( زمرد مغل)
دلی میں اس وقت اردو زبان و ادب کے حوالے سے جتنا کام ہورہا ہے اتنا شاید ہی کسی زمانے میں ہوا ہو گا شاید کسی بھی زمانے میں اتنی پزیرائی ہندی اردو زبان کے لکھاریوں کو ملی ہوگی جتنی آج ۔دلی صرف ہندوستان ہی کی راجدھانی نہیں ہے بلکہ اب تو زبان و ادب اور کلچر کی راجدھانی بن گئی ہے جو شعلہ یہاں سے اٹھتا ہے اس کی روشنی ادبی دنیا کو بھی روشن کردیتی ہے اس تیز رفتار زندگی میں دلی بھی بہت بدلی ہے اور دلی والے بھی ۔اردو زبان جس نے یہاں جنم لیا کی حالت بھی آزادی کے بعد کچھ اچھی نہیں رہی کئی سال ایسے ہی گزر گئے اردو زبان و ادب پر اتنا مشکل دور تو شاید ہی کبھی آیا ہو گا کہ اس کے اپنوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔کسی بھی زبان کو نئی نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی اس زبان کے بولنے والوں کی ہوتی ہے ہم ہندوستانی اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی بے حس ثابت ہوئے ہیں کہ ہم نے اپنی بے حسی کے سبب اپنے تہذیبی اثاثوں کو جس طرح پامال کیا ہے اس کی نظیر بھی زندہ زبانوں میں ملنا مشکل ہے اس بے فکری اور بے خیالی میں ہم نے کئی برس گزار دہیے جن کا حساب اگر وقت مانگنا چائے تو ہم نہیں دے پائیں گے ۔اردو زبان بہت سخت جان ہے اسے ختم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوئی ہے اور آج اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں اس کے اشعار آپ کو ٹویٹر سے لے فیس بک اور بلاگ پر نظر آتے ہیں تو لگتا ہے یہ ہر دور کی زبان ہے اور آگے بھی اناسن جتنی ترقی کرتاجا ئے گا اردو زبان اور اس کی شاعری کی اتنی ضرورت پیش آئے گی ۔آہستہ آہستہ دنیا بھر میں اس زبان کے چاہنے والوں میں اضافہ ہوا ہے ۔دلی میں جشن ادب نامی ایک فاؤنڈیشن نے پچھلے پانچ سال سے اس زبان کی بقا کے حوالے سے جتنی سنجیدہ کوششیں کی ہیں اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔رنجیت چوہان نامی ایک دیوانہ شخص جو خود شاعر بھی ہے نے اس چراغ کو روشن کررکھا ہے اور اس کی روشنی سے ہندوستان کے مختلف شہروں کو روشن کررہا ہے ۔دلی کے علاوہ لکھنو ،رائے بریلی اور ممبئی میں جشن ادب پروگرام کرتا ہے اور اچھی بات ہی ہے کہ اس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں جس میں نئی نسل کی اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے اور یہی نئی نسل اس زبان کی بقا کی ضامن بھی بنے گی کے آنے والے نسلیں رشک کرسکیں گی کہ جشن ادب نے ان کے ادبی ذوق کی آبیاری کی ہے۔منشی نول کشور نے اردو کو زندہ رکھنے میں اردو کی زندہ توانا اور طاقتور تحریروں کو نئی نسل تک پہنچانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ آج ہمارے پاس جتنی بھی اہم کلاسیک کتابیں ہیں وہ منشی نول کشور کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ آج زمانہ بدلا ہے بہت سی چیزوں نے اپنی اہمیت کھودی ہے بہت سی زوال پذیر ہیں اور بہت سی نئی چیزوں نے زندگی، ذات اور وجود کی جگہ لے لی ہے۔ نیا زمانہ انٹر نیٹ کا زمانہ ہے کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ گوگل، یوٹیوب، اور فیس بک کی دنیا پر حکومت ہے۔ منشی نول کشور کو آج کے زمانے میں اردو کی صورت حال ایک جیسی نہیں ہے کہ اس زمانے میں اردو پڑھنے اور خاص طور سے ادب پڑھنے والوں کی تعداد آج سے بہت زیادہ تھی کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی تھیں، مگر آج صورت بالکل مختلف ہے۔ جشن ادب نے بہت جلد صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے دیکھتے ہی دیکھتے اتنے کم وقت میں اس ادارئے نے بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
کنوررنجیت چوہان جشن ادب کے ذریعے ہندستان اور پاکستان کے اہم لکھنے والوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں جہاں دونوں ملکوں کے ادیب ایک سازگار ماحول میں زبان و ادب پر گفتگو کرسکیں ۔یہ ہندوستان کا پہلا ایسا ادارہ ہے جہاں اردو اور ہندی کے اہم ترین لکھنے والے ایک جگہ جمع ہوکر دوزبانوں کے ادیبوں کو قریب لانے کا کام کررہاہے اس سے پہلے اس طرح کی کوششیں نہ کے برابر ہوئی ہیں اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جشن ادب اس وقت اردو اور ہندی کا واحد ایسا ادارہ ہے جو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے ادیبوں کو پاس لانے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے ۔یہ فاؤنڈیشن سال میں جشن ادب کے نام ایک ایوارڈ بھی دیتی ہے جو ایک سال کسی ہندوستانی اور ایک سال کسی پاکستانی کو دیا جاتا ہے ۔