نجیبہ عارف
تاریخ کتنے ہی ایسے اہم واقعات سے بھری پڑی ہے جن کاوقوع دنیا کو زیر و زبر کردیتا ہے، سود وزیاں کے پیمانے اور خیر و شر کی میزان بدل جاتی ہے اورزندگی خود کو ایک نئے آئینے میں دیکھنے لگتی ہے۔اس نئے آئینے میں خود کو پہچاننے، اپنے بھولے ہوئے یابگڑے ہوئے خال و خد کو نئے سرے سے تراشنے میں بعض اوقات صدیاں گزر جاتی ہیں۔وقت کی دھول بیٹھتے بیٹھتے، بیٹھتی ہے۔ تاریخ کا دھارا مڑتا ہے تو دور تک کف اڑاتا چلاجاتا ہے۔افراد ہو ں یا اقوام،اس جھاگ جھاگ تحیر میں نہ تیرسکتے ہیں، نہ ڈوب پاتے ہیں۔گیارہ ستمبر،مابعد کی دنیا میں اٹھنے والی ایک ایسی ہی منہ زور موج تھی جس کی دھند ابھی تک وقت کے آفاق پر پھیلی ہوئی ہے۔ میں نے اس دنیاکو مابعد کی دنیا اس لیے کہاہے کہ گیارہ ستمبر سے پہلے بھی اس کی فضا پر ایک بے نامی، ایک بے چہرگی اور بے مقامی سی چھائی ہوئی تھی۔ فکر و فلسفے کی دنیا میں اس عہد کاکوئی نام نہیں۔ کوئی فکری، ادبی یا فلسفیانہ تحریک ایسی نہیں جسے اس دنیا کی پہچان قرار دیا جاسکے۔ یہ اپنے ماضی کے حوالوں سے پہچانی جاتی ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم، پوسٹ ہیومن ازم، پوسٹ سٹرکچرل ازم،پوسٹ کولونیل ازم، پوسٹ مارکس ازم، پوسٹ فیمینزم۔۔۔اس عہد کا ہر فکری واقعہ،کسی نہ کسی گزشتہ واقعے کا عکس، ردعمل یا توسیع ہے اور اس عہد نے اپنے لیے کوئی نام ، کوئی سرنامہ مقرر نہیں کیا ہے۔ یہ مابعد کی دنیاہے۔ مابعد کی حدود و قیود ہمیشہ نامعلوم ہوتی ہیں کیوں کہ بعد کا تجربہ کرنے کے بعد مابعد ، مابعد نہیں رہتا، ما قبل بن جاتا ہے۔
مابعد کی اس دنیا میں دو بلند و بالا عمارتوں کا گرنا ، در اصل دو خلاؤں کی تشکیل ہے۔ ایسی تخریب جس کی بنیاد پر نئی تعمیر ہو سکتی ہے۔یہ واقعہ ایک عہد کی فصیل اور دوسرے عہد کا دروازہ ہے۔ یہ بات بش اور اوباماکی تقاریر سے لے کر، اسکول کے بچوں کے مباحثے تک کئی بارکہی اور سنی گئی ہے کہ گیارہ ستمبر کادن عہدِ جدید کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے، جب پرانی جمی جمائی زندگی کی بساط الٹ گئی اور مشرق و مغرب کے درمیان ایک نیا رشتہ استوار ہوا۔ اس الٹی ہوئی بساط کو، اس نئے رشتے کے پیچ و خم کو ، ہر ایک نے اپنے اپنے فکری، تاریخی اور واقعاتی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
ایک تناظر تو یہ ہے کہ مشرق و مغرب کے جس تصادم کی خبر، صاحبانِ خردگزشتہ دو دہائیوں سے دے رہے تھے، اس کی گھڑی آن پہنچی ہے۔اہلِ مغرب کو نوید ہو کہ اب وہ اپنی فکری توانائیوں کو اہلِ مشرق، بالخصوص اہلِ اسلام کے بحرِ ظلمات میں اجالا پھیلانے میں صرف کر سکیں گے۔دوسرا تناظراہل اسلام کا ہے جنھیں بشارت ہے کہ آخری فتح ، جس کا وعدہ تھا،ملنے ہی والی ہے اور کفر کے ظلمت کدے میں نورِ اسلام کے طلوع کا وقت قریب ہے۔تیسرا تناظر کولمبس کے دریافت کردہ خطے میں پروان چڑھنے والی نسلوں کے اس مخصوص طرزِ فکر کا ہے جس کے مطابق امریکہ ایک ملک ہی نہیں، ایک دستورِ حیات اور طرزِ زیست کا بھی نام ہے۔ اس ملک کی ایک تو جغرافیائی حدود ہیں اور دوسری ثقافتی، معاشرتی اور اقداری حدود ہیں۔ ان ثقافتی حدود سے باہر زندگی بسر کرنے والے لوگ امریکیوں کے لیے ’’غیر‘ ‘(others) ہیں۔ان کی اپنی سر زمین پر ’’غیروں ‘‘کی اس کارروائی نے انھیں دم بخود کر دیا ہے اور انھیں اپنے خول کی ناتوانی کا احساس مسلسل کچوکے لگا رہا ہے۔چوتھا تناظر تیسری دنیا کی ان کمزور، ناخواندہ،منتشر اور پس ماندہ اقوام کا ہے جنھیں نہ چت اپنی لگتی ہے نہ پٹ۔ انتہائی بے بس اور بے عمل ہونے کے باوجود وہ محسوس کر سکتی ہیں کہ دنیا کا نظام ٹھیک طریقے سے نہیں چل رہا۔وہ تمام بڑی بڑی اصطلاحات ، نظریات اور علوم و فنون سے ناواقف سہی، مگراپنے کرب و الم کے شعور سے بے بہرہ نہیں،ان کے لیے گیارہ ستمبر کا دن ایک نیا پیغام چھوڑ گیا ہے۔ ایک تناظر ان دوتین مخصوص ممالک کے عوام کا بھی ہے، جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے کوسوں دور واقع ہیں، جن کا کوئی براہِ راست تعلق اس واقعے سے ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا مگر اس کے نتائج کا سب سے ہو ل ناک اثر ان کی زندگی پر ہوا۔ ان میں ابھی تک عراق ، افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔ ایران کب سینہ چاکانِ چمن سے آملے، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان بہر طور پہلے دن سے اس کا حصہ یا نشانہ رہا ہے۔
