جون ایلیا کے نام .ایک خط جو ڈیڈ لیٹر ثابت ہوا

Author: Muhammad Hameed Shahid

(محمد حمید شاہد)

پیارے دوست:خوش رہو
تم جانتے ہی ہو گے کہ جون ایلیا کی وفات کے ٹھیک ایک برس بعد ہمارا مشترکہ نظم نگار دوست مقصود وفا فیصل آباد سے اپنے جریدے کا خاص نمبر لانا چاہتاتھا ۔مقصود کے اصرار پر جب جون کی شاعری پر لکھنے بیٹھا تو یہ خط کمپوز ہو گیا تھا اوراس میں جون کے ان متنازعہ خطوط کا حوالہ در آیا تھاجواس نے اسی پرچے کی کسی گزشتہ اشاعت میں شامل کیے تھے مگر میرے ذہن میں جن کی گونج باقی تھی ۔ مقصود کا جریدہ بوجوہ شائع نہ ہو سکا اور یہ تحریر بھی ادھر ادھر ہوگئی ۔ پھر یوں ہوا کہ بہت سا وقت گزرنے کے بعد کچھ اور تلاش کرتے ہوئے اس پر نظر پڑی تو لگا جیسے یہ ایک ڈیڈ لیٹر تھا۔ ایسا ڈیڈلیٹر جس سے مرنے والے توبے نیاز ہواہی کرتے ہیں ، پڑھنے والوں کو بھی شاید ان کی طلب نہیں رہتی ۔ خیر، پہلی بارجب یہ مجھے ملا تھا تو میں نے اسے انٹر نیٹ پر چڑھا دیا۔ وہاں تو لگتا ہے اس مشین پر تو جیسے چیزیں پڑھنے کے لیے نہیں نمائش کے لیے چڑھائی جاتی ہیں ۔ ادھر ادھر سے چند ایک سرسری سے ردعمل پر مشتمل ای میل ملے اور بس ، یوں لگتا تھا کہ جس لنک پر یہ پڑے تھے وہ بھی ڈیڈ ہو چکا تھا۔
کل تم سے جس مضمون کا وعدہ کیا تھا ، وہ اپنے کمپیوٹر میں تلاش کر رہا تھا کہ یہ ایک بار پھر اچانک سامنے نکل آیا ۔ اسے بھی ساتھ لف کر رہا ہوں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ میں اس سارے عرصے میں یہ تحریر کسی اور جریدے کو چھپنے کے لیے نہ بھیج سکا؟
محبت کے ساتھ
محمدحمید شاہد
!اے جون ایلیا: فقط تمہارے لیے
پیارے جون ! آداب
مرنا ہر کسی کو ہوتا ہے‘ اس لیے وہ مر جاتا ہے ۔۔۔گذشتہ نومبر کے پہلے دہے میں تمہاری مدت حیات بھی تمام ہوگئی۔۔۔مگر مجھے دیکھو کہ میں تمہیں خط لکھ رہا ہوں ۔ ایک گزرے ہوئے شخص کو خط ۔۔۔ تم چاہو تو قہقہہ لگا سکتے ہو ۔ مجھے بھی اپنی یہ حرکت بڑی احمقانہ لگتی ہے اور میں نہیں جانتا تمہیں یہ پرچہ عدم آباد کے پتے پر مل بھی پا ئے گا ۔ ویسے سچ پو چھو تو اس کا تمہیں ملنا یا نہ ملنا میرا مسئلہ نہیں ہے ۔ میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ میں نے تمہارے وہ خطوط پڑھ لیے ہیں جن میں تمہاری روح حلول کر گئی ہے اور اب یہ صورت ہے کہ میں کوریا کے ان باشندوں جیسا ہوگیا ہوں جنہیں یقین تھا کہ درختوں کے نیچے مرنے والوں کی روحیں ہمیشہ کے لیے چھال کے اندر لکڑی میں اتر جاتی ہیں ۔وہ درختوں کو کاٹتے ہوئے کیک شراب سور کا گوشت نذرانہ پیش کرتے تھے۔ میں نے تمہارے خط پڑھے تو مجھے یوں لگا جیسے نذرانے میں تمہاری روح مجھ سے الفاظ مانگتی تھی اور مجھے یہی مناسب معلوم ہوا کہ اس معاملے میں تمہارا تتبع کروں لہذا خط لکھنے بیٹھ گیا ہوں ۔
پیارے جون ‘ ذرا مڑ کر دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ مدتِ مدید سے جس نے خون تھوکنے کو اپنا وتیرہ کر لیا ہو ‘ کچھ ایسا وتیرہ کہ وہ اس کا پیشہ دِکھنے لگے تو اس کے ساتھ چلنے والوں کا اوب جاناانہونی کا ہونا نہیں ہوتا
؂خون بھی تھوکا ‘سچ مچ تھوکا‘ اور یہ سب چالاکی تھی
لہذا تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا جیسا ایسے میں ہوتا ہے ۔۔۔ حتی کہ تمہیں اپنوں کی اکتائی ہوئی آوازیں صاف صاف سنائی دینے لگیں:
!جون: او خون تھوکنے والے
اب دِکھانا تجھے ہے کرتب کیا؟
اور تم نے یہ کرتب دکھایا کہ موت کی بانہوں میں سمٹ کر مر گئے:
یارو ! کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں ‘ وہ تو مر جاتے ہوں گے