یہ ایوارڈ اس سے پہلے کشور نائید،پیرزادہ قاسم ،خوشبیر سنگھ شاد ،اشوک چکردھر اور اس سال کا یہ ایوارڈ جاوید اختر کو دیا گیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی جشن ادب ،پاسبان ادب ،پاسبان صحافت جیسے ایوارڈ کا اہتمام بھی کرتی ہے جو اپنے شعبہ میں اہم خدمات انجام دینے والوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔آپ یو ٹیوب پہ جشن ادب کے کئی ویڈیوز بھی دیکھ سکتے ہیں جہاں مختلف موضوعات پر گفتگو کا اہتمام جشن ادب نے کیا ہے اس طرح جدید ذرائعے سے نئی نسل تک اردو کو پہچانے کا کام بھی بڑی خوش اسلوبی سے کیا جارہا ہے اردو اور ہندی ادب ،صحافت اور فلم پر کئی ویڈیوز آپ دیکھ سکتے ہیں جو نئی نسل میں زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی پیاس کو بجھانے کا کام کررہا ہے کئی شاعروں کا کلام آپ جشن ادب کے یو ٹیوب چینل پر سن سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ اردو اور ہندی کی اہم شخصیات سے کی جانے والی گفتگو بھی آپ اس چینل پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اردو ہندی کے خزانے کو ایک جگہ جمع کرنے کاکام جشن ادب نے کیا ہے اردو ایک ایسی زبان ہے جس نے گنگا جمنی کردار نبھاتے ہوئے مختلف مذہب کے ماننے والوں کو اتحاد کی لڑی میں پرونے کا کام کیا ہے۔ اردو زبان نے تحریک آزادی ہند میں اہم کردار ادا کیا اس وقت یہ بغیر رنگ ونسل اور مذہب و ملت کی زبان تھی۔
جشن ادب ہندستان کے مختلف شہروں میں کی جانے والی گفتگو کو ہی آپ تک پہنچانے کا کام کر رہی ہے بلکہ اس تہذیب اور تمدن کی جڑوں کو بھی مضبوطی عطا کر رہی ہے جو کہیں نہ کہیں کمزور پڑتی جارہی تھیں۔ اس وقت جشن ادب واحد ایسا ادارہ ہے جو ہندوستان میں بولی اور سمجھی جانے والے دو سب سے قریب ترین زبانیں اردو اور ہندی کو لے نہایت ہی سنجیدگی سے کا م کررہا ہے جشن ادب دنیا بھر کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے لئے مرکز کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے اور خاص طور سے دلی میں تو یہ آرٹ اور کلچر کو دوبارہ زندہ کرنے کا کام کررہا ہے جس کے لیے کنور رنجیت چوہان قابل مبارک باد بھی ہیں اور قابل تقلید بھی کہ انہیں دیکھ کر اسی خاک سے اور دیوانے اٹھیں گے اور اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اسی طرح زبان و ادب کا یہ کارواں اپنا سفر جاری رکھ سکے گا ۔ اتنے کم عرصہ میں جو کچھ جشن ادب نے کیا ہے اور ہندی ،اردو کو قریب لانے کا کام کیا ہے ساتھ ہی ساتھ نئی نسل کو زبان کے قریب لانے کا کام کیا ہے وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اردو اور ہندی کے اہم ترین لوگوں کی گفتگو دنیا کے کسی کونے میں بیٹھا شخص اگر سننا چاہیئے تو جشن ادب کے یوٹیوب چینل پر سن سکتا ہے اور یہ سلسلہ جس تیزی سے جاری ہے زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے اور اس میں وہ سب کچھ بدل جائے گا، ختم ہوجائے گا جو اپنے اندر اسے بچانے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ زبان وادب کو بھی یہ مسائل درپیش ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بڑی بڑی زبانیں نئے زمانے سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ جشن ادب ہندی، اردو زبان و ادب کو درپیش مسائل پر بھی سنجیدہ ہے اور اس کے لیے وہ ہندوستان میں اس طرح کے موضوعات پر گفتگو کا اہتمام کرتا رہتا ہے جس میں اردو ہندی کے اہم لکھنے والے شامل ہوتے ہیں ۔جشن ادب اردو ، ہندی اور اس کے ادب کو زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے پلیٹ فارم بھی مہیا کر رہی ہے۔آوازوں کے اس جنگل میں جہاں ہر کوئی ادب کو لے کر بڑے بڑے دعوے کر رہا ہے جشن ادب نے خاموشی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں اس کی آواز کو دور سے پہچانا جاسکتا ہے اپنے سفر کے اس پانچ سالوں میں اس نے ترقی کی کئی کنزلیں طے کی ہیں اس وقت جشن ادب کی آواز صاف پہچانی جاسکتی ہے۔ اردو کے چاہنے والوں نے سات سمندر پار اردو کے جزیرے آباد کیے، اردو ایک لمبے عرصہ سے اردو پر کچھ مفاد پرست آستین کے سانپ مسلط ہیں جو اپنے حقیر مفاد کے لئے اردو کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کنوررنجیت چوہان ایک بے لوث خادم کی طرح اردو کے افق پر نمودار ہوئے اردو کی جینون آوازوں کو اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے دنیا تک پہنچانا اردو کے بڑے ادب اور ادیبوں کو دنیا تک پہنچانا اردو کے مستحق ادب دنیا کے سینکڑوں ممالک تک ممکن بنانا جو ایک بہت بڑا کام ہے اور اس کام کو جشن ادب بلاشبہ خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے ۔