اس مقالے میں اس آخری تناظر کا اردو ادب کے حوالے سے مطالعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مغرب، بالخصوص امریکہ میں اس موضوع پر خاصی تحقیق ہو چکی ہے اور گیارہ ستمبرکے اثرات کا ادبی ، لسانی، عمرانی، سیاسی اور تاریخی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ کئی ناول اور نظمیں لکھی گئیں، دستاویزی اور فیچر فلمیں بنیں، موسیقی ، مصوری اور کومکس کے ذریعے اسے دیکھنے سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی گئی، اور انسانی زندگی پر اس واقعے نے جو گہرے اثرات چھوڑے ہیں، ان کا تجزیہ کیا گیا۔ایسی تمام تخلیقات کا ذکر کرنا تو ممکن نہیں، لیکن پاکستانی ادب پر اس واقعے کے اثرات کا مطالعہ کرنے سے پہلے چند ایک امریکی ناولوں کا مختصر سا ذکرکرنایوں مناسب ہے کہ یہ معلوم ہو سکے کہ جس سر زمین پر یہ واقعہ رونما ہوا ہے، اس پر بسنے والے لوگوں نے خود اسے کس نظر سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
امریکہ میں لکھے جانے والے ان ناولوں میں عام طور پر انفرادی صدمات و حادثات کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ گیارہ ستمبرکے آس پاس ، نیویارک میں رہنے والے افراد کس طور اس حادثے سے متاثرہوئے، ان کی نجی زندگیوں میں کیا انقلاب آئے ، ان کے ذاتی خواب اور منصوبے کس طرح متاثر ہوئے اور انھیں کس طور پر اس حادثے کے مابعد اثرات سے نپٹنا پڑا۔ عام طور پر انگریزی فکشن نے گیارہ ستمبر کے اثرات کو اسی سطح پر دیکھا اور محسوس کیا ہے۔کین کیلفس (Ken Kalfus)کے ناول ، A Disorder, Peculiar to the Country ۱ میں ، طلاق پرآمادہ ایک ، شادی شدہ جوڑے کی باہمی نفرت اور عداوت کو گیارہ ستمبر کے پس منظر میں بیان اور اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ ان کی زندگی میں ایک امکان بن کر رونما ہوتا ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو مردہ سمجھ کر ایک مخفی اورگہرا ،مگر احساسِ جرم سے آلودہ، اطمینان محسوس کرتے ہیں۔لیکن دونوں بالآخر اس حادثے میں بچ نکلتے ہیں اور بعد ازاں پھرسے ایک دوسرے کو آزار پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ناول میں بیان کردہ تفاصیل عالمی عصری حقائق کے تناظر میں ابھرتی ہیں۔ ان کی ناکام شادی اور ایک دوسرے سے قطع تعلق کی خواہش، بیوی جوائس کا افغان جنگ میں دلچسپی لینا، شوہر مارشل کابم بنانے کاتجربہ کرنا اور اسرائیلی جبر کے سامنے امریکی حکومت کی بے بسی پر تبصرہ کرنا، اسامہ بن لادن کی گرفتاری، عراق اور افغانستان کی جنگیں ، تہذیبی تصادم، خود کش بموں کی تیاری اور ایسے ہی کئی دیگر عوامل، اس نئی صورت حال کا بیانیہ ہیں جو گیارہ ستمبرکے بعد امریکی زندگی کا حصہ بنی ہے۔ مجموعی طور پر اس ناول میں بش کے دورِ حکومت میں امریکی طرزِ حیات کی کم عیاری پر طنز ملتا ہے جسے مزاح کا روپ دیا گیا ہے اور نقادوں نے اسے کامیڈی آف مینرز قرار دیا ہے۔۲ ازدواجی زندگی کی ناکامی اور دو انسانوں کے درمیان عدم برداشت اور ناموافقت اس بڑے دائرے کا ایک حصہ معلوم ہوتی ہے جس میں قومیں ، قوموں سے برسرپیکار ہیں اور نظریات نظریات سے تصادم کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس الم انگیز صورتِ حال سے جو بے چینی اور اضطراب پیدا ہوتا ہے، وہ محض دو انسانوں کی زندگیوں کو نہیں، بلکہ مجموعی طور پر تمام بنی نوعِ انسان کو متاثر کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو تباہ و برباد کردینے کی حیوانی خواہش اور اس میں ناکامی؛ کیوں کہ فطرت کے قوانین کسی اور طرح سے عمل پیرا ہوتے ہیں، انسانوں کو کس طرح رنج و محن کا شکار رکھتی ہے۔ناول نگار نے دو افراد کے نجی المیے کو ایک بڑے اور وسیع تر تناظر میں پیش کیا ہے تاہم یہ تناظر ناول کے بیانیے میں محض علامتی طور پر موجود ہے۔ میاں بیوی کے درمیان اس قریبی مگر نفرت وعداوت پر مبنی رشتے کی رمزیت، مشرق و مغرب کے درمیان ابھرتی اور پھیلتی ہوئی خلیج، اور سیاست کے بطون میں ایک دوسرے کی تباہی بلکہ مکمل فنا کی خفیہ آرزو کے پروان چڑھنے کی حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔مگر یہ دونوں قوتیں مسلسل برسر پیکار رہنے کے باوجود ایک دوسرے کونابود کردینے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ صدیوں کی جدوجہد اور مبارزت کے باوجود قومیں، قوموں کو نابود نہیں کر سکتیں۔
