جمہوریت پر ایک زاویہ

ادارتی نوٹ: گوکہ ہم باقی تحاریر کے متعلق عمومی طور پر بھی کہتے ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر بھی گوش گُزار کرنا ضروری ہے کہ یہ مضمون کسی طرح بھی “ایک روزن” ادارے کی رائے یا پالیسی کا مظہر نہیں۔ اس مضمون کو شائع کرنے کا مقصد اُس متبادل بیانیے کی نمائندہ تحریر کو پیش کرنا ہے جو ملک عزیز میں موجود ایک اچھا خاصہ آبادی کا حصہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ مضمون ایک طرح سے تو ہمارے موجودہ وقت کے جمہوری نمائندوں کے لئے اپنی اصلاحِ احوال کے لئے اہم پیغام ہے، تو دوسری جانب یہ تحریر ہمارے قارئین کرام پر یہ بات واضح کرنے کی صلاحیت کی حامل کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام میں اصلاحات کرنے کے لئے ایک انتہائی اہم پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں موثر طور پر شرکت کرنے کے عمل کو آسان اور سستا کیا جانا چاہئے۔ ملاحظہ کیجئے!
——————————————————————
فرہاد علی
جنگل کا بادشاہ شیر روز بروز کمزور ہونے لگا تو تیز بھاگنے والے جانور اس کی دسترس سے باہر ہونے لگے۔ گزر اوقات کے لئے شیر چھوٹے موٹے جانوروں کا شکار کرنے لگا ۔ مگر شیر کی بہادری پر سوالات اٹھنے کا اندیشہ تھا ۔ شیر نے پروپیگنڈے کے بارے میں سنا تو اس نے ایک لومڑی اور ایک گیدڑ کو ہائر کیا۔ شیر، لومڑی اور گیدڑ کو ایک آدھ ہڈی دے دیتا تھا اور پھر ان کو جنگل میں بھیج دیتا تاکہ وہ جنگل میں بادشاہ سلامت کی رحم دلی، بہادری اور رعایا سے محبت کی داستانیں عام کریں۔ لومڑی اور گیدڑ کو بیٹھے بٹھائے پیٹ بھر کھانا بھی ملتا اور جنگل میں ان کا رعب بھی قائم ہوگیا۔ دو وقت کے کھانے کے لئے خوار ہونے والے گیدڑ اور لومڑی کے وارے نیارے ہوگئے اور وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن گئے ہیں۔ انہوں نے جنگل میں شیر کی ایسی ساکھ بنائی کہ اگر کوئی اس کی قتل و غارت پر نکتہ چینی کرتا تو جنگل کے جذباتی بندر اور دوسرے نادان جانور اس کو جنگل کا غدار کہتے، دشمن کا ایجنٹ مشہور کرتے اور فسادی کے القابات سے نوازتے تھے۔ وہ بے چارہ جنگل میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ اس طرح شیر کو شکار اور لومڑی اور گیدڑ کو پس خوردہ ملتا رہا۔ بندر اچھل اچھل کر شیر کے حق میں نعرے لگاتے اور شیر کا کاروبار چلتا رہا۔

جمہوریت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ عالمی معاملات کو اپنی مٹھی میں رکھنے والوں نے کچھ ایسے بندے ہائر کر رکھے ہیں جو اپنے پس خوردہ کے عوض جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور بندر مفت میں اس کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔ بد قسمتی سے بندروں کی تعداد ملک عزیز میں عام تناسب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ یوں تو جمہوریت نامی کوئی چیز اگر ہے تو صرف عالمی سامراج کے مفادات کا مہرہ ہے۔ مفادات پر زد پڑتی ہے تو جمہوریت کو دیوار سے اور آمروں کو سینے سے لگایا جاتا ہے۔ ایک ایک ملک کا نام لینا مشکل مگر جنوبی ایشیا، جزیرہ نما عرب ، افریقہ، مشرق وسطی اور کچھ دوسرے متفرق ممالک اس میں شامل ہیں۔

لیکن چلو تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ایک پاک صاف اور پوتر نظام اس دھرتی پر پایا بھی جاتا ہے تو بھی اس میں سو چھید ہیں جن میں کمزور طبقے نکل جاتے ہیں اور زور آور گھس آتے ہیں۔جمہوریت خواہ کہیں بھی ہو، انتخابات اس کا لازمی جزو ہے اور اس کے اختیارات انسانوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو اس پر طرح طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر بھی اور قانونی طور پر بھی۔ غیر قانونی طور پر تو سب ہی غلط تسلیم کرتے ہیں اگرچہ اس چور دروازے کا سدباب بھی ضروری ہے مگر قانون کی طرف سے اجازت ملنا چہ معنی دارد۔  نیز اس کے لئے وسائل بھی بے پناہ درکار ہوتے ہیں ایک آدمی اگر محب وطن ہے اور انتظام و انصرام کی صلاحیتوں سے مالامال ہے تو جب تک اس کے پاس کمپین چلانے، میڈیا اور اینکر خریدنے، اشتہارات چلانے اور چھپوانے، سائن بورڈز بھرنے اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے گنجینئہ قارون نہ ہو تو یہ آدمی عمر بھر کی تگ و دو اور خدمت خلق سے اپنے یونین کونسل کا ناظم تو بن سکتا ہے وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔

