کہ سبزوں نے ہڑبونگ مچانی ہے، تاکہ گورنمنٹ کالج کے لڑکے پکڑے جائیں۔

جوں جوں ٹرین آنے کا وقت قریب آ رہا تھا لڑکوں میں جوش و خروش بڑھ رہا تھا۔ بھٹو زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ پولیس ادھر ادھر بھاگ رہی تھی، کچھ سول بیورو کریٹ یا سینئر پولیس آفیسر سادہ کپڑوں میں ہدایات دے رہے تھے۔ لوگوں کی نظریں بار بار شمالی پھاٹک کی طرف اٹھتیں تاکہ پھاٹک بند نظر آنے سے یہ اعلان ہو جائے گا اب ٹرین قریب ہے، لیکن بارہ بجنے کے باوجود ٹرین کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔

ادھر لڑکوں میں کچھ اضطراب بڑھ رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں اطراف (سٹوڈنٹس اور پولیس انتظامیہ) کی خفیہ میٹنگز وہیں پلیٹ فارم پر ہی ہو رہی تھیں جس کی خبریں دونوں طرف لیک ہو رہی تھیں۔

ہم لڑکوں نے بھی وہیں کھڑے کھڑے ایک خفیہ میٹنگ کی جس میں یہ طے ہوا کہ بھٹو صاحب سے تقریر سننی ہے بھلے کچھ بھی ہوجائے۔ دوسری طرف ریلوے اور پولیس انتظامیہ نے یہ طے کر رکھا تھا کچھ بھی ہو، ٹرین اپنے قانونی وقت (سرکاری سٹاپ، جو شاید دو منٹ کا تھا) سے بڑھ کر ٹرین نہیں رکی گی۔ لڑکوں نے پولیس کے اس فیصلے کی نوید سنتے ہی طے کرلیا کہ کون لڑکا کیا کرے گا۔ میرے ساتھ چند دیگر دوستوں کی وہیں یہ ڈیوٹی لگ گئی کہ اگر ٹرین معمول سے ہٹ کر نہ رکی اور بھٹو صاحب کی تقریر پولیس نے نہ ہونے دی تو ہم ٹرین کو پہلے ہی بڑھ کر جنوبی پھاٹک پر روک لیں گے، اور ٹرین اس وقت تک نہیں چلے گی جب تک ہمارا مطالبہ منظور نہیں ہوگا۔

چند ہی منٹوں میں یہ غلغلہ مچا کہ شمالی پھاٹک بند ہو گیا ہے جس کا صاف مطلب تھا کہ ٹرین پہنچا ہی جاتی ہے۔ سارے لڑکے الرٹ ہو گئے دوسری طرف پولیس میں بھی بھاگم بھاگ مچی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک لانبے قد کے سرخ و سفید  وجیہہ نوجوان نیلا سوٹ پہنے پلیٹ فارم پر داخل ہوئے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا وہ ٹاؤن کے ڈپٹی کمشنر حسنات احمد تھے۔ میں نے ان کا نام اپنے کزن خلیق سے سن رکھا تھا کیونکہ وہ میرے دوسرے کزن کے بہت اچھے اور پرانے دوست تھے۔ ان کے پلیٹ فارم پر داخل ہوتے ہی پولیس افسران و دیگر ایجنسیاں انکی طرف متوجہ ہو گئیں۔

اتنے میں ٹرین کا انجن دن میں بھی اپنی روشنیاں جلائے، ہارن بجاتا لیکن سست رفتاری سے نمودار ہو ا، اور رفتہ رفتہ پلیٹ فارم کی طرف بڑھنے لگا۔ پلیٹ فارم پر لڑکوں نے بھٹو زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ پولیس کو شاید ان کے نعرے پسند نہیں آئے، انہوں نے لڑکوں کو بلا وجہ ٹرین سے چند فٹ پیچھے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ لڑکوں نے بھی جواب دینا شروع کر دیا، یوں ٹرین کے پلیٹ فارم پر پہنچنے تک باقاعدہ ایک ہنگامہ شروع ہو گیا جس پر پولیس نے سٹوڈنٹس پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔

