(ذوالفقار علی)
پاکستان میں جو چیز تواتر کے ساتھ دُہرائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ فلاں کو اب جمہوریت بچانے کیلئے قربانی دینے پڑیگی۔ آخر جمہوریت اتنی بے پایاں اور کمزور کیوں ہے جس کو بچانے کیلئے ہر بار کسی نہ کسی کو بلی چڑھنا پڑتا ہے؟ آئیے اسکا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد ہی یہ سوال کھڑا ہو گیا کہ اس مُلک کو کس نظام کے تحت چلایا جائے۔ شروعات کہاں سے ہوئی اور کون کون اس کو بچاتے بچاتے تاریک راہوں میں مارا جاتا رہا اس کیلئے ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر جو اس مُلک کی سمت تعین کرنے میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کو دبانے کی ہر مُمکن کوشش کی گئی تھی اللہ بھلا کرے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حُسین کا جو وہ جمہوری مُخالف قوتوں کے پریشر میں نہ آئے اور وہ تقریر چھاپ دی گئی۔ اس کے بعد قرار داد مقاصد نے جمہوریت کو بے ردا کیا اور لوگوں کے جمہوری حقوق پہ ڈاکہ ڈالا۔ اس کے بعد 1956کے آئین کی تشکیل کا عمل شروع ہوا تو غیر جمہوری طاقتوں نے اپنے ہرکاروں کے ذریعےاس میں خوب من مانیاں کیں اور ریاست کو مذہب کے تابع کر دیا گیا۔ یہ نامکمل آئین بھی زیادہ دیر جانبر نہ ہو سکا اور 7 اکتوبر 1958 کو پہلی بار مُلک میں بلاواسطہ طور پر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔
اس کے بعد جو اہم واقعہ ہوا وہ فاطمہ جناح کو مُلا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں شدید رُسوا کیا گیا اور مُلک میں باقاعدہ طور پر الیکشن چُرانے کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ پھر 1962 کے آئین کو تشکیل دیا گیا جس میں صدر کو لامحدود اختیار دے دئیے گئے اور ایوب خان کی آٹو کریسی کو عوام پے مسلط کر دیا گیا۔ اس دور میں آمریت نے کیا کیا گُل کھلائے کون کون جمہوریت کی خاطر قربان ہوا اس سیاہ تاریخ پے پردہ اُٹھ چُکا ہے۔ اسی اثنا میں عالمی حالات اور مُلک کے اندر کے جبر نے ایوب خان کو کمزور کیا اور اُس کی صحت بھی بگڑ گئی تو جنرل یحییٰ خان نے ایوب کو سُرخ بتی دکھائی اور مشرقی پاکستان میں ظُلم اور بربریت کی ایسی مثالیں رقم ہوئیں جس کی مثال ماضی قریب کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
بالآخر جمہوریت کو بچاتے بچاتے مُلک دو لخت ہو گیااور اس کا الزام ماضی کی طرح سویلین حکومت پر ڈال کر حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سلسلہ یہاں رُکا نہیں بلکہ بھُٹو کو جمہوری حکومت سمیت جنرلوں نے مُلک کے “وسیع تر مفاد” میں گرا دیا۔ اور اس کے بعد سیاسی جبر، مذہبی منافرت، تشدد، عدم برداشت، اسلحہ، پراکسی وار، ہیروئن، کلاشنکوف اور ڈالر بانٹ کی ڈائن نے کتنے لوگوں اور اداروں کو نگل لیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بُھگت رہے ہیں۔ ضیاکی ظُلمت کا اندھیرا اُس وقت چھٹا جب وہ جہاز سمیت بھسم ہو گیا۔ آئے کاش اُس کی لگائی ہوئی فصلیں بھی اُس کے ساتھ بھسم ہو جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا۔ بُھٹو کی بیٹی نے ان فصلوں کو کاٹنے کی سعی کی مگر اُس کے خلاف زہریلا اور بے بُنیاد پروپیگنڈہ کر کے اُس کی حکومت کو لپیٹ دیا گیا۔ اس بار یہ کام اسٹیبلشمنٹ کے ہرکاروں اور گُماشتوں نے سر انجام دیا۔ آمریت کی یہ لڑائی اپنی شکلیں بدل بدل کے عام پاکستانیوں کو نوچتی رہی، کاٹتی رہی اور سیاسی حکومتوں کے گریباں چاک ہوتے رہے اور سچ پر پردے ڈالے جاتے رہے سیاست اور سیاست دانوں کو بُرا بھلا کہہ کے بے وقعت کیا جاتا رہا اس اثنا میں مُشرف مُکا لہراتے ہوئے براجمان ہوئے ایک اور مُنتخب حکومت کو اپنے غیر قانونی اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے گرا دیا۔ پھر جبر و ظلمت کے اندھیرے پاکستانی عوام کا مُقرر بنے، پھر لا وارث جمہوریت کو بچانے کیلئے وہی خاندان کام آیا جو کیسے کیسے نگینے اس پر لُٹا چُکا تھا۔
اس بار آمریت نے مُحترمہ بی بی کا خراج مانگا تو اُس نے ہنستے ہوئے بیچ عوام کے “راٹھ پنڈی” کو اپنا لہو پیش کیا۔ یہ قُربانی رائیگاں نہیں گئی پہلی بار مُلک کی 66 سالا تاریخ میں ایک مُنتخب جمہوری حکومت نے دوسری مُنتخب حکومت کو اقتدار انتقال کیا۔ مگر زرداری حکومت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواریوں نے جس طرح بدنام کیا اور اپنے پُرانے تیروں سے وہ زخمی کیا “جس تن لاگے وہ تن جانے” ۔ اب کی بار پھر قُربانیوں کی ہوائیں چل رہی ہیں، پھر عدالتیں لگ چُکی ہیں، پھر پاکستان کے اصل حُکمرانوں کے سیاسی چہرے سرگرم ہو چُکے ہیں، پھر درباری اپنی اپنی صفیں اور بساط بچھا چُکے، پھر نئے پاکستان کا راگ الاپا جا رہا ہے، پھر غداری کے سرٹیفکیٹ بٹ رہے ہیں، پھر مُلک کے وسیع تر مفاد میں سچ کو دبایا جا رہا ہے، پھر جمہوریت کو بدنام کر کے لوگوں کو انقلاب کا پرساد بانٹا جا رہا، پھر نئے ہیرو تراشے جا رہے ہیں اور پھر بندروں کے ہاتھ اُسترے دے دئے گئے۔ اب کی بار دیکھتے ہیں اقتدار کی حوس کس کس کا خراج مانگتی ہے اور کون کون جمہوریت کی پیاسی فصل کو اپنے خون سے سیراب کرتا ہے! عدالتوں کے ریمارکس سے لگ رہا ہے کہ موجودہ نظام اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے!