جنید جمشید پر لادی گئی دین داری کے بلا جواز تقاضے

writer's name
ڈاکٹر عرفان شہزاد

(ڈاکٹر عرفان شہزاد)

جنید جمشید دین داری کی خاطر وہ قرض بھی چکاتا رہا جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔
دین داری خود کافی آزمائش ہے۔ دینی مطالبات کی ادائیگی بجا لانا، گناہوں سے بچنا، حلال حرام کا خیال رکھنا، فرائض ادا کرنا، حقوق العباد کا خیال رکھنا خود کافی امتحان ہے۔ لیکن ہمارے ہاں دین کے داعیوں نے مزید ایسے بہت سے تقاضے بھی دین داری کے لوازمات کے طور پر ساتھ جوڑ دیئے ہیں جو دین کا حصہ نہ ہونے کے باوجود دین سے بڑھ کر اصلِ دین کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔
اس میں سب سے بڑھ کر یہ نام نہاد ‘اسلامی حلیہ’ ہے۔ اسلام نے کوئی مخصوص حلیہ متعین کر کے نہیں دیا۔ علماء یہ بات جانتے ہیں۔ لیکن محض امتیازی علامات قائم کرنے کے لیے، دوسروں سے خود کو الگ شناخت دینے کے لیے اسے ضروری سمجھایا ہوا ہے۔ اسلام جب تک دعوت کا دین رہا، اس نے دین میں داخل ہونے والوں کے حلیے تبدیل کیے نہ ہی نام۔ روم و ایران کے لوگ جب مسلمان ہوئے، تو ان کی ثقافت اور ان کے  ناموں کو اسی طرح برقرار رکھا گیا۔ بلکہ ان اقوام کی ثقافتی اقدار عربوں نے بھی اپنائیں۔ پرویز، افراسیاب، شہریار، سب فارسی نام ہیں۔ پرویز جیسا نام کسی نے تبدیل کرنے کو نہیں کہا، حالانکہ خسروپرویز نے رسول اللہ کا خط مبارک پھاڑا تھا۔ لیکن اس وقت تک مسلمان نام اور کام الگ الگ سمجھتے تھے۔اب تو کوئی یزید نام نہیں رکھ سکتا، حالانکہ اسلامی تاریخ میں یہ نام رکھا جاتا رہا۔ کئی بزرگوں کا نام یزید تھا۔ بایزید بسطامی تو معروف ہیں۔
اس ‘اسلامی حلیے’ میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو دین کا تقاضا ہو۔ داڑھی، وہ بھی ایک مشت یا اس سے زیادہ، پگڑی جسے عمامہ کا مقدس نام دے کردین میں شامل کر دیا گیا، اس کے علاوہ ٹوپی، کرتا شلوار، حالانکہ سنت تہبند باندھنا ہے، یہ سب بھی دین پر عمل کرنے کے لیے لازمی قرار پائے ہیں۔ یہ حلیہ دین داری کی تصدیق کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ حلیہ ایسا ہوگا تو آپ کو نماز کی امامت بھی کرنے دی جائے گی اور منبر پر بٹھا کر خطبہ بھی سماعت فرمایا جائے گا۔ یہ نہیں تو آپ لاکھ دیندار، پرہیزگار، اور علم والے کیوں نہ ہوں، دین کے معاملے میں آپ کی کوئی بات مستند نہیں مانی جائے گی۔ البتہ یہ حلیہ اختیار کر کے آپ میں قابلیت ہو یا نہ ہو، آپ دین پر نہ صرف بات کر سکتے ہیں ، بلکہ آپ کی ہر بے بنیاد بات ماننے والے آپ کو بآسانی مل جائیں گے۔
آپ فقہ کی کتابوں میں امامت کی تمام شرائط پڑھ ڈالیے کہیں بھی آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ داڑھی بھی امامت کی شرائط میں سے ہے۔ نہ یہ ملے گا کہ امام کا سر ڈھانپا ہوا ہو۔ پوری دنیا میں یہ اعزاز برصغیر کے علماء کو حاصل ہے کہ انہوں نے پہلے داڑھی کو دین میں شامل کیا ا اور پھر سارا دین ہی داڑھی میں شامل کر دیا۔