یہاں اس شعر کا محل کیا ہے؟ تم نے ہونٹوں میں ہنسی دابنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے‘ شعر فہمی کے معاملہ میں‘ میرے ٹھوکر کھانے کی بابت گما ں باندھاہو گا اور سوچا ہوگا کہ’’ موت‘‘ اور’’ محبوبہ‘‘ کوہم مرتبہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے ۔ تم ایسا سوچ سکتے ہو کہ تم بے پناہ محبت کی طلب میں مرتے رہنے کا چلن رکھتے تھے‘ مگروہ جو’’ محبوبہ‘‘ کا عالی رتبہ پا لے اس کی محبت میں شاعرانہ انا کو مار دینے کا یارا شاید تم میں نہیں تھا ۔ ایسے میں زاہدہ حنا کے نا م ۱۵ نومبر ۱۹۶۹ء کو لکھے گئے تمہارے خط کے یہ جملے یاد آتے ہیں :
آج مجھے نہ جانے کیوں ایک بات ہمیشہ سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ مجھے کسی نے چاہا نہیں ایسا چاہنا جسے واقعی چاہنا کہتے ہیں اور کسی قدر چاہا بھی تو اس کے ساتھ وہ سب کچھ بھی کیا جو بدخواہ اور دشمن ہی کر سکتا ہے ۔ میری غیبت ‘ برائی ‘میرے خلاف زبان اور وقت پر میرا ساتھ نہ دینا وغیرہ وغیرہ
جسے اپنے چاہنے والے کی بابت ایسے وسوسے سنپولوں کی طرح ڈسنے لگیں وہ اکثر اپنے محبوب کو کھو دیتا ہے ۔ رولومے نے کہا تھا کہ ایسے لوگ بہت جلد تنہا ہو جاتے ہیں اور یہ تنہائی خالی پن لے آتی ہے ۔
وہ چھٹاخط جس پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر جسے تم نے مقصود وفا کو دیتے ہوئے باقی خطوط کے ساتھ اس کے چھپنے کی خواہش کی تھی اسی خالی پن کا شاخسانہ لگتا ہے ۔
اے جون !میں تمہارے حق میں لکھنے بیٹھا تھا خدا گواہ لکھنا بھی تمہارے حق میں چاہتا ہو ں کہ ہماری تہذیب میں مرنے والوں کی صرف نیکیاں گنوائی جاتی ہیں مگردل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس قلم کو نہیں روک پا رہا جو فکشن نگار زاہدہ حنا اور تمہارے بچوں کی خاموش اذیت کو محسوس کر کے بہک گیا ہے۔ کاش تم نے یہ خط نہ لکھے ہوتے ‘ لکھے تھے تو چھپنے کو نہ دیئے ہوتے‘ چھپ گئے تھے تو میری آنکھیں پھوٹ گئیں ہوتیں اور میں نے نہ پڑھے ہوتے ۔ مگر حیف کہ یہ سب کچھ ہوا ہے اوراس کے باوجود کہ تمہارے مجموعے ’’ یعنی‘‘ کی بعد از وفات کی اشاعت کی خبر نے مجھے چونکایا‘ ان خطوط کے لفظوں میں بھری آگ میں بھسم ہوتا رہا ہوں ۔ اب یہ سطریں لکھ بیٹھا ہوں تو یوں ہے کہ میرے دل کا غبار چھٹ گیا ہے ۔ میں تمہاری طرف دیکھ کر نادم ہورہا ہوں کہ تم میری راہ روکے نہ جانے کب سے اپنی کھوکھلی رانوں پر استخوانی پنجے مارتے ہوئے دہرائے جاتے ہو
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
پیارے جون‘ تم جانتے ہو کہ ادب کی طریقت میں کسی کے حق میں بولنے کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ اس کے فن اور اس کی فکر کو گفتگو کے لائق جانا جائے ۔سو ان معنوں میں‘ میں جو عین آغاز میں کہہ آیا ہوں اسے بھی اپنے حق میں کہا ہوا جانو ۔ اور ہاں سنو میں تمہارے مزاج سے آگاہ ہوں اور جانتا ہوں کہ تم مزاج کے اعتبار سے ترقی پسند نہ تھے ترقی پسندوں کی صحبت میں بیٹھ کر خود کو ان جیسا سمجھ بیٹھے تھے۔ کوں جانے کہ یہ ان کا بہکاوا تھا یا ان حلقوں تک سرایت کیے رکھنے کی تہاری للک کہ بظاہر تم ’’اعلان جنگ‘‘ سے کم پر راضی ہونے والوں میں سے نظر نہیں آتے تھے۔۔۔ کم از کم تمہارے پہلے مجموعے ’’شاید‘‘ سے تو یہی پتہ چلتا ہے ۔۔۔ تاہم ادھر کان دھرو تو ایک بات کہوں کہ اس باب تم مجاز اور جالب کے بیچ بھٹکتے رہے ہو ۔تمہارا المیہ تو وہ بھی نہیں بنتا جو فیض احمد فیض کا بن گیا تھا ‘ وہی دو آوازوں والا۔ تم نے لکھا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