لاٹھی چارج شروع ہوتے ہیں لڑکوں کی جیبوں سے پتھر نکل آئے جو انہوں نے پولیس پر پھینکنے شروع کر دیے۔ ایسے میں ٹرین کے رکنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا اور وہی ہوا۔ ٹرین سست رفتاری سے پلیٹ فارم سے گذرتی ہوئی آگے نکلنے لگی۔ اس پر تو نوجوان بگڑ گئے۔ کہاں بھٹو صاحب سے ملاقات اور خطاب کی امید؟ کہاں ٹرین کا مسلسل سست رفتاری سے اپنے سفر کو جاری رکھنا۔ لڑکے غصے میں بپھر گئے، اور جب نوجوان غصے میں بپھر جائیں تو ان کے ہوش و حواس کہاں قابو میں رہتے ہیں۔ سو یہی ہوا۔

مجھ سمیت جن دس بارہ لڑکوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ اگر ٹرین نہ رکی تو ہم اسے جنوبی پھاٹک پر روک لیں گے۔ سو وہ وقت آگیا ہمیں اندازہ ہو گیا کہ ٹرین اب نہیں رکی گی کیونکہ انجن مسلسل ہارن بجاتا ہوا جنوبی پھاٹک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اب یہ انجن ڈرائیور کی مرضی تھی، یا اسے مقامی انتظامیہ نے نہیں رکنے دیا، ہمیں معلوم نہیں تھا۔ چند لڑکے بھاگ کر انجن پر سوار ہوگئے لیکن انہیں پہلے سے انجن پر کھڑی پولیس نے ڈنڈے مار کر نیچے اتار دیا۔

اب ہم کوئی پچاس کے قریب لڑکے ٹرین کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے جنوبی پھاٹک کی طرف لپکے تاکہ پھاٹک والے سے چابی لے کر ٹرین کے لیے پھاٹک بند کر دیا جائے۔ اسی اثنا میں شاید بھٹو صاحب نے بھی اندر سے دیکھ لیا کہ پلیٹ فارم پیچھے رہ گیا ہے اور یہاں ٹرین نہیں رک رہی ہے۔ انہوں نے موقع دیکھ کر بوگی کا دروازہ کھول دیا اور خود اس میں کھڑے ہوگئے اور بلند آواز میں ٹرین کے ساتھ بھاگتے لڑکوں کو یعنی ہمیں پکارا۔ جواب میں ہم بھاگتے بھی جا رہے تھے اور نعرے بھی لگا رہے تھے، اور بھٹو صاحب کو ہاتھ ہلا ہلا کر پرجوش طریقے سے والہانہ نعرے لگا رہے تھے۔

اب ٹرین کی رفتار کچھ تیز ہونے لگی۔ کچھ لڑکوں نے ٹرین پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے بلکہ پچھلی بوگیوں پر جو لڑکے پہلے سے چڑھ چکے تھے ٹرین کی رفتار تیز ہوتے ہی سگنل کے پول سے ٹکرانے کے خوف میں گھبرا کر نیچے پتھروں پر چھلانگیں لگا نی شروع کر دیں۔ ان لڑکوں کو ان کے پیچھے بھاگتی پولیس نے وہیں گرفتار کر لیا۔ باقی ماندہ پولیس ابھی تک لڑکوں کے پیچھے ڈنڈے ہاتھ میں تھامے بھاگ رہی تھی۔

اسی ہڑبونگ میں نے بھی بھٹو صاحب کی بوگی کے داخلی دروازے کے ہینڈل کو پکڑ کر ٹرین پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن تیز رفتاری کی جہ سے ہینڈل تک نہ پہنچ سکا۔ اوپر بھٹو صاحب کھڑے فضا کو اپنے نعروں سے مزید پُرجوش اور ہیجان خیز بنا رہے تھے۔ اسی کشمکش میں مجھے یہ لگا کہ بھٹو صاحب مجھے کچھ کہہ رہے ہیں، لیکن سچ پوچھیے کہ ٹرین کی گڑگڑاہٹ، اس کے انجن کا مسلسل ہارن بجائے رکھنا، لڑکوں اور پولیس کا شور، ساتھ میں چلتی سڑک پر ٹریفک ہارن، مجھے لگا کہ بھٹو صاحب مجھ سے مخاطب ہیں۔ انہوں نے کیا کہا مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ میں اس وقت تو جذبات کی رو میں تقریباً نیم پاگل سا تھا۔