ایسا ہی ایک علامتی تناظر ڈان ڈیلیلو(Don Delillo)کے ایوارڈ یافتہ ناول۳ The Falling Man ۴میں نمایاں ہوتا ہے۔Falling Man رچرڈ ڈریو۵ کی کھینچی ہوئی، انتہائی معروف ہونے والی، ایک تصویر کا عنوان ہے جوگیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈسنٹر کی بلند وبالا عمارت سے گرتے ہوئے آدمی کی ہے۔ بعد میں ایک سٹنٹ اداکار نے اس منظر کو نیویارک شہر میں کئی بار پیش کیا۔ وہ خود کو رسیوں سے باندھ کر کسی بلند و بالا عمارت سے گرا دیتا اور یوں اس تصویر کو ایک طرح سے جی کر دکھاتا۔اس عنوان سے ایک کہانی بھی لکھی گئی ہے اور اس پر ایک دستاویزی فلم۶ بھی بن چکی ہے۔ڈیلیلونے اپنے ناول کا عنوان اسی تصویر سے لیا ہے اور یہ عنوان ایک طرح سے ناول کی تھیم کا اشاریہ ہے۔ یہ ایک طرف تو انسان کاانفرادی سطح پرموت یا تباہی کی طرف سفر ہے،اور دوسری طرف اس کے اجتماعی زوال کا اشارہ ہے۔ناول کا مرکزی کردار، ۳۹ سالہ قانون دان کیتھ ہے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حادثے میں بال بال بچتا ہے اور زخمی اور ہراساں، ہاتھ میں کسی اجنبی خاتون کا بریف کیس تھامے اپنی علیحدہ ہو جانے والی بیوی کے فلیٹ میں داخل ہوتا ہے۔یہیں سے، نہ صرف اس کی بلکہ اس کے گردوپیش موجود تمام لوگوں کی، زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ کیتھ، بریف کیس کی مالک اجنبی خاتون کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے کیوں کہ دونوں اس حادثے میں بچ جانے کے مشترک تجربے سے گزرنے کے بعد خود کو ایک دوسرے کے قریب محسوس کرتے ہیں۔اس کی بیوی لیانا، مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں زود حسی اور غیظ و غضب کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اسے ہر چیز میں اسلام کے اثرات نظر آتے ہیں۔حتیٰ کہ پوسٹ کارڈ اور پڑوسیوں کے گھر بجنے والی موسیقی میں بھی مشرقِ وسطیٰ کی آواز سنائی دیتی ہے۔وہ شہر میں بار بارFalling Man کو کرتب دکھاتے ہوئے دیکھتی ہے۔ آخروہ اپنی ماں کے ساتھ رہنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کی ماں اپنے اس مرد دوست سے قطع تعلق کر لیتی ہے جس سے اس کی رفاقت بیس سال پر محیط تھی کیوں کہ اس دوست کا تعلق ماضی میں جرمنی کے کسی ’’دہشت گرد ‘‘گروہ سے تھا۔ کیتھ اور لیانا کا بیٹا دوربین سے ایک نیا کھیل کھیلنا سیکھ لیتا ہے جس میں وہ آسمان پر جہازوں کودوربین سے دیکھتا اور ’’بل لاٹن‘‘ (بن لادن) کوتلاش کرتا رہتا ہے۔آخر کیتھ قانون کا پیشہ ترک کر کے پوکرکا کھلاڑی بن جاتا ہے۔ہر شخص کی زندگی ایک انقلاب سے دوچار ہوتی ہے۔ایک نئی حقیقت کی آگاہی تمام کرداروں کے نقطۂ نظر میں نمایاں تبدیلی پیدا کر دیتی ہے۔ اسی ناول میں ایک کردار خلیج کا نوجوان حماد بھی ہے جو موت سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کی آرزو رکھتا ہے اور اسی آرزو کو اپنی سب سے بڑی طاقت قرار دیتا ہے۔لیکن خود سے اس کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا زندگی میں کچھ کر گزرنے کے لیے جان سے گزرنا لازم ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ ان جہازوں میں سے ایک کے اغوا کرنے والوں میں شامل ہو جاتا ہے جو گیارہ ستمبرکو ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرائے تھے۔ ناول کا اختتام ان جہازوں کے ٹکرانے کے بعد ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی آگ اور دھوئیں میں لپٹی ہوئی عمارت میں ہوتا ہے جہاں کیتھ کے زخمی ہونے اور بالآخر بچائے جانے کی تفاصیل، دوستوں اور ہم کاروں کو مرتے ہوئے دیکھنے کاتجربہ اور ان لمحات کی تصویر کشی ملتی ہے اور یہ واقعہ ایک زندہ تجربے کی طرح قاری کے شعور سے چپکا رہ جاتا ہے۔یہ ناول قاری کے دل و دماغ میں ایک بھیانک خلا پیدا کرتا ہے اور اثباتِ ہستی کو تشکیک کے گہرے کنویں میں دھکیل دیتا ہے۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ گیارہ ستمبر کے حوالے سے لکھے جانے والے اکثرامریکی ناولوں کی کہانی شوہراور بیوی کے درمیان ناموافقت، ناآسودگی، بیزاری اور عداوت کے گرد گھومتی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس رشتے کے درمیان کشش و گریز کی قوتوں کو کسی بین الاقوامی سیاسی اور معاشرتی صورت حال کا اشاریہ سمجھا جانا چاہیے؟ کیا انسان اپنے زوال کے سفر میں اپنے زوج سے بیگانگی اختیار کرلیتا ہے یا پھر یہی امر اس کے زوال کا سبب بن جاتا ہے؟ اس سوال کو اگر مشرق و مغرب کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاصر صورت حال کی کئی جہتیں روشن ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مشرق و مغرب ٹھوس جغرافیائی حقیقتیں ہیں یا وقت کا پیدا کردہ ایک التباس؟ اور دوسری طرف یہ خیال آتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے زوج اور اک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم سچائیاں ہیں یا ایک دوسرے کی ضد اور باہم متحارب و متخالف قوتیں؟ اور اسی سوال کے بطن سے یہ اندیشہ سر اٹھاتا ہے کہ ایک کا دوسرے کے خلاف صف آرا ہونا، خود اس کروی وجود پر کیا اثرات مرتب کرے گا جو اپنا اظہار انھی دونوں منطقوں کی مدد سے کر پاتا ہے، اور اس مکانیت میں رونما ہونے والی زندگی کی آئندہ شکلیں ا س سے کس طور پر متاثرہوں گی۔