الم نصیبو! بہادری سے‘ ستم نصیبو ! بہادری سے
صفوں کو اپنی درست کرلو کہ جنگ آغاز ہو چکی ہے
“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اعلان جنگ)
مگر حرام ہے کہ ا لم نصیبوں اور ستم نصیبوں کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ تاہم جب تم نے یہ کہا کہ
خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
میں بھی برباد ہو گیا تو بھی
تو سب تڑپ اٹھے یوں جیسے بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں اور ایک خنجر سا دل میں اترتا محسوس کر رہے ہوں۔ تم ترقی پسندوں کے نرغے میں رہنے کے سبب جو ’’انقلابی ‘‘ شاعری کرتے رہے اس کی لپک نرغہ ڈالنے والوں تک رہی ہو تو رہی ہو اس سے آگے نہ بڑھی۔ میں نے ایسی شاعری کو پوری توجہ سے پڑھا ۔۔۔شاعری کو بھی اور اس بحث کو بھی جو ’’شاید‘‘ کے مفصل دیباچے میں تم نے کی ہے۔ مگر طرفہ دیکھو کہ میں تمہاری ترقی پسندی کے باب میں جس قدر الجھتا جاتا تھا تمہاری رومانوی رویے کی صداقت پر اتنا ہی ایمان پختہ ہوتاجاتا تھا ۔
جان من جون! ’’شاید‘‘ کے دیباچہ ’’نیازمندانہ‘‘ کا ذکر چل نکلا ہے تو جی چاہنے لگا ہے کہ جنہیں تم نے اپنی فکری بنیادیں قرار دیا انہیں ذرا ترتیب سے دہرالوں ۔ کیا تم یہی کہنا چاہتے تھے نا!۔۔۔ بقول تمہارے:
۔۔۔ تمہارا سب سے بڑا مسئلہ یقین سے محروم ہو جانے کی اذیت سے تعلق رکھتا تھا۔*
۔۔۔ارتیابیت تمہارے نزدیک خوش آئند کیفیت نہیں تھی۔*
۔۔۔کائنات کی مابعدالطبیعاتی توجیہہ تمہارے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی تھی*
۔۔۔دلیل ولیل کچھ نہیں ہوتی یہ توتاریخی ‘ سماجی اور نفسیاتی تکییف (کنڈیشننگ)ہوتی ہے جو کسی رائے اور مسلک کو رجحان پیدا کرتی ہے ۔*
جس یقین کے ساتھ تم یقین سے محروم ہونے کی بات کرتے ہو اس سے تمہارے بے یقین ہونے کا معاملہ مشکوک ہو جاتا ہے ۔ بس ہوا یہ ہے کہ تم عین اٹھتی عمر میں ہیوم کو پڑھ کر چونکے ‘ اس سے پہلے ترقی پسند تم پر وار کر چکے تھے بس پھر کیا تھا ‘بقول تمہارے تم ’’دین دنیا سے جاتے رہے‘‘ یہ تم سمجھتے ہو ۔۔۔ یا شاید تم ہمیں یہی کچھ بآور کرانا چاہتے ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جس طرح تم چونکے تھے اسی طرح اوروں کو چونکانا چاہتے تھے ۔ تمہاری شاعری کی روح کا یہ حصہ نہ ہو سکا تو تم نے دیباچے کا حصہ بنا دیا ۔ مگر یہ تو ایسا ہی تل نکلا جو گوری چٹی خاتون نے سلیمانی سرمے سے عین گال پر لگایا تھا اور پہلے بوسے ہی میں اڑنچھو ہو گیا ۔
میرا جی چاہنے لگا ہے جون کہ اب تمہاری شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ان جبری دھاروں کو نظر میں سمو لوں جو بہر طور تمہارے مقدر کا حصہ ہو گئے تھے ۔ بے شک تم نے جب اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ’’ میں تو ایک جاہل ہوں ۔ agnostic ہوں ‘‘ تو ساتھ ہی تقدیر کی نفی کی تھی۔ تم مقدر کے اس جبر کو شناخت کر رہے تھے جس کی سبب انسان ایک’’ سلسلہ واقعات‘‘ سے نہیں نکل سکتا مگر اسے تقدیر ماننے سے انکاری تھے اور کہتے تھے کہ ’’اس کا ماورائی ہونا ضروری نہیں ‘‘۔ مجھے تمہارے فکری الجھاووں کا سلسلہ تمہارے اس اعتراف سے جڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے جس کے مطابق تم ’’ تشکیک ‘‘کی’’ عذاب ناکی‘‘ سے دو چار تھے۔ ہاں تو میں اس جبر کی بات کر رہا تھا جو تمہارے نزدیک تقدیر نہیں اور میرے لیے تقدیر ہی کا درجہ رکھتی ہے کہ تم اس بارہ میں انتخاب کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے ۔ مثلا یہ کہ
۔تم امروہہ میں پیدا ہوئے‘ ۱۹۳۶ کا سال تھا اور مارچ یا پھر دسمبر کا مہینہ۔
۔تمہیں علمی ماحول یوں میسر آیا کہ تمہارے دادا‘پردادا شاعر تھے اور تمہارے والد شفیق حسن ایلیا بھی۔
۔تمہارے تینوں بھائی کمال امروہوی‘ رئیس امروہوی اور سید محمد تقی بھی شاعر یا فلسفی نکلے۔
تم امروہہ کے اس علمی ادبی فضا میں پیدا نہ ہوتے چیچوں کی ملیاں کی کسی تاریک گلی میں بسنے والے اس مفلس کے گھر پیدا ہوتے جس کے باپ داد سب ان پڑھ تھے اور جس کے نزدیک لفظ ‘ معنی اور جمال کی بحث بے ہودہ اور صرف چکی کی مشقت واجب ہو جاتی ہے تو کیا تم پھر بھی اس کینڈے کے شاعر بن کر نکل سکتے تھے ؟ اور کیا تم پھر بھی تقدیر کا یوں ہی انکار کر دیتے؟ ۔۔۔ میں جانتا ہوں تمہارا منطقی ذہن دونوں بار’’ نہیں ‘‘کہنے پر مجبور ہوگا ۔۔۔ مگر میرا حوصلہ دیکھو کہ میں دونوں سوالوں کا جواب’’ ہاں‘‘میں دینا چا ہتا ہوں ۔۔۔ اس لیے کہ میں مقدر پر یقین رکھتا ہوں ۔۔۔اور جس کے مقدر میں ہوتا ہے الفاظ اس کا سینہ روشن کر دیتے ہیں اور منزلیں خود اس کے لیے بانہیں وا کیے چلی آتی ہیں تاہم اس تقدیر کی بھی ایک منطق ہے کہ اس کے لیے اپنا اپنا’’خنجر تیز رکھنا‘‘ پڑتا ہے ۔ تو جون جی تقدیر اورماورا کے حوالے سے اپنے آپ کو agnostic کہہ کر تم جو تضاد کی دھند بنا گئے ہو کوشش سے بھی وہ صاف نہیں ہوتی خصوصا وہ جو تمہارے شعروں میں در آئی ہے ۔ مثلا جب تم یہ کہتے ہو کہ :
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
یا پھر۔۔۔
سلسلہ جنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی
ایک آواز ابھی آئی تھی ‘ وہ آواز ہوا کی تھی
تو میں نہیں جانتا اے میرے پیارے جون ‘ تمہارے agnostic ذہن میں اس ’’روح‘‘ کے کیا معنی نکلتے ہیں ۔ فی الاصل ماورا تمہارے اندر کہیں یقین کی طرح موجود ہے تبھی تو روح کی روح تمہارے شعروں میں دندناتی پھرتی ہے۔ دیکھو جون ‘ یہ روح وہ خاص جوہر ہی تو ہے جو فکروشعور اور عقل و تمیز کا اختیار رکھتا ہے ۔ اس بارہ میں میرے خدا کا کہا سنو‘ جس کے اب تم مہمان ہو اور جس پر میں کامل ایمان رکھتا ہوں۔
’’یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے ہوئے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ۔جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘
۔(القرآن۔ سورہ الحجر:۲۸‘۲۹)
۔۔۔یوں میرے ایمان کے مطابق تمہارے شعروں میں در آنے والی روح اس خدا کا ہلکا سا پرتو ہی تو ہے جس کی بابت تم خود تشکیل کردہ شک کے ابتلا سے دوچار ہو کر کہنے لگے تھے ۔
حاصل ’کن‘ ہے جہان خرابات
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
پھر بنایا خدا نے آدم کو
اپنی صورت پہ ایسی صورت میں
اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں
اے خدا (جو کہیں نہیں موجود)
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں
لو ‘ یہیں اس الجھیڑے کا ذکر بھی ضروری ہو گیا ہے جسے تم نے دیباچے میں ملکتے ہوئے ’’تعقل کے خانوادے کی جدہ عالیہ منطق اور جد عالی تفلسف ‘‘ کا مسئلہ قرار دیا ۔ تم نہ جانے کیوں اس بحث کو اٹھانے سے پہلے اوروں کے کندھوں باری باری بندوق رکھ رہے تھے ۔
* ۔۔۔ تم نے بیکن کے منہ سے کہلوایا کہ یہ مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ ہے کہ منطقی قیاس کے قابو میں نہیں آسکتا ۔