اگر کوئی شخص ڈونیشن کا سہارا لے گا تو جو سرمایہ دار  سرمایہ لگاتے ہیں  وہ سود سمیت وصول کرتے ہیں۔  جن لوگوں کو کروڑوں کی گاڑیاں دینے کے بعد ٹکٹ ملتا ہے وہ اربوں کا غبن کرتے ہیں۔ بعض حضرات لے دے کے نیلسن منڈیلا کی مثال دیں گے۔ اربوں کی آبادی میں ایک شخص اور بھی دہائیوں کی قید و بند کے بعد۔ یعنی بے چارہ غریب جوانی کے ایام جیل کی سلاخوں کی نذر کرے گا تو کہیں جا کر اس نظام کا اعلی منصب حاصل کرے گا۔ البتہ جمہوریت کا یہ تابناک اور حسین چہرہ ملاحظہ کیجئے کہ ایک ایسا لڑکا جس کے شائد دانت بھی ابھی پورے نہیں نکل پائے وہ ولی عہد بھی بن سکتا ہے اور طویل مدت تک وزارت اعلٰی کے عہدہ پر فائز شخص کو اشارۂِ ابرُو سے نکال  باہر بھی کر  سکتا ہے۔

انتخابات پر اثر انداز ہونے کے ثمرات دیکھئے کہ قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ایک ڈکٹیٹر کے مقابلہ میں ہرایا گیا اور بقول کسے اگر خود قائداعظم ہوتے تو بھی ہار جاتے۔ یہاں یار لوگ بڑی چالاکی سے سارا ملبہ مذہبی طبقہ پر ڈال دیتے ہیں کہ فاطمہ جناح ان کے فتوؤں کی وجہ سے ہار گئی، مگر ایوب خان کے وہ سارے داؤ پیچ نظر انداز کردیتے ہیں جو انہوں نے فاطمہ جناح کو ہرانے کے لئے جمہوریت کی چھتری تلے اختیار کئے۔ یہ جمہوریت میں وہ چھید ہی ہیں جن سے ایوب خان اقتدار میں گھس آئے اور فاطمہ جناح کو باہر کیا۔

اگر مال و دولت کے بَل بوتے پر دیانت دار اور مخلص قیادت سامنے آتی تو اقتدار کو اسی طبقہ کا حق سمجھ کر مسلمان تقدیر، نصیب اور خدا کی تقسیم اور غیر مسلم طبقاتی تقسیم اور جرمِ ضعیفی سمجھ کر سہہ لیتے مگر درد اس وقت زیادہ ہو جاتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ چوری ، قتل، اغوا اور زنا جیسے جرائم میں جیل کی ہوا کھانے والے لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری اور ناجائز دھن سے اقتدار کی کرسی پر پہنچ جاتے ہیں اور قانون کے رکھوالے ان مقدس چوروں اور ڈاکوؤں کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ جمہوریت کا یہ پہلو کتنا تابناک ہے کہ حقیر سے حقیر ملازمت کے لئے صلاحیت، تعلیم اور نیک کردار ضروری ہے مگر قیادت جیسا “بے کار” اور “ادنٰی” عہدہ نیم پاگل ، انگوٹھا چھاپ ، پارلیمنٹ میں خراٹے لینے والا اور کرپٹ شخص بھی حاصل کر سکتا ہے۔ شومئی قسمت کہ ہمارے ملک میں ایسے ہی لوگ اقتدار حاصل کرکے گلچھرے اڑا رہے ہیں۔

جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جمہوریت نے ستر سال میں اس ملک کو کیا دیا تو جواب دیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو تو پنپنے ہی نہیں دیا گیا ۔ ڈکٹیٹروں نے اس پر شب خون مارا اور آدھے سے زیادہ عرصہ ڈکٹیٹر شپ کی نذر ہوگیا مگر پریشانی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ہم اپنے پڑوسی ملک کو دیکھتے ہیں کہ وہاں پر تو روز اوّل سے جمہوریت ہی چلی آرہی ہیں مگر وہاں بھی صورت حال کم و بیش ایسی ہی ہے۔ ایک پڑوسی ملک پر ہی کیا موقوف، تمام ترقی پذیر ممالک کی صورت حال جمہوریت کے باوجود یہی چلی آرہی ہے کیونکہ یہی عالمی سامراج کو مطلوب ہے۔

یہ کچھ الجھنیں ہیں جو الجھتی ہی چلی جارہی ہیں اور کچھ سوالات ہیں جو پریشان کئے جا رہے ہیں مگر ڈر لگتا ہے ان  گیدڑوں اور لومڑیوں سے جو ایک ہڈی کے عوض آدمی کو ملک دشمن، بُوٹوں کا شیدائی، ملک کو پیچھے لے جانے والا، گنبد کا باسی، تخیلاتی دنیا کا اسیر، تنگ نظر اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔ ان کو تو چلو پھر بھی کچھ مل رہا ہے مگر ان بندروں کا حال عبد اللہ دیوانے کا ہے جو دوسروں کی شادی میں ناچ رہے ہیں۔