اونیل (O’Neill)نے اپنے ۷ ایوارڈ یافتہ ناول Netherland۸ میں زندگی کو ٹیسٹ کرکٹ سے تشبیہ دی ہے جس میں پانچ دن تک کھیل جاری رہتا ہے اور ہارجیت کے فیصلے کے بغیر بھی ختم ہوسکتاہے۔۹ کرکٹ کا کھیل اس ناول میں اساسی علامتی حیثیت اختیارکرلیتا ہے جو مرکزی دھارے سے ہٹ کر سماجی زندگی کے حاشیے پرجینے والوں کی نفسیات،تہذیبی اجنبیت کے تکلیف دہ احساس اور مغائرت کے تجربے کاردعمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ ناول بھی ایک ناآسودہ جوڑے کی زندگی کے تین سال کا بیان ہے جنھیں گیارہ ستمبر کے بعد کے عدم تحفظ اور بش حکومت کی کوتاہ نظری کے باعث پیدا ہونے والے اضطراب و انتشار کے نتائج بھگتنا پڑے۔سماجی سطح پر اس واقعے کے بعد جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اور افراد کی خانگی زندگی، ان سے جس طور متاثر ہوئی، اس کا بیان ناول کی کلیدی تھیم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ناول میں نیویارک کی زندگی کی مختلف لہروں اور دائروں کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔نقل مکانی کر کے امریکہ میں بسنے والی مختلف قوموں کے افراد کس طرح ایک ضمنی کلچر کی تشکیل کرتے اور باہمی اختلافات پر قابو پا کر ایک مشترکہ گروہ کی صورت اختیار کرتے ہیں اور امریکی کلچر کے بالمقابل اپنا الگ تشخص اجاگر کرتے ہیں، او نیل نے کرکٹ کی علامت کے ذریعے مہاجرت کی اس تھیم کوکامیابی سے بیان کیا ہے۔اس ناول کے کرداروں کے شب و روزکی منظر کشی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد نیویارک کی تہذیبی زندگی میں سیاسی مباحث کس طرح اہمیت کے حامل ہوتے گئے یہاں تک کہ سماجی تقریبات اور ڈنر پارٹیوں میں بھی مقامی اور بین الاقوامی سیاست کے امور کا زیربحث آنا لازم سمجھاجانے لگا۔ دنیا اس واقعے کے بعد کیوں کر ایک نئی نہج پر چل نکلی اور شعوری اور غیر شعوری سطح پر افراد اور معاشرے میں کیا کیا تبدیلیاں نمودار ہوئیں، اونیل نے بڑے فن کارانہ انداز اور مسحور کن زبان میں اس امر کا تخلیقی انداز میں جائزہ لیاہے۔
زندگی کے بے شکل پھیلاؤمیں ترتیب و تنظیم اور معنی خیز اشکال کی تلاش، تاریخی شعور کاتجزیہ اور اجتماعی یادداشت میں محفوظ ماضی کی نئے سرے سے بازیافت ولیم گبسن (William Gibson)کے ناول ،Pattern Recognition۱۰ کا موضوع ہے۔ گیارہ ستمبر کاواقعہ اس ناول کے مرکزی خیال کے لیے اساسی رمزیت کا کام دیتا ہے جو ماضی کی گمشدگی کا دور تشکیل دیتا ہے۔ مرکزی کردار کے والد کا اس حادثے میں گم ہو جانا ایک طرح سے بیسویں صدی کے گم ہوجانے کا اعلان ہے۔ وقت اب کبھی ویسا نہیں رہے گا جیسا اس حادثے سے پہلے تھا،زندگی کا رُخ ہمیشہ کے لیے بدل گیا ہے اور اب نئے سرے سے معنی کی تلاش کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ جڑوں سے کٹ جانے کے بعد دوبارہ جڑوں کی شناخت کی تگ ودو، زندگی کے مابعد جدید دور میں ایک نئے فکری ڈھانچے کی تشکیل اور ترجیحات و تعینات کا ازسر نو جائزہ لینا اس بدلتے ہوئے وقت کا پہلا سوال ہے۔مستقبل اس دور کو کس نظر سے دیکھے گا،تخلیقیت اور روایت کا تصادم کیا نتائج پیدا کرے گا، تاریخ کے مطالعہ کے کتنے منہاج ممکن ہیں، ان تمام پس ساختیاتی اور مابعد جدید فکری رویوں کا اظہار اس ناول میں موجود ہے اور گیارہ ستمبر اپنی پس منظری حیثیت کے باجود انتہائی گہری معنویت کا حامل ہے۔