* ۔۔۔ کانٹ کے اس قول سے مدد چاہی کہ مابعد الطبیعی امور کو منطقی استدلال کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ مذہب اور خدا عقل کی دست رس سے باہر ہیں۔
* ۔۔۔ مسمی پلوٹی نس کا اسم نقل کرکے تم نے بتایا کہ خدا کے بارے میں یہ کہنا روا نہیں کہ وہ موجود ہے وہ تو وجود سے بر تر اور بر تر ہستی ہے
* ۔۔۔پھر تم ہماری محبتوں کا محور دیکھتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول سنانے لگے کہ ’’ کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ‘‘
* ۔۔۔ حلاج‘ ارسطو‘کانٹ اور ہیگل کا نام لے لے کر تم نے بتا یا کہ وجود اور موجود کی کوئی بھی تعریف متعین نہیں کر سکا۔
یوں تم نے استخراج کیا کہ وجود کا متردف ماہیت کا خارج میں ہونا ہے اوریہ کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ خدا ہے تو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا شے ہے یہیں تمہارے منطقی ذہن نے پانسہ پلٹا اور دور کی کوڑی لایا کہ اگر خدا شے نہیں ہے تو لا شے ہے ۔ لاشے کے تم نے ہمارا دل رکھنے کو دو مفہوم نکالے ورنہ تم تو ایک ہی مفہوم کی طرف ہمیں گھسیٹے جاتے تھے لاسے کا ایک مفہوم جو تم ہنیں سجھانا چاہتے تھے ’لاموجود‘ تھا اور دوسرا جو ہمارے لیے تم نے نکالا وہ یہ تھا ’’وہ موجود جو شے نہ ہو کچھ اور ہو ‘‘ یہ سوال ایسا تھا جس کے سبب تمہاری سارے استدلال کی عمارت ڈھے رہی تھی لہذا تم نے کہہ دیا ’’ کچھ اور کیا؟‘‘۔۔۔ کاش تم نے اس بزرگ کا ڈھیلا کھایا ہوتا جس سے سوال کرنے والے نے اصرار کیا تھا کہ اسے خدا دکھایا جائے ۔ جسے ڈھیلا کس کر مارا گیا تھا وہ چوٹ کھا کر درد سے بلبلا اٹھا تو بزرگ نے پوچھا کیوں روتے ہو ۔ اس نے کہا ’’درد ہے‘‘ ۔ بزرگ کا کہنا تھا درد موجود ہے تو دکھاؤ کیسا ہے ؟ ۔ اگر ڈھیلا تم نے کھایا ہوتا تو اس موجود کے معنی بھی پتہ چل جاتے جو شے نہیں ہوتا اور یہ پٹا ہوا سوال فلسفیوں کے سلجھانے (یا پھر مزید الجھانے )کے لیے نہ اٹھا رکھتے۔
اور ہاں میں تمہاری ایسے سوالات کی ایسی ویسی الجھی ہوئی شاعری پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں اور الجھتا ہوں کہ میرا محبوب شاعر جون کہاں ہے؟ ۔۔۔ معاملہ یہ ہے کہ تمہاری شاعری میں اس طرح کے فکری اور ایقانی معاملات ترقی پسندانہ موضوعات کی طرح تمہارا تخلیقی مسئلہ بن ہی نہیں پائے ہیں ۔ سچ ہے کہ تخلیق صرف سچے وجود تک علاقہ رکھتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان مباحث سے کہیں زیادہ مجھے وہاں لطف آیا ہے جہاں تم نے لکھا تھا:
’’ ۔۔۔اگر انسانی ناف کے اوپر بالوں کی لکیر نہ پائی جاتی تو آخر کس نظامیات بدنی کو نقصان پہنچ جاتا؟ میں نے اپنی بعض محبوبات کی پنڈلیوں پربالوں کی جھلک دیکھی ہے اور بعض کی پنڈلیاں بالکل صاف پائی ہیں ۔ بعض محبوبات کا پیالہ ناف گہرا پایا ہے بعض کا اتھلا ‘‘
سنو جون پیارے ‘اس کے باوجو د کہ تم نے ایک انٹرویو میں اپنی جنسی زندگی کو قابل رحم حد تک کم بتایا اور حساب لگایا تو وہ پانچ برس نکلی‘ اس کے باوجود ناف پیالے اور پنڈلیوں والا تجربہ مابعدالطبیعاتی سوال سی کہیں زیادہ رچاؤ کے ساتھ تمہاری شاعری کا حصہ ہو گیا ہے ۔ لو اپنے کچھ اشعار سنو اور لذت لو:
تھا مست اس کے ناف پیالے کا میرا دل
اس لب کی آرزو میں مرا رنگ لال تھا
*
اپنی ورزش کے دھیان ہی سے ہمیں
مار رکھتے ہیں صندلیں راناں
*
میرا حق تو یہ تھا کہ گرد مرے
ہو اک انبوہ نار پستاناں
*
تھا جون اس کا ناف پیالہ یا مے کدہ
بس لڑکھڑا کے تشنہ لباناں چلے گئے
*
اتھلا سا ناف پیالہ ہماری نہیں تلاش
