کچھ دن پہلے جامعہ کراچی کی ایک طالبہ لیلیٰ رضا کا کسی سائیٹ پر لکھا ایک بلاگ ”جامعہ کراچی میں جنسی ہراسانی پر مجرمانہ خاموشی“ نظروں سے گزرا بہت ہی دلخراش حقیقت سے روشناسی ہوئی ۔یہ ایک ایسے جرم کی داستان تھی جو عموماً معاشر ے کے کم فہم،جاہل،تربیت سے عاری اور معاشی بدحال طبقے سے جڑاہوا ہی محسوس کیا جاتا ہے ۔جسے بربریت ، بے حسی اور ہوس پر مبنی،سنگدلی سے لتھڑی ایسی روحوں کی کاروائی گردانا جاتا ہے جو درندگی کے زہریلے کنوئیں کا بدبودار پانی پی کے نمو پاتی ہیں ۔ایسے میں تو شاید یہ سوچنا بھی محال ہی ہے کہ وہ طبقہ جو علم و ہنر اور شعور وآگاہی کے اوصاف سے فیض یاب ہو جسے معاشرے کا ایسا نایاب اور قابل احترام طبقہ سمجھا جائے جو نسل انسانی کی روح سازی کا باعث ہے ،جو ایک ایسے پیشے سے وابستہ ہو جسے پیغمبرانہ درجے کا حامل سمجھا جاتا ہو ۔اس میں سے بھی کچھ لوگ ایسے انسانیت سوز واقعات میں اس طور ملوث پائے جائیں گے کہ عقل انسانی تحیر کے عالم میں اپنے ہوش اور خرد کی انگلیاں کاٹ کھائے گی ۔بظاہر تو یہ درسگاہوں میں اساتذہ کے طالبات سے روا رکھے جانے والے اخلاق سوز رویے کا کوئی نیا یا اچھوتا واقعہ نہ تھا ۔ کیونکہ یونیورسٹیوں میں کچھ بہک جانے والے ایسے اساتذہ جو اپنے مقام سے گر کر علم اور فہم و فراست کے بھرم کی دھجیاں اتارتے ہیں وقتاً فوقتاً ان کا چرچہ سننے کو مل ہی جاتا ہے ۔اس سے بھی کہیں ذیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جو شخصیت بقول اس طالبہ کے اس سنگین جرم میں ملوث پائی گئی وہ ایک بہت ہی جانے پہچانے معمر ،ادیب و دانشور کی تھی ۔وہ دانشور جسے اردو ادب کی دنیا میں عالمی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔اس ادیب محترم نے اپنی ایک نوجوان کولیگ کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی اور اس کی ایسی خباثت پر نہ صرف ادارے نے گہری خاموشی اختیار کی بلکہ ادارے کی تشکیل کردہ تحقیقی کمیٹی نے شکایت کرنے والی معلمہ کے ہی مجرم ہونے کا تاثر پیش کیا ۔کالم لکھنے والی طالبہ نے اس شخصیت کی طرف سے جامعہ کی طالبات پر دست درازی کی کوششوں کا بھی انکشاف کیا۔ شاید ہی کسی اہم شخصیت کے حوالے سے پہلے کبھی اس موضوع پر قلم اٹھانے کی کسی نے اتنی بے باک سعی و جرائت کی ہواور اس غلاظتوں سے لتھڑے معاشرے کو اس طرح آئینہ دکھایا ہو۔اسے پڑھ کر اک عجب عالم کرب کئی روز روح پر طاری رہا ایسا بھی خیال بار بار دل میں آیا کہ یہ حقائق جھوٹ پر مبنی بھی ہو سکتے ہیں اور ضرور کہیں نہ کہیں سے ان کے جھوٹ اور فریب کی حقیقت آشکار کرنے کی سعی ضرور کی جائے گی لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی جانب سے اس بیان کی تردید یا توثیق کے لئے آواز نہ ابھری ۔
شاید لوگ جنہیں قابل احترام سمجھتے ہیں ،اور انہیں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں ،کبھی بھی ان بتوں پہ کوئی خراش تک لانے پر آمادہ نہیں ہو پاتے ۔یا شاید ایسا بھی ہے کہ ہم ایسے واقعات کو اہمیت کا حامل ہی نہیں سمجھتے،گمان کچھ یوں بھی ہے کہ اپنے سے کمتر لوگوں کے کردار اور ان کی کرداری نفسیات پر بات کرنا تو ہمارا مشغلہ ہے لیکن بالاتر لوگوں کے خلاف کوئی بات کرنا ہم معیوب سمجھتے ہیں۔
