اس ستمبر کی اٹھارہ تاریخ کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک حملہ ہوتا ہے۔ چند ہی گھنٹے گزرتے ہیں تو سیما کے اس پار سے کسی اپالو کے مندر کے پجاری کو سب پتا چل جاتا ہے کہ اصل بات اور وجہ کیا تھی۔ بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ٹویٹ کر دیتے ہیں؛ اور آخری فیصلے کا لوٹا گھما کر فوری طور پر، اس عسکری کاروائی کا الزام پاکستان کے داخل دفتر کردیتے ہیں۔ روایت بھی ہے، آسانی بھی ہے کہ کون ہوگا جس نے الزام کو چیلنج کرنا ہے۔ اپنے مہان دیش میں دھڑا دھڑ قابل فروخت آئیڈیا ہے۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ یہاں یہ بھی کہہ لینا ناموزوں نہیں ہوگا کہ ریاستی مقتدرہ دے، اور بھارتی ذرائع ابلاغ لیں۔ بس جی، اب پارہ چڑھنے کی سب لوازمات پورے ہو چلے۔ حالات کی حدت کو تیز تر کیا جانا شروع ہوگیا۔
اخبار ہوں یا نیوز چینلز، ٹویٹر ہو یا فیس بک، تشدد آمیز اور عسکریت آموز الفاظ برسنے شروع ہوگئے۔ ویڈیو گیمز کے کھلاڑی فوری حملہ کر دینے میں اپنی ریاست کی مدد کرنے کو بے چین ہوگئے۔ مفت میں حربی منصوبے بنا کر پیش کرنے لگے۔
اس والی سیما سے، اب آنکھ سرحد کے اس پار کیجئے۔ یہاں پر بھی سیر کو سوا سیر دستیاب ہیں۔ میلی آنکھ کو نکالنے، منھ توڑ جواب دینے، ناکوں چنے چبوا چبوانے، عزائم خاک میں ملانے، تگنی کا ناچ نچا نچانے کے لئے آلات کی پالش اور رگڑائی شروع ہوگئی۔ اچھے ٹھنڈے دماغوں والے احباب نے بھی سب لحاظوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا کہ بس اب غیرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کھلے عام حب الوطنی کا “مظاہرہ” کریں گے۔ سیدھے لفظوں میں یہ کہ ہم بھی سماجی ذرائع ابلاغ پر دشمن کو نیست و نا بود کردیں گے۔ ناکوں سے تیز سانسیں چلنا شروع ہوگئیں۔ آنکھوں میں لہو بھر آیا، اور ہر لفظ ایڈرینالین ہارمون کے بحر ہند میں تیرنے لگا ہے۔
الغرض گزرتے وقت کے ساتھ پورا پاکستان اور پورا کے پورا ہندوستان واہگہ بارڈر کا وسیع تر تمثیلی و استعاراتی منظر پیش کررہا ہے۔ اب یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے کہ واہگہ بارڈر پر ہر روز کس دیوی کی پوجا کرکے پاکستان اور ہندوستان کے جھنڈوں کو ہوا میں لہرانے کے بعد تہہ کیا جاتا ہے۔ اگر پھر سے سننا ہی چاہتے ہیں تو سنئے، کہے دیتے ہیں کہ اس دیوی کا نام ہے: جنگجوئیت اور عسکریت۔ وہاں وہ لوگ روز امید امن کے ایک اور سورج کے غروب ہونے کا جشن کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے جھنڈے بعد میں تہہ ہوتے ہیں، انسانیت اور اس سے جڑی انس و محبت، برداشت و تحمل اور پر امن بقائے باہمی کی کسی بھی سوچ کی امید پہلے تہہ و تیغ ہوجاتی ہے۔ صد افسوس کہ ہر روز باقاعدہ ریہرسل شدہ طیش اور لمحوں لمحوں کی مشاقی کے شاہکار غصے کی رسم انتہائی بلند آہنگ آوازوں میں نبھائی جاتی ہے۔ اس سے بڑھ کر افسوس کہ تالیاں پیٹنے والے بھی روز پہنچتے ہیں۔ کیسے تفریح طبع کے معیار اور ذوق ہائے دل ہیں۔ اپنی آنکھوں کے علاوہ ہتھیاروں کو بھی لہو رنگ کرتے ہیں۔
حالات کے اس منظر نامے میں ہر دو ملکوں میں سرکاری حب الوطنی کے ضابطے اور تقاضے مشکل سے مشکل تر کئے جا رہے ہیں۔ جس طرح ہمارے کالی وردی پوش قانون نافذ کرنے والے لوگوں کے منھ سونگھ کر ان کو الکوحل زدہ یا پاکبازی کی سند جاری کرتے رہے ہیں، بالکل اسی مثال پر لیکن تھوڑا الٹ کر آج حب الوطنی کا فرض عین یہ قرار دے دیا گیا ہے کہ آپ کی جانب سے دشمن ملک کو سماجی ذرائع ابلاغ پر لتاڑ لتاڑ کر اور بڑھکیں مار مار کر لعاب دھن خشک ہوجائے۔
اس سلسلے میں ہوش اور خرد کی بات کرنے اور جنگی جنون کو نقارہ خدا قرار دینے کے منکرین کو سرکاری اسناد یافتہ محبان ہندوستان، دیس نکالا دے کر پاکستان جانے کی صلاح دے رہے ہیں، تو اپنے وطن کے جوش کے ٹھاٹھیں مارتے ساگر کے شناور، محبان یہاں والوں کو ہندوستان چلے جانے کے دھکے نما مشوروں سے نواز رہے ہیں۔ ان حالات میں بھی ہم اپنے شوریدہ سروں کو البتہ اپنی آنکھوں میں اتری لالی کو تھوڑا کم کرنے کی سماجتیں ضرور کرتے رہیں گے۔