اے لڑکیو! بتاؤ بھنور کس کے پاس ہے
*
یہ میرا جوش محبت فقط عبارت ہے
تمہاری چمپئی رانوں کو نوچ کھانے سے
*
کیا بھلا ساغر سفال کہ ہم
ناف پیالے کو جام کر رہے ہیں
تو پیارے جون بے شک تم نعرے لگا کر چونکاتے رہے کہ ’’وہ یقیں ہے نہ گماں ہے تننا ھو یا ھو‘‘ مگر تن پر تمہارے ایسے تنتناتے شعروں کا طنطنہ ساری توجہ لے گیا۔
تاہم ان ساری معروضات سے یہ نہ سمجھ لینا کہ جس توجہ سے تم نے’’شاید‘‘ کے دیباچے میں ان مباحث کو اٹھایا ہے اور پہلو بدل بدل کر مسلمات کے انہدام کی شعوری کوشش کی ہے مجھے وہ دلچسپ نہیں لگی۔ مجھے تو شروع ہی سے یہ کئی جہتوں کو زور دیتی بحث بہت لطف دیتی رہی حتی کہ میں ایک مرحلے پر یہ سمجھنے لگا تھا کہ بعد ازاں شاید یہ سب کچھ تمہارے شعری شعور کا حصہ ہو جائے گا۔۔۔ مگر آہ کہ ایسا نہ ہوا۔۔۔ واقعہ تو یہ ہے کہ دوسری کتاب تک آتے آتے ایسے سوالات کی شدت اور تمہاری ترقی پسندانہ بلند آہنگی دونوں عنقا ہو چکی تھیں۔
جون جی ‘ اب تک اس حوالے سے ہی بات ہو پائی ہے جو تم اپنے شعری واردات میں نہیں تھے مگر اپنی نثر اس کا دعوی رکھتے رہے ۔ نفی کی بات طول پکڑ گئی ہے لہذامناسب معلوم ہوتا ہے ذرا ادھر کو ہو لیں جہاں تمہارا جیتا جاگتا وجود موجود ہے ۔ میں نے جتنا بھی تمہیں پڑھا‘ میں تمہارے تہذیبی شعور سے سرشار ہوا ۔ تمہاری غزل پوری طرح غزل کی روایت سے ہم آہنگ ہے ۔ تم نئی نئی ردیفیں لا کر اس ہنر سے غزلیں کہتے آئے ہو کہ غزل کہنے والے بہت سے مقامات پر تمہاری تقلید پر مجبور ہوئے ۔جی چاہتا ہے یہاں تمہاری ان غزلوں کی نشاندھی کی لیے کچھ اشعار درج کردوں جن کی گونج تمہارے معروف ہم عصروں کی ہاں صاف سنائی دے رہی ہے:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
*
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
*
جاؤ قرار بے دلاں‘ شام بخیر شب بخیر
صحن ہوا دھواں دھواں‘ شام بخیر شب بخیر
*
ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی انتہا کیجے
*
نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے
*
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
*
محبت کچھ نہ تھی جز بدحواسی
کہ وہ بند قبا ہم سے کھلا نئیں
مجھے تمہاری وہ غزلیں یاد آئے چلی جاتی ہیں جن کی خوشبو تمہاری گلی سے نکلی اور گلی گلی گئی اور جن سے ابھی تک سارا منظر نامہ مہکا ہوا ہے ۔لو تمہاری کچھ اور ایسی ہی مقبول غزلوں کی نشاندھی کئے دیتا ہوں ۔تم کہ گھٹنوں پر اوپر کو اٹھ کر ‘ ایک ادا سے لمبی زلفیں لہراتے اور ڈرامہ کرتے ہوئے اپنی ہی رانوں کو پیٹ کر انہیں سنانے کے لیے موجود نہیں ہو مگر انہیں سننے‘ پڑھنے اوران کی دھمک سینوں پر سہنے والے موجود ہیں اور تادیر موجود رہیں گے:
جا بھی فقیہ سبز قدم‘ اب یہاں سے جا
میں تیری بات پی گیا پر یار سرخ ہیں
*
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
*
کیا وہ بساط الٹ گئی؟ ہاں وہ بساط الٹ گئی
کیا وہ جواں گزر گئے ؟ ہاں وہ جواں گزر گئے
*
ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ وبو‘ تم کہاں جاؤ گے ‘ ہم کہاں جائیں گے
ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو
‘تم کہاں جاؤ گے ‘ ہم کہاں جائیں گے
*
ہجر میں جل رہا تھا میں اور پگھل رہا تھا میں
ایک خنک سی روشنی مجھ کو بچھا کے لے گئی