فہم انسانی کے مطابق ایک ایسا معاشرہ جہاں” تعلیم “نہ ہو وہ معاشرہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے لیکن وہ معاشرہ جہاں تعلیم تو ہو لیکن وہ روحانی و اخلاقی اقدار کی ”تربیت“ سے خالی ہو جہاں استاد اپنے طالبعلم کے لئے رول ماڈل بننے کا اہل نہ ہو، محض حقائق و مفروضات کے اسباق رٹ کر ڈگری لے لینا ہی تعلیمی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جائے وہ معاشرہ جلد ہی روحانی و اخلاقی طور پر گل سڑ جاتا ہے۔معاشی ترقی دھن،دولت،بلند عمارات اور منافع بخش کمپنیاں تو پیدا کر سکتی ہے ۔لیکن انسانی اخلاقیات کو اس کی معراج پر پہنچانے سے عاری رہتی ہے۔ایسی خالی خولی ترقی نظروں کو بھانے والی چکاچوند تو دے سکتی ہے لیکن انسان کے دل ،دماغ اور اس کی روح کو کبھی نہ مٹنے والی بھوک میں مبتلا کر دیتی ہے۔ایسی بھوک بلند پرواز کرگس تو پیدا کرسکتی ہے لیکن بلند خیال شاہین نہیں۔قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بے روح نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ استاد بھی بے عمل ہونے لگے۔کیوں کہ ایک گمراہ سیاستدان ،بیوروکریٹ یا ٹیکنوکریٹ تو ایک ادارے کو تباہ کرتا ہے لیکن ایک بے عمل استاد ایک پوری نسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔استاد کی پیدا کردہ کرپشن کی مثالیں تو اکثر دیکھنے میں آتی ہیں لیکن قابل افسوس امر یہ ہے استاد روحانی اور اخلاقی اقدار سے عاری ہوتا چلاجا رہا ہے۔وہ جسے ایک نسل کا کردار اور اخلاق تعمیر کرنا ہے جسے قدرت نے اصلاح معاشرہ کا پیغمبرانہ فریضہ سونپا ہے جس کا پروفیشن اک عبادت کا درجہ رکھتا ہے ،جس کی تربیت دنیا کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنا سکتی ہے اوردنیا کو جرائم کی دلدل سے نکالنے کی طاقت رکھتی ہے ۔وہ جو انسانی روحوں کو علم سے سیراب کر کے طمع ،حرص اور ہوس پرستی سے دور لے جا سکتا ہے وہ خود اخلاقی انحطاط کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتا جا رہا ہے۔یہ انحطاط پورے عالمی معاشرے کی دکھتی رگ بنتا جا رہا ہے
۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق برطانوی درسگاہوں میں بڑھتا یہ انحطاط حکومت کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت بنتا جا رہا ہے ۔2013 میں تقریباً 28 اساتذہ کو اس جرم کی پاداش میں ملازمت سے بر طرف کیا گیا۔امریکی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ۔ایک امریکی رپورٹ کے مطابق ہر پانچ امریکی عورتوں میں سے ایک عورت کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران جنسی طور پر ہراساں کی گئی ۔صدر باراک اوباما نے ایسے جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی ۔ہمسایہ ملک بھارت میں بھی ایسے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں لیکن2009 کا ایک ایسا دلخراش واقعہ عالمی توجہ کا باعث بنا جس میں احمد آباد کی ایک عدالت میں ایک مقامی کالج کے چھ اساتذہ پر اپنی طالبات کو گینگ ریپ کا شکار بناتے رہنے کا مقدمہ چلایا گیا۔