ہمارے مفتی صاحب کے پاس ایک کلین شیو بزرگ آئے۔ انہوں نے بتایا کہ خواب میں اسے روزہ رسول کی زیارت ہوئی ہے۔ شدت تاثر سے ان کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ ان کے چلے جانے کی بعد مفتی صاحب نے فرمایا کہ کیسے ممکن ہے ایک داڑھی منڈھے کو ایسا مبارک خواب آئے، اس لیے ان پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں۔
حلیہ کے اعتبار سے مشرکین عرب، یہود و نصاری اور مسلمانوں میں کوئی امتیاز نہیں تھا۔ ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان ہونے کے بعد مسلمانوں کو مشرکین سےامتیاز قائم کرنے کے لیے کسی مخصوص حلیے کے اپنانے کی تلقین کی گئی ہو۔ البتہ یہود و نصاری کے بعض ایسے اعمال جن کا تعلق بدعات سے تھا اور وہ دین کے نام پر کرتے تھے، ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا تھا، نہ کہ ان کے ہر ہر عمل کی مخالفت کا حکم دیا گیا۔ یہ بات بھی اہل علم جانتے ہیں کہ جن معاملات میں شریعت کا کوئی حکم نہیں ہوتا تھا، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ اس میں اہل کتاب کی پیروی کر لیا کرتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مسجد کا منبر، جسے ہم منبر رسول کہتے ہیں، رسو ل اللہ کے ایک صحابی نے شام کے گرجا گھروں میں دیکھا تھا اور ان کی تجویز پر مسجد بنوی میں بنوایا گیا تھا۔ اسی طرح مسجد کے مینار کاخیال بھی گرجا گھروں سے لیا گیا تھا، حضرت عثمان کے دور میں یہ مساجد کی تعمیر میں شامل ہوئے۔
انسانی نفسیات ہے کہ اسے دین پر عمل کرنا اتنا مشکل معلوم نہیں ہوتا جتنا اپنی ثقافت اور کلچر کو تبدیل کرنا۔ جن ثقافتی اقدار میں کوئی ایسی بات بھی نہ پائی جاتی ہو جو خلاف شریعت ہو، تو اسے بدلنے کا کوئی حکم دین کا مطالبہ نہیں۔ یہاں لوگوں کا دین دار ہونا ہی ایک بڑا معرکہ ہے اس پر حلیے کی ناروا پابندی، نئے دین داروں اور دین پر عمل کارجحان رکھنے والوں کے لیے خواہ مخواہ کتنی مشکلات کھڑی کر دیتی ہے، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ دعوت دین میں یہ بڑی بے حکمتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اب تو کچھ آسانی ہو گئی، ورنہ مولوی حضرات دین دار ہونے کا پہلا تقاضا یہ کیا کرتے تھے کہ گھر سے ٹی وی نکال دو، اسے بیچو بھی نہیں کہ دوسرے لوگ اس کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے، بلکہ اسے توڑ ڈالو۔ شکریہ چینلز والوں، جب سے انہوں نے مولویوں کو بلانا شروع کیا ہے، ٹی وی حلال ہوگیا۔ لیکن ابھی بھی بہت کچھ خود ساختہ حرام، حلال ہونے کا منتظر ہے۔