تو جون جی‘ انہی غزلوں میں تو تم ہو ۔۔۔اپنے سچے اور مکمل وجود کے ساتھ ۔۔۔ کہیں شک کا شائبہ نہیں ہے ‘ کہیں فکری الجھاوا نہیں ہے ۔ اس لیے کہ تم فی الاصل فکری آدمی نہیں تھے۔۔۔ فکری ‘نہ انقلابی ۔ تم تو چائے کی پیالی پیتے پیتے رو دینے والے تھے ۔ روتے روتے ہنس دیتے ‘ گم صم ہو جاتے۔ تم پڑھتے بہت تھے مگر اس کی کوئی سمت نہ تھی لہذا تمہیں بھی خاص سمت نہ مل سکی ‘الجھتے گئے۔ مربوط ہونا جانتے نہ تھے ‘مبغوض ہو گئے ‘اپنوں پر یوں بھڑکے جیسے آگ بھڑکتی ہے اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے ۔تم ٹوٹ کر محبت کرنے والے تھے مگر پلٹ کر اپنی ہی محبت کو روند ڈالنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے والے۔ جس کیفیت میں ہوتے اسی کی انتہاؤں کو چھوتے ۔ ایسا کیفیت والا آدمی غزل کو بہت بھاتا ہے۔ ہماری روایتی غزل کو۔۔۔ اور تم تو غزل کے تغزل پر راسخ ایمان رکھتے تھے لہذا تمہار ا فطری تخلیقی اظہار غزل کی گراں قدرروایت کا حصہ ہو کر تمہیں امر کر گیا۔ رہے یہ سب فلسفیانہ مسائل ‘ تو ان کا معاملہ یہ ہے کہ جان من ‘یہ تمہاری تہذیبی روایت کے سبب تمہاری مجبوری بن گئے تھے ۔تم امروہہ سے آئے تھے ایسی تہذیب سے کٹ کر اور بچھڑ کر جو ہند مسلم روایت کی زائیدہ تھی اور اس روایت کا یہ خاصہ بھی تھا کہ مروج علوم میں دسترس حاصل کی جائے۔ بقول تمہارے ’تم نے آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح سے شام تک شاعری‘ تاریخ‘مذاہب‘عالم‘ علم ہیئت(astronomy)اور فلسفے کا دفترکھلا دیکھااور بحث مباحثے کا ہنگامہ گرم پایا ‘لہذا ان علوم پر اور ان علوم کی بات کرنا اور ان پر فخر کرنا تمہاری سرشت کا حصہ ہوگیا ۔ تو تم فخر سے اور اعتماد سے جن مباحث کو اپنے دیباچے میں چھیڑ آئے ہو میں ان کو اسی ذیل میں رکھتا ہوں۔ اور جس طرح باپ‘دادا‘پردادا کے شاعر اور عالم ہونے پر تمہارے منجھلے بھائی سید محمد تقی شعر کہنے لگے تھے مگرشاعری کو اپنا تخلیقی مسئلہ نہ بنا پائے اور اپنے اصل میدان فلسفہ کی طرف نکل گئے بعینہ تم شاعری کے کوچے میں نکل آئے ہو اور یہی تمہارے تخلیقی وجود کا حصہ ہو گئی ہے۔تاہم تمہارے اٹھائے ہوئے مباحث توجہ کھینچتے ہیں ‘ تمہارے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر یہ جو تم ایک تہذیبی آدمی ہونے کے سبب فخر سے بات اٹھاتے ہو اس پر کوئی بات نہیں دھری جاسکتی۔
تمہاری وہ نثر ی تحریریں جو تمہیں بے پناہ چاہنے والے اور میرے عزیز دوست مقصود وفا نے تمہیں انشائیہ نگار ثابت کرنے کے لیے مجھے ارسال کی ہے ‘وہ۔۔۔ معاف کرنا۔۔۔ تمہارے قد میں کوئی اضافہ نہیں کرتیں ۔ مانتا ہوں کہ یہ اچھی تحریریں ہیں ۔ ایک بہت ہی اچھے شاعرکی اچھی تحریریں ۔۔۔ مگر میں نے بہت جبر کر کے ان کو پڑھا ہے ۔ ایسے میں ‘میں نہیں جانتا‘ ان پر کیا لکھا جا سکتا ہے؟ ۔ ہاں یہ ایسی ضرور ہیں کہ ان سے بعض جملے تمثالیے بن جانے کی قدرت رکھتے ہیں۔کہیں کہیں چمکتے ہوئے اور تیز دھار والے جملے ہیں جو چبھتے ہیں‘ کاٹتے ہیں اورلطف بھی دیتے ہیں ۔اور یہ جو تم نے ہر کہیں منافقت پر خوب خوب ضربات لگائی ہیں توانہوں نے مجھے تمہاری طرف یوں بار بار دیکھنے کو مجبور کیا ہے جیسے مجلس میں بیٹھا شخص منبر پر بیٹھے ذاکر اور عالم کو دیکھتا ہے ۔ لو یوں کرتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے دانش دانش کھیلتے ہیں ۔ میں تمہاری تحریروں کا یہ پلندہ لے کر ذرا اوپرہوبیٹھتا ہوں۔۔۔اور تم ذرا یہاں سے بیٹھ کر سنو جہاں سے میں نے منہ اٹھا اٹھا کے تمہیں دیکھا اور سنا ہے تمہیں میری بات پر خود بخود یقین آجائے گا:
*۔۔۔’’میں آزاد بدی کو زر خرید نیکی پر ترجیح دیتا ہوں۔نہ بکا ہوا جھوٹ میرے نزدیک بکے ہوئے سچ سے کہیں قابل قدر ہے‘‘