بعد ازاں یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ اس گینگ کو اس وقت کی صوبائی مودی سرکار کے ایک وزیر کی سرپرستی حاصل تھی۔ اب پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی تعلیمی درسگاہیں ایسی وارداتوں سے مبراءنظر نہیں آتیں۔ایسے واقعات یونیورسٹیوں میں مخلوط نظام تعلیم کے باعث وقتاً فوقتاً رونما ہونے لگے ہیں جن میں استاد محترم اپنی طالبات کو اسائنمنٹس کے سلسلے میں پہلے اپنے ذاتی دفتر میں حاضر ہونے کو کہتے ہیں اور پھر موقع پاتے ہی ان پر دست درازی کی کوشش کرنے لگتے ہیں ۔پہلے تو طالبات کو ادارے ہی کی سطح پر ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی طالبہ خاموشی اختیار کرنے پر آمادہ نہ ہو پائے اور بات میڈیا تک پہنچ جائے تو سربراہ ادارہ ایک فرضی سی کمیٹی کے قیام سے سب کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد اس کیس کو دبا دیا جاتا ہے ۔
ایسا ہی ایک دل آزار واقعہ ملک کی ایک مشہور اسلامی یونیورسٹی میں بھی رونما ہوچکا ہے۔اور ملوث دینی سکالر کے خلاف محض اتنا ہی کیا گیا کہ ان محترم کا تبادلہ کسی اور ادارے میں کردیا گیا۔ایسا ہی ایک منفرد نوعیت کا واقعہ یوں بھی پیش آیا کہ ملک کی ایک اہم درسگاہ میں جب ایک ایسے ہی بے کردار استاد کو کسی تادیبی کاروائی سے بری الزماں رکھا گیا تو طیش میں آکر طلبہ نے بذات خود اسے مارپیٹ کا نشانہ بنایااور اپنے بے قابو جذبات کو تشفی پہچائی گئی۔گویا ایسے واقعات اکژ کمال صفائی سے چھپا لئے جاتے ہیں تاکہ ادارے کو متوقع بے حرمتی سے بچایا جا سکے۔یہ بھی ایک گھبیر اور تکلیف دہ المیہ ہے کہ اکثر خود والدین بھی اپنی بچیوں کو متوقع مضر اثرات اور معاشرہ کے ہاتھوں تماشہ بننے کے احتمال سے بچانے کو چپ سادھ لیتے ہیں جس سے مجرم نہ صرف سزا سے بچ جاتے ہیں بلکہ جرم کے لئے ان میں مذید بلند حوصلگی پیدا ہوجاتی ہے ۔اب سوچنا یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا فعل عام کیوں ہو رہا ہے؟ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے سلسلے میں مغربی تعلیمی ماڈل اپنا رکھا ہے ۔جس کا تعلق صرف کتابی علم کے حصول اور ڈگریوں کے پرزوں کی اہمیت سے ہی ہے اور دور دور تک ”تربیت“کا نام و نشان تک نہیں ۔اگر ہم اپنے قدیم ”اسلامی تعلیمی ماڈل “ کا مطالعہ کریں تو اس کا مقصد شاگرد کو محض حقائق کا علم دینا نہیں بلکہ شاگرد کو ایک باکردار ،سچی اور با عمل زندگی گزارنے کے لئے تیار کرنا بھی تھا۔ اس میں استاد کو روحانی باپ کا رتبہ حاصل تھا ۔اور درس و تعلیم کو ایک پیغمبرانہ پیشہ سمجھ کر اپنایا جاتا۔استاد اپنے شاگرد کو محض سبق یاد کرنے اور سنانے کی طرف ہی مائل نہ کرتا تھا بلکہ اس سبق کو اپنے کردار میں اپنانے اور نبھانے کی ترغیب بھی دیتا تھا۔تعلیم کوخدا کے راستے کی طرف جانے والاوہ سفر سمجھا جاتا تھا جس کے راہی برابر طور پرمعلم اور متعلم دونوں ہی تھے ۔بقول امام غزالی ”ایک استاد کے دل میں اپنے طالبعلم کے لئے ہمیشہ ایسی ہی محبت اور شفقت ہونی چاہیے جیسی خود اس کے باپ کے دل میں اس کے لئے ہوتی ہے “ان کا ماننا تھا کہ شاگرد کے لئے کتابوں سے بڑھ کر اس کے استاد کا کردار اہم ہوتا ہے۔اس لئے استاد کا باعمل اور باکردار ہونا بہت ضروری ہے۔
