(ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ)
یہ کوئی فٹ بال یا کرکٹ کا میچ نہیں ہے نہ ہی بارات پر پٹاخے چلانے کی بات ہے یہ جنگ ہے جنگ۔ اس میں روشنی ضرور ہوتی ہے مگر کئی سر کٹنے کے بعد، اس کے دھماکوں میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس کے بعد جشن نہیں ہوتا بلکہ آہ بکا ہوتی ہے ۔اس کے بعد اطمنان سے سویا نہیں جاتا بلکہ کئی آنکھیں تو کسی کی راہ تکتے ہی سفید ہو جاتی ہیں۔ خواہشات کا قتل عام ہوتا ہے۔ آرزووں کا خون ہوتا ہے۔ یتیم خانوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے بیساکھیوں کا کاروبار ترقی پاتا ہے، انسانی آبادیاں ویران اور قبرستان آباد ہوتے ہیں۔ کفن کا کاروبار خوب ہوتا ہے جنگ کی خواہش رکھنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ولن بن جاتے ہیں کیونکہ وہ انسانیت کے قتل کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس لیے تو کہہ رہیں جنگ ہے بھائی جنگ ہے۔
اے اہل مشرق جھوٹی اناؤں کی تسکین کے لئے کب تک لڑتے رہو گے؟ جنگ مشرق کے بچوں کو یتیم کر رہی ہے اس کی وادیوں کو بارود کا ڈھیر بنا رہی ہے۔ مجھے سردی میں ٹھٹھرتے افغان بچے نظر آ رہے ہیں جو جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے اور اسلام آباد میں کچرے کے ڈھیروں پر ان کا بچپن گزرا۔ وہ باپردہ مائیں بہنیں میری آنکھوں کے سامنے ہیں جو سر پر برقعے پہنے روٹی کی تلاش میں نکلتی ہیں مجھے ان بچوں کی معصومیت اور ان بہنوں کا حیا چھیننے والے درندوں کی نشاندہی تو کرو؟
ہماری تہذیب تباہ ہو رہی ہے ہمارا ورثہ لٹ رہا ہے ہزاروں سالوں سے تمدن کا نشان مٹنے کو ہے۔ کہاں ہے وہ شاعر اور ادیب جو گنگا جمنا کے تہذیب کو ادب و احترام کی تہذیب کا بتاتے نہیں تھکتے تھے؟ کہاں ہے وہ لوگ جو اس خطہ زمین کی جاذبیت کی باتیں کرتے تھے کہ جو بھی آیا اسے خوش آمدید کہا گیا اس کو اتنا پیار محبت دی گئی کہ ہر آنے والا واپس جانا بھول گیا ؟
یہ سرزمین اس بات پر فخر کرتی ہے کہ یہاں ان مذاہب نے جنم لیا جو بعد میں لمبے عرصے تک انسانیت کو باہم جوڑنے کا کام کرتے رہے ہندو مت میں پریم کے بھوجن گانے والے بہت ہیں بدھا نے جن جنگلوں میں گیان حاصل کیا وہ بھی اسی خطے میں ہیں بدھا نے اسی سرزمین پر محبت کی فصل کاشت کی۔ یہیں پر اس نے جان کی وہ حرمت بتائی کہ اس کے ماننے والے جوتوں کے بغیر چلنے لگے اب اس کی تعلیم کو سمیٹ دیا گیا ہے ہاں باباگرو نانک بھی یہیں کے ہیں۔ ان کا پیغام بھی سن لیتے نا جو حج بھی کرتے ہیں جن سے مسلمان بھی پیار کرتے تھے جن پر پنجاب فخر کرتا تھا مگر بتاؤ ان کے محبتوں کے پیغام کو کس نے جنگ میں تبدیل کر دیا؟
یہ خطہ تو صوفیاء کی سرزمین ہے وہ جو درختوں کے نیچے زندگیاں گزار گئے جنہوں نے انسانیت کا پیغام پہنچایا اونچ نیچ کے نظام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو دیا اے اجمیر پر حاضری دینے والو! اجمیر والے کی پکار بھی سن لو اس کا پیغام بھی سن لو کہاں سنو گے؟ اس وقت تو ایک ہی بھوت سوار ہے جنگ جنگ اور بس جنگ جو اس سے کم بات کرے اس کی حب الوطنی مشکوک ہو جاتی ہے۔
خون جس طرف کا بھی گرے قتل انسان ہوتا ہے جس کا درد کئی دلوں کو توڑ جاتا ہے جس کا کرب کئی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لے آتا ہے جنگ میں انسانی سروں کی فصل کو کاٹا جاتا ہے انسانی خون دھرتی پر قرض ہوتا ہے وہ مٹی کو بھی تکلیف دیتا رہتا ہے۔ اے انسان نما لوگو! جو جنگ کے طلب گار ہو اپنی اس خواہش سے بعض آ جاؤ اور انسانیت کو سکون سے رہنے دو جنگ کرنی ہے تو غربت سے کرو جہالت سے کرو بھوک سے کرو اپنے وسائل سے اور لوگوں کو چھت دینے کا سامان کرو جنگ سے محبت ہو تو جلتا شام دیکھو لہو لہو عراق دیکھو کھنڈرات کا ڈھیر افغانستان دیکھو شائد اس سے تم جنگ سے باز آ جاؤ۔
اپنے بڑوں کو بھول گئے ہو تو انہی کی طرف دیکھ لیتے جن کے اسلحے کا کاروبار تمہیں باہم امن سے رہنے نہیں دیتا ذرا سکاٹ اور انگلینڈ کی باہمی جنگی تاریخ کا مطالعہ کر لو ذرا جرمنی، بیلجیم ، پولینڈ اور برطانیہ کی باہمی خانہ جنگیوں کا مطالعہ کر لو۔ جنگ تباہی دیتی ہے کوئی ہوتا جو تمہیں ان ماؤں کے مرثیے بتاتا جن کے بیٹے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں استعمار کی اناؤں کی بھینٹ چڑھ رہے تھے، کروڑوں انسانوں کا قتل عام کرنے اور اپنے ملکوں کو مٹی کا ڈھیر بنانے کے بعد مغرب اس نتیجے پر پہنچا کہ جنگ نہیں امن چاہئے امن ہی جیت کا نشان ہے امن ہی انسانیت کی معراج ہے امن ہی پہلا اور آخری آپشن ہے۔