*۔۔۔’’اقتدار اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی‘ پر ایک بات دیکھی گئی ہے کہ عام طور پر اقتدار کی تائید وہی لوگ کرتی ہیں جو برے ہوتے ہیں۔‘‘
*۔۔۔’’زبان بندی زبانوں کو بڑے غضب ناک لہجے سکھاتی ہے۔‘‘
*۔۔۔’’ہاں انسان اپنے ہجوم میں کہیں گم ہو گیا ہے ۔ ہاں سناٹوں کے اس انبوہ اور تنہائیوں کے اس جلوس میں وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں۔‘‘
*۔۔۔’’انسان کے سوا انسان میں اور کچھ نہ ڈھونڈیں۔‘‘
*۔۔۔’’اے بھائی! سچ یہ ہے کہ ہم سب کی زندگی دھاندلی اور دھوکے کا دھندا ہے۔‘‘
*۔۔۔’’اے خون کی گھونٹ پینے والو‘ تم سب اپنے ہی اوپر بھروسا کرو ۔۔۔‘‘
*۔۔۔’’اپنا سچ خود بولو‘ پھر دیکھنا کہ یہ جھوٹ بولنے اور بکواس کرنے والے بھی تمہارے دباؤ میں آکر سچ بولنے لگیں گے۔‘‘
*۔۔۔’’میں کہتا ہوں کہ اندر کی ہلاکت سے باہر کی ہلاکت ہزار گنا بہتر ہی ۔ کسی بھی طرح اپنے آپ سے باہر نکلا چاہیے ۔کسی بھی طرح۔‘‘
*۔۔۔’’بھلا وہ یقین ہی کیا جسے دانش کی فاحشہ اور دلیل کی حرافہ ورغلا سکے ۔‘‘
سو‘ اے میرے پیارے جون‘ میں تمہاری اس نثر کے ورغلاوے اور دبدبے میں نہیں آیا ہوں مگر مجھ سے وعدہ لیا گیا تھا کہ تمہاری نثر پر میں لکھوں گا۔ میں نے اس کی یہ صورت نکالی کہ بیشتر گفتگو ’’شاید‘‘ کے دیباچہ پر کروں مگر ہوا یہ کہ بات ادھر کی کرتا پھسل کر تمہاری شاعری تک پہنچ جاتی رہی ۔ تمہاری شاعری میں یہ جو قوت اور کشش ہے تمہاری انشائی تحریروں میں کہاں ۔ میں تمہاری ان کتابوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا جن کی فہرس دونوں کتابوں کی پس سر ورق پر موجود ہے ۔ سنا ہے ان میں سے دو پمفلٹ شائع ہوئے تھے اور باقی مسودوں کی صورت اسماعیلی طریقہ والوں کے ہاں محفوظ ہیں ۔ چھپ جانے والے کتابچے’’ جوہر صیقلی‘‘ اور ’’حسن بن صباح‘‘ کہیں دستیاب نہیں اور دوسرے مسودوں تک کسی کی رسائی نہیں ۔ایسے میں تمہارے اس نثری سرمائے پر کیوں کر بات ہو سکتی ہے ۔
کا ش تم نے ’’یعنی‘‘ کا دیباچہ ہی خود لکھ دیا ہوتا ۔ یاحضرت شکیل زادہ عفی عنہ ہی کو اتنی ہمت میسر ہوجاتی کہ وہ تمہارے لکھے چار صفحے جوں کے توں نقل فرما دیتے اس طرح’’ حضرت‘‘ نے زور لگا لگا کر جو ’’معروضہ‘‘ لکھا ہے اس مشقت سے وہ بچ جاتے۔تم مقدمہ لکھتے یا تمہارا لکھا سامنے آجاتاتو تمہاری نثر کے حوالے سے کچھ اور لکھنے کی سبیل نکل آتی ۔ اور ہاں ایک اور کاش لگا لینے دو کہ’ تمہارا دوسرا مجموعہ ’ یعنی‘‘ زقند بھر کر تمہارے پہلے مجموعے’’شاید‘‘ سے آگے نہیں جا سکا‘ کاش اسے بھی تم خود ہی مرتب کرجاتے۔۔۔ انتخاب کرکے۔۔۔ ان ۱۴ مجموعوں کے برابر غزلوں کو سامنے رکھتے ہوئے‘ جن کا تذکرہ ’’یعنی‘‘ کے دیباچے میں ہوا ہے۔[اس عرصے میں جون کے مزیدشعری مجموعے بھی نکلے مگر افسوس کہ اس کا اثر مختلف نہ نکلا ۔ نیا اضافہ ] آخر میں اس نظم کا ذکرکرنا چاہتا ہوں جو تم نے اپنے بیٹے زریون کو بار بار مخاطب کر کے لکھی۔ یہ نظم ایک مفصل تجزیہ چاہتی ہے ‘ میں یہ کسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں کہ یہاں صرف اس کا ذکر کر کے یہ بتانا مقصود ہے کہ میں نے اسے بار بار پڑھا ہے پڑھ پڑھ کر رویا ہوں۔۔۔ رویا ہوں اور ہنسا ہوں:
’’۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تم کو یاد کرکے رونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوں
ہمیشہ میں خدا حافظ ‘ہمیشہ میں خدا حافظ
خدا حافظ
خدا حافظ
(درخت زرد)
اجازت دو تمہارے ہی الفاظ دہراتا ہوں ’’خداحافظ‘‘
تمہیں از حد چاہنے والا

محمد حمید شاہد