جان اپڈائک(Johan Updike)(۱۹۳۲۔ ۲۰۰۹ء) کا ناول Terrorist ۱۱ اس اعتبار سے نہایت اہم ہے کہ اس کا موضوع گیارہ ستمبر سے متاثر ہونے والی امریکی زندگی نہیں بلکہ ایک نوجوان مسلم جہادی دہشت گرد ہے۔اپڈائک ایک معروف امریکی فکشن نگار، شاعراور نقادتھے جن کے بیس سے زیادہ ناول اور درجن بھر افسانوی اور شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انھیں بیسویں صدی کا معروف ترین امریکی ادیب کہا جاتا ہے۔۱۲ ان کی اہم ترین تصنیف Rabbit Seriesہے جس کے پانچ ناول شائع ہوئے ہیں۔۱۳ Terrorist ایک اٹھارہ سالہ امریکی، مسلم نوجوان احمد کی کہانی ہے جو ایک آئرش امریکی عورت اور مصری مسلمان کا بیٹا ہے۔اس کی ماں کیتھولک ہونے کے باوجود، اپنے سیکولر خیالات کے باعث دین سے بے نیاز ہو چکی ہے اور غیر مردوں سے تعلقات استوار رکھتی ہے۔ احمد اس کی بے دینی اور بے حیائی کے باعث اس سے نفرت کرتا ہے مگر ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی دیکھ بھال کو اپنادینی فریضہ سمجھتا ہے۔ماں کے مقابلے میں اسے اپنے مصری باپ سے زیادہ محبت محسوس ہوتی ہے حالاں کہ وہ اسے تین سال کی عمر میں چھوڑکر غائب ہو گیا تھا۔ اپنے ہم عمروں کی سرگرمیاں اسے قابلِ اعتراض معلوم ہوتی ہیں۔ اسکول میں وہ اپنی دوست کی صنفی کشش کو محسوس کرنے کے باوجود اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہے۔ امریکی تہذیب پر مادیت پرستی کا غلبہ اور ثقافت کے نام پر اخلاقی تنزل اسے بالآخر کالج کو خیر باد کہہ کرمسجد میں پناہ لینے پر مجبور کردیتا ہے ۔ جہاں امام مسجد شیخ راشد اس کی روحانی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے مگر اس کی قدامت پرستی اسے بیزار کردیتی ہے۔ آخروہ ایک لبنانی خاندان کے فرنیچر کے کاروبارکے لیے ٹرک ڈرائیور کا پیشہ اختیار کرتا ہے کیوں کہ شیخ کی تعلیم کے مطابق، رسمی تعلیم کا حصول امریکی بے دینی کی جانب راغب کرنے ا ور دین کے بارے میں تشکیک پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔اس کے اسکول کا قنوطی، یہودی کونسلر، جیک لیوی، جو اگر چہ خود بھی امریکی تہذیب کا شاکی ہے،اسے سمجھاتا بجھاتا ہے مگر’’ صراطِ مستقیم ‘‘سے بھٹکنے پر آمادہ نہیں کر پاتا۔اور آخر کاروہ نام نہاد مسلمان چارلی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اسے ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پر ملتا ہے لیکن جنسی ترغیبات اور آزاد خیالی کا درس بھی دیتا ہے۔ یہی چارلی اسے دریائے ہڈسن پر واقع لنکن ٹنل پر خود کش حملہ کرنے پر آمادہ کرتاہے۔جیک لیوی کواس منصوبے کی خبر مل جاتی ہے ۔ وہ اس کی خودکش مہم پر روانگی کے وقت اس کے ساتھ ٹرک میں بیٹھ جاتا ہے اور اسے اس حرکت سے باز رہنے پر قائل کر لیتا ہے۔وہ یہ انکشاف بھی کرتا ہے کہ اس منصوبے کا اصلی خالق، چارلی دراصل کوئی صاحب ایمان مسلمان نہیں بلکہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا اور اسے مذہب کے نام پر استعمال کیا جارہاتھا۔ یوں کہانی میں سیاست کا عمل دخل نمایاں ہوتاہے اور یہ آخری اشارہ خود کش حملوں کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوششوں اور ایسی سرگرمیوں میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے کردار پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ایک معروف امریکی ناول نگار کی جانب سے یہ اشارہ بڑا معنی خیز ہے اور عالمی سیاست کے کئی اسرارو رموز فاش کرتا ہے۔
اس ناول کی کہانی امریکی کم اور پاکستانی یا افغانی کردار کی کہانی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ کہانی کی بنت اور کرداروں کی اٹھان اردو فکشن کے انداز کی ہے۔ مرکزی کردار کی ذہنی کیفیت، کشمکش اور ’’بنیاد پرستی‘‘ جن دلائل پر استوار ہوتی ہے وہ بھی پاکستانی معاشرے کے لیے نئے یا اجنبی معلوم نہیں ہوتے۔ امریکی تہذیب کا اخلاقی خلا، کھوکھلا پن اور مادیت پرستی اور اس کے بالمقابل قرآنی تعلیمات جو روحانی سربلندی کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتی ہیں، مفصل بیانیے میں پیش کیے گئے ہیں۔کہانی اگرچہ دہشت گردی، جہاد، بنیاد پرستی اور قرآنی تعلیمات جیسے موضوعات کے گرد گھومتی ہے مگر اس کا ایک علامتی پیٹرن بھی ہے جو اسلام کے اس مروجہ تصور پر بنیاد رکھتا ہے جو مغرب میں کئی صدیوں سے مقبول رہا ہے۔ مثال کے طور پر احمد کا اپنی کیتھولک ماں سے نفرت اور بیزاری محسوس کرنا حالانکہ اس کی ماں نے تنہا اس کی پرورش کا فریضہ سر انجام دیا ہے اور اپنے مصری باپ کو آئیڈیل تصور کرنا ، جو سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکہ آیا، اس کی ماں سے شادی رچائی اور پھر بیوی اورتین سالہ بیٹے کو تنہا چھوڑ کر غائب ہو گیا، اسلام کے روایتی مردمرکز معاشرتی نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں صورت حال خواہ کچھ ہی ہو، مرد کے مقابلے میں عورت ہی کو قصور وار سمجھنے کا رجحان عام ہے۔ مسلمان امام مسجد کا جدید تعلیم کے خلاف وعظ وتبلیغ کرنا کیوں کہ یہ اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے اور اس کے مقابلے میں یہودی جیک لیوی کا احمد کو ’’راہِ راست ‘‘ پر لانے کی کوشش کرنا،گویا ایک یہودی کا مسلمان نوجوان کی حقیقی رہنمائی کرنا بھی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان موجود تناؤ کے تناظر میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ احمد کا مادیت پرستی سے بیزاری محسوس کرنااور جنت کے حصول کے لیے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی جان لینے کا عمل، جہاں اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں چند مسلمان تنظیموں کے بڑھتے ہوئے متشددانہ رویے کا پتہ دیتا ہے وہاں ان خودساختہ روایات کی یاد بھی دلاتا ہے جو صلیبی جنگوں کے بعد سے مسیحی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق مشہور ہو گئی تھیں۔(اگرچہ جان اپڈائک کا یہ ناول اس ذیل میں نہیں رکھا جا سکتا تاہم امریکہ میں اسلام کی مسخ شدہ تعلیمات سے متعلق سنسنی خیز مواد کی اشاعت ابھی تک جاری ہے جس کی ایک مثال ایرین ولیزاڈاکی تخلیقPassion in the Sand: A Terrorist Romance Novelہے جوحال ہی میں امریکہ میں شائع ہوا ہے)۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ناول میں نوجوان نسل کا ذہنی و روحانی رہنمائی کا متلاشی رہنا اور اس تلاش میں گم راہی میں جا پڑنے کا موضوع مرکزی تھیم کی حیثیت رکھتا ہے۔احمد کو تین مختلف افراد کی رہنمائی ملتی ہے۔ شیخ راشد، چارلی اور جیک لیوی؛ مگر یہ تیسرا یہودی کونسلر ہے جو بالآخر اسے گمراہی کی دلدل سے نکال لیتا ہے۔ ناول نگار نے سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی امریکی سیاسی مہم کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن وہ خود بھی اسلام اور اہل اسلام کے بارے میں انھی مخصوص تحفظات کا شکار معلوم ہوتے ہیں جو صلیبی جنگوں کے دوران اور بعد یہود و نصاریٰ میں مقبول ہوتے چلے گئے اور جنھیں تقویت پہنچانے میں خود مسلمان ممالک کے عوام الناس، اپنی کم علمی، جذباتیت اور بے عملی کے باعث ، کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
Extremely Loud and Incredibly Close ۱۴جونیتھن سیفرون فوئر(Jonathan Safran Foer )کا ناول ہے جس میں ایک نو سالہ لڑکے آسکر کی زندگی پر گیارہ ستمبر کے اثرات بیان کیے گئے ہیں۔ آسکر کے والداس حادثے میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور ان کی موت کے بعد آسکر اور اس کے داد ا کی زندگی میں ایک بھیانک خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ مصنف نے مابعد جدید دور کے تکنیکی تجربات سے اس ناول میں اظہاری جہات کی گہرائی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے یہ ناول گیارہ ستمبر کے بعد لکھے جانے والے کئی اسی نوعیت کے ناولوں میں سے ایک ہے جن میں رقت اور ترحم پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ایسے ناول کئی نقادوں کی تنقید کی نشانہ بھی بنے ہیں۔ مثلاً ڈیوڈسمپسن(David Simpson) اپنی کتاب 9/11: The culture of Commemoration میں کہتے ہیں کہ امریکی قوم نے گیارہ ستمبر کے واقعے سے ایک ماتمی فضا پیدا کرلی ہے اور رقت انگیز، دردناک اندازمیں اسے بیان کر کے لوگوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کی عادت ڈال لی ہے۔وہ اس واقعے کی بنیادپر قوم کی نفسیات میں ایک ہیجانی کیفیت کے پیدا ہوجانے کو منفی رجحان سمجھتے ہیں۔ امریکی قوم کا خود کو مظلوم سمجھ لینا اور عالم انسانیت کے دکھوں اور مصائب سے بے خبر رہنا اس کی عظمت کا ثبوت نہیں جب کہ دنیا بھر میں عراقی فوجیوں کی ہلاکت اور ابو غریب کی جیل میں قیدیوں پر توڑے جانے والے ہولناک تشدد کے قصے بھی زباں زدِخاص و عام ہیں۔۱۵