اور یہی وجہ تھی کہ ٹرین کی تیز رفتاری کے باوجود ہم پندرہ بیس لڑکے اسی پاگل پن میں ابھی تک ٹرین کے ساتھ مسلسل بھاگ رہے تھے، چونکہ میں ان سب لڑکوں کولیڈ کر رہا تھا۔ بھٹو صاحب کی قربت، ان کے نعروں اور جذباتی لگاؤ سے مجھے لگا کہ بھٹو صاحب واقعی نوجوانوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

محبت اور کچھ کر گذر جانے کے اسی احساس نے اندرونی طور پر ہمارے جذبات اور ولولہ کو مہمیز دی تھی، یوں لڑکوں کی ٹرین کے ساتھ بھاگنے کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔ لیکن اب ٹرین آگے نکل چکی تھی۔ جنوبی پھاٹک ٹرین کی تیز رفتاری کی وجہ سے پہلے ہی گذر چکا تھا۔ اب ٹرین ٹریک کے ساتھ ساتھ ہی جی ٹی روڈ چل رہا تھا۔ میرے پیچھے آنے والے لڑکوں نے شور مچایا کہ اگلے پھاٹک پر پہنچو، وہاں ٹرین روکیں گے۔ ہمیں سمجھ ہی نہ آئی کہ اب ٹرین کی تیز رفتاری سے بھلا ہمارا کیسے مقابلہ ہو سکتا ہے۔

اور وہی ہوا، رفتہ رفتہ ٹرین اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے ہارن بجاتی ہوئی ہم سے آگے نکل گئی۔ میں جذبات کی رو میں مسلسل بھاگ رہا تھا کہ لڑکوں کی پیچھے سے آنے والی آوازیں بند ہو گئیں، چند لمحوں بعد احساس ہوا تو ساعت بھر کو اپنے ساتھیوں کو دیکھنے کے لئے رکا اور مڑ کر دیکھا تو سبھی ساتھی غائب تھے۔

حیرت زدہ ہی تھا کہ میرے پیچھے لگے تین چار پولیس والوں نے مجھے دبوچنے کی کوشش کی۔ میں نے پھرتی سے دائیں جانب نکلنے کی کوشش کی تو وہاں چند پولیس والے پہلے سے ہی کھڑے تھے۔ لہٰذا گورنمنٹ کالج کے جوائنٹ سکریٹری نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی گرفتاری پیش کر دی۔ پولیس والوں نے مجھے گریبان سے دبوچا اور دائیں جانب جی ٹی روڈ پر کھڑی پولیس کی گاڑیوں میں ایک میں پٹخ دیا۔

پولیس سے کیسے چھٹکارا حاصل ہوا؟ یہ واقعہ بہت طویل ہے کسی اور نشست میں اس کا ذکر کریں گے۔ البتہ بعد میں بھٹو صاحب سے چند لمحوں کی قربت اور لڑکوں کے تجسس بھرے سولات نے، کہ بھٹو صاحب تمیں کیا کہہ رہے تھے؟ نے مجھے ایک طویل عرصہ تک مسحور رکھا۔


تتلیوں کے دیس میں: سچ مچ کہانیاں
بابِ سوئم

نوٹ: اس کہانی کا مقام ، وقت اور کردار اندیشہ ہائے نقصِ امن و مفادِ دوستاں تبدیل کر دیے گئے ہیں، تاہم کہیں کہیں ان واقعات کی سچائی کے پیشِ نظر تبدیلی یا مماثلت محض قارئین کا فریبِ نظر تصور کیا جائے، مصنف صرف واقعات رقم کرنے کا گنہگار ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔

1 Comment

  1. تحریر کے ساتھ ایک عہد کا دریا بھی چلتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ امیدوں اور امنگوں بھرا عہد؛ اور وہ آس کہ سب ممکن ہے۔

Comments are closed.