مخصوص حلیہ نہ اپنانے پر سنت کی خلاف ورزی کا طعنہ دین داری کے شوقین افراد کو بلا جواز احساس ندامت میں مبتلا کرنا ہے۔ کتنے ہی نوجوان ایسے ہیں جو اسی وجہ سے دین کی طرف نہیں آتے کہ انہیں شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنا اس لیے پسند نہیں کہ ہمارے عرف میں یہ عجیب سمجھا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ٹخنوں کی ڈھانکنے کی ممانعت عرب کے کلچر کے تناظر میں تھی جہاں مغرور لوگ ٹخنوں سے نیچےاپنی تہبند کا کپڑا لٹکانا فخر کی علامت سمجھتے تھے۔ قول رسول پر حکم کا تقاضا آج بھی یہ ہے کہ آج کی غرور و تکبر کی علامات کی مخالفت کی جائے، نہ کہ شلوار ٹخنوں سے اونچی رکھنا ضروری سمجھا جائے۔ اس پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنے میں جو شرم آتی ہے تویہی غرور کی علامت ہے۔ اس پر میں کہا کرتا ہوں کہ مولوی صاحب سے کہیں کہ کبھی گدھے کی سواری بھی کر لیا کریں۔ سنت ہے۔ لیکن نہیں کرتے۔ یہاں کیوں شرم آتی ہے؟سیدھی سی بات ہے کہ ہماری عرف میں اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ مولوی صاحب تہبند بھی نہیں باندھتے کیوں ؟ ہمارے ہاں کا رواج نہیں ہے۔ یہ شرم عرف کی وجہ سے آتی ہے۔ اور اسلام عرف پر عمل کرنے سے نہیں روکتا، جب تک وہ خلاف شریعت نہ ہو۔
مولانا تقی عثمانی نے جب تک پینٹ کوٹ کے جائز ہونے کا فتوی نہیں دیا تھا ،ہمارے مولوی صاحبان اسے بھی کفار کی مشابہت ہی کہا کرتے تھے بلکہ اب بھی کہتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ مولوی صاحب کا اپنا حلیہ بھی رسول اللہﷺ کے حلیےکے عین مطابق نہیں۔ اگر وہ دین داروں سے کرتا شلوار کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم ان سے تہبند اور گدھے کی سواری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مولوی صاحب اگر اپنی آسانی کے لیے اپنے لیے حلیے کا انتخاب کرسکتے ہیں تو یہی سہولت دیگر لوگوں کو بھی دیجیے اور بلا جواز تکلفات سے انہیں آزاد کیجیے۔
درحقیقت مخصوص حلیے پر اصرار دین دار سے زیادہ اپنے فرقے کی شناختی علامات کو قائم کرنا ہے تاکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ ہوتا رہے۔ اسی لیے اسی داڑھی، پگڑی، ٹوپی، جبہ، دستار اور شلوار میں ہر فرقے نے اپنی اپنی مخصوص ساخت اور جدت پیدا کی ہے۔ ہر ایک کے نزدیک فرد وہی معتبر ہے جو اپنے فرقے کا مخصوص حلیہ اپنائے۔
اس س بڑھ کر ایک ظلم اور بھی جنید جمشید پر کیا گیا ۔ اوروہ تھا موسیقی جیسا فن لطیف چھڑا دینا۔ ذرا سوچئے، جنید جمشید ہماری طرح موسیقی سے صرف لطف اٹھانے والا نہیں بلکہ موسیقی تخلیق کر سکنے کی خداد صلاحیت سے بھی آراستہ تھا۔ جمالیاتی ذوق رکھنے والے کو موسیقی سننے سے محروم کرنا کتنا بڑا ظلم ہے۔ اہل ذوق سمجھ سکتے ہیں ۔ جیسے کسی شاعر کو شاعری سے روک دیا جائے، کسی تخلیق کار کو تخلیق سے منع کر دیا جائے۔ جنید بے چارہ سادہ دل نوجوان، یہ ظلم بھی دین کے نام پر سہ گیا۔ اس کا اجر خدا اسے عطا کرے۔ البتہ موسیقی اسلام میں حرام نہیں۔اسلام میں فحاشی حرام ہے۔ موسیقی اور فحاشی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ موسیقی کی حرمت سے متعلق ایک حدیث بھی سند کے لحاظ سے قوی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس کی علت پر دسیوں قوی الاسناد احادیث موجود ہیں۔ موسیقی کی حرمت کا جیسا تاثر ہمارے دین دار حلقوں میں پیدا کر دیا گیا ہے، اسلام کے ابتدائی ادوار میں نہیں ملتا۔ موسیقی تو خدا کی ایجاد کردہ شے ہے۔ موسیقی ساز اور آواز کی زینت ہے اور خدا سورہ اعراف میں فرماتا ہے کہ کون ہے جو خدا کی ان زینتوں کو حرام کرے جو خدا نے اپنے بندوں کےلیے پیدا کی ہیں۔ کوئی اگر موسیقی کو فحاشی پھیلانے کے لئے استعمال کرتا ہے تو فحاشی کو غلط کہیے موسیقی کو مطلقا حرام کیسے قرار دیا جاسکتا  ہے۔ جس پر کوئی نص موجود نہیں۔ یہ خدا کی حرمتوں میں اپنا خود ساختہ اضافہ ہے۔ جس کی اجازت خدا نے نہیں دی ہوئی۔ یاد رکھیے کہ خدا کی بیان کردہ حرمتیں اس طرح ظنی نہیں ہوتیں کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے۔ خدا نے جسے حرام قرار دیا، اس کو پوری قطعیت سے حرام قرار دیا ہے۔ اور جسے حرام نہیں قرار دیا، اس کو حرام قرار دینے کے لیے بحث کرنی پڑ جاتی ہے۔ اسی سے پہچان ہو جاتی ہے کہ کیا چیز خدا کی حرام کردہ ہے اور کون اس کے بندے حرام قرار دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
فنون لطیفہ سے اس دوری نے دین داروں کی طبائع کو کھردرا، خشک اور بے لچک کر دیا ہے۔ قرآن فہمی میں ایک بڑی رکاوٹ زبان و بیان کی لطافتوں کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بہرحال، جمالیاتی ذوق کے حامل کو دین داری کے نام پر موسیقی سے محروم کرنا ایکسڑا دین داری کا تقاضا ہے مذھب کا تقاضا نہیں ہے۔
انسان کو اپنے گناہوں کا احساس ندامت ہی کافی ہے، اسے مزید بلاجواز احساسات ندامت میں مبتلا کر کے کوئی نیکی نہیں کی جارہی ہے۔ جنید جمشید سے بلا جواز یہ سب مشقتیں کروانے والے دین کی کوئی اچھی خدمت نہیں کرر ہے۔ جنید اپنی آزاد روی میں بھی آئی کون تھا اور دین داری میں بھی آئی کون icon بنا۔ دین داری کا یہ غیر ضروری معیارجو جنید کے ذریعے پیش کیا گیا یہ بہت سے متوقع دین داروں کی لیے دین پر عمل کرنے کے لیے سد راہ بن گیا ہے اور یہ دین کی کوئی خدمت نہیں۔ لوگوں کو اتنی گنجائش دیجیے جتنی دین نے دے رکھی ہے۔ دین کے مطالبے بہت تھوڑے سے ہیں۔ دین پر عمل ایک خوشگوار عمل بنائیے۔ اسے اتنا گاڑھا اور کٹھن نہ بنائیے کہ اس پر چلنے کا حوصلہ جنید جمشید جیسے چند بلند حوصلہ، سادہ دل افراد ہی کر سکیں۔
اس سماج نے جنید کے ساتھ اس کی سبقت لسانی پر ہی زیادتیاں نہیں کیں بلکہ دین کےساتھ  بے جواز تقاضوں کو لاد کر، اس کی حسِ جمالیات کو مجروح کر کے بھی کی ہے۔ اس مشقت کا اجر تو وہ انشاء اللہ خدا سے پا لے گا، مگر آپ خدا کے دین پر اپنے اضافوں کے لے خدا کو جواب دہ ضرور ہوں گے۔

2 Comments

  1. بہت لاجواب۔دل کرتا ہے کہ صاحب پوسٹ کا محبت سے ماتھآ چوم لوں ۔بلکل درست وقت آگیا ہے کہ لوگوں کو مولویوں کے دین کی بجائے قرآن و سنت کا اصل دین بتیا جزاک اللہ

Comments are closed.