محسن حمید (پ: ۱۹۷۱ء) ایک نوجوان پاکستانی ادیب ہیں جنھوں نے زندگی کا کافی حصہ امریکہ میں گزارا ہے۔ اب تک ان کے دو ناول شائع ہو چکے ہیں۔ The Reluctant Fudamentalist۱۶ان کا دوسرا ناول ہے جو ۲۰۰۷ء میں برطانیہ سے شائع ہوا اورپہلے ناولMoth Smoke(۲۰۰۰ء) کی طرح انتہائی مقبول ہوا۔یہ ناول مجموعی طور امریکی فکشن کے انداز میں لکھا گیاہے اور اس میں پاکستان کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان چنگیز کی زندگی پر گیارہ ستمبر کے اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے جسے نیو یارک میں اپنی کامیاب زندگی اور خوب صورت محبوبہ سے دستبردار ہونا پڑا۔سیاست کس طرح افراد کی نجی زندگیوں اور خوابوں کو منتشر کر دیتی ہے اور ان کے ذاتی منصوبوں پر اثر انداز ہوتی ہے، یہ اس ناول کا مرکزی خیال ہے۔لیکن اس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ ناول امریکی نہیں بلکہ دوسرے ( other) نقطۂ نظر کو پیش کرتا ہے۔ یہ ایک پاکستانی روشن خیال نوجوان کا نقطۂ نظر ہے،کسی ’’بنیاد پرست، متشدد اسلام پسند‘‘ کا نقطۂ نظر نہیں۔ مذہب اس ناول میں کہیں بھی زیرِ بحث نہیں آتا۔البتہ ناول کا نازک ترین مقام وہ ہے جب مرکزی کردار ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی دیکھتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے جسے وہ بڑی کامیابی سے چھپالیتا ہے۔ مگر اس مسکراہٹ کا اعتراف ناول کی معنویت میں کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے اور بین السطورکئی ان کہی کہانیاں بیان کر جاتا ہے۔ناول کی تکنیک بہت منفرد ہے ۔ لاہور کے علاقے انارکلی کے ایک ریستوران میں ایک شام کو ایک بے نام امریکی ایک باریش پاکستانی نوجوان سے ملتا ہے اور پاکستانی نوجوان اسے اپنی یادوں کی دنیا کی سیر کرواتا ہے۔یہ دنیا امریکہ میں واقع ہے جہاں اس نوجوان کی جوانی کے روشن دن کھو گئے ہیں۔ دوسرے کردار کا کوئی مکالمہ کہانی کا حصہ نہیں بنتا۔ اس کے مکالمات کا اندازہ صرف چنگیز کے ان مکالمات پررد عمل سے لگایا جا سکتا ہے۔مجموعی طور پریہ ناول انسانوں کی زندگیوں کے رنج و الم اور نشیب وفراز سے بحث کرتا ہے اور بین السطور یہ پیغام دیتا ہے کہ عالمی بساطِ سیاست پر جو بازی کھیلی جارہی ہے، اس کے نتیجے میں امن پسند، روشن خیال اور معتدل مزاج افراد بھی ایک نوع کی شدت پسندی کی طرف مائل ہونے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ناول کے دونوں کردار، ایک بے نام امریکی اور ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال پاکستانی جو ’’باریش‘‘ بھی ہے، اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی نمائندگی بھی کرتے ہیں اورکہانی کا عنوان اس کی تھیم بیان کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔یہ ناول انگریزی میں لکھا گیا ہے اور پہلی بار برطانیہ سے اور بعد میں امریکہ سے بھی شائع ہوا ہے ۔ اس حوالے سے اسے مغرب میں تخلیق ہونے والا ادب قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ کہانی جس مکانی تناظر میں بیان کی جاتی ہے نیز اس کے واحد ناطق کردار کا تشخص اسے پاکستانی ادب کا حصہ بھی بنا دیتا ہے۔
گیارہ ستمبر کا واقعہ امریکی ادب ہی نہیں بلکہ پاکستانی ادب پر بھی خاصی شدت سے اثرانداز ہوا ہے۔ اردو ادب یوں بھی بڑی حد تک سیاسی و معاشرتی تناظر کا عکاس اور مبصر رہا ہے۔ سیاسی وملکی امور کو موضوع بنانے والے ادیب اورشاعریا ان کی ایسی تخلیقات جو کسی نہ کسی قومی یا معاشرتی مسئلے سے متعلق ہوں، نسبتاًجلدشہرت حاصل کرلیتی ہیں ۔ ان کے مقابلے میں ذاتی احساسات، انسانی جذبوں اورداخلی کیفیات کا اظہار کرنے والے تخلیق کارزیادہ توجہ کے مستحق نہیں سمجھے جاتے۔ یہ صورت حال شاعری میں تو خاصی نمایاں رہی ہے۔ادیبوں کو ان کی سماجی اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس قدم قدم پر دلایا جاتا ہے۔ ’’مقامی ہوئے بغیر، کوئی آفاقی نہیں ہو سکتا‘‘، ادبی حلقوں اور تقریبات میں کثرت سے استعمال ہونے والاجملہ ہے۔کلاسیکی دور سے لے کر آج تک ہر شاعر و ادیب کی تخلیقات میں اس کے عہدکے سیاسی، ملکی اور معاشرتی مسائل کا عکس تلاش کرنے کی سعی کی جاتی ہے اور اسی کو اس کے اجتماعی شعور ، انسان دوستی اور سماجی آگاہی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن شاید اہم ترین سبب یہ ہے کہ اردو زبان جس جغرافیائی خطے میں بولی جاتی ہے اور جہاں اس کا ادب لکھا اور پڑھا جاتا ہے، وہاں عوام و خواص سب کے سب کئی صدیوں سے سیاسی انتشار ، بے اطمینانی اور معاشرتی جبرو استحصال کا شکاراور اس کے نتیجے میں ختم نہ ہونے والے دکھ درد میں مبتلا رہے ہیں اور غالباًاسی وجہ سے ان موضوعات کو ادب کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات پر بحث کرنا مقصود نہیں کہ یہ رویہ کس حد تک جائز اور کہاں تک یک رُخا ہے۔ یہاں صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنامقصود ہے کہ جب بھی ملکی سیاست یا معاشرتی زندگی کے افق پر کوئی قابلِ ذکر واقعہ رونما ہوا ہے، اردو ادیبوں نے اسے اپنی تخلیق کا موضوع ضرور بنایا ہے۔ اگر محض پاکستان کے حوالے سے دیکھیں تو تقسیم کے دوران فسادات ، ایوب خان کا مارشل لا، سقوطِ ڈھاکہ، پاک بھارت جنگیں، تحریکِ بحالئ جمہوریت، بھٹو کی پھانسی، ضیأالحق کا عہدِ حکومت اور اس کے بعد جمہوری حکومتوں کا دور، کسی نہ کسی طرح ادب کا موضوع رہے ہیں اور معروف ،کم معروف اور غیر معروف، ہر طرح کے شاعروں اور ادیبوں نے ان پر خامہ فرسائی کی ۔ ان میں کچھ تخلیقات تو اعلیٰ ادب کا حصہ سمجھی جاتی ہیں اور کچھ پر ’’عوامی ادب‘‘ کا لیبل لگا کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ کسی قوم کے مجموعی مزاج کو سمجھنے اور اس کے حقیقی مطمحِ نظر کو پرکھنے کے لیے اس ’’عوامی ادب‘‘ سے استفادہ بھی انتہائی ضروری ہے۔
اس پس منظر میں گیارہ ستمبر کا واقعہ،جو اگرچہ پاکستان سے کوسوں دور کسی اجنبی سرزمین پر رونما ہوامگراپنے عالمی ہمہ گیر اثرات ، اور پاکستان کی مخصوص سیاسی و دفاعی نوعیت اور جغرافیائی حیثیت کے پیشِ نظر ، پاکستان کی سیاست، معیشت، معاشرت اور شہری زندگی کے امن و سکون پر شدت سے اور منفی طور پر اثر انداز ہوا، اردو فکشن اور شاعری دونوں میں بھرپور طریقے سے رونماہوا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پاکستان میں واقع نہیں تھا اور ان پر حملہ کرنے والے ملزموں میں سے کوئی بھی پاکستانی ثابت نہیں ہوا ۔ ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ء کوامریکہ کے نیشنل کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق۱۹ میں سے ۱۵ ہائی جیکروں کا تعلق سعودی عرب سے،دو کا متحدہ عرب امارات سے اور ایک کا لبنان سے تھا جب کہ گروہ کا سرغنہ محمد عطا مصری تھا۔۱۷ لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اس کا خراج دیناپڑا اور اس حملے کے نتائج سے براہ راست متاثر ہونا پڑا۔ اسی کے نتیجے میں پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان پر وحشیانہ بمباری ہوئی جس کا شدید ردعمل پاکستان کے مذہبی حلقوں میں پیدا ہوا۔ طالبان کے مسئلے پر قوم دو طبقوں میں تقسیم ہوئی۔ ایک طبقہ اسلام کے روشن خیال پہلو کی حمایت اور طالبا ن کی انتہا پسندی کی مخالفت پر آمادہ ہوا اور دوسرا طبقہ، منطق و دلیل سے کام لینے کی بجائے اسے کفر و اسلام کی جنگ قرار دے کر عین جہاد قرار دینے لگا۔ جوں جوں امریکہ کے رویے میں تشدد اور سختی بڑھتی گئی، توں توں اس کے رد عمل میں شدت اور امریکہ سے نفرت کے جذبات میں تندی پیدا ہوتی گئی۔عراق پر حملہ اگرچہ پاکستان سے براہ راست متعلق نہیں تھا مگر اسلامی جذبۂ اخوت اور اس کے ساتھ ساتھ عام انسانی ہمدردی کے تحت، اس کا ردعمل کئی نظموں اور نثری تحریروں میں نظر آتا ہے۔ بعد میں پرویز مشرف حکومت کے فیصلوں اور پالیسیوں پر امریکی اثرات،لال مسجد کی ڈنڈا بردار لڑکیوں کی کارروائیاں، اس کے نتیجے میں دارالحکومت کے قلب میں واقع جامعۂ حفصہ پر چڑھائی اور کئی انسانوں کو، جو خود اپنے ہی ملک و قوم سے تعلق بھی رکھتے تھے، زندہ درگور کردینے کی جرأت آزما مہم، بلوچستان میں اکبر بگتی کا قتل، باجوڑ اور سوات کے آپریشن اور ان کے نتیجے میں ملک بھر میں دہشت گردی اور خود کش حملوں کا نامختتم سلسلہ ، پاکستان کے ادبی رسائل، اخبارات اور میڈیا پر موضوعِ بحث بنتے رہے۔ خاص طور پر کراچی سے شائع ہونے والے کتابی سلسلے ’’دنیا زاد‘‘ کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ اس نے ملکی ،قومی اور بین الاقوامی مسائل پر خصوصی شمارے شائع کیے جن میں دنیا بھر میں سامراجی جبر و استحصال کے خلاف صداے احتجاج بلند کی گئی اور ان موضوعات کا احاطہ کرنے والی تحریروں کو خصوصی جگہ دی گئی۔ ’’فنون ‘‘ اور ’’نقاط‘‘ نے بھی اس موضوع میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔ دیگر ادبی رسائل میں بھی وقتاً فوقتاً ایسی تحریریں شائع ہوتی رہیں جن میں مقامی اور عالمی سیاست کے نشیب و فراز کو موضوع بنایا گیا تھا۔اس کے نتیجے میں دیگر زبانوں کی طرح اردو ادب میں بھی ایک نو مزاحمتی رجحان کا آغاز ہوتا ہے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانیت کی تذلیل اور تباہی و بربادی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ یہ مزاحمت کسی خاص حکومت، نظریے یا گروہ کے خلاف نہیں بلکہ انفرادی اور اجتماعی ہر نوع کے سیاسی، معاشی، تہذیبی اور مذہبی استحصال کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
نوٹ: یہ مقالہ ۲۰۱۰ء میں لکھا گیا تھا اس لیے اس میں صرف ۲۰۰۹ء تک لکھے گئے فکشن کا تجزیہ شامل ہے ۔