آزاد خیالی کے نام پر استاد اور شاگرد کے ادب اور لحاظ کی تمام تر حدیں ختم کر دی گئی ہیں۔دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ اس مقدس پیشے کو بہت سے ایسے افراد نے بھی اپنا رکھا ہے جو کسی بھی دوسرے پروفیشن میں جانے سے ناکام ہونے کی بناءپر ازراہ مجبوری اس پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ایسے لوگ اس پیشے کے مرتبے اور تقدس کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور اپنے اندر کی فرسٹریشن کو نکالنے کے لئے اپنی طالبات سے دوستی کی راہ کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور اس میں ناکامی انہیں ایسے حملوں پر مجبور کرتی ہے۔ مغربی نقطئہ نظرکے حامی خواہ اس آزادیت کی حمایت میں کچھ بھی کہیں وہ اس حقیقت سے گریز نہیں کر سکتے کہ طالبات کی ایسی بے حرمتی کسی دقیانوس خیال کی دین نہیں بلکہ حد سے بڑھی ہوئی اسی روشن خیالی کا کارنامہ ہے ۔ہمیں مغربی رویوں کی تقلید کے بجائے اپنے کلچر اورتمدن کو سمجھنا ہو گا ۔ہمیں معتدل اور باکردار رویوںکا مظاہراہ کرنا ہو گا ۔ایسے واقعات کا تدارک اسی طور ممکن ہے کہ ویمن یونیورسٹیوں کا ذیادہ سے ذیادہ قیام ممکن بنایا جائے ،ایسے بزنس کالجز کا قیام بھی ممکن ہو جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ہی ملازمتیں دی جائیں ۔اداروں کے سربراہان کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے تمام تر اساتذہ کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھےں اور ان پر ایک خاص ضابطئہ اخلاق لاگو کرےں ۔اور سب سے بڑھ کر تعلیم کو تربیتی نظام سے جوڑا جائے تاکہ اچھی نسلیں تیار ہو سکیں۔اور ایسے انسانیت سوز واقعات اور دلخراش انسانی رویوں سے بچاﺅ ممکن ہو سکے۔
ایک فکر انگیز تحریر
۔یہ حقیقت ہے کہ انسان اللہ کے بنائے قانون کو چھوڑ کے جب اپنے قوانین اور طریقے رائج کرتا ہے تو نتیجہ اِس طرح کے دردناک انجام کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ابھی بھی حکومت ایک طرف خواتین کی جامعات بنا رہی ہے چاہے کم تعداد میں ہی سہی اور دوسری طرف بچوں اور بچیوں کے لیے پرائمری سطح پہ مخلوط پڑھنے کےاقدامات کر رہی ہے۔ نا صرف یہ بلکہ پرائمری سطح پر خواتین اور مرد اساتذہ کو اکٹھے تعینات کیا جا رہا ہے
۔یہ کیا ہے؟
آخر ہم ایسے تجربات کرتے ہی کیوں ہیں جن کے نتائج خود اُن ممالک میں بھی بدترین نکلتے رہے ہیں/نکل رہے ہیں۔ہم احساسِ کمتری کا شکار لوگ بس آنکھیں بند کیے اپنے”آقاؤں” کے پیچھے چلتے رہتے ہیں۔یا پھر کچھ ایسی چھپی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں کہ ہم پہ کچھ”قوتوں” کا دباؤ ہو۔ایسا کرو گے تو یہ ملے گا۔اور ہم ان چیزوں کو بہت معمولی گردان کے لاگو کر دیتے ہیں اور نتائج بھیانک سورتوں میں سامنے آتے ہیں۔
کاش ہم اپنے پیدا کرنے اور پالنے والے کے کہنے پہ چلیں